خوارج كى نامزدگي

خوارج كى نامزدگي

ان سركشوں اور باغيوں كى حماقتيں اور كوتاہيوں جو بعد ميں ( خوارج) كے نام سے مشہور ہوئے ايك دو نہ تھيں _ ان سے جو لغزشيں اور خطائيں سرزد ہوئيں ان ميں سے ايك يہ بھى تھى كہ انہوں نے حاكم كا انتخاب صحيح نہيں كيا_ اگرچہ ان كا دعوى تو يہ تھا كہ انہوں نے غير جانبدار شخص كو منتخب كرنے كى كوشش كى ہے_ مگر جس شخص كو انہوں نے اس كام كے لئے نامزد كيا اس كى عداوت و دشمنى حضرت على (ع) كے ساتھ دوسروں كى نسبت كہيں زيادہ تھي_ ليكن اس كے بر عكس معاويہ كو حق انتخاب اس شخص كيلئے ديا گيا كہ جو اس سے كہيں زيادہ مال و جاہ كا حريص اور اس كا فرمانبردار تھا_

ابو موسى وہ شخص تھا جس نے اس وقت جبكہ كوفہ كى فرمانروائي اس كے ہاتھ ميں تھى اپنے پيشوا كے حكم سے سرتابى كى تھى اور جنگ جمل كے موقع پر لوگوں كو حضرت على (ع) كى مدد سے منع كيا تھا_

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ حضرت على (ع) نے انہيں ايك خط ميں لكھا تھا كہ تمہارى طرف سے جو بات مجھ تك پہنچى ہے اس ميں تمہارا نفع بھى ہے اور نقصان بھي_ جيسے ہى ميرا پيغام رساں تمہارے پاس پہنچے تم اپنى كمر كس لينا _ اور اس پر مضبوطى سے پٹكا باندھ لينا_ اور اپنى كمين گاہ سے نكل كر باہر آجانا _ جو افراد تمہارے ساتھ ہيں انہيں بھى باخبر كردينا_ اگر ميرے اس حكم پر عمل كرنا مقصود ہو تو قدم آگے بڑھانا_ اگر خوف غالب ہو اور سستى تمہارے وجود سے عياں ہوتى ہو تو كہيں اور نكل جانا_ خدا كى قسم تمہارى گيلى اور سوكھى ہر لكڑى كو جلا كر خاك كردوں گا_ اور اتنا موقع نہيں دوں گا كہ بيٹھ كر دم لے سكو تمہيں پيٹھ پيچھے جس چيز كا خوف اور ڈر ہے اسے بھى تم اپنے سامنے پاؤں گے

ليكن اس سركش كارندے نے نہ صرف كمر ہى نہ كسى اور حضرت على (ع) كى دعوت كا مثبت جوابنہ ديا بلكہ حضرت على (ع) كا وہ وفد جو حضرت امام حسن (ع) كى سركردگى ميں گيا تھا اس كى بھى مخالفت كى _ اور جو لوگ اپنا فرض ادا كرنے كى غرض سے ابوموسى كے پاس آئے تھے تا كہ اپنا فريضہ معلوم كريں تو يہ ان سے كہتا تھا كہ اگر آخرت كى فكر ہے تو اپنے گھروں ميں جاكر بيٹھو_ عثمان كى بيعت ابھى ہمارى گردنوں پر ہے_ اگر جنگ كرنا ہى مقصود ہے تو پہلے عثمان كے قاتلوں سے جنگ كرو_ اسى وجہ سے جنگ جمل ميں حضرت على (ع) كے اقدام كو ايك قسم كا فتنہ بتايا تھا اور رسول خدا (ص) سے يہ حديث نقل كى تھى كہ جس وقت فتنہ بپا ہو تو بيٹھے رہنے سے بہتر ہے كہ ليٹ جاؤ_ اگر كھڑے ہو تو بہتر ہے كہ بيٹھ جاؤ اور اگر چل رہے ہو تو اس سے اچھا ہے كہ اپنى جگہ كھڑے رہو_ يہ كہہ كر وہ لوگوں كو اس بات كى جانب ترغيب دلا رہا تھا كہ اپنى تلواروں كو ميان ميں ركھدو اور نيزوں كو توڑ ڈالو تا كہ اس فتنے كے شر ان كا دامن كو نہ پكڑ لے_

آيا ايسا شخص جو اس طرز فكر كا حامل ہو اور جس كا حضرت على (ع) كے خلاف اس طرح كا يہ موقف رہا ہو ، كيا وہ اس لائق ہو سكتا تھا كہ اسے حضرت على (ع) كے نمائندے كى حيثيت سے منتخب كيا جائے؟

چنانچہ يہى وجہ تھى كہ حضرت على (ع) ہميشہ اس فكر ميں رہتے تھے كہ وہ لوگ جو توہمات ميں غرق ہيں ان پر صحيح افكار كو روشن اور حقيقت كو واضح كرديا جائے_ اسى لئے آپ (ع) نے يہ فيصلہ كيا كہ چونكہ ابوموسى كا تعلق خوارج كے گروہ سے ہے حكميت كے واسطے ان كے منتخب كئے جانے كے مسئلے كو مزيد و سيع پيمانے پر پيش كريں_ اور سب كے سامنے وہ دلائل پيش كرديں جن كى بنا پر وہ حكميت كيلئے ان كا نام منظور كرنا نہيں چاہتے ہيں_ چنانچہ انہوں نے اپنے تمام ساتھيوں كو جمع كيا اور فرمايا كہ : يہ جان لو كہ شاميوں نے اس شخص كا انتخاب كيا ہے جو قضيے ميں ان سب سے زيادہ نزديك ہے _ ليكن تم نے اس شخص كو منتخب كيا ہے جو اس قضيے ميں تمہارى نفرت كا سب سے زيادہ حقدار ہے_ كيا تم بھول گئے ہو كہ يہ ابوموسى ہى تھا جو يہ كہا كرتا تھا كہ جنگ جمل محض ايك فتنہ ہے_ اس مقصد كيلئے تم اپنى كمانوں كے چلے نہ چڑھاؤ اور اپنى تلواروں كو ميان ميں ركھ لو _ اگر اس كى اس بات ميں حقيقت تھى تو وہ كيوں بحالت مجبورى جنگ صفين ميں شريك ہوا _ اگر يہ صورتحال نہيںہے تو اس پردروغگوئي كا الزام عائد كيا جانا چاہئے … عمروعاص كے اندرونى ارادے كو عبداللہ بن عباس كے ذريعے خاك ميں ملا دو _ اس موقعے كو ہاتھ سے جانے نہ دو _ اسلام كے اطراف ميں جو سرحديں ہيں ان كى حفاظت كرو _ كيا تم ديكھتے نہيں ہو كہ تمہارے شہروں پر حملہ كئے جا رہے ہيں ور تمہيں تيروں كا نشانہ بنايا جا رہا ہے

اميرالمومنين حضرت على (ع) چاہتے تھے كہ عباس كو حكم مقرر كر كے جنگ بندى كے ان تلخ و ناگوار اثرات كو كم كرديں جنہوں نے ان لوگوں كے دل و دماغ پر غفلت كا پردہ ڈال ديا تھا_ كيونكہ عمروعاص كى نيرنگيوں اور ديگر كمزوريوں سے دوسروں كے مقابل وہ زيادہ واقف و باخبر تھے_ اس كے علاوہ مذاكرہ ميں بھى وہ ان سے زيادہ محكم و قوى تھے

ليكن ايسا معلوم ہوتا تھا كہ حضرت على (ع) كى بات كسى كى كان تك نہيں پہنچى اور كسى كے دل و دماغ پر اس كا اثر نہ ہوا _ اشعث تو حضرت على (ع) كى بات سن كرہى بر افروختہ ہوگيا بالخصوص اس وقت جب كہ اس نے يہ ديكھا كہ جس شخص كو مذاكرے كيلئے منتخب كيا جا رہا ہے وہ قريش ميں سے ہے _ اور اشعث يہ سمجھتا تھا كہ ان كا حكم مقرر كيا جانا قبيلہ يمن كى مذمت كئے جانے كى واضح و روشن دليل ہے_ اور اسى بنا پر وہ كہہ رہا تھا كہ عبداللہ بن عباس ميں حكم ہونے صلاحيت نہيں ہے_ چنانچہ انہوں نے ناراض ہوكر با آواز بلند كہا كہ : خدا كى قسم قيامت تك قبيلہ مُضر كے افراد بيك وقت حكم نہيں بنائے جاسكتے_  معاويہ نے چونكہ حكم كيلئے قبيلہ مُضر كے شخص كا انتخاب كيا ہے اس لئے آپ (ع) ايسے شخص كا انتخاب كريں جو قبيلہ يمن كے لوگوں ميں سے ہو_ اس پر آپ (ع) نے فرمايا كہ : مجھے ڈر ہے كہ كہيں تمہارا يمنى دھو كہ نہ كھا جائے_ اشعث نے كہا اگر وہ دھو كہ كھا گيا اور وہ بات جو ہمارے لئے پسنديدہ نہيں اس نے اسى كو فيصلے ميں تسليم كر ليا تو اس سے بہتر ہے كہ دونوں ہى افراد قبيلہ مضر سے ہوں تا كہ ہمارى مرضى كے مطابق حكم كے فرائض انجام دے سكيں_

اس طرح اشعث نے اپنے باطنى نفاق كو ظاہر و آشكار كرديا_ وہ اقتدار حاصل كرنے كى غرض سے چاہتا تھا كہ حكم كسى ايسے شخص كو بنايا جائے جو انہى كے قبيلے كا ہو_ ليكن اس نظريے كے پس پشت ان يمنيوں كا قبائلى تعصب كارفرما تھا جو سپاہ عراق و شام ميں بكثرت شامل تھے_ ايسى صورت ميں اگر دو حكم ميں سے ايك اسى قبيلے كا ہو تو وہ كيوں نہ خلافت پر نظر ركھيں _ ابوموسى كے موقف سے اشعث بخوبى واقف تھا اور يہ جانتا تھا كہ وہ معاويہ كى طرفدارى نہيں كرے گا_ جس كى وجہ يہ تھى كہ ابوموسى اسے بھى فتنہ سمجھتا تھا_ اس كے برعكس دوسرى طرف ان كے ماضى كو مد نظر ميں ركھتے ہوئے كہا جا سكتا تھا كہ وہ حضرت على (ع) كا بھى جانبدار نہ ہوگا_ چنانچہ اسى وجہ سے اسے بہترين طاقت سمجھا گيا تھا_

اشعث كتنا اقتدار پسند اور جاہ طلب تھا اس كى شاہد ذيل كى داستان ہے_

طايفہ ” بنى وليعہ” ان طائفوں ميں سے تھا جوپيغمبر اكرم(ص) كى رحلت كے بعد مرتد ہو گئے تھے_ جس وقت زياد ابن لبيد انصارى نے ان سے جنگ كى اور انہيں اپنى تلوار كى دھار كا مزہ چكھايا تو وہ اشعث كى حمايت حاصل كرنے كى غرض سے طائفہ كندہ كے سردار كے پاس گئے اس نے اس موقع كو سلطنت حاصل كرنے كا بہانہ سمجھا اور ان سے كہا كہ اگر تم مجھے اپنا بادشاہ تسليم كر لو تو ميں تمہارى مدد كرنے كيلئے تيار ہوں_ انہوں اس كى اس شرط كو مان ليا _ چنانچہ وہ بھى دائرہ اسلام سے خارج ہوگيا _ اور ” قطحان” خاندان كے بادشاہوں كى طرح رسم تاج پوشى ادا كى گئي_

اس كے بعد ان كى قيادت كرتے ہوئے وہ مسلمين كے ساتھ بر سر پيكار ہوا _ ليكن زياد كے لشكر نے جيسے ہى دباؤ ڈالا اور اس قلعے كا جس ميں اس نے پناہ لى تھى محاصرہ كيا تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ اپنى زندگى كو خيانت كے ذريعے خريد ليں اور اپنے ساتھيوں سے دور ہو كر اس نے اپنے نيز اپنے دس قرابت داروں كے لئے پناہ مانگى _ اس كے بعد اس نے قلعے كا دروازہ كھول ديا اور باقى لشكر كو موت كے منھ ميں دھكيل ديا

ان خيانت كاريوں كى وجہ سے اسے مسلمانوں اور كفار كے درميان ہميشہ لعن طعن اور نفرت كى نظر سے ديكھا جاتا تھا _ بالخصوص كندہ طائفے كى عورتيں اس بزدلى اور خيانت كارى كى وجہ سے جو اس سے سرزد ہوئي تھى اور جس كے باعث اس طائفے كے ايك گروہ كو سخت نقصان پہنچا تھا ، سخت لعنت و ملامت كيا كرتى تھيں_ اور عام طور پر ” عرف النار ” ( آگ لگانے والا جاسوس) كہا كرتى تھيں_ اور اس اصطلاح كا اطلاق اس شخص پر كيا جاتا تھا جس كى سرشت ميں مكر ، فريب اور دغہ باز ى شامل ہو_

ابوموسى بھى جس كا نام اشعث نے حكميت كيلئے پيش كيا تھا_ كسى طرح بھى اشعث سے كم نہ تھا _ جس وقت جنگ جارى تھى اس نے جانبين كى طرف سے كنارہ كشى اختيار كر كے اور شام ميں اس مقام پر جو ” عرض” كے نام سے مشہور تھا گوشہ نشينى اختيار كر لى تھى _ ليكن جيسے ہى اس كے غلام نے يہ اطلاع دى كہ لوگ جنگ سے دست كش ہوگئے ہيں اور تمہارا نام حكم كى حيثيت سے ليا جا رہا ہے تو صفين كى جانب روانہ ہوا اور اميرالمومنين حضرت على (ع) كے لشكر تك پہنچ گيا_

مالك اشتر اور احنف ابن قيس جيسے امير المومنين حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے_ اور ابوموسى كے اوصاف و افكار بيان كرنے كے بعد عرض كيا كہ انہيں حكم منتخب نہ كيا جائے_ اس ضمن ميں انہوں نے يہ بھى كہا كہ اس كا اعلان كرنے كيلئے وہ خودتيار ہيں_

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے ان كا نظريہ لوگوں كے سامنے بيان كيا_ ليكن اس پر خوارج نے كہا كہ ہم ابوموسى كے علاوہ كسى دوسرے شخص كو منتخب نہ كريں گے

اس سلسلے ميں انہوں نے مزيد كہا كہ : ابوموسى وہ شخص ہيں جن پر شام و عراق كے لوگوں كو اعتماد ہے_ وہ رسول خدا(ص) كے پاس يمن كے لوگوں كا نمائندہ بن كر آچكے ہيںاورمال غنيمت كے سلسلہ ميں حضرت ابوبكر كے امين اور حضرت عمر كے كارگزار رہ چكے ہيں

آخر كار ابوموسى اشعرى سپاہ عراق كى جانب سے حكميت كيلئے مقرر كرديا گيا_ 

تبصرے
Loading...