اللہ کی معرفت کا کمال اللہ کی تصدیق کرنا، نہج البلاغہ کی تشریح

خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی مختصر تشریح بیان کرتے ہوئے مولائے کائنات حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس فقرے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے جو اس بارے میں ہے کہ اللہ کی معرفت کا کمال اس کی تصدیق کرنا ہے، نیز تصدیق کے بارے میں چند تفسیریں بتائی جارہی ہیں۔

نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “أَوَّلُ الدِّينِ مَعْرِفَتُهُ، وَكَمَالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدِيقُ بِهِ”، “دین کی ابتداء اللہ کی معرفت ہے، اور اس کی معرفت کا کمال اس کی تصدیق ہے”۔تصدیق اور معرفت کے درمیان کیا فرق ہے؟ اس بارے میں مختلف تفسیریں پائی جاتی ہیں۔ پہلی تفسیر یہ ہے کہ معرفت سے یہاں پر مراد فطری معرفت ہے اور تصدیق سے مراد، علم اور دلیل کے ساتھ پہچان ہے۔ یا یہ ہے کہ معرفت سے مراد، اجمالی اور مختصر معرفت ہے اور تصدیق سے مراد تفصیلی طور پر معرفت ہے۔ یا یہ ہے کہ معرفت یعنی اللہ کے بارے میں علم رکھنا اور تصدیق یعنی اللہ پر ایمان رکھنا، کیونکہ واضح ہے کہ علم ایمان سے الگ ہے، ہوسکتا ہے کہ انسان کو کسی چیز پر یقین ہو، لیکن قلبی طور پر اس پر ایمان اور عقیدہ نہ ہو۔دوسرے لفظوں میں کسی چیز کے بارے میں آگاہی کو علم کہا جاتا ہے مگر وہ تھوڑی حد تک ہوتی ہے اور آدمی کی روح کی گہرائی میں نہیں اتری ہوتی، لیکن جب روح کی گہرائی میں اتر گئی اور یقین کی حد تک پہنچ گئی اور آدمی نے اسے قبول کرنے کے لئے پختہ ارادہ کرلیا تو اسے ایمان کہا جاتا ہے۔لہذا دین کی ابتدا، اللہ کی معرفت اور پہنچان ہے اور اس کو صحیح پہچاننا اس پر یقین کرنا ہے۔مرحوم علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: اللہ کی معرفت ان معرفتوں میں سے ہے جو عمل کے ساتھ ہونی چاہیے جو ایک تو عارف کا معروف سے رابطہ اور قرب کی نشاندہی کرتی ہے اور دوسرا یہ کہ معروف کی عظمت کو بیان کرتی ہے۔ [ماخوذ از: ترجمہ تفسیر المیزان، ج6، ص135]۔۔۔۔۔۔۔۔ماخوذ از:[پیام امام، آیت اللہ مکارم شیرازی][ترجمہ تفسیر المیزان، علامہ طباطبائی]

تبصرے
Loading...