بعثت کے وقت لوگوں کی صورتحال

خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے بعثت کے وقت لوگوں کی صورتحال بیان کی جارہی ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: “فَرَأَى الْاُمَمَ فِرَقاً في اَدْيانِها، عُكَّفاً عَلي نيرانِها، عابِدَةً لِاَوْثانِها، مُنْكِرَةً لِلَّهِ مَعَ عِرْفانِها”، “تو آنحضرتؐ نے (اس زمانے کی) اقوام کو (اس حال میں) پایا کہ وہ اپنے ادیان میں  فرقوں میں بٹی ہوئی تھیں، اپنی آگ پر منہمک تھیں، اپنے بتوں کی عبادت کررہی تھیں، (اللہ کو فطری طور پر)  پہچاننے کے باوجود اللہ کی منکر تھیں”۔ [احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳]
وضاحت:فَرَأَى الْاُمَمَ فِرَقاً في اَدْيانِها: اقوام گمراہ ہوگئی تھیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے توحیدی دین سے دور ہوگئی تھیں، مختلف فرقوں میں بٹ گئی تھیں، ہر قوم الگ الگ دین پر تھی اور اللہ اور اللہ کی عبادت کے بارے میں ان کے الگ الگ نظریات تھے۔ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں فرماتے ہیں: “أَهْلُ الْأَرْضِ يوْمَئِذٍ مِلَلٌ مُتَفَرِّقَةٌ وَ أَهْوَاءٌ مُنْتَشِرَةٌ وَ طَرَائِقُ مُتَشَتِّتَةٌ بَينَ مُشَبِّهٍ لِلَّهِ بِخَلْقِهِ أَوْ مُلْحِدٍ فِى اسْمِهِ أَوْ مُشِيرٍ إِلَى غَيرِهِ فَهَدَاهُمْ بِهِ مِنَ الضَّلَالَةِ وَ أَنْقَذَهُمْ بِمَكَانِهِ مِنَ الْجَهَالَةِ”، “اس وقت اہل زمین، متفرق مذاہب اور منتشر خواہشات اور مختلف راستوں (پر) تھے تو اللہ نے انہیں آپؐ کے ذریعے گمراہی سے ہدایت (کے راستے پر لگایا) اور انہیں آپؐ کے وجود کے ذریعے جہالت سے نجات دی”۔عُكَّفاً عَلي نيرانِها: لوگ آگ کی پوجا کرنے میں منہمک تھے یا ہوسکتا ہے کہ مراد یہ ہو کہ وہ ایسے راستے پر جارہے تھے جو جہنم تک پہنچتا تھا۔عابِدَةً لِاَوْثانِها: اپنے بتوں کی عبادت کرتے تھے۔مُنْكِرَةً لِلَّهِ مَعَ عِرْفانِها: ہوسکتا ہے کہ اس فقرے سے مراد اللہ کی فطری پہچان ہو، یعنی وہ لوگ اللہ کو فطری طور پر پہچانتے تھے، لیکن اس کے باوجود اللہ کے منکر تھے۔
* احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔* ماخوذ از: شرح خطبہ حضرت زہرا علیہا السلام، جلسہ ۵، بیانات آیت اللہ مجتبیٰ تہرانی۔* ماخوذ از: بیانات آیت اللہ مصباح یزدی، شرح خطبہ فدکیہ، جلسہ ۱۹۔* ماخوذ از: پیامبر شناسی، محمد علی مجد فقیہی۔

تبصرے
Loading...