ہر بسم اللہ الرحمن الرحیم کا مطلب الگ ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آیت “بسم اللہ الرحمن الرحیم” جو ۱۱۳ سورتوں کی ابتدا میں ذکر ہوئی ہے اور سورہ نمل میں ابتدا کے علاوہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ملکہ سبا کو خط کی تحریر کی ابتدا میں بھی ذکر ہوئی ہے تو ملا کر ۱۱۴ بار قرآن میں نازل ہوئی ہے، ایسا نہیں کہ ایک بار نازل ہوئی ہو اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے حکم سے قرآن کی سورتوں کی ابتدا میں رکھی گئی ہو، بلکہ ۱۱۴ بار الگ الگ نازل ہوئی ہے۔

ہر بسم اللہ الرحمن الرحیم کا نزول نئی سورہ کی پہلی آیت کے طور پر پچھلی سورہ کے ختم ہونے اور نئی سورہ کے شروع ہونے کی علامت تھی۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ “وانما كان يعرف انقضاء السورة بنزول بسم الله الرحمان الرحيم ابتداء للاخرى”، “اور سورہ کا ختم ہونا، بسم اللہ الرحمن الرحیم کا دوسرے سورہ کی ابتدا کے طور پر نازل ہونے سے پہچانا جاتا تھا”۔ (تفسير نور الثقلين، ج2، ص238)

بسم اللہ الرحمن الرحیم کا بار بار نازل ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا ہر سورہ میں معنی اور تفسیر کا فرق ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم کی آیتیں سارے قرآن میں اگرچہ لفظی لحاظ سے ایک جیسی ہیں، لیکن معنی اور تفسیری لحاظ سے مختلف ہیں، لہذا مشترک لفظی ہیں۔ یعنی لفظ کے لحاظ سے مشترک ہیں اور معنی کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ اسی لیے ہر سورہ کی بسم اللہ اُسی سورہ کا حصہ ہے جو اُس سورہ کے مطالب و معارف سے مطابقت اور مناسبت رکھتی ہے اور اُس سورہ کے عنوان کی طرح ہے اور کیونکہ قرآن کریم کی سورتوں کے معارف مختلف ہیں تو بسم اللہ کے معنی بھی سورتوں میں مختلف ہیں۔ اور ہر سورہ میں اللہ تعالی کی الوہیت، رحمانیت اور رحیمیت کے درجات میں سے کوئی درجہ اور شئون میں سے کوئی شان بیان ہوئی ہے اور بسم اللہ اِس لحاظ سے اللہ کے ان ناموں کی طرح ہے جو آیات کے آخر میں بیان ہوئے ہیں کیونکہ وہ نام، آیات کے معارف سے مطابقت رکھتے ہیں اور ان معارف کے لئے دلیل کی طرح ہیں۔ لہذا اگر کسی سورہ کے معارف اچھے طریقہ سے واضح کیے جاسکیں تو اُس سورہ کی بسم اللہ کی تفسیر بھی واضح ہوجائے گی۔ [تفسیر تسنیم، ج۱، بسم اللہ کی تفسیر سے ماخوذ]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

[تفسير نور الثقلين، الشيخ عبد علي العروسی]

[تفسیر تسنیم، آیت اللہ جوادی آملی]

 

تبصرے
Loading...