نماز آیات

نماز آیات واجب نمازوں میں سے ہے جسے بعض قدرتی حوادث کے رونما ہونے کی وجہ سے پڑھی جاتی ہے۔ نماز آیات دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں پانچ رکوع انجام دیا جاتا ہے۔ نماز آیات کو دو طرح سے پڑھی جا سکتی ہے۔ پہلی صورت یہ کہ ہر رکعت میں ایک سورت کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے کے بعد ایک رکوع انجام دیا جائے۔ دوسری صورت یہ کہ ہر رکعت میں ایک سورت کو کامل طور پر پانچ مرتبہ پڑھی جائے اور ہر مرتبہ ایک رکوع انجام دیا جائے۔ نماز آیات کی کیفیت اور اس کے احکام کیلئے ہر مکلف کو اپنے مرجع تقلید کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ مختلف حوادث کے رونما ہونے پر اس نماز کا واجب ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حوادث خدا کی قدرت کاملہ اور اس عالم کے دقیق نظم و ضبط کی نشانی ہے۔ اس نماز کے پڑھنے سے ایک طرف انسان مختلف قسم کے اوہام اور خرافات سے بچ سکتا ہے تو دوسری طرف سے خدا کی طرف متوجہ ہونے کے ذریعے ان حوادث کے خوف و ہراس سے نجات پا کر دل کو آرام اور سکون حاصل ہوتا ہے۔

وجہ نامگزاری

آیات عربی میں “آیہ” یا “آیت” کا جمع ہے جس کے معنی “نشانی” اور “علامت” کے ہیں۔ اس نماز کو “نماز آیات” کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نماز اس وقت واجب ہوتی ہے جب قدرتی حوادث کی شکل میں کوئی نشانی ظاہر ہوتی ہے۔[حوالہ درکار]

نماز آیات تاریخ کے آئینے میں

پرانے زمانے میں بعض قدرتی حوادث کے رونما ہونے کے حوالے سے لوگ مختلف قسم کے خرافات کا شکار ہوتے تھے۔ مثلا جب رسول خدا(ص) کے فرزند ابراہیم فوت ہوئے اور عین اسی وقت سورج گرہن ہوئی تو لوگوں نے خیال کیا کہ سورج گرہن پیغمبر اکرم(ص) کے فرزند “ابراہیم” کے فوت ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔ امام کاظم(ع) سے منقول ہے: جب پیغمبر خدا(ص) کا فرزند ابراہیم کی رحلت ہوئی تو امت اسلامی کیلئے تین سنتیں مرسوم ہوئی ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب آپ کی رحلت ہوئی تو لوگوں نے خیال کیا کہ ہر پیغمبر زادے کی موت سے سورج گرہن ہوتی ہے، رسول خدا(ص) جب اس بات سے باخبر ہوئے تو ممبر پر تشریف لے گئے اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ” اے لوگو! بتحقیق سورج گرہن اور چاند گرہن خدا کی نشانیوں میں سے ہے جو خدا کے حکم کی تعمیل میں مصروف ہیں کسی کی رحلت سے ایسا نہیں ہوتا۔ پس جب بھی ان میں سے کوئی ایک واقعہ رونما ہو جائے تو نماز آیات پڑھا کرو۔ اس کے بعد آپ ممبر سے نیچے تشریف لائے اور لوگوں کے ساتھ نماز آیات ادا کی۔ اس وقت سے مسلمانوں پر نماز آیات واجب ہوئے۔[1]

شرایط وجوب نماز آیات

درج ذیل واقعات میں سے جو بھی جہاں کہیں پر رونما ہو نماز آیات واجب ہوجاتی ہے:

  • سورج گرہن(جزئی یا کلی)،
  • چاند گرہن(جزئی یا کلی)،
  • زلزلہ،
  • رعد و برق،
  • طوفان‌ اور کالی آندھی وغیرہ [2]
  • اور دوسری قدرتی حوادث جس سے غالبا لوگ خوفزدہ ہوں۔[3]

سورج گرہن اور چاند گرہن کے موقع پر صرف اسوقت نماز آیات واجب ہوتی ہے جب گرہن کی مقدار اتنی زیادہ ہو کہ آنکھ سے نظر آئے جائے لہذا اگر ان کی مقدار اتنی کم ہو کہ صرف علمی آلات {ٹلسکوپ وغیرہ) سے نظر آجائے یا بہت جلدی ختم ہو جائے تو نماز آیات واجب نہیں ہے۔[4]

موجبات نماز آیات کے ثابت ہونے کے راستے

جن چیزوں کی وجہ سے نماز آیات واجب ہوتی ہے ان کو درج ذیل راستوں سے ثابت کر سکتے ہیں:

  1. خود انسان کو ان کے واقع ہونے کا یقین حاصل ہوجائے۔
  2. دو عادل اشخاص کی گواہی۔[5]
  3. ایسا گمان جس سے اطمینان حاصل ہو۔[6]

بلكہ احتياط (واجب) کی بنا پر فقط ایک عادل شخص کی گواہی با ماہرین علم نجوم کے کہنے پر بھی ثابت ہوگی بشرطیکہ انکی صداقت پر اطمینان ہو، سے بھی ثابت ہوتی ہے۔[7]

نماز آیات کا وقت

  • سورج اور چاند گرہن کے وقت نماز آیات کا وقت گرہن کے شروع ہونے سے لی کر پورا سورج یا چاند نظر آنے تک ہے لیکن احتیاط کے طور پر سورج یا چاند ظاہر ہونا شروع ہونے کے بعد سے نماز کو مؤخر نہ کی جائے۔[8]
  • زلزلہ اور دوسرے واقعات کی بنا پر نماز آیات پڑھنے کا وقت انسان کی عمر کی آخر تک ہے اور جب بہی پڑھی جائے ادا کی نیت سے پڑھی جائے گی۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ اس کا وجوب فوری ہے اور احتیاط کی بناپر اس کے ادا کرسکنے کے وقت سے زیادہ مؤخر نہ کی جائے۔[9]
  • سورج اور چاند گرہن کے وقت نماز آیات کی قضا: اگر پوری سورج اور چاند کو گرہن لگی ہو تو قضا واجب ہے چاہے عمدا نہ پڑھی ہو یا یا سہوا، اس کے واقع ہونے کے بارے میں مطلع ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ لیکن اگر گرہن کامل نہ ہو جب تک سورج یا چاند گرہن ختم ہونے تک اس کے بارے میں مطلع نہ ہوا ہو تو اس پر قضا واجب نہیں ہے لیکن اگر اسی وقت معلوم ہوا ہو اور اسے ترک کرے تو اس پر قضا واجب ہے چاہے عمدا ترک کی ہو یا سہوا۔[10]

نماز آیات کی کیفیت

نماز آیات دو رکعت اور ہر رکعت میں پانچ رکوع ہے۔ نماز آیات کو دو طرح سے پڑھی جا سکتی ہے۔ پہلی صورت یہ کہ ہر رکعت میں ایک سورت کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے کے بعد ایک رکوع انجام دیا جائے۔ البتہ ہر حصے میں ایک آیت مکمل ہونا ضروری ہے ایک سے زیادہ ہونے پر کوئی اشکال نہیں لکین ایک آیت سے کمتر نہ ہو۔ دوسری صورت یہ کہ ہر رکعت میں ایک سورت کو کامل طور پر پانچ مرتبہ پڑھی جائے اور ہر مرتبہ ایک رکوع انجام دیا جائے۔ البتہ دوسری صورت میں ہر رکعت میں سورہ حمد کو بھی پانج دفعہ تکرار کرنا ضروری ہے۔

یہاں پر نماز آیات کا مختصر طریقہ جس میں سورہ قدر کو پانج حصوں میں تقسیم کرکے پڑھنے کے طریقے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

پہلی رکعت:

نیت کے بعد “اللہ اکبر” کہہ کر نماز کو شروع کرینگے۔
سورہ حمد کے بعد “بسم اللہ الرحمن الرحیم” پھر اس کے بعد سورہ قدر کی پہلی آیت کو پڑھیں گے۔[11]

اس کے بعد رکوع میں جا کر ذکر رکوع

پھر رکوع سے سر بلند کرکے دوسری آیت [12] (بسم اللہ الرحمن الرحیم کی ضرورت نہیں)

پھر دوبارہ رکوع

پھر سر بلند کرکے تیسری آیت [13]

پھر دوبارہ رکوع

پھر رکوع سے سر بلند کر کے چوتھی آیت [14]

پھر دوبارہ رکوع

پھر رکوع سے کھڑی ہو کر پانجویں آیت [15]

اس کے بعد دوبارہ رکوع پھر اس کے بعد سجدے میں جا کر ذکر سجدہ اور پھر دوسری رکعت کیلئے کھڑے ہو جائیں گے۔

دوسری رکعت:

دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھی جائیں گے صرف یہ کہ اس رکعت میں آخر رکوع سے پہلے قنوت بھی پڑھ سکتے ہیں اس کے بعد آخری رکوع انجام دے کر سجدے میں پھر عام نمازوں کی طرح نماز کو ختم کریں گے۔[16]

نماز آیات کے واجبات:

احکام نماز آیات

  • نماز آيات کو جماعت کے ساتھ بھی پڑھی جاسکتی ہے اس صورت میں حمد اور سورہ کو فقط امام جماعت پڑھے گا لیکن باقی اذکار مامومین پر بھی پڑھنا واجب ہے۔[18]
  • اگر نماز آيات کے اسباب میں سے کوئی ایک بھی کسی شہر میں رونما ہوجائے تو صرف اسی شہر کے لوگوں پر نماز آیات واجب ہے۔ دوسرے شہروں کے باسیوں پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔[19]
  • نماز آیات کی ایک ركعت میں مذکورہ دو طریقوں میں سے ایک جبکہ دوسری رکعت میں دوسرے طریقے پر عمل کرے تب بھی نماز صحیح ہے۔ مثلا پہلی رکعت میں پانج مرتبہ سورہ حمد اور کوئی اور سورہ کو تکرار کرے جبکہ دوسری رکعت میں ایک سورہ حمد اور کسی اور سورہ کو پانج حصوں میں تقسیم کرے تو نماز صحیح ہے۔[20]
  • ہر دوسرے رکوع سے پہلے یعنی دوسرے، جوتھے، چھٹے، آٹھویں اور دسویں رکوع سے پہلے قتوت پڑھنا مستحب مستحب ہے۔اگر صرف دسویں رکوع سے پہلے ایک قنوب پڑھ لیں تو بھی کافی ہے۔[21]
  • نماز آیات کا ہر رکوع رکن ہے پس اگر عمدا یا سہوا کم یا زیادہ ہوا تو نماز باطل ہے۔[22]
  • جو چیزیں یومیہ نمازوں میں واجب یا مستحب ہے، نماز آيات میں بھی واجب اور مستحب ہے لیکن نماز آيات میں مستحب ہے اذان و اقامہ کی بجای تین مرتبہ ثواب کی قصد سے “الصلاۃ” کہا جائے۔[23]
  • نماز آيات میں چاہے اسے دن کے وقت پڑھی جارہی ہو یا رات کے وقت حمد اور سورہ کو بلند آواز میں پڑھنا مستحب ہے۔ [24]
  • نماز آيات کا کوئی بھی رکوع سہواً یھی كم يا زيادہ ہو جائے تو نماز باطل ہے لیکن اگر ابھی اسکا محل باقی ہو تو واپس آکر انجام دے دیں تو نماز صحیح ہو گی۔[25]
  • نماز آیات میں شك اور سہو کا حکم یومیہ نمازوں میں شک اور سہو کی طرح ہے سوائے نماز آیات کے رکوع میں کہ یہاں پر ہمیشہ کم پر بنا رکھنا واحب ہے۔[26]
  • نماز آيات ہر مكلف پر واجب ہے مگر حائض اور نَفساء پر کہ ان سے یہ نماز ساقط ہے اگرچہ احوط یہ ہے کہ حیض اور نماس سے پاک ہونے اور غسل کے بعد نماز آیات کو بطور قضا انجام دیا جائے۔[27]
  • اگر نماز آيات کے اسباب میں سے ایک سے زیادہ ایک ہی وقت میں رونما ہو جائے تو ہر ایک کیلئے نماز آیات پڑھنا واجب ہے۔ مثلاً اگر سورج گرہن اور زلزلہ ایک ساتھ رونما ہو تو دو نماز آیات پڑھنا واجب ہے۔[28] اس صورت میں احوط یہ ہے کہ نیت میں سبب کو معین کرے اگر چہ اجمالی طور پر ہی کیوں نہ ہو۔[29]
  • جس شخص پر کئی نماز آيات واجب ہو اگر یہ سب ایک ہی سبب کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں مثلا کئی مرتبہ سورج گرہن یا چاند گرہن یا زلزلہ واقع ہوئا ہو اور ان کی نماز وقت پر ادا نہ کی ہو تو جب ان کی قضا کرنا چاہے تو سبب کو معین کرنا ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح رعد و برق اور کالی اور سرخ آندھی میں سے ہر ایک کی خاطر نماز آیات قضا کرنا ہو تو ان کے اسباب کو بھی معین کرنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر سورج گرہن، چاند گرہن اور زلزلہ یا پہلے والے دو کی خاطر نماز آیات قضا کرنا ہو تو نیت میں سبب کو معین کرنا واجب ہے۔[30]
  • زلزلے کے بعد جو پس لرزے آتے ہیں اگر محسوس ہو تو نماز آیات واجب ہونے کا سبب ہے۔[31]

یومیہ اور نماز آیات میں تداخل

اگر یومیہ نمازوں میں سے کسی نماز کے وقت کے اند نماز آیات کے اسباب میں سے کوئی سبب رونما ہو جائے تو ان میں سے جس کا بھی وقت تنگ ہو اسے مقدم کیا جائے گا اگر دونوں کے وقت میں وسعت ہو تو جس کو بھی چاہے مقدم کر سکتے ہیں اگرچہ احوط یہ ہے کہ نماز یومیہ کو مقدم کیا جائے۔ لیکن اگر دونوں کا وقت تنگ ہو تو یومیہ نماز کو مقدم کرنا واجب ہے ۔[32]

نماز آیات میں شک

  • اگر نماز آیات کی رکعتوں کی تعداد میں شک کرے اور کسی نتیجہ تک نہ پہنچے تو نماز باطل ہے۔[33]
  • رکعات کی تعداد اور افعال کی انجام دہی کے حوالے سے کوئی گمان حاصل ہو تو اسی پر عمل کیا جائے گا۔[34]
  • اگر شك کرے کہ رکعت اول کی آخری رکوع میں ہے یا دوسری رکعت کے پہلے رکوع میں اور غور فکر کے بعد بھی کسی نتیجہ تک نہ پہنچے تو نماز باطل ہے۔ لیکن اگر شک کرے کہ چار رکوع انجام دیا ہے یا پانج اور ابھی تک سجدے میں نہ گیا ہو تو ایک اور رکوع انجام دے لیکن اگر سجدے میں گیا ہو تو اپنی شک پر اعتنا نہ کرے۔ [35]
  • اگر ركوع‌ کی تعداد میں شک کرے تو کم پر بنا رکھے لیکن اگر محل سے تجاوز کیاہو تو شک پر اعتنا نہ کرے۔[36]

حوالہ جات

  1. وسائل الشیعۃ ج۷، ص۴۸۵.
  2. صرف اس صورت میں کہ جب ان پر آیت اور نشانی صدق آئے [یعنی معمول سے ہت کر ہو]اگر چہ کوئی خوفزدہ نہ بھی ہو نماز آيات ہو جاتی ہے۔ گلپايگانى، مسألہ ١۵٠٠
  3. فلاح‎‌زادہ، احکام دین، ج١ ص١۴٨.
  4. خمینی، رسالہ نجاۃ العباد، ج١، ص١٠٩
  5. ترجمہ تحریر الوسیلہ، ج١، ص٣۴٧.
  6. بہجت، محمد تقی، ج١، ص۴٨٠
  7. ترجمہ تحریر الوسیلہ، ج١، ص٣۴٧.
  8. رسالہ شریفہ مجمع الرسائل (المحشَّی)، ج١، ص۴١١. مسألہ ١٣٠٧
  9. رسالہ شریفہ مجمع الرسائل (المحشَّی)، ج١، ص۴١١. مسألہ١٣٠٨
  10. رسالہ شریفہ مجمع الرسائل (المحشَّی)، ج١، ص۴١١. مسألہ١٣١٠
  11. سورہ قدرآیت نمبر 1
  12. وَمَا أَدْرَ‌اكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ‌ سورہ قدر آیت نمبر 2
  13. لَيْلَةُ الْقَدْرِ‌ خَيْرٌ‌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ‌ سورہ قدرآیت نمبر 3
  14. تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّ‌وحُ فِيہَا بِإِذْنِ رَ‌بِّہِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ‌سورہ قدرآیت نمبر 4
  15. سَلَامٌ ہِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ‌﴿سورہ قدر آیت نمبر 5
  16. ر.ک. فلاح‎‌زادہ، احکام دین، ج١، ص١۴٨ و ١۴٩.
  17. شرح تبصرہ علامہ حلی، ج١، ص١۴۶.
  18. العروۃالوثقى، ج١، ص ٧٣٠، م ١٣.
  19. توضيح المسائل، م ١۴٩۴.
  20. توضيح المسائل، م ١۵٠٩.
  21. توضيح المسائل، م ١۵١٢.
  22. توضيح المسائل، م ١۵١۵.
  23. توضيح المسائل، م ١۵١٠.
  24. ترجمہ تحریر الوسیلہ، ج١، ص٣۵١.
  25. رسالہ شریفہ مجمع الرسائل (المحشَّی)، ج١، ص ۴١٣. مسألہ ١٣١٨
  26. رسالہ شریفہ مجمع الرسائل (المحشَّی)، ج١، ص ۴١۴. مسألہ ١٣١٩
  27. غایہ القصوی فی ترجمہ العروۃ الوثقی، ج٢، ص٢٧.
  28. رسالہ توضیح المسایل(مراجع)، ج١، ص٨١٣.
  29. ر.ک.غایہ القصوی فی ترجمہ العروۃ الوثقی، ج٢، ص٢٧.
  30. رسالہ توضیح المسایل(مراجع)، ج١، ص٨١٣.
  31. مرکز تنظیم و نشر آثار حضرت آیت اللہ بہجت(رہ)
  32. رسالہ شریفہ مجمع الرسائل (المحشَّی)، ج١، ص ۴١٢. مسألہ ١٣١٢
  33. رسالہ توضیح المسایل(مراجع)، ج١، ص٨٢٢.مسألہ ١۵١٣.
  34. رسالہ توضیح المسایل(مراجع)، ج١، ص٨٢٢.
  35. رسالہ توضیح المسایل(مراجع)، ج١، ص٨٢٢.مسألہ ١۵١۴.
  36. رسالہ توضیح المسایل(مراجع)، ج١، ص٨٢٢.

مآخذ

  • خمینی، روح اللہ، ترجمہ تحریر الوسیلہ، مترجم:اسلامی، علی، مترجم:قاضی‌زادہ، محمد، دفتر انتشارات اسلامی(وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم) قم١٣٨٣.
  • بہجت، محمد تقی، جامع المسایل، دفتر حضرت آیہ اللہ العظمی بہجت، قم١٣٨۴.
  • صاحب جواہر، محمدحسن بن باقر، رسالہ شریفہ مجمع الرسائل(المحشَّی)، موسسہ حضرت صاحب الزمان، مشہد مقدس١٣٧٣.
  • طوسی، محمد بن حسن، گزیدہ تہذیب، مترجم:بہبودی، محمد باقر، کویر، تہران١٣٧٠.
  • محمدی، علی، شرح تبصرہ علامہ حلی، دار الفکر، قم١٣٧۶.
  • یزدی، محمد کاظم بن عبد العظیم، غایہ القصوی فی ترجمہ العروۃ الوثقی، مترجم:قمی، عباس، مصحح:اسداللہی فرد، علیرضا، صبح پیروزی، قم.
  • خمینی، روح اللہ، رسالہ نجاۃ العباد، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رہ)، تہران.
  • فلاح‎‌زادہ، محمدحسین، احکام دین: مطابق با فتاوای مراجع بزرگ تقلید، نشر مشعر، تہران، ۱۳۸۶.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعۃ إلی تحصیل مسائل الشریعۃ، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، قم.
تبصرے
Loading...