آفتاب کا دیدار

علامہ  شیخ علی رشتی جو کہ شیخ مرتضی انصاری کے شاگردوں میں سے تھے بیان فرماتے ہیں :

ایک دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کر کے واپس آرہا تھا اور فرات کے راستے سے نجف اشرف کی طرف ایک چھوٹی سی کشتی کے ذریعہ کربلا اور طوریج کے درمیان پہنچے اس کشتی کے سوار حلہ کے باشندے تھے جن میں زیادہ تر لہوولعب اور مزاح میں سرگرم  تھے سوائے ایک شخص کے جس سے احترام و وقار کے آثار نظر آرہے تھے اور وہ سب اس جوان کے مذھب پر مذاق اڑا رہے تھے ۔  کشتی ایک ایسی جگہ پہنچی جہاں پانی کم تھا پیدل دریا ے کنارے راستہ چلنے لگے ، میں نے اس کے حالات پوچھے ، تو اس نے بیان کیا:میرا باپ اہل سنت میں سے ہے اور میری ماں شیعہ ہے ، میرا  نام یاقوت ہے اور حلہ میں میرا پیشہ گھی بیچنا ہے ۔ ایک دن میں حلہ کے لوگوں کے ساتھ دور دراز کے قبیلوں میں گھی خریدنے گئے  اور واپسی میں مجھے نیند آگئ ، جس وقت میں خواب سے بیدار ہوا تو وہ قافلہ جا چکا تھا مجھے راستہ بھی معلوم نہیں تھا ڈر کے مارے میرا جسم کانپ رہا تھا دور  دور تک کچھ نظر نہیں آرہا تھا ، تب میں نے اہل سنت کے خلفاء سے توسل کیا اور مدد مانگی لیکن مجھے کچھ حاصل نہ ہوا ۔

اتنے میں مجھے ماں کی بات یاد آئی کہ میری ماں نے کہاں تھا جب بھی تم کسی مشکل میں گھر جاؤ اور عاجز آجاؤ تو اپنے زندہ امام ، امام زمانہ (عج) کو یا اباالصالح المھدی  علیہ السلام کہہ کہ پکارو کہو مولا میری مدد کیجئے ۔

اور میں امام علیہ السلام سے متوسل ہوا  تو کیا دیکھا ایک نورانی ہستی جس کے سر پر سبز عمامہ تھا ظاہر ہوئے اور انھوں نے مجھے راستہ بتایا  اور فرمایا:ا پنی ماں کے دین کو اپنا لو ، اسکے بعد فرمایا : اب تم ایک بستی میں پہنچو گےکہ جہاں سب شیعہ ہیں ۔

میں نے عرض کیا :      آپ میرے ساتھ نہیں آئیں گے ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:اس وقت ہزاروں لوگ دنیا میں مجھے مدد کے لیے پکار رہے ہیں مجھے ان کی مدد کرنی ہے ۔

یاقوت کہتا ہے : میں ابھی تھوڑا سا ہی چلا تھا کہ وہ بستی میرے سامنے  آگئی لیکن میرے قافلے والے دوسرے دن وہاں پہنچے  یہ سب دیکھنے کے بعد میں شیعہ ہو گیا ، اور یہ لوگ جو کشتی میں میرے ساتھ تھے یہ سب میرے رشتہ دار ہیں اسی لیے میرے مذھب کا مذاق اڑا رہے ہیں اور مجھے ان کی کوئی پروا نہیں ۔

منبہ

منتہی الامال :ج۲ ص۴۳۷۔

تبصرے
Loading...