کتاب سلیم بن قیس

کتاب سلیم بن قیس
کتاب سلیم بن قیس هلالی.jpg
مؤلف سلیم بن قیس ہلالی
مترجم(فارسی) اسماعیل انصاری زنجانی، اسرار آل محمدؐ
زبان عربی
موضوع کلام، اہل بیتؑ
تعداد جلد 1
ناشر (ناشر فارسی:الہادی)
محل نشر قم
تاریخ نشر سنہ ۱۴۰۵ ق

کتابُ سُلَیْم بْن قِیْس ہلالی شیخ ابو صادق سلیم بن قیس ہلالی عامری کوفی کی کتاب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب شیعوں کی پہلی قلمی کاوش تھی جسے امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے دور حکومت میں تالیف کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اہل بیتؑ کے فضائل، امام‌ شناسی اور رحلت پیغمبر اکرمؐ کے بعد کے حوادث کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے سلیم بن قیس کی طرف منسوب ہونے میں شیعہ علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ کتاب اسرار آل محمدؐ کے نام سے فارسی میں ترجمہ ہوئی ہے۔

مؤلف

شیخ ابوصادق، سُلَیم بن قیس ہلالی عامری کوفی، امیرالمؤمنین حضرت علیؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ، امام زین العابدین اور امام باقرؑ کے خاص اصحاب میں سے تھے۔

سُلیم، ہجرت سے دو سال پہلے پیدا ہوا یوں پیغمبر اکرمؑ کی رحلت کے وقت ان کی عمر 12 سال تھی۔ 16 سال کی عمر میں مدینہ چلا گیا اور وہاں کے ابتدائی ایام میں ناگوار حوادث سے دوچار ہوا۔

آپ سنہ ۷۶ ہجری کو ایران کے شہر “نوبندجان” میں ۷۸ سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور اسی شہر میں مدفون ہیں.[1]

کتاب کا نام

یہ کتاب ائمہ معصومین ؑ کے کلام میں کتاب سلیم بن قیس ہلالی اور ابجد الشیعۃ کی تعابیر کے ساتھ ذکر ہوئی ہے اور اسی نام سے مشہور ہے، امام صادقؑ فرماتے ہیں:

ہمارے شیعوں میں سے جس کے پاس بھی کتاب سلیم بن قیس ہلالی نہ ہو اس کے پاس ہماری ولایت اور امامت کے حوالے سے کچھ بھی نہیں ہے اور ہمارے اسباب و اسرار سے وہ شخص واقف نہیں ہے، یہ کتاب مذہب شیعہ کی بنیادی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔

بعض اس قلمی اثر کو کتاب السقیفۃ کے نام سے متعارف کراتے ہیں۔[2] اس کے علاوہ اس کتاب کو اسرار آل محمدؐ، کتاب فِتَن، کتاب وفاۃ النبیؐ اور کتاب امامت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔[3]

انتساب و عدم انتساب

شیعہ اور اہل سنت کے علماء میں اس کتاب کے بہت سارے موافقین اور مخالفین پائے جاتے ہیں۔

موافقین

ابن ندیم کہتے ہیں: شیعوں کی پہلی کتاب جو منظر عام پر آگئی وہ کتاب سلیم بن قیس ہلالی ہے۔

نعمانی کہتے ہیں: علماء اور ائمہ معصومصن کی طرف سے حدیث نقل کرنے والے تمام راویوں میں اس کتاب کے سب سے قدیمی اور بنیادی کتابوں میں سے ہونے میں کوئی اختلاف نیہں ہے۔

قاضی بدرالدین سُبکی کہتے ہیں: پہلی کتاب جو شیعوں کے لئے لکھی گئی وہ سلیم بن قیس ہلالی کی کتاب ہے۔

میر حامد حسین کہتے ہیں: کتاب سلیم بن قیس ہلالی جس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ کتاب سب سے قدیمی کتاب ہے بالکل بجا اور حق ہے جس طرح علامہ مجلسی نے اس کا اعتراف کیا ہے۔

اسکے علاوہ بہت سارے دوسرے علماء اور مجتہدین نے اس کتاب و سلیم بن قیس ہلالی کی طرف نسبت دی ہے۔

مخالفین

شیخ مفید نے اپنی کتاب تصحیح الاعتقاد، علامہ حلی نے خلاصۃ الاقوال، ابن داوود حلی نے کتاب رجال، محمد تقی شوشتری نے قاموس الرجال میں سلیم بن ہلال کی بنسبت تو موقف لیا ہے لیکن کتاب کے مضامین کا انکار نہیں کیا ہے۔ بعض معاصر محققین نے بھی کتاب سلیم بن ہلالی کو کئی اشکلات اور تناقضات کا حامل قرار دیتے ہیں۔[4]

تألیف کا مقصد

مدینہ آنے کے سلیم کچھ ایسے حوادث سے روبرو ہوئے جس سے ہر مسلمان کو دکھ ہوتا ہے اور یہی حوادث کسی حد تک اس کتاب کے لکھنے کا سبب بنا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ اہل بیتؑ جو دین اسلام کے حقیقی محافظ اور خدا کی طرف سے اس دین کی سرپرستی کیلئے منتخب ہوئے تھے، کو پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد بے دخل کر دئے گئے ہیں اور حدیث ثقلین میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے قرآن و عترت میں جدایی نہ ڈالنے کی سفارش کو باکل ہی بھلا دئے ہیں۔ ان حالات کو دیکھنے کے بعد سلیم کے اندر موجود حس وظیفہ شناسی نے اس حوالے سے اپنی کوششوں کو بروئے کار لانے پر اسے مجبور کر دیا یوں جوانی کی ابتدائی ایام میں ہی اپنی تمام تر کوششوں کو رسول خداؐ کی سیرت اور صحیح تاریخ اسلام کو محفوظ رکھنے کیلئے بروئے کار لانا شروع کر دیا۔[5]

مطالب کی جمع آوری

سلیم نے مخفیانہ طور پر پیغمبر اکرمؐ کے حقیقی اصحاب سے آشنائی پیدا کی۔ پہلے مرحلے میں اس نے امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے ساتھ ہمراہی کو یقینی بنایا اس طرح اس نے اپنے آپ کو منبع وحی سے متصل کردیا۔ اس کے بعد حضور اکرمؐ کے دیگر اصحاب بطور خاص سلمان، ابوذر اور مقداد وغیرہ سے خصوصی ارتباط برقرار کیا اور ان سے پیغمبر اکرمؐ کی سیرت اور آپ کی رحلت کے بعد پیش آنے والے حوادث کے بارے میں دقیق انداز میں سوال کر کے ان کی تفصیلات تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ حضرات بھی بغیر تقیہ تمام سوالات کا جواب دیتے تھے اور سلیم ان تمام مطال کو قلم بند کرتے تھے اس طرح اپنی عمر کے 60 سال کے اندر اس کتاب کے مطالب کو جمع کرکے اس کی تألیف کی۔[6]

استحکام کی وجہ

حجاج بن یوسف کی شر سے فرار اختیار کرنے کے بعد سلیم “نوبندجان” نامی شہر میں داخل ہوا۔ وہاں ایک سال سے زیادہ عرصہ زندہ نہ رہا اور جب بیماری کی وجہ سے موت کے آثار نمایاں ہونے لگا تو مخفی طور پر اپنی کتاب کے بارے میں ابان بن ابی عیاش کو بتایا اور اس کتاب کی اہمیت اور اس کی تألیف میں پیش آنے والے موانع اور مشکلات سے اسے آگاہ کیا اور اسے یہ سمجھا دیا کہ اس کتاب کو ہر کس و نا کس کی پہنچ سے دور رکھا جائے۔

اس کے بعد اس نے “ابان” سے تین بنیادی شرائط پر اس سے عہد و پیمان لیا وہ شرائط درج ذیل ہیں:

  1. جب تک سلیم زندہ ہو اس کتاب اوراس کے مطالب کے بارے میں کسی سے کچھ نہیں بتائیں گے۔
  2. اس کی رحلت کے بعد بھی سوائے شیعہ موثق افراد کے کسی کو اس کتاب کے مطالب سے آگاہ نہیں کرے گا۔
  3. اپنی موت کے وقت اسے کسی شیعہ موثق فرد کے حوالے کر دے گا۔

ان شرائط کے ساتھ اس نے تمام کتاب ابان کیلئے پڑھ کر سنایا اور ابان نے دقت کے ساتھ سن لیا تاکہ کتاب کے مطالب کے حوالے سے کوئی ابہام باقی نہ رہ جائے اور امانت میں اپنا وظیفہ اچھی طرح نبا سکے۔[7]

کتاب کے مضامین

سلیم بن قیس نے اپنی کتاب میں امامت ائمہ، فضائل اہل بیتؑ، دینی معارف میں ائمہ کے احادیث، پیغمبر اکرمؐ کی پیشن گویاں، سقیفہ کے اسرار، شہادت حضرت زہرا(س)، رحلت پیغمبر اکرمؐ کے بعد کے واقعات، امام علیؑ کا خلفائے ثلاثہ کی گئی احتجاجات، جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان، شیعوں کے خلاف معاویہ کے فتنے اور ظلم و ستم جیسے موضوعات پر بحث کی ہے۔

اہمیت اور اعتبار

یہ کتاب کئی جہات سے قابل تحقیق ہے:

بعض مورخین کے بقول احادیث پر مشتمل یہ پہلی کتاب ہے جسے کسی مسلمان نے تألیف کی ہے اس حوالے سے یہ کتاب نہایت اہمیت کا حامل اور معتبر کتاب ہے۔

  • تاریخی واقعات پر مشتمل ہے؛

اس کتاب کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایسے تاریخی واقعات نقل ہوئی ہیں جو ہمیشہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان مورد اختلاف واقع ہوئی ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ کا امامت و ولایت کے مسئلے پر کی گئی تاکید، فدک کا مسئلہ اور حضرت فاطمہ زہرا(س) کے دروازے پر آگ لے کر حملہ کرنا وغیرہ منجملہ ان حوادث میں سے ہیں جو اس کتاب میں مذکور ہیں۔

  • ائمہ اطہار کی تائید؛

اس کتاب کے مضامین کی صحیح ہونے پر ائمّہ معصومینؑ نے اس طرح تأیید اور اس کے مطالب سے دفاع کیا ہے جس کی مثال ائمہ کی زندگی میں نہیں ملتی۔[8]

  • علما کی تأئید؛

پہلی صدی ہجری سے لے کر اب تک کے بڑے بڑے شیعہ علماء نے اس کتاب کے مطالب کی تأئید کی ہے اور چودہ سو سال سے اس کتاب کے احادیث کو ایک سند کے طور پر نقل کرنا اس کتاب کے معتبر ہونے کی دلیل ہے۔

اصول اربع مأۃ میں سے کتاب سلیم بن قیس پہلی اور سب سے اہم کتاب کے عنوان سے پہچانی جاتی ہے اسی وجہ سے علماء اور محدثین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔

  • شیعوں کے درمیان اس کی شہرت پر غیر شیعوں کا اعتراف؛

بعض غیر شیعہ جیسے ابن ندیم، ابن ابی الحدید، قاضی سُبکی، ملا حیدر علی فیض آبادی وغیرہ نے بھی اس کتاب کی سلیم بن قیس کی طرف منسوب ہونے پر تصریح کی ہیں۔

  • اس کی تعریف خود مؤلف کی زبانی؛

سلیم بن قیس نے اپنی کتاب ابان بن ابی عیاش کے حوالے کرتے ہوئے اس بارے میں یوں کہا ہے:

میرے پاس کچھ ایسے مکتوب ہیں جنہیں میں نے معتبر افراد سے سنا اور اپنے ہاتھوں سے لکھا ہوں۔ اس میں ایسی احادیث ہیں، میں نہیں چاہتا یہ احادیث اس زمانے کے لوگوں پر آشکار ہو کیونکہ یہ لوگ ان احادیث کا انکار کرینگے اور انہیں عجوبہ سمجھیں گے جبکہ یہ تمام حقیقت پر مبنی ہیں اور جن سے میں نے سنا ہے وہ سب کے سب اہل حق، اہل فقہ، اہل صدق اور اہل صلاح ہیں حن میں امیرالمؤمنین حضرت علیؑ سے لے کر سلمان، ابوذر اور مقداد شامل ہیں۔[9]

صدر اسلام کی سیاسی تاریخ

نسخہ جات

کتاب سلیم بن قیس کے خطی نسخے جن کی معرفی اس کتاب کے ترجمے میں کی گئی ہے، ایسے نسخے ہیں جن کا ذکر یا گذشتہ علماء کے آثار میں ہوا ہے اور ان کتابوں کے مصنفین ان نسخوں کے موجود ہونے کے بارے میں آگاہ تھے یا اب بھی مختلف لائبریریوں میں موجود کتابوں کی فہرست میں موجود ہے یا دوسرے خطی نسخوں میں ان کے بارے میں خبر دی گئی ہے۔ ان نسخوں کی تعداد 60 سے زیادہ ہیں۔[10]

اس کتاب کے ترجمے

  • اردو زبان میں اس کا ترجمہ شیخ ملک محمد شریف بن شیر محمد شاہ رسولوی ملتانی نے سنہ ۱۳۷۵ قمری میں کیا ہے۔
  • فارسی میں اس کا ترجمہ سنہ ۱۴۰۰ قمری میں پہلی بار نجف اشرف میں ہوا ہے۔
  • سنہ ۱۴۱۲ قمری میں عربی متن کی ساتھ اس کا فارسی ترجمہ شیخ محمد باقر کمرہ ای کے قلم سے ہوا ہے۔
  • فارسی زبان میں اسرار آل محمد علیہم السّلام کے نام سے اس کا ترجمہ اسماعیل انصاری زنجانی نے کیا ہے۔[11]
  • فارسی زبان میں تاریخ سیاسی صدر اسلام کے نام سے اس کا ترجمہ محمود رضا افتخار زادہ نے کیا ہے۔

تلخیص

علم حدیث کی ماہرین میں سے دو علما نے اس کتاب کا خلاصہ منتخب کتاب سلیم کے نام سے مرتب کیا ہے:

  • شیخ عبد الحمید بن عبد اللہ کرہرودی۔
  • سید محمد علی شاہ عبد العظیمی متوفی ۱۳۳۴ قمری۔[12]

طباعت

عربی متن کی پہلی بار طباعت کے تقریبا 50 سال گذر گئے ہیں۔ اس کتاب کا خلاصہ اصل کتاب کی طباعت سے پہلے منظر عام پر آچکی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تقریبا 20 سال پہلے جبکہ فارسی ترجمہ 15 سال پہلے پہلی بار منتشر ہوئی ہے۔[13]

مآخذ

  • ہلالی، سلیم بن قیس، کتاب سلیم، قم، ہادی، ۱۴۰۵ ق.
  • ہلالی، سلیم بن قیس، اسرار آل محمد، ترجمہ اسماعیل انصاری زنجانی، قم الہادی، ۱۴۱۶ ق.
  • زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت، دارالعلم.

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. اسرار آل محمد، ص ۱۷ بہ بعد.
  2. الاعلام، ج ۳، ص ۱۱۹
  3. اسرار آل محمد، ص ۴۷.
  4. قاسم جوادی، کتاب سلیم بن قیس هلالی. بازسازی متون کهن حدیث شیعه، ص ۴۹۴ – ۵۰۴.
  5. اسرار آل محمد، ص ۲۷ و ۲۸.
  6. اسرار آل محمد، ص ۱۹ – ۲۳.
  7. اسرار آل محمد، ص ۲۸ و ۲۹.
  8. اسرار آل محمد، ص ۵۶.
  9. اسرار آل محمد، ص ۵۰ – ۸۷.
  10. اسرار آل محمد، ص ۱۴۲ – ۱۴۷.
  11. اسرار آل محمد، ص ۱۵۴ و ۱۵۵.
  12. اسرار آل محمد، ص ۱۵۴.
  13. اسرار آل محمد، ص ۱۵۲.

تبصرے
Loading...