میرزای قمی

میرزای قمی
IMG 0935.JPG
قم، شیخان میں میرزای قمی کا مزار
کوائف
مکمل نام میزرا ابوالقاسم بن محمد حسن شفتی قمی
تاریخ ولادت ۱۱۵۰ ق
آبائی شہر بروجرد
تاریخ وفات ۱۲۳۱ ق
مدفن قبرستان شیخان قم
علمی معلومات
مادر علمی خوانسار، کربلا
اساتذہ آقا محمد باقر بہبہانی، سید حسین خوانساری
شاگرد شیخ اسد اللہ تستری، سید محسن اعرجی، سید عبداللہ شبر، سید محمد مھدی خوانساری، سید جواد عاملی، کرباسی، سید علی
اجازہ اجتہاد از آقا شیخ محمد باقر بھبھانی
تالیفات قوانین، جامع الشتات
خدمات
سیاسی بادشاہ وقت فتح علی شاہ قاجار سے خط و کتابت کے ذریعہ رابطہ اور اسے نصیحت کرنا
سماجی شہر قم میں نماز جمعہ و جماعت اقامہ کرنا

میرزا ابو القاسم بن محمد حسن شفتی قمی (۱۱۵۰۔۱۲۳۱ ق) میرزای قمی کے نام سے معروف، بارہویں اور تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں۔

میرزای قمی بعض قاجار بادشاہوں کے معاصر تھے اور وہ انہیں عوام کے ساتھ مدارا اور ان کے مذہب کے ثبات کی نصیحت کرتے تھے۔ آپ کی دیگر فعالیت میں نماز جمعہ اور جماعت کے اقامہ کو شمار کیا جا سکتا ہے۔

ان کی مہم ترین تالیف قوانین نامی کتاب ہے اسی سبب سے انہیں صاحب قوانین کا لقب دیا گیا ہے۔ حجیت ظن مطلق، شئی واحد شخصی میں امر و نہی کا اجتماع، مجتہد کے فتاوی کے مطابق مقلدین کے لئے قضاوت کا جواز، آپ کے خاص فقہی آرا میں سے تھے۔

سوانح حیات

میرزائ قمی سن ۱۱۵۰ ق میں بروجرد سے ۱۲ کیلو میٹر کے فاصلہ پر چابلق علاقہ کے ایک قریہ درہ باغ میں پیدا ہوئے[1] اور سن ۱۲۳۱ ق میں آپ نے قم میں وفات پائی اور قم کے شیخان نامی قبرستان میں دفن ہوئے۔ آپ کے سن ولادت کو ۱۱۵۱ ق اور ۱۱۵۳ ق اور سن وفات کو ۱۲۳۳ ق میں بھی کہا گیا ہے۔[2]

آپ کے والد فومن کے علاقہ شفت کے باشندہ تھے جنہوں نے جوانی میں اصفہان کے حوزہ میں درس پڑھنے کے بعد چابلق کے علاقہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔[3]

تحصیل علم

میرزائ قمی نے فارسی اور عربی ادبیات کی تعلیم قرہ باغ میں اپنے والد سے حاصل کی اور اس کے بعد خوانسار کا رخ کیا جہاں انہوں نے سید حسین خوانساری کی شاگردی اختیار کی اور کئی سال تک ان کے محضر میں فقہ و اصول کی تعلیم حاصل کی اور خوانساری کی بہن سے شادی کرنے کے بعد وہ عراق کے لئے روانہ ہو گئے جہاں انہوں نے کربلا میں آقا محمد باقر بہبہانی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔[4]

درس کے بعد اپنے استاد آقا باقر بہبہانی سے اجازہ اجہتاد حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے وطن قرہ باغ لوٹ آئے اور اسی علاقہ کے ایک دیہات قلعہ بابو میں مشغول ہو گئے۔ وہاں سے وہ اصفہان کے مدرسہ کاسہ گران چلے گئے اور پھر وہاں سے انہوں نے شیراز کا رخ کیا، جہاں ۲ یا ۳ سال تک ان کا قیام رہا وہ زمانہ کریم خان زند کی تخت نشینی کا زمانہ تھا۔ اس کے بعد وہ اصفہان لوٹ آئے اور پھر وہاں سے اپنے وطن قرہ باغ پلٹ آئے۔ بعض طلاب نے آپ کے فقہ و اصول کے دروس سے استفادہ کیا، آپ کی زندگی کی گزر بسر سخت تھی۔ پھر آپ نے قم کا سفر کیا اور وہاں وہ تدریس اور کتابوں کی تالیف میں مشغول ہو گئے اور ان کی شہرت پورے ایران میں ہو گئی اور آپ مرجع تقلید بن گئے۔[5]

مقام علمی

میرزائ قمی محقق قمی کے نام سے مشہور تھے اور فقہ و اصول میں حجیت ظن مطلق، شئی واحد شخصی میں امر و نہی کا اجتماع، مجتہد کے فتاوی کے مطابق مقلدین کے لئے قضاوت کا جواز، آپ کے خاص فقہی و اصولی نظریات میں سے تھے۔[6]

سیاسی و سماجی فعالیت

میرزائ قمی بعض قاجار سلاطین، آقا محمد خان، فتح علی شاہ کے معاصر تھے اور فتح علی شاہ سے خط و کتابت کرتے تھے۔[7] انہی خطوظ میں سے ایک میں انہوں نے سلطان کو عوام کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنے اور ایک دوسرے خط میں عوام کے مذہب پر ثابت قدمی کے سلسلہ میں تا کہ وہ صوفیت کی طرف مائل نہ ہو جائیں،[8] نصیحت کی ہے۔

انہوں نے قم میں نماز جمعہ اور جماعت کے اقامہ کا اہتمام فرمایا۔[9]

تالیفات

نقل ہوا ہے کہ آپ نے مخلتف علوم میں ۱۰۰۰ سے زائد رسالے تحریر کئے ہیں۔ آپ کی بعض کتابیں ذیل میں ذکر کی جا رہی ہیں:[10]

  • القوانین المحکمة فی الاصول (مشهور به «قوانین»؛ موضوع کتاب اصول فقه ہے اور یہ کتاب سالها حوزه‌ علمیه کے نصاب میں شامل رہی ہے)
  • حاشیة او شرح علی شرح المختصر
  • شرح تهذیب العلامة
  • غنائم الایام فی الفقه
  • مناهج الاحکام
  • جامع الشتات (فارسی)
  • رسالة فی الاصول الخمسة الاعتقادیة
  • رسالة فی قاعدة التسامح فی ادلة السنن
  • رسالة فی جواز القضاء والتحلیف بتقلید المجتهد

شاگردان

آپ کے شاگردوں کا تذکرہ مندرجہ ذیل سطور میں کیا جا رہا ہے:[11]

  • شیخ اسدالله تستری (صاحب المقابیس)
  • سید محسن اعرجی (مولف المحصول)
  • کرباسی (صاحب الاشارات)
  • سید عبدالله شبر (مولف مصابیح الانوار فی حل مشکلات الاخبار)
  • سید مهدی موسوی خوانساری (صاحب الرسالة المبسوطة فی احوال ابی بصیر)
  • سید علی (شارح منظومه بحر العلوم)
  • سید جواد عاملی (صاحب مفتاح الکرامة)

حوالہ جات

  1. مقدمه مصحح، جامع الشتات، ص۸.
  2. مقدمه مصحح، جامع الشتات، ص۹؛ الامین، اعیان الشیعة، ج۲، ص۴۱۲.
  3. مقدمه مصحح، جامع الشتات، ص۸.
  4. مقدمه مصحح، جامع الشتات، ص۹.
  5. الامین، اعیان الشیعة، ج۲، ص۴۱۲.
  6. الامین، اعیان الشیعة، ج۲، ص۴۱۱.
  7. الحسینی السیدی، علی، مقدمه مناهج الاحکام، ص۶.
  8. الحسینی السیدی، علی، مقدمه مناهج الاحکام، ص۷.
  9. الامین، اعیان الشیعة، ج۲، ص۴۱۲.
  10. الحسینی السیدی، علی، مقدمه «مناهج الاحکام»، ص۶.
  11. الحسینی السیدی، علی، مقدمه «مناهج الاحکام»، ص۶.

منابع

  • الامین، سید محسن، اعیان الشیعة، حققه واخرجه واستدرک علیه حسن الامین، بیروت: دارالتعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ق-۱۹۸۶م.
  • میرزا قمی، جامع الشتات (فارسی)، تصحیح: مرتضی رضوی، تهران: کیهان، ۱۳۷۱ش.
  • میرزا قمی، مناهج الاحکام، قم: مؤسسة النشر الاسلامی، ۱۴۲۰ق.
تبصرے
Loading...