نماز عید

نماز عید فطر در مسجد الحرام

نماز عید اس نماز کو کہا جاتا ہے جسے مسلمان(شیعہ و سنی) ہر سال دو دفعہ، عید فطر اور عید قربان کے دن طلوع آفتاب کے بعد پڑھتے ہیں۔ اہل تشیع کے مطابق نماز عید امام زمانہ(عج) کے زمان حضور میں اس نماز کا جماعت کے ساتھ پڑھنا واجب ہے جبکہ عصر غیبت میں یہ نماز مستحب ہے۔

مصلی تہران میں نماز عید

تہران میں رہبر معظم کی اقتداء میں نماز عید کا منظر

مشہد مقدس صحن آسان رضوی میں نماز عید کا منظر

نماز عید قرآن و احادیث کی روشنی میں

  • احادیث کے مطابق سورہ اعلی کی آیت نمبر 14 اور 15 “قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکیٰ”[1] اور “وَ ذَکرَ اسْمَ رَ بِّهِ فَصَلَّیٰ”[2] میں “تزکی” اور “فَصَلَّیٰ” سے مراد زکات فطرہ کی ادائگی اور نماز عید پڑھنے کے ہیں ۔[3]
  • جابر بن عبداللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ عید کے دن تمام اہل خانہ کو اپنے ساتھ باہر لے جاتے تھے۔[4]
  • پیغمبر خداؐ فرماتے ہیں: خداوند متعال عید فطر اور عید قربان کے دن زمین والوں پر اپنی خاص عنایت مبزول فرماتے ہیں۔ پس اپنے گھروں سے باہر آجائیں تاکہ رحمت خدا تمہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں۔[5]
  • امام صادقؑ فرماتے ہیں: جو شخص بھی عید کی نماز کیلئے اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے اسے چاہئے کہ بہترین کپڑے پہن لے اور اپنے آپ کو بہترین عطر سے معطر کرے۔ [6]
  • عبداللہ بن عمر سے منقول ہے کہ پیغمبر خداؐ عید کی نماز کیلئے با پائے برہنہ تشریف لے جاتے تھے۔[7]
  • ابورافع سے منقول ہے: پیغمبر اکرمؐ عید کی نماز کیلئے با پائے برہنہ تشریف لے جاتے تھے اور نماز عید کو اذان و اقامہ کے بغیر پڑھتے تھے اور جس راستے سے تشریف لے گئے تھے اس کے علاوہ کسی اور راستے سے واپس تشریف لاتے تھے۔ [8]
  • احادیث میں آیا ہے کہ حضرت علیؑ عید کے دن اپنے گہر سے باہر تشریف لائے بار بار تکبیر پڑھتے یہاں تک کہ نماز عید کی جگہ پہنچ جاتے جو شہر کوفہ سے باہر واقع تھی۔ [9]

نماز عید کا وقت

نماز عید کا وقت سورج کے طلوع سے زوال (ظہر شرعی) تک ہے۔ اگر اس وقت کے اندر ادا نہ کی جائے تو اس کی قضا نہیں ہے۔[10]

مستحب ہے نماز عید قربان کو سورج کے اوپر آنے کے بعد پڑھی جائے جبکہ عید فطر کی نماز میں سورج کے اوپر آنے کے بعد افطار کرے پھر زکات فطرہ ادا کرے اس کے بعد نماز عید ادا کی جائے۔[11]

نماز عید کا طریقہ

نماز عید دو رکعت ہے جسکی ہر رکعت میں حمد کے بعد کوئی بھی سورہ پڑھی جا سکتی ہے لیکن افضل یہ ہے کہ پہلی رکعت میں حمد کے بعد سورہ شمس اور دوسری رکعت میں سورہ غاشیہ پڑھی جائے یا پہلی رکعت میں سورہ اعلی اور دوسری رکعت میں سورہ شمس پڑھی جائے۔ حمد اور سورہ کے بعد پہلی رکعت میں پانچ تکبیریں اور پانج قنوت یعنی ہر تکبیر کے بعد ایک قنوت اور دوسری رکعت میں چار تکبیریں اورچار قنوت۔ قنوت میس جو ذکر بھی چاہے پڑھ سکتے ہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ اس دعا کو پڑھی جائے: “اَللّهُمَّ اَهْلَ الْکبْرِیاءِ وَالْعَظَمَةِ وَاَهْلَ الْجوُدِ وَالْجَبَروُتِ وَاَهْلَ الْعَفْوِ وَالرَّحْمَةِ وَاَهْلَ التَّقْوی وَالْمَغْفِرَةِ اَسْألُک بِحَقِّ هَذَا الْیوْمِ الَّذی جَعَلْتَهُ لِلْمُسْلِمینَ عیداً وَ لِمـُحَمَّد صلی الله علیه وآله ذُخراً وَشَرَفاً وَ کَرامَةً وَمَزیداً أَنْ تُصَلِّیَ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اَنْ تُدْخِلَنی فی کُلِّ خَیرٍ أدْخَلْتَ فیهِ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّد وَ أَنْ تُخْرِجَنی مِنْ کلِّ سوُءٍ اَخْرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّداً وَ آلَ مُحَمَّد صَلَواتُک عَلَیهِ وَ عَلَیهِمْ اَللّهُمَّ إنّی اَسْألُکَ خَیرَ ما سَألَکَ بِهِ عِبَادُکَ الصَّالِحوُنَ وَأَعوُذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ الْمـُخْلَصوُنَ[12]

  • اگر نماز عید کو رجاءً (یعنی ثواب حاصل ہونے کی امید سے) جماعت کے ساتھ پڑھی جائے تو نماز کے بعد دو خطبہ پڑھنا مستحب ہے لیکن زمان غیبت امام زمانہ(عج) میں ان خطبوں کو ترک کرنا بھی جایز ہے۔ [13]
  • اگر کوئی تکبیروں اور قنوتوں میں شک کرے تو جب تک اسی محل میں ہے کم تعداد پر بنا رکھنا چاہئے۔[14]
  • اگر نماز عید میں کوئی ایسی چیز پیش آئے جو سجدہ سہو کا باعث ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ سجدہ سہو کو بھی رجاء کی نیت سے انجام دیا جائے اگر چہ زمان غیبت میں سجدہ سہو کا واجب نہ ہونا قوت سے خالی نہیں ہے۔ تشہد اور سجدہ فراموش شدہ کا حکم بھی یہی ہے۔[15]
  • نماز عید میں اذان اور اقامہ مشروع نہیں ہے البتہ مؤذن کیلئے تین مرتبہ “الصلاۃ” کہنا مستحب ہے۔ [16]

آداب اور احکام

  • نماز عید فطر اور عید قربان امام زمانہ(عج) کے حضور میں واجب اور جماعت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے لیکن عصر غیبت میں یہ نماز مستحب ہے اور اسے جماعت کے ساتھ ادا کرنے میں ففہاء کا اختلاف ہے۔[17]
  • عید فطر کے دن نماز عید سے پہلے کجھور کے ساتھ افطار کرنا مستحب ہے جبکہ عید قربان کے دن فربانی کے گوشت سے کچھ مقدرا کا کھانا مستحب ہے۔[18]
  • عید کی رات نماز مغرب اور عشاء کے بعد اسی طرح عید کے دن نماز صبح، ظہر اور عصر کے بعد و نیز عید فطر کی نماز کے بعد ان تکبیروں کا کہنا مستحب ہے:اَللّهُ اَکبرُ اَللّهُ اَکبرُ، لا اِلهَ اِلّا اللهُ وَ اللّهُ اَکبرُ، اَللّهُ اَکبرُ وَ لِلّهِ الحَمدُ، اَللّهُ اَکبَرُ عَلی ما هَدانا“.[19]
  • مستحب ہے عید قربان کے دن دس نمازوں کے بعد جس کا آغاز عید کے دن ظهر کی نماز جبکہ اس کا اختتام 12 ذوالحجہ کی صبح کی نماز ہے، مذکورہ تکبیروں کو پڑھی جائے اس کے بعد یہ کہےاَللّهُ اَکبرُ عَلی ما رَزَقَنا مِن بَهیمةِ الاَنعامِ وَ الحَمدُ لِلّهِ عَلی ما اَبلانا لیکن اگر عید قربان کے دن منا میں ہو تو اس عمل کو 15 نمازوں کے بعد تکرار کرنا مستحب ہے جس کا اختتام ذوالحجہ کی 13 ویں تاریخ کی صبح کی نماز ہے۔ [20]
  • نماز عید سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے اسی طرح دعاوں کی کتابوں میں مذکور دعائیں جو نماز سے پہلے اور بعد میں پڑھنا مستحب ہے پڑھی جائے۔[21]
  • نماز عید میں زمین پر سجدہ کرنا مستحب ہے اسی طرح تکبیریں کہتے وقت ہاتھوں کا بلند کرنا اور نماز کو بلند آواز میں پڑھنا بھی مستحب ہے ۔ [22]
  • نماز عید کا چھت کے نیچے پڑھنا مکروہ ہے۔[23]

حوالہ جات

  1. اعلی، ۱۴
  2. اعلی ۱۵
  3. طباطبائی، المیزان، ج ۲۰، ص۲۶۹
  4. کنزالعمال، ج۷، ص۸۸
  5. کنزالعمال، ج۸، ص۵۴۸
  6. دعائم الاسلام، ج ۱، ص۱۸۵
  7. کنزالعمال، ج۷، ص۸۸
  8. کنزالعمال، ج۷، ص۸۸
  9. بحارالانوار، ج ۸۸، ص۱۱۸؛ اسی طرح کی ایک اور روایت ابن عمر نے بھی پیغمبرؐ سے نقل کیا ہے ر.ک: کنزالعمال، ج۷، ص۸۸
  10. تحریرالوسیله، ج۱، ص۲۷۳
  11. توضیح المسائل امام خمینی، ص۲۳۴
  12. تحریرالوسیلہ، ج۱، ص۲۷۳
  13. تحریر الوسیلہ، ج۱ ص۲۴۷
  14. تحریرالوسیلہ، ج۱، ص۲۷۳
  15. تحریرالوسیلہ، ج۱، ص۲۷۴
  16. تحریرالوسیلہ، ج۱، ص۲۷۴
  17. توضیح المسائل امام خمینی، ص۲۳۴
  18. توضیح المسائلامام خمینی، ص۲۳۴
  19. توضیح المسائل امام خمینی، ص۲۳۵
  20. توضیح المسائل امام خمینی، ص۲۳۵
  21. توضیح المسائل امام خمینی، ص۲۳۴
  22. توضیح المسائل امام خمینی، ص۲۳۵
  23. توضیح المسائل امام خمینی، ص۲۳۵

مآخذ

  • امام خمینی، توضیح المسائل، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، ۱۳۸۷ش.
  • امام خمینی، تحریر الوسیلہ (ترجمہ فارسی)، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، ۱۳۸۶ش.
  • ابن حیون، نعمان بن محمد مغربی، دعائم الاسلام، محقق: فیضی، عاصف، موسسہ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۳۸۵ق.
  • علی بن حسام، کنز العمّال فی سنن الاقوال و الافعال، موسسہ الرسالہ، بیروت، ۱۴۱۳ق، ۱۹۹۳م.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، جامعہ مدرسین، قم، بی‌تا.
تبصرے
Loading...