ایمان لانے کے بعد سکون کیوں نہیں ملا؟

خلاصہ: جب تک مؤمن جھوٹ بولنا نہ چھوڑے چاہے وہ مذاق میں ہو یا جان بوجھ کر ہو وہ ایمان کا مزہ نہیں چکھ سکتا۔

ایمان لانے کے بعد سکون کیوں نہیں ملا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     خدا نے انسان کو پیدا کیا تاکہ لوگ اس پر ایمان لیکر آئے کیونکہ خدا پر ایمان تمام مشکلوں اور پریشانیوں کا حل ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہت زیادہ ایسے لوگ ہیں جو خدا پر ایمان لیکر آئے اور اسکی عبادت بھی کرتے ہیں اور اس بناء پر اپنےآپ کو مؤمن بھی کہتے ہیں لیکن  پھر بھی ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا بلکہ وہ لوگ تمام اعمال اور اذکار اپنے آپ ک خوش کرنے کے لئے بجالاتے ہیں۔
    یہاں پر ہمارے ذھنوں میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟
   حالانکہ وہ ظاھری اعتبار سے خدا کی اطاعت اور بندگی کررہا ہے؟
   اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے معصومین(علیہم السلام) کی احادیث کی روشنی میں کہ یقینا وہ انسان جو اپنے آپ کو مؤمن تو کہتا ہے اور اسے تمام ظاھری فریضوں کو بھی انجام دیتا ہے لیکن وہ ان اعمال کو صرف اور صرف ظاھر فریضہ سمجھتے ہوئے اداء کرتا ہے حالانکہ ایمان کا تعلق ظاھر سے نہیں ہے بلکہ دل اور قلبی لگاؤ سے ہے اور یہ قلبی لگاؤ اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے آپ کو گناہوں سے نہ روکا جائے جس کے بارے میں امام علی(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: «لا یجِدُ عبدٌ طعمَ الإیمانِ حتّى یترُکَ الکذبَ هَزْلَهُ و جِدَّهُ؛ کوئی بھی اس وقت تک ایمان کا مزہ نہیں چکھ سکتا جب تک کہ وہ جان بوجھ کر اور مذاق میں جھوٹ بولنا نہ چھوڑ دے»[کافی، ج:۲، ص:۳۴۰]۔
*کافی، محمد ابن یعقوب کلینی، دار الكتب الإسلامية، تھران، چوتھی چاپ، ۱۴۰۷ھ ق۔

 

تبصرے
Loading...