حكميت كا معاہدہ

حكميت كا معاہدہ

جب حكمين مقرر كرلئے گئے تو معاہدہ صلح اس طرح لكھا گيا (ہذا ما تقاضى عليہ على بن ابى طالب اميرالمومنين عليہ السلام و معاويہ بن ابى سفيان …) ليكن اس پرمعاويہ نے اعتراض كيا اور كہا كہ : اگر ميں نے انہيں اميرالمومنين تسليم كرليا ہوتا تو ان سے جنگ نہ كرتا_ عمروعاص نے بھى يہى كہا كہ : ہرچند على (ع) تمہارے امير ہيں ليكن وہ ہمارے نہيں_ اس لئے صرف ان كا اور ان كے والد كا نام لكھا جائے

ليكن احنف بن قيس نے كہا كہ : اس لقب كو حذف نہ كيا جائے اس كے لئے خواہ كتنا ہى خون ہوجائے كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ اگر يہ لقب ايك دفعہ حدف كرديا گيا تو پھر واپس نہ ديا جائے گا_

اميرالمومنين حضرت على (ع) كافى دير تك اس فكر ميں محور ہے كہ يہاں تك كہ اشعث آگيا_ اس كى آنكھوں ميں فاتحانہ چمك تھى اور لہجہ خيانت سے سرشار و شرابور_ اس نے فخريہ انداز ميں كہا كہ: اس نام كو حذف كرديجئے_

اميرالمومنين حضرت على (ع) كو ماضى كا وہ واقعہ ياد آگيا جب كہ ” صلح حديبيہكا معاہدہ لكھا جارہا تھا ” (ہذا ما تصالح عليہ محمد رسول اللہ و سہيل )ابن عمرو سہيل كو يہ ضد تھى كہ لقب ” رسول اللہ ” حذف كيا جائے اور رسول اكرم(ص) انتہائي صبر سے اس كى اس ضد كو برداشت كر رہے تھے_

حضرت على (ع) كيلئے لقب رسول اللہ حذف كرنا گواراہ نہ تھا ليكن رسول اللہ (ص) نے حكم ديا كہ اسے حذف كرديا جائے اور فرمايا كہ اس لقب كے حذف كئے جانے سے مجھے رسالت سے تو محروم نہيں كرديا جائے گا_ اس كے بعد آپ(ص) نے حضرت على (ع) كى جانب رخ كر كے فرمايا كہ : ايك دن تمہارے سامنے بھى يہى مسئلہ آئے گا_ اگر چہ تمہيں بہت زيادہ كوفت ہوگى مگر تمہيں بھى يہى كرنا ہوگا _

اب وہ زمان موعود آن پہنچا تھا_ چنانچہ حضرت على (ع) نے پورى رضا و رغبت اور مكمل اطمينان كے ساتھ اس كلام كو ملحوظ ركھتے ہوئے جو رسول گرامى (ص) كے زبان مبارك سے ادا ہوا تھا فرمايا كہ : ” لا الہ اللہ و اللہ اكبر” تاريخ خود كو دھرا رہى ہے آج ميں ان كى آل و اولاد كيلئے اس طرح لكھ رہا ہوں جيسا رسول خدا(ص) ان كے آباواجداو كيلئے تحرير فرماچكے ہيں_

معاہدے كا متن لقب ” اميرالمومنين” حذف كر كے طرفين كى اتفاق رائے سے جس طرح تحريرى شكل ميں آيا اس كا اجمالا ذكر ہم ذيل ميں اس كے اہم نكات كے ساتھ كريں گے_

1:طرفين قرآن و سنت پيغمبري(ص) كے مطابق حكم خداوندى كو قبول كريں گے_ حكم قرآن او سنت رسول(ص) كے جو خلاف ہے اسے وہ دور كرنے كى كوشش كريں گے_

2 :حكمين ابوموسى اشعرى اور عمروعاص ہيں_ جب تك حق سے تجاوز نہ كريں ان كے جان و مال اور ناموس كو حفظ و امان ميں ركھا جائے گا_

3 :حكمين اور تمام مسلمين پر فرض ہے كہ وہ حكم كو قرآن و سنت كے مطابق قبول كريں _ اور اس پر عمل پيراہوں_

4:جب تك حكمين كا حكم جنگ بندى برقرار ہے اس وقت تك طرفين ميں سے كسى كو بھى دوسرے پر تجاوز كرنے كا حق نہيں_

5 :منصفين كو اختيار ہے كہ وہ شام و عراق كے درميان كوئي متوسط نقطہ متعين كرسكتے ہيں_ ان افراد كے علاوہ جن كے بارے ميں اتفاق رائے ہوگا كسى بھى شخص كو مجلس منصفين ميں داخل ہونے كى اجازت نہيں دى جائے گى _ منصفى كى مدت ماہ رمضان كے آخر تك معين ہے_

6 :اگر منصفين نے مقررہ مدت تك قرآن و سنت كے مطابق حكم صادر نہيں كيا تو طرفين كو حق حاصل ہوگا كہ اپنى پہلى حالت پر واپس آجائيں اور ايك دوسرے سے جنگ كريں_

مذكورہ معاہدے پر حضرت على (ع) كے طرفداروں ميں سے عبداللہ بن عباس، مالك اشتر، حضرت امام حسن (ع)، حضرت امام حسين (ع)، سعيد بن قيس نيز اشعث نے اور معاويہ كى طرف سے حبيب بن مسلمہ ، ابوالاعور بُسروغيرہ نے دستخط كئے_ اور اس طرح ايك سودس روزہ جنگ ستر مرتبہ سے زيادہ مقابلوں كے بعد تاريخ 17 صفر نہ 37 ہجرى كو اختتام پذير ہوئي
مورخين نے اس جنگ كے جانى نقصانات كے مختلف اعداد درج كيئے ہيں_ بعض نے مقتولين كى تعداد ايك لاكھ دس ہزار بتائي ہے_ جن ميں سے نوے ہزار شام كے سپاہى اور بيس ہزار عراقى فوج كے لوگ شامل تھے اور پچيس ہزار عراق كے لوگ 

تبصرے
Loading...