مخلوقات کی خلقت اللہ کی قدرت سے

خلاصہ: نہج البلاغہ کی مختصر تشریح کرتے ہوئے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس فقرے پر گفتگو کی جارہی ہے جس میں آپؑ نے اللہ کی قدرت کا تذکرہ فرمایا ہے کہ اللہ نے اپنی قدرت سے مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے یہ فقرہ بیان فرماتے ہیں: “فَطَرَ الخَلائقَ بِقُدْرَتِهِ”، “اُس (اللہ) نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا”۔”فطر” کا لفظ اصل میں کسی چیز کو لمبائی سے شکافتہ کرنے کے معنی میں ہے، لہذا روزہ کھولنے کو افطار کہا جاتا ہے، گویا کھانے سے روزہ کی حالت شکافتہ ہوجاتی ہے، لفظ “فَطر” کسی چیز کی خلقت، ایجاد اور ابداع کے معنی میں بھی آیا ہے، گویا عدم کا پردہ شکافتہ ہوتا ہے اور وہ چیز عالمِ وجود میں داخل ہوجاتی ہے۔آپؑ کا یہ فرمان قرآن کریم کی کئی آیات کی یاددہانی کرتا ہے جہاں پر مثلاً ارشاد الٰہی ہے: “فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ”، “آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا”۔ [سورہ فاطر، آیت ۱، سورہ ابراہیم، آیت ۱۰، سورہ انعام، آیت ۱۴]” بِقُدْرَتِهِ”: اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو اپنی قدرت کے ذریعے خلق کیا ہے، اس ذات کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ کائنات کی مقدار اور کیفیت جتنی بھی حیرت انگیز ہو، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے اتنی ہی ہے جتنا انسان کے ذہن اور روح کی بے شمار سوچوں میں سے ایک معمولی سا تصور ہو۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان کی افکار کی ایک ہی لہر، دنیا بھر میں تبدیلی لاسکتی ہے؟  سائنسدانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ محال اور ناممکن ہے کہ ہم کسی چیز کو عدم سے وجود میں لائیں یا وجود سے عدم میں بھیج دیں، جو ہماری طاقت میں ہے وہ چیزوں کی شکل کو تبدیل کرنا ہے۔لہذا انسان جب کسی چیز کو ایجاد کرتا ہے تو اپنے سے باہر والی چیزوں کا محتاج ہے اور جب تک اس کی ذات سے باہر والی چیزیں نہ ہوں تو ایجاد نہیں کرسکتا، لیکن اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے باہر کسی چیز کا محتاج نہیں ہے، بلکہ اس کی قدرت اس کی وہی ذات ہی ہے، تو وہ اپنی قدرت سے ہی ہر چیز کو خلق کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ماخوذ از:[پیام امام، آیت اللہ مکارم شیرازی][ترجمہ و تفسیر نہج البلاغہ، علامہ محمد تقی جعفری] [پرتوی از انوار نہج البلاغہ، محمد علی صادقی]

تبصرے
Loading...