“اہل البیت” قرآن کریم کی روشنی میں

خلاصہ: زیارت جامعہ کبیرہ کا پہلا فقرہ یہ ہے: “السلام علیکم یا اھلَ بیت النبوّۃِ”، “سلام ہو آپ پر اے نبوت کی اہل بیت۔”۔ قرآن کریم کی نظر میں جب لفظ “اھل البیت” کو دیکھا جائے تو کئی اہم نکات حاصل ہوتے ہیں۔ اس مضمون میں “اھل بیت النبوّۃ” کے بارے میں کچھ مطالب بیان کیے جارہے ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن کریم میں “اھل” ان افراد کو کہا جاتا ہے جنہیں کسی طرح کا تعلق اور رابطہ ایک دوسرے کے پاس اکٹھا کرے، جیسے “اھل الانجیل، “اھل القری”، “اھل المدینہ”، “اھل البیت، “اھل الذّکر، “اھل التقوی” اور…۔قرآنی نقطہ نگاہ میں ان افراد کو رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا اہل یا ذریت کہا جاتا ہے جن کا آنحضرتؐ کے ساتھ تعلق اور رشتہ ہے اور آنحضرتؐ سے اہم ترین تعلق، آنحضرتؐ سے ہم عقیدہ ہونا ہے اور جو شخص آپؐ پر ایمان نہ لائے تو اسے آپؐ کے خاندان میں شامل نہیں سمجھا جاتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے کے بارے میں سورہ ہود کی آیت ۴۶ میں فرمایا ہے: “إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ”، “وہ آپ کے خاندان (نبوت کے خاندان) میں سے نہیں ہے”۔لفظ “بیت” اگر حقیقی افراد اور اشخاص کی طرف اضافہ ہو تو عموماً ان کا رہائش والا گھر مراد ہوتا ہے اور اگر کسی قانونی شخصیت یا دیگر معانی کی طرف اضافہ ہو تو اس لفظ کی حقیقت کو بیان کرتا ہے جس کی طرف اضافہ ہوا ہے، جیسے “بیت علم” یعنی وہ خاندان جو کسی طرح علم سے منسلک ہے۔زیارت جامعہ کبیرہ میں “بیت نبوت” ان افراد کو کہا جاتا ہے جو حقیقتِ نبوت سے منسلک ہیں یعنی اس مقام سے منسلک ہیں جہاں پر اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی تجلّی ہوتی ہے اور وہ افراد اہل زمین کا اہل آسمان سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔حوالہ:[ماخوذ از: تفسیر قرآن ناطق، محمدی ری شہری، ص43]
 
 

تبصرے
Loading...