پیغمبر اکرم(ص) ہرزمان ونسل کے لیے نمونہ عمل۔۔۔۔۔۔

*◼️پیغمبر اکرم(ص) ہرزمان ونسل کے لیے نمونہ عمل۔۔۔۔۔۔۔◼️*

*علی اکبر مؤمنی*

*ترجمہ وپیشکش:شعبہ تحقیق مجمع طلاب شگر*

بعض خیال کرتے ہیں کہ زمانے اور طرز زندگی کی تبدیلی کے ساتھ اخلاقی ومعنوی اقدار بھی تبدیل ہوتے ہیں۔اور اچھائی برائی میں تبدیل ہوتے ہیں۔جبکہ جو چیز تبدیل ہوتی ہے وہ زمان ومکان کا عنصر اور وسائل ہیں۔جن میں یہ اخلاقی مفاہیم وجود وظاہر ہوتے ہیں۔

حق تقوی،احسان،سچ،صبر،حیا،عفت اور پاکدامنی جیسے مفاہیم ہمیشہ سے پسندیدہ اور قابل تعریف رہے ہیں۔اور باطل،جھوٹ،بے حیائی اور ان جیسے مفاہیم ہرزمانے میں ناپسندیدہ اور انسانی فطرت کے ساتھ ناسازگار تھے۔

اس موضوع کو ایک مثال کی شکل میں بہتر انداز میں بیان کیاجاتاہے۔بعض وہ لوگ جو پرانے وقدیم زمانے میں زندگی کرتے تھے اور نیک صفات سے مزین تھےاور انسانی معاشرہ کے لیے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔آج بھی ان کا احترام کیا جاتاہے۔اگرچہ ہمارے زمانے میں بہت سی علمی ترقی وجود میں آئی ہیں۔طرز زندگی ،لباس اور اس جیسی چیزیں تبدیل ہوئی ہے۔لیکن اخلاقی فضائل کو ہمیشہ نیکی کے ساتھ یاد کیاجاتاہے۔
یا کسی نے سالہا سال قبل کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔اور اس کے تعاقب جاری ہے۔کئی سال کے بعد جب اس کے بدن کے تمام سلول تغییر پیدا کیا ہو،اس کے بدن میں ظاہری تبدیلی مکمل طور پر نمایاں ہے۔اس کے لباس،زندگی کے امکانات بھی دگرگوں ہوا ہو۔پھر بھی اس شخص کو مجرم ہونے کے لحاظ سے گرفتار اور سزا دی جاتی ہے۔

اس بنا پر زندگی کی فضا،شکل ،امکانات،رنگ،مادی ظواہر، جدید ٹیکنالوجی، ۔۔..سبب نہیں بنتا کہ عفت،بے عفتی میں تبدیل ہوجائے،جھوٹ کواچھا اور سچ کوبرا سمجھیں۔۔۔

یہ بات طبیعی ہے کہ انسانی زندگی کے مختلف ادوار میں امکانات اور وسائل الگ الگ رہے ہیں۔لیکن یہ سب فانی اور وقتی تھے۔جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم ہر زمانے میں زندگی کے اہداف کو فراموش نہ کریں۔اور توجہ رکھیں کہ امکانات کو اپنے کمال اور ہدف تک پہنچنے کے لیے استفادہ کریں ۔

پیغمبر اور اہل بیت جیسے نمونے،تمام زمانوں میں ہمارے لیے بہترین آئیڈیل ہیں۔اگر وہ آج کے زمانے میں زندگی کر رہے ہوتے تو یقینا آج کے وسائل سے استفادہ کرتے۔جبکہ وہ اسی معنوی اور اخلاقی شخصیت کے حامل ہوتے۔

انسان کی زندگی مقصد یہ ہے کہ خدا کے د ستورات کی اطاعت کے سایے میں ہدایت کی جانب قدم بڑھائیں۔بالاخر انسانی کمال تک پہنچ جائیں۔اس لحاظ سے آج کے انسان اور آج سے سینکڑوں سال پہلے والوں میں کوئی فرق نہیں۔انسان زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کے لیے آئیڈیل کامحتاج ہے۔اور انسان کایہ آئیڈیل ہر حالت میں انسانی کمالات واقدار سے متصف ہوناچاہیے۔اسلام ہر زمانے کے لیے کامل اور دائمی دین اور قرآن ایک جامع،ہمیشگی اور بشریت کے تمام مسائل کاحل پیش کرنے والی کتاب ہے۔اس بنا پر اسلام کے قوانین وتعلیمات بھی ہمیشہ کے لیے ہیں۔اور پیغمبر بھی دائمی اور محکم نمونہ ہے۔قرآن کی طرح سنت پیغمبر بھی ہمیشہ تازہ ہے۔یہ کبھی فرسودہ نہیں ہوگا۔

یقینا پیغمبر اکرم تمام انسانیت کے لیے زندگی کے ہر میدان میں اعلیٰ وبہترین نمونہ ہے۔نیک اخلاق،اپنے غلاموں کے ساتھ مہربانی،اخلاص،عبادت،سادگی،نظم وضبط،منصوبہ بندی،استقامت،عقلانیت،صبر،مشکلات کے مقابل برداشت،آپ کی حکومت اور مدیریت ۔۔تمام مسکمانوں کے لیے
سر مشق واقع ہوسکتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ہم پیغمبر اور ائمہ اہل بیت کی زندگی سے زیادہ سے زیادہ درس لیں۔ازمانے کافاصلہ اس لحاظ سے کوئی اثر نہیں رکھتا۔
سورہ احزاب آیت 21میں پیغمبر کو اسوہ حسنہ(لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ) کے عنوان سے پیش کیاگیاہے۔۔۔۔

اس آیت میں چند نکات قابل توجہ ہیں۔
1۔فی رسول اللہ یعنی پیغمبر کی زندگی ورفتار نمونہ ہے۔یہ جملہ اس چیز کی جانب اشارہ ہے تم پیغمبر کی طرح نہیں بن سکتے لیکن اس کے رفتار،سیرت کو اپنے لیے آئیڈیل قرار دے سکتے ہو۔
2۔آیہ شریفہ میں کلمہ لقد قطع ویقین ہر دلالت کرتا ہے۔قطعا پیغمبر نمونہ ہے۔جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔
3۔کان اس آیت میں استمرار ودوام پر دلالت کرتاہے۔جس کامعنی یہ ہے کہ پیغمبر ہر زمانے کے تمام ان س انوں کے لیے آئیڈیل ہے۔
4۔اس کے بعدآیت ان لوگوں کی تین خصوصیات بیان کرتی ہے جو سیرت پیغمبر کو نمونہ قرار دیتے ہیں۔وہ صفات خدا کی رحمت اور قیامت پر پر امید اور خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کرنا۔

طبیعی بات ہے کہ خدا اور قیامت پر ایمان ہی پیغمبر کی راہ پر قدم اٹھانے کاسبب بن سکتاہے۔اور یاد خدا کے ذریعے اس راہ کو تسلسل وجاری رکھ سکتے ہیں۔بصورت دیگر انسان پیغمبر کی اقتدا پر قادر نہیں اور پیغمبر کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا۔

تبصرے
Loading...