اختیاری عبادت کے اسباب اور جذبات

خلاصہ: رسالہ حقوق کی تشریح کرتے ہوئے اختیار عبادت کے تین اسباب اور جذبات بیان کیے جارہے ہیں۔

رسالہ حقوق میں حضرت امام سجاد (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: “فَأَمَّا حَقُّ اللَّهِ الْأَكْبَرُ فَأَنَّكَ تَعْبُدُهُ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ بِإِخْلَاصٍ جَعَلَ لَكَ عَلَى نَفْسِهِ أَنْ يَكْفِيَكَ أَمْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ يَحْفَظَ لَكَ مَا تُحِبُّ مِنْهَا”، “تو اللہ کا سب سے بڑا حق (تمہارے ذمے) یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو، کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ، تو جب تم نے اخلاص کے ساتھ ایسا کیا تو اس نے تمہارے لیے اپنے ذمے لیا ہے کہ تمہاری دنیا اور آخرت کے کام کو سنوار دے اور اس (دنیا اور آخرت) میں سے جو تمہیں پسند ہے اسے تمہارے لیے محفوظ کرے”۔ [تحف العقول، ص۲۵۶]انسان اختیاری کام کو ہرگز جذبہ کے بغیر نہیں کرتا ورنہ آدمی کے کام غیرارادی اور غیراختیاری ہوں گے، لہذا مختلف اسباب اور جذبات جن کا عبادت اور اطاعت میں کردار ہوسکتا ہے، ہم یہاں ان پر گفتگو کرتے ہیں:۱۔ لالچ: ہوسکتا ہے کہ عبادت میں انسان کا جذبہ، لالچ کی بنیاد پر ہو کہ انسان اللہ کی دنیاوی یا اُخروی نعمت اور کرم نوازی کی لالچ کرے تا کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اسے جزاء اور ثواب دے اور اس کو نجات دیدے تو اپنے اعمال کو اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرتا ہے۔ سورہ نساء کی آیت ۱۳ میں ارشاد الٰہی ہے: “وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ”، “جو خدا اور رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ان بہشتوں میں داخل کرے گا۔ جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی۔ جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے”۔حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کے کلام میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے جہاں آپؑ نے فرمایا ہے: “… جب تم نے اخلاص کے ساتھ ایسا کیا تو اس نے تمہارے لیے اپنے ذمے لیا ہے کہ تمہاری دنیا اور آخرت کے کام کو سنوار دے “۔ لہذا بعض اوقات انسان کی عبادت، تجارت کے مقصد سے ہے۔۲۔ عذاب سے خوف: سورہ سجدہ کی آیت ۱۶ میں ارشاد الٰہی ہے: “تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفاً وَطَمَعاً”، “(رات کے وقت) ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ بیم و امید سے اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں”۔انسان، اللہ تعالیٰ سے ڈرتا بھی ہے اور اسے اللہ تعالیٰ سے لالچ بھی ہے، مثلاً کہتا ہے کہ خدایا! ہم تو تیرے خوف سے نماز پڑھتے ہیں، لیکن ہمیں یہ لالچ بھی ہے کہ تو جنت بھی ہمیں عطا فرمائے۔ عبادت کی یہ قسم بھی اچھی ہے، سورہ اعراف کی آیت ۵۶ میں بھی ارشاد الٰہی ہے: “وَادْعُوهُ خَوْفا ًوَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ”، “اور خدا سے خوف اور امید کے ساتھ دعا کرو۔ بے شک اللہ کی رحمت نیکوکاروں سے قریب ہے”۔۳۔ شکر کے طور پر: ایسے لوگوں کو نہ کوئی لالچ ہوتی ہے اور نہ کوئی خوف، نہ انہیں عذاب سے ڈر ہوتا ہے اور نہ ان کا مقصد دنیا اور جنّت کی نعمتوں کا حصول ہوتا ہے، بلکہ وہ ان دونوں سے بالاتر کچھ اور طلب کرتے ہیں جسے بہت خوبصورت انداز میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام)  نے بیان فرمایا ہے: “ما عَبَدْتُكَ خَوْفاً مِنْ نارِكَ، وَلا طَمَعاً في جَنَّتِكَ، لکن وَجَدْتُكَ اَهْلا لِلْعِبادَةِ فَعَبَدْتُكَ”، “میں نے تیری عبادت نہ تیری آگ کے خوف سے کی اور نہ تیری جنت کی لالچ سے، بلکہ تجھے عبادت کے لائق پایا تو میں نے تیری عبادت کی”۔ [بحارالانوار، ج۷۰، ص۱۸۶]اس کلام کی طرح حضرت امام حسین (علیہ السلام) کا بھی ارشاد ہے: “إنَّ قَوما عَبَدُوا اللّهَ رَغبَةً فَتِلكَ عِبادَةُ التُّجّارِ، وإنَّ قَوما عَبَدُوا اللّهَ رَهبَةً فَتِلكَ عِبادَةُ العَبيدِ، وإنَّ قَوما عَبَدُوا اللّهَ شُكرا فَتِلكَ عِبادَةُ الأَحرارِ، وهِيَ أفضَلُ العِبادَةِ”، “یقیناً کچھ لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں رغبت کی وجہ سے تو یہ، تاجروں کی عبادت ہے، اور یقیناً کچھ لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں خوف کی وجہ ے تو یہ، غلاموں کی عبادت ہے، اور یقیناً کچھ لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں شکر کے لئے تو یہ، آزاد لوگوں کی عبادت ہے، اور یہ افضل عبادت ہے”۔ [بحارالانوار، ج۷۸، ص۱۱۷]
* تحف العقول، ابن شعبہ الحرانی، مؤسسة النشر الاسلامي، ص۲۵۶۔* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔* مطالب اقتباس از: سیری در رسالہ حقوق امام سجاد علیہ السلام، ج۱، ص۴۰، آیت اللہ یثربی۔* بحارالانوار، علامہ مجلسی، موسسۃ الوفاء، ج۷۰، ص۱۸۶۔ ج۷۸، ص۱۱۷۔

تبصرے
Loading...