کلمۂ توحید کو عقل سے پہچاننے کی طاقت، خطبہ فدکیہ کی تشریح

خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے بائیسواں مضمون تحریر کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت دل سے بھی ممکن ہے جو فطرت کا راستہ ہے اور عقل سے بھی ممکن ہے جس کے ذریعے انسان، اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے اور اسے پہچاننے کے لئے دلیل پیش کرتا ہے۔ یہ دونوں ذرائع اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھے ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: “وَ أشْهَدُ أَنْ لا اِلهَ اِلا اللّهُ وَحْدَهُ لاشَريكَ لَهُ، كَلِمَةٌ جَعَلَ الْإِخْلَاصَ تَأْوِيلَهَا، وَ ضَمَّنَ الْقُلُوبَ مَوْصُولَهَا، وَ أَنَارَ فِي التَّفَکُّرِ مَعْقُولَهَا”، “اور گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں، (یہ ایسا) کلمہ ہے جس کی تأویل (نتیجہ) کو اللہ نے اخلاص قرار دیا، اور کلمہ (لاالہ الا اللہ) کو دلوں میں رکھا، اور تفکّر میں کلمہ (توحید) کی پہچان کو نورانی (آسان) کیا”۔ [الاحتجاج، طبرسی، ج1،  ص98]ان آخری دو فقروں میں قلبی دریافت اور عقلی تفکّر کا توحید سے تعلق بیان ہورہا ہے۔ علم حضوری کا تعلق دل سے ہے اور علم حصولی کا تعلق ذہن اور سوچ سے ہے۔ توحید کی معرفت دو راستوں سے ہوسکتی ہے:۱۔ پانا (حضوری): اس صورت میں انسان جس طرح اپنے دل میں محبت کو پاتا ہے اسی طرح اللہ کے حاضر ہونے کو بھی پاتا ہے، ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے میں بالکل شک نہیں ہوتا۔ اس ادراک کا سب سے کمزور رتبہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو عطا فرمایا ہے جو فطری ادراک ہے جو ادراک عموماً حجاب اور پردہ کے نیچے رہتا ہے، مگر موجود ہے اور مناسب موقع پر ظاہر ہوجاتا ہے، یہ ادراک “وصول ہونے والا” اور “پائے جانے والا” ہے۔ لہذا یہ “علم شہودی” ہے۔۲۔  عقل و دلیل سے ثابت کرنا (حصولی): یہ ایسا ادراک ہے جسے انسان کی عقل اور سوچ بناتی ہے، البتہ یہ اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے ممکن ہے۔ یہ عقلی اور منطقی دلائل اللہ تعالیٰ کی پہچان کا ایسا ذریعہ ہیں کہ کوئی صاحبِ عقل بہانہ نہیں بنا سکتا کہ میرے پاس اللہ کے موجود ہونے پر کوئی دلیل نہیں تھی۔ لہذا خطبہ کے اس فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے سوچ میں بھی توحید کی معقولیت اور پہچان کو واضح کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔حوالہ جات:[الاحتجاج، أبي منصور أحمد بن علي بن أبي طالب الطبرسي، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات][شرح خطبہ فدکیہ، آیت اللہ مصباح یزدی][شرح خطبه حضرت زهرا (سلام الله علیها)، آیت اللہ آقا مجتبی تہرانی]

تبصرے
Loading...