اللہ کی معرفت پر قائم ہونے والا دین تضاد سے محفوظ

خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی مختصر تشریح بیان کرتے ہوئے مولائے کائنات حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس فقرے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے جو اس بارے میں ہے کہ دین کی ابتداء اللہ کی معرفت ہے۔ اس مضمون یہ بیان کیا جارہا ہے کہ انسان کے مزاج میں جو دینی حوالے سے جو تضاد پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ کیا ہے۔

     نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “أَوَّلُ الدِّينِ مَعْرِفَتُهُ”، “دین کی ابتداء اللہ کی معرفت ہے”۔اگر دین کو اللہ کی معرفت سے شروع کیا جائے تو اچھا اخلاق اور اچھا عمل، انسان کے وجود کا طبعی پھَل ہوگا۔ جب کسی درخت کا پھَل طبعی طور پر ہو تو وہ پھَل متضاد، متناقض اور کئی طرح کا نہیں ہوگا، ممکن ہی نہیں ہے کہ جو درخت ایک ہی جڑ سے اُگ رہا ہے، اس کا پھَل مثلاً سیب بھی ہو اور انار بھی۔قرآن کریم نے جو شجرہ طیبہ سے تشبیہ کی ہے اسی لحاظ سے ہے کہ یہ درخت پھَل دیتا ہے اور اس کا پھَل ہمیشہ اچھا اور ایک جیسا ہوتا ہے۔لوگوں کے اپنے مزاج میں جو ٹکراؤ، تنافی اور تضاد ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دین کو اعمال سے شروع کرتے ہیں اور پھر انہیں ان اعمال کی عادت پڑجاتی ہے اور اُدھر سے کیونکہ ان کا دل اور باطن، اللہ کی معرفت سے اشباع نہیں ہوا اور نہیں بھرا اور ان کی روح ترقی نہیں پائی،مادّی دنیا  کے کنویں سے نہیں نکلی اور اپنی مادّیت اور فطرت میں پابند ہے تو ایک طرف سے عادت اور دوسری طرف سے فطرت، کبھی اِدھر کھینچا جاتا ہے اور کبھی اُدھر، نماز جماعت بھی پڑھتا ہے اور سود بھی کھاتا ہے، روزہ بھی رکھتا ہے اور نامحرم کی طرف بھی دیکھتا ہے، قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتا ہے اور گالی گلوچ بھی دیتا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے دین کو بنیاد سے شروع نہیں کیا جو اللہ کی معرفت ہے۔ سورہ آل عمران کی آیت ۳۱ میں یہ جو ارشاد فرمایا ہے: “قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي”، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ابھی تک اللہ کی محبت تمہارے دلوں میں قرار نہیں پائی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تم لوگوں نے اللہ کو نہیں پہچانا تو مجھے تم سے اپنی پیروی کی توقع نہیں ہے، کیونکہ میری پیروی وہ ہے جو اللہ کی محبت سے منوّر اور مشتعل ہونے والی روح سے ایجاد ہو۔۔۔۔۔۔حوالہ:[اصل مطالب ماخوذ از: یادداشتہای استاد مطہری]

تبصرے
Loading...