فضول باتیں، عقل کی تباہی کا باعث

خلاصہ: اصول کافی کی احادیث کی تشریح کرتے ہوئے حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی ایک حدیث کی وضاحت کی جارہی ہے جس میں زیادہ باتیں کرنے کا نقصان بیان کیا گیا ہے۔

فضول باتیں، عقل کی تباہی کا باعث

حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے جناب ہشام ابن حکم سے فرمایا: یا هِشَامُ، مَنْ سَلَّطَ ثَلَاثاً عَلَى‌ ثَلَاثٍ، فَكَأنَّمَا أَعَانَ عَلَى‌ هَدْمِ عَقْلِهِ: مَنْ أَظْلَمَ نُورَ تَفَكُّرِهِ بِطُولِ أَمَلِهِ، وَمَحَا طَرَائِفَ حِكْمَتِهِ بِفُضُولِ كَلَامِهِ“، “اے ہشام، جس شخص نے تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلّط کردیا تو ایسا ہے جیسے اس نے اپنی عقل کو تباہ کرنے پر مدد کی: جو شخص اپنی طویل آرزو کے ذریعے اپنے تفکّر کے نور کو بجھا دے، اور اپنی حکمت کی خوبصورتیوں کو اپنی فضول باتوں سے مٹا دے…” [الکافی، ج۱، ص۱۷]

وضاحت:
اس کی وجہ میں کئی امکان ہیں:
۱۔ یا اس لیے کہ جب آدمی فضول باتوں میں مصروف ہوتا ہے تو باتیں کرنے کے وقت میں حکمت سے غافل ہوتا ہے۔
۲۔ یا اس لیے کہ جب لوگ اس آدمی سے فضول باتیں سنتے ہیں تو اس کی حکمت آمیز بات پر بھی توجہ نہیں کرتے۔
۳۔ یا اس لیے کہ جب آدمی فضول باتوں میں مصروف رہتا ہے تو اللہ حکمت کو اس کے دل سے مٹا دیتا ہے۔ [ماخوذ از: مرآۃ العقول، ج۱، ص۵۷]

جو شخص صاحب حکمت ہو، یعنی حکمت آمیز باتیں کرتا ہو اور حکیمانہ سوچتا ہو تو اسے زیادہ باتیں نہیں کرنی چاہئیں، کیونکہ زیادہ باتیں علم اور حکمت کو تباہ کردیتی ہیں، اسے چاہیے کہ صرف ضروری باتیں کرے، اگر کسی بات کا کرنا اور نہ کرنا برابر ہو تو وہ نہیں کرنی چاہیے۔
انسان کی زندگی میں ضروری اور اہمیت کے حامل کام بہت زیادہ پائے جاتے ہیں، ان کاموں کا تعلق انسان کے مقصد خلقت اور انسان کی آخرت سے ہے، انسان کو چاہیے کہ ان کاموں کی طرف زیادہ توجہ دے، جب آدمی اپنا وقت فضول باتوں سے بچا کر غوروخوض پر لگائے تو اسے بہت سارے ضروری اور واجب کام سمجھ میں آئیں گے جو اسے کرنے چاہئیں۔
اگر آدمی لوگوں سے اتنی باتیں کرے کہ غورو خوض اور اللہ کے ذکر کے لئے اس کے پاس وقت ہی باقی نہ رہے تو اس زیادہ بولنے سے حقیقی علوم تباہ ہوجائیں گے اور جو شخص ایسا کرے اس نے درحقیقت اپنی عقل کو تباہ کردیا ہے۔

* الکافی، شیخ کلینی، دار الكتب الاسلامية، ج۱، ص۱۷۔
* مرآۃ العقول، علامہ مجلسی، دار الكتب الإسلاميّة، ج۱، ص۵۷۔

تبصرے
Loading...