آیت بلّغ کے متعلق ہماری ذمہ داریاں

خلاصہ: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی ولایت کی تبلیغ ہمیں اور ہر زمانے کی ہر نسل کو چاہیے کہ اس کو جاری رکھے۔

آیت بلّغ کے متعلق ہماری ذمہ داریاں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ مائدہ کی 67 ویں آیت میں ارشاد فرما رہا ہے: “يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّك وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ”، “اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ اسے (لوگوں تک) پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو (پھر یہ سمجھا جائے گا کہ) آپ نے اس کا کوئی پیغام پہنچایا ہی نہیں۔ اور اللہ آپ کی لوگوں (کے شر) سے حفاظت کرے گا بے شک خدا کافروں کو ہدایت نہیں کرتا”۔
آیت بلّغ سے دو اہم نکات حاصل کیے جاسکتے ہیں:
۱۔ اگرچہ اس آیت کے مخاطب اُس زمانے میں رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ہیں، لیکن یقیناً ولایت و امامت کی تبلیغ اور اس بارے میں سوالات اور شبہات کے جواب دینے کی ذمہ داری، آنحضرتؐ سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ ولایت و امامت کی تبلیغ ہر زمانے میں سب آگاہ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔
۲۔ حقیقی مومنین وہ ہیں جوتعصب، ضد اور فرقہ واریت کے بغیر، اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تسلیم ہیں، نہ یہ کہ جواُن کی مرضی کے مطابق ہووہاں تسلیم ہوں اور جہاں اُن کی مرضی کے مخالف ہو وہاں تسلیم نہ ہوں!!
پیغمبر اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا اُن بلند و بالا مقامات تک فائز ہونا، اللہ کی عبودیت اور حکمِ پروردگار کے سامنے بالکل تسلیم ہونا تھا، وہی بات جو ہم ہر نماز میں، آنحضرتؐ کی رسالت کی گواہی دینے سے پہلے اس بات کی گواہی دیتے ہیں یعنی آنحضرتؐ اللہ کے عبد ہیں۔
اگر ہم بھی قربِ الٰہی کے طالب ہیں اور حقیقی مومن بننا چاہتے ہیں اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے دین کی پیروی کے دعویدار ہیں تو ہر حال میں آنحضرتؐ کے حکم کے سامنے رہنا چاہیے، اگرچہ ہماری خواہش اور سوچ کے خلاف ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: آیات ولایت، آیت اللہ مکارم شیرازی]
[ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]

 

تبصرے
Loading...