معاد

معاد اسلام کے اصول دین میں سے ایک رکن ہے جس کا معنی موت اور اس دنیا سے جانے کے بعد قیامت کے دن انسانوں کا دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ اس کے مطابق قیامت کے دن تمام انسان زندہ کئے جائیں گے اور خداوند عالم کے حضور ان کے اعمال کی جانچ پڑتال کی جائیگی اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دی جائے گی۔ معاد دین اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے اور قرآن کریم کی تقریبا ایک تھائی آیات معاد اور اس سے مربوط مسائل کے بارے میں ہیں۔ معاد پر ایمان اور عقیدہ رکھنا مسلمانوں کو حسن سیرت اختیار کرنے اور انہیں نیکی اور اچھے کاموں کی طرف رغبت دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

قرآن مجید کی متعدد آیات اور روایات کے مطابق معاد کی دو قسمیں: یعنی روحانی اور جسمانی ہیں۔ اگرچہ معاد جسمانی کی کیفیت کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اس رکن سے متعلق اہم ترین اشکالات بھی مخالفین کی طرف سے کئے گئے ہیں جیسے شبہہ آکل و ماکول، شبہہ اعادہ معدوم اسی طرح خدا کے علم اور قدرت سے متعلق شبہہ وغیرہ۔ قرآن کریم معاد کو ثابت کرنے کیلئے کئی مشابہ مثالیں پیش کرتا ہے ( مثلا بعض انسانوں کا اسی دنیا میں ہی زندہ ہونا، بعض حیوانات کا اسی دنیا میں زندہ ہونا اسی طرح زمین اور پودوں کا زندہ ہونا مٹی اور خاک میں تبدیل ہونے کے بعد ) معاد کو کئی عقلی دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے ( جیسے دلیل حکمت، دلیل عدالت، دلیل رحمت ) وغیرہ۔

مفہوم شناسی

معاد، لغت میں واپسی یا بازگشت کے معنی میں آتا ہے اور متکلمین کی اصطلاح میں قیامت کے دن اعمال کا حساب و کتاب دینے کیلئے روح کا جسم میں دوبارہ پلٹ آنے کو معاد کہتے ہیں۔ تاکہ نیکوکاروں کو بہشت اور ہمیشہ رہنے والی نعمات جبکہ بدکاروں کو ان کے بدکاری کی سزا اور عذاب دیا جا سکے۔[1]

معاد پر عقیدہ کی اہمیت

معاد پر عقیدہ رکھنا انسان کی زندگی میں دو جہات سے اہمیت کا حامل ہے:

  • فردی اور انفرادی زندگی میں: انسان کے عمل کی نوعیت اس کی زندگی کے ہدف کی تشخیص پر منحصر ہے۔ زندگی کے حقیقی اور اصلی اہداف کی تشخیص انسان کے رفتار و کردار کی جہت دہی میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جو شخص زندگی کو صرف دنیا تک محدود سمجھتا ہے اس کی ساری کوششیں اس مادی دنیا سے لذت اٹھانے اور ان سے بہتر فائدہ لینے پر مرکوز رہتی ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں وہ شخص جو اپنی حقیقت کو اس مادی دنیا سے بالاتر سمجھتا ہے اور موت کو زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ اسے ایک دنیا سے دوسری دنیا میں جانے کا وسیلہ سمجھتا ہے وہ اپنی زندگی کو یوں منظم کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس کی ابدی اور اخروی زندگی کیلئے فائدہ ہو۔
  • اجتماعی زندگی میں: انسان کا اپنی زندگی کے اہداف کی تشخیص اور اس دنیا کے علاوہ کسی اور عالم کا تصور جس طرح انسان کی فردی زندگی میں موثر کردار ادا کرتی ہے اسی طرح انسان کا دوسرے انسانوں کے ساتھ تعامل اور میل جول میں بھی نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اخروی اور ابدی زندگی اور ثواب و عقاب پر عقیدہ رکھنا ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرنے اور نیازمندوں کے لئے ایثار و قربانی دینے کا جزبہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایسا معاشرہ جس میں اس طرح کے اعتقادات رائج ہوں اس میں زندگی گزارنے والے انسان قوانین کے اجرا کرنے اور عادلانہ نظام اور دوسروں پر ظلم و ستم کی روک تھام کیلئے پولیس اور قانون نافظ کرنے والے اداروں کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ اگر پوری دنیا میں اس طرح کے اعتقادات کا بول بالا ہو جائے تو پوری دنیا میں مختلف قسم کے جرائم کا کافی حد تک ازالہ ہو سکتا ہے۔

اس اعتقادی رکن کی اہمیت اس وقت نمایاں ہو جاتی ہے کہ حتّی توحید پر اعتقاد رکھنا معاد پر عقیدہ رکھے بغیر انسانی زندگی کو جہت دینے میں کما حقہ مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی۔ ادیان الہی بطور خاص دین مبین اسلام کا معاد پر عقیدہ رکھنے پر تاکید اور انبیاء الہی کا لوگوں میں اس عقیدے کی تثبیت کیلئے دن رات محنت کرنے کی علت بھی اس رکن کی اہمیت اور تاثیر گزاری ہی ہے۔[2]

معاد اور روح کا تصور

صرف اس صورت میں ہم معاد اور موت کے بعد کی زندگی کی صحیح تفسیر کر سکتے ہیں جب ہم پہلے روح کی حقیقت اور اس کا بدن کے ساتھ رابطہ کو صحیح درک کریں۔ اس نظریے کے مطابق روح بدن اور اس کے خواص کا غیر ہے۔

یہاں روح سے متعلق چند نکات پر توجہ دینا اور انہیں قبول کرنا ضروری ہے:

  • روح کے وجود کا قائل ہونا؛
  • روح جوہر ہے نہ عرض؛
  • روح بدن سے جدا اور مستقل شئ ہے اور بدن کے متلاشی ہونے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔
  • یہ کہ روح اور بدن کی ترکیب ان ترکیبات میں سے نہیں ہے کہ ایک جزء کے فنا اور ختم ہونے پر دوسرا جزء بھی خودبخود ختم ہو جاتا ہے۔ بلکہ انسان کا اصلی رکن روح ہے اور جب تک روح باقی ہے انسان کی انسانیت اور شخص کی شخصیت بھی باقی رہے گی۔

اسی وجہ سے انسانی بدن کے سلول کے تبدیل ہونے کے باوجود بھی انسان کی شخصیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ انسان کی حقیقی وحدت کا ملاک و معیار روح کی وحدت ہے نہ بدن کی۔ اسی وجہ سے انسان کی موت کے وقت ملک الموت آکر انسان کی روح کو قبض کرتی ہے جبکہ انسان کا بدن زمانہ گزرنے کے ساتھ گل سڑ کر خاک میں مل کر نابود ہو جاتا ہے۔[3]

قرآن کریم اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے منکرین معاد کے اس اعتراض کہ: “کیسے ممکن ہے کہ انسان کے اجزاء متلاشی اور ختم ہونے کے بعد نئی زندگی پائے”؟ فرماتے ہیں:
قُلْ یَتَوَفّاکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِی وُکِّلَ بِکُمْ(ترجمہ: کہ دو (تم نابود نہیں ہو جاتے ہو) بلکہ ملک الموت تمہیں لے جاتا ہے)[4]

معاد کے بارے میں مختلف نظریات

  • انکار معاد: معاد کے بارے میں متکلمین قدیم کا نظریہ یہ تھا کہ انسان مرنے کے بعد مکمل نابود ہو جاتا ہے بنابراین ادیان الہی جس معاد سے بحث کرتی ہے اس سے مراد اعادہ معدوم ہے پس یا کہنا پڑے گا کہ معاد محال ہے یا یہ کہ اعادہ معدوم کو ایک غیر محال امر ماننا پڑے گا۔ [5]
  • اثبات معاد معاد کو ممکنات میں سے جاننے والے آگے چل کر اس کے نوعیت میں چند گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں:
۱. معاد، روحانی صِرف: اسلامی فلاسفہ میں سے وہ حضرات جو فلسفہ مشاء کے پیرو معاد جسمانی کو قابل قبول نہیں سمجھتے تھے اس لئے وہ معتقد تھے کہ دین جس معاد سے بحث کرتی ہے وہ صرف اور صرف معاد روحانی ہے یعنی قیامت کے دن صرف انسان کا روح ہے جو زندہ ہو گی بغیر اس کے کہ انسان کا بدن واپس آئے۔ کیونکہ انسان کا جسم موت کے بعد نیست و نابود ہو کر خاک میں تبدیل ہو جاتا ہے اور یہ صرف روح ہے جو باقی رہتی ہے اور قیامت کے دن اسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ البتہ ابن سینا جو سب سے بڑے مسلمان مشائی فلاسفہ ہیں، کا عقیدہ تھا کہ اگرچہ عقلی طور پر معاد جسمانی قابل اثبات نہیں ہے لیکن چونکہ مخبر صادق یعنی پیغمبر اکرم(ص) نے اس یک خبر دی ہے اسی وجہ سے یہ ہمارے اوپر حجت ہے اور ہم بغیر کسی چون و چرا کے اسے قبول کرتے ہیں۔[6]
۲. معاد، جسمانی صرف: معاد کے بارے میں ایک اور نظریہ یہ ہے کہ معاد صرف اور صرف جسمانی ہے یعنی انسان کی حقیقت صرف اور صرف بدن ہے اور موت کے بعد یہ بدن نابود ہو جاتا ہے لیکن قیامت کے دن خداوند عالم اپنے علم اور قدرت کے ذریعے اس متلاشی شدہ جسم کو دوبارہ اکھٹے کر کے زندہ کیا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق انسانی روح کی کوئی بازگشت نہیں ہے۔ [7]
۳. جسمانی اور روحانی معاد: یہ نظریہ پہلے دو نظریات کا مجموعہ ہے اس نظریے کے قائلین اپنا مدعا یوں بیان کرتے ہیں:
۱. روح انسان اسی دنیاوی بدن میں لوٹا دی جاتی ہے
۲. روح اس دنیاوی بدن سے مشابہ ایک بدن میں لوٹا دی جاتی ہے
۳. بدن عنصری، روح مجرد کی طرف لوٹ آتا ہے
۴. روح ایک تکامل یافتہ بدن عنصری میں لوٹ آتی ہے
۵. روح، اپنے ملکات اور عالم قیامت سے متناسب ایک بدن ایجاد کرتی ہے
۶. روح ایک ہورقلیایی بدن کے ساتھ واپس آتی ہے

اثبات معاد

جس دلیل کے ذریعے معاد کو ثابت کیا جا سکتا ہے اس کے دو حصے ہیں پہلا حصہ اس دنیا کے علاوہ کسی اور عالم کی ضرورت کو ثابت کرتا ہے جبکہ دوسرا حصہ آیات و روایات اور بعض مشابہ موارد کی نشاندہی سے اس عالم کے ممکن ہونے کو نمایاں کرتا ہے۔

ضرورت معاد

یہ دلیل چند مقدمات پر مشتمل ہے جس میں تمام انسانوں کی فطرت کا معاد کی طرف مائل ہونے سے اثبات معاد کا نتیجہ لیا جاتا ہے۔ وہ مقدمات درج ذیل ہیں:

– ہر انسان باقی اور ہمیشہ رہنے کا خواہاں ہے؛
– خداوند عالم انسان میں کسی بھی خواہش کو بیہودہ خلق نہیں فرمایا ہے کیونکہ خدا حکیم ہے اور بیہودہ کام حکیم سے سرزد نہیں ہو سکتا؛
– یہ دنیا فانی ہے اور اسے بقا اور دوام نہیں ہے؛

پس: یہ نتیجہ لیا جاتا ہے کہ اس دنیا کے علاوہ ایک اور ابدی عالم کا موجود ہونا چاہئے تاکہ انسان کی باقی رہنے کی خواہش اس جہاں میں پوری ہو سکے۔[8]

– کائنات اور انسان خدا کا مخلوق ہے؛
– خلقت، خدا کے دوسرے کاموں کی طرح بے ہدف اور بیہودہ نہیں ہو سکتی؛
– خداوندعالم نے کائنات کو اس طرح بنایا ہے کہ بندہ زیادہ سے زیادہ خیر اور کمال سے مستفید ہو سکے؛
– مادی دنیا خیر و شر دونوں کا مجموعہ ہے جس میں یہ ایک دوسرے سے ناسازگار ہیں اور ہمیشہ آپس میں دست و گریباں ہیں؛
– انسانی روح میں ہمیشہ باقی رہنے کی صلاحیت موجود ہے؛
– اگر انسانی زندگی اسی مادی دنیا پر منحصر ہو تو خدا انسان اور کائنات کی تخلیق میں اپنے ہدف تک نہیں پہنچ پاتا ہے، اس صورت میں یہ سوال مطرح ہوتا ہے کہ خدا کیوں خلق فرماتا ہے اور نابود کر دیتا ہے؟؛

پس: خدا کی لامحالہ حکمت کا تقاضا ہے کہ اس دنیا کے علاوہ ایک اور عالم ہو تاکہ خدا کی خلقت اور آفرینش بے مقصد اور لاحاصل نہ ہو۔ خاص کر اس مادی دنیا کے زنج و الم اور مصیبتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اگر اس مادی دنیا کے رنج و الم سے مبرا ایک اور عالم نہ ہو تو اس مادی دنیا کا باقی رہنا حتی ابدی ہی کیوں نہ ہو خدا کی حکمت سے سازگاری نہیں رکهتا ہے۔[9] [10]
قرآن کریم درج ذیل آیت میں اس مطلب کی طرف اشارہ کرتا ہے:

وَ ما خَلَقْنَا السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ وَ ما بَینَہما لاعِبینَ* ما خَلَقْناہما إِلاَّ بِالْحَقِّ وَ لکنَّ أَکثَرَہمْ لایَعْلَمُونَ* إِنَّ یوْمَ الْفَصْلِ میقاتُہمْ أَجْمَعینَ(ترجمہ: اور ہم نے زمین و آسمان اور اس کی درمیانی مخلوقات کو کھیل تماشہ کرنے کے لئے نہیں پیدا کیا ہے * ہم نے انہیں صرف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے لیکن ان کی اکثریت اس امر سے بھی جاہل ہے*بیشک فیصلہ کا دن ان سب کے اٹھائے جانے کا مقررہ وقت ہے)[11]

– خداوندعالم رحیم ہے؛
– خدا کی رحمت تمام موجودات کو شامل کرتی ہے؛
– بندوں پر خدا کی رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر موجود کمال تک پہنچنے اور اس کے اندر موجود تمام صلاحیتوں کے پھلنے اور پھولنے سے محروم نہ ہو؛
– اس مادی دنیا میں انسان اپنے اختیاری کاموں کی وجہ سے کمال کی منزل طے کرتا ہے اور معنوی نعمات سے بہرہ مند ہوتاہے؛
– این دنیا، بہ واسطہ محدودیت‌ہای مادی، ظرفیت استفادہ انسان از ثمرہ کمالات ناشی از اعمال اختیاری را ندارد؛

پس: ایک اور عالم کا ہونا چاہئے جس میں ہر انسان اس دنیا میں اپنے اختیاری کاموں کے ذریعے جس مقام کو کسب کیا ہے اس کے تمام کمالات تک پہنچنا انسان کا حق ہے۔ [12]
قرآن میں سورہ انعام کی آیت نمبر ۱۲ میں اسی مسئلے کی طرف یوں اشارہ ہوتا ہے:

قُلْ لِمَنْ ما فِی السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ قُلْ لِلَّہ کتَبَ عَلی نَفْسِہ الرَّحْمَۃ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلی یَوْمِ الْقِیامَةِ لارَیبَ فیہ الَّذینَ خَسِرُوا أَنْفُسَہمْ فَہمْ لایُؤْمِنُونَ(ترجمہ: ان سے کہئے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کس کے لئے ہے? پھر بتائیے کہ سب اللہ ہی کے لئے ہے اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دے لیا ہے وہ تم سب کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے -جن لوگوں نے اپنے نفس کو خسارہ میں ڈال دیا ہے وہ اب ایمان نہ لائیں گے۔)[13]

– خدا کی صفات میں سے ایک عدالت ہے؛
– انسان اس دنیا میں اچھے اور برے کی انتخاب میں آزاد ہے؛
– بعض انسان‌ اپنی اس آزادی سے جائز فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ بعض اسی کے ذریعے اہل گناہ اور معصیت بن جاتا ہے؛
– بندوں کے بارے میں خدا کی عدالت کا تقاضا ہے کہ ہر شخص کو اس کے عمل کی مکمل سزا یا مکمل جزا ملنا چاہئے نیکوکاروں کو ثواب اور بدکاروں کو عقاب ملنا چاہئے؛
– اس مادی دنیا کی ظرفیت اتنی نہیں ہے کہ ہر انسان کو اس کے عمل کا مکمل ثواب یا عقاب دیا جا سکے یوں بہت سارے انسان ثواب و عقاب تک نہیں پہنچ پاتے ہیں؛

پس: جس طرح یہ دنیا بندگان خدا کی آزمائش اور امتحان کی جگہ ہے، ایک اور عالم کا ہونا چاہئے جس میں بندگان خدا اپنے اپنے اعمال کی سزا یا جزا تک پہنچ سکیں تاکہ خدا کی عدالت بطور کامل سب کے حق میں اجرا ہو سکے۔[14]
خداوند متعال مختلف آیات میں نیکوکاروں اور بدکاروں کے مساوی نہ ہونے اور ان دونوں سے خدا کے جداگانہ برخورد کی طرف اشارہ فرماتا ہے:
أَمْ حَسِبَ الَّذینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئاتِ أَنْ نَجْعَلَہمْ کالَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَواءً مَحْیاہمْ وَ مَماتُہمْ ساءَ ما یَحْکمُونَ* وَ خَلَقَ اللَّہ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَ لِتُجْزی کُلُّ نَفْسٍ بِما کَسَبَتْ وَ ہمْ لایُظْلَمُونَ(ترجمہ: آاور اللہ نے آسمان و زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس لئے بھی کہ ہر نفس کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جاسکے اور یہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا*کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنالیا ہے اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کرسکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے ہو)[15]

معاد امکان پذیر ہے

قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے اشخاص بعض مشابہ نمونہ جات جیسے بعض موجودات کا موت اور تغییر شکل دینے کے بعد زندہ ہونے کو دیکھنے کے بعد یہ اطمینان کر لیتے ہیں کہ معاد ایک امکان پذیر چیز ہے اور خداوند عالم اس پر قادر ہے۔ قرآن کریم میں بعض مردہ موجودات کے زندہ ہونے کا تذکرہ موجود ہے:

  • اصحاب کہف: قرآن کریم میں ایک ایسے گروہ کا تذکرہ موجود ہے جو مشرکوں کی آزار و اذیت سے بچنے اور اپنے ایمان کی حفاظت کی خاطر شہر سے باہر کسی غار میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ لوگ خستگی دور کرنے کیلئے کچھ دیر آرام کرنے کا ارادہ کرتے ہیں لیکن جب بیدار ہوتے ہیں تو متوجہ ہو جاتے ہیں کہ یہ افراد 309 سال نیند کی حالت میں تھے۔ خدا نے ان افراد کے زندہ کرنے اور لوگوں کا اس چیز سے آگاہی کے فلسفے کو قیامت اور معاد سے آشنائی اور اس پر یقین پیدا ہونے کا قرار دیتے ہیں:

وَ کذَلِک أَعْثَرْنَا عَلَیہمْ لِیَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّہ حَقٌّ وَ أَنَّ السَّاعَۃ لارَیبَ فِیہا(ترجمہ: اور اس طرح ہم نے قوم کو ان کے حالات پر مطلع کردیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچاّ ہے اور قیامت میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہے۔)[16]

  • حضرت عیسی(ع) کے ہاتھوں مردوں کا زندہ ہونا: قرآن کریم کی مختلف آیات میں واضح طور پر آیا ہے کہ حضرت عیسی(ع) نے بعض افراد جن کے بدن سے روح نکل چکی تھی اور مر گئے تھے کو خدا کی اذن سے زندہ کرتے تھے۔

وَ أُبْرِئُ الْأَکمَہ وَ الْأَبْرَصَ وَ أُحْی الْمَوْتی بِإِذْنِ اللَّہ(ترجمہ: ااور میں پیدائشی اندھے اور َمبروص کا علاج کروں گا اور حکم خدا سے مردوں کو زندہ کروں گا)[17]

  • پودوں کا اگنا پودوں کا خشک ہونے کے بعد دوبارہ اگنا یا سبز ہونا انسان کے مرنے اور زندہ ہونے کے ساتھ بہت زیادہ شباہت رکهتی ہے۔ قرآن کریم میں پودوں کے اگنے کو مردوں کے زندہ کرنے کا ایک نمونہ قرار دیا ہے:

فَانظُرْ إِلَی آثَارِ رَحْمَتِ اللَّہ کیفَ یُحْیِی الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہا إِنَّ ذَلِک لَمُحْیِی الْمَوْتَی وَ ہوَ عَلَی کُلِّ شَیءٍ قَدِیرٌ(ترجمہ: ب تم رحماُ خدا کے ان آثار کو دیکھو کہ وہ کس طرح زمین کو مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کردیتا ہے بیشک وہی مفِدوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہی ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔)[18]

ان کے علاوہ بعض دوسرے موارد جیسے پرندوں اور حضرت عزیر کا زندہ ہونا قرآن میں ذکر ہوا ہے جو موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کی نمونے ہیں۔

معاد قرآن کی روشنی میں

قرآن میں معاد کی اہمیت

قرآن مجید کی تقریبا ایک تھائی آیات ابدی زندگی کے بارے میں ہیں۔ ان آیات کو آٹھ گروہ میں تقسیم کر سکتے ہیں:

  1. وہ آیات جو آخرت پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیتی ہیں؛[19]
  2. وہ آیات جو انکار معاد کے سنگین اور ناخوشگوار نتایج کے بارے میں ہیں؛[20]
  3. وہ آیات جو بہشت کے ابدی نعمتوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں؛[21]
  4. وہ آیات جو جہنم کے دائمی غذاب کو بیان کرتی ہیں؛[22]
  5. وہ آیات جو قیامت کے دن اچهے اور برے اعمال کے نتائج کو بیان کرتی ہیں؛
  6. وہ آیات جو معاد اور قیامت کی ضرورت پر توجہ دیتی ہیں؛
  7. وہ آیات جو منکرین معاد کے سوالات اور اعتراضات کا جواب دیتی ہیں؛
  8. وہ آیات جو ظلم و ستم اور انحراف و بے راہ روی کی جڑ کو قیامت اور معاد کی فراموشی قرار دیتی ہیں۔[23]

قرآن کی ان آیات میں غور فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء الہی کی عمدہ گفتگو اور ان کی لوگوں کے ساتھ جنگ و جدال اکثر معاد کے موضوع پر ہوتی تھیں یہاں تک کہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انبیاء جتنا زیادہ معاد کی اثبات پر زور دیتے تھے اتنا توحید کے اثبات پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ اس کی علت بھی یہی تھی کہ لوگ اس رکن کو قبول کرنے میں زیادہ مقاومت کا اظہار کرتے تھے۔

علت انکار معاد

قرآنی نقطہ نگاہ سے لوگوں کے معاد سے انکار اور اسے قبول نہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔

  • پہلا عامل، یہ عاملی ہر غیبی اور غیر محسوسی امر کے انکار میں موجود ہوتا ہے۔ مادہ پرست حضرات ہر غیر مادی شئ کا انکار کرتے ہیں۔
  • دوسرا عامل، ایک درونی خواہش ہے اور وہ آرام و آسائش کی طرف میل رکھنا، بے بندوباری اور کسی مسئولیت کو قبول نہ کرنا ہے۔ کیونکہ معاد اور اعمال کی حساب و کتاب پر اعتقاد رکھنا احساس مسئولیت، رفتار و کردار میں محدودیت کا قائل ہونا اور ظلم و جور اور گناہ و معصیت سے ہاتھ اٹھانے کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ لہذا سرے سے ہی معاد کا انکار کرکے ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو آزاد کرتے ہیں۔

أَیحْسَبُ الْإِنْسانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظامَہ. بَلی قادِرِینَ عَلی أَنْ نُسَوِّی بَنانَہ. بَلْ یرِیدُ الْإِنْسانُ لِیَفْجُرَ أَمامَہ(ترجمہ: کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے* یقینا ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پور تک درست کرسکیں* بلکہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے)[24]

  • تیسرا عامل، معاد اور اس کے تحقق کے حوالے سے وجود میں آنے والی مختلف فکری اور نظری مباحث اور ابہامات۔

شبہات اور ان کا جواب

  • شبہہ آکل و مأکول:

یہ اعتراض معاد جسمانی پر ہونے والے قدیمی اشکالات میں سے ہے جس کے مطابق مستشکل کہتا ہے کہ اگر کوئی مکمل طور پر کسی دوسرے انسان(آدم خور) کی خوراک بن جائے اس طرح کہ وہ اس کا کے بدن کا کچھ اسی سے تشکیل پائے تو اس صورت میں قیامت کے دن جب انسانوں کو اسی دنیاوی جسم کے ساتھ محشور کرے گا تو اس پہلے انسان(جسے کھایا گیا ہے) کے اعضاء مثلا گوشت وغیرہ کس بدن کے ساتھ محشور ہوگا اگر خود اسی کے بدن میں کے ساتھ محشور ہوجائے تو دوسرے انسان(آدم خور) کا بدن ناقص ہو گا نہ اگر اس دوسرے انسان کے بدن کے ساتھ محشور ہو جائے تو پہلے والے انسان کا بدن ناقص ہو گا دونوں صورتوں میں ان میں سے ایک انسان کا بدن کامل طور پر محشور نہیں ہو گا یوں اس ناقص بدن پر چاہے عذاب ہو یا اسے ثواب دی جائے دونوں صورتوں میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہونگے۔ فلاسفہ مشاء اسی شبہہ کی وجہ سے معتقد تھے کہ معاد جسمانی عقلی دلائی کی روشنی میں قابل اثبات نہیں ہے۔ لیکن چونکہ مخبر صادق (یعنی انبیاء الہی) نے خبر دی ہے اسلئے تعبدا قبول کرتے ہیں۔ متکلمین میں سے ہر ایک نے اس شبہہ کا جواب دینے کی کوشش کی ہے اس حوالے سے اکثر متکلمین نے بدن کے اجزا کو اصلی اور غیر اصلی میں تقسیم کرکے اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ بدن کے جن اجزا کو قیامت کے دن محشور کیا جائے گا وہ اس کی اصلی اجزا ہیں اور یہ اصلی اجزا کسی صورت میں بھی دوسرے انسان کے بدن میں نہیں جا سکتا ہے۔ ملاصدرا بدن مثالی کے نظریے کا قائل ہوا ہے یوں اس شبہہ سے جان چھڑارتے ہوئے کسی اور انداز میں معاد جسمانی کو مطرح کیا ہے۔[25]

  • شبہہ اعادہ معدوم:


معاد سے متعلق مطرح ہونے والے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ جب انسان مرتا ہے تو اس کی کی روح بدن سے جدا ہو جاتی ہے اور اس کا بدن نابود ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں اگر معاد یقینی ہے تو خداوندعالم ایک معدم اور نابود ہونے والے موجود کو دبارہ زندہ کرتا ہے اور چونکہ فلسفی نقطہ نگاہ سے “اعادہ معدوم” محال ہے پس معاد بھی محال ہے۔[26] خداوند متعال قرآن کریم میں اس کا جواب یوس دیتے ہیں کہ انسان موت کی وجہ سے نابود نہیں ہوتا بلکہ ملک الموت انسان کی جان لے لیتا ہے اور خدا کے ہاں لے جاتا ہے۔ پس معاد “اعادہ معدوم” نہیں ہے بلکہ ایک موجود چیز (روح) کا واپس آنا ہے ۔
وَ قَالُوا أَئِذَا ضَلَلْنَا فِی الْأَرْضِ أَئِنَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ بَلْ ہم بِلِقَاء رَبِّہمْ کافِرُونَ* قُلْ یَتَوَفَّاکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِی وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ إِلَی رَبِّکُمْ تُرْجَعُونَ(ترجمہ: اور یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم زمین میں گم ہوگئے تو کیا نئی خلقت میں پھر ظاہر کئے جائیں گے – بات یہ ہے کہ یہ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں* آپ کہہ دیجئے کہ تم کو وہ ملک الموت زندگی کی آخری منزل تک پہنچائے گا جو تم پر تعینات کیا گیا ہے اس کے بعد تم سب پروردگار کی بارگاہ میں پیش کئے جاؤ گے ۔)[27]

  • خدا کا علم و قدرت اور بدن کی عدم قابلیت:

حقیقت میں یہ اشکال تین اشکال کا مجموعہ ہے ایک یہ کہ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ لاکھوں کروڑوں انسان کا بدن جو خاک میں مل کر نابود ہو چکا ہے اسے دوبارہ پہلے کی طرح زندہ کرے؟ دوسرا یہ کہ خدا کو کیسے پتہ چلے کہ متلاشی شدہ بدن کے اعضاء کون کون سے ہیں؟ تیسرا یہ کہ انسان کا بدن جو اب گل سڑ کر نابود ہو چکا ہے اس میں یہ قابلیت نہیں ہے کہ وہ پہلے کی طرح ایک کامل جسم کی صورت اختیار کرے۔

قران کریم ان سوالوں کا جواب مختلف صورتوں میں دیتا ہے۔ کبھی معاد کو پودوں کے اگنے سے تشبیہ اور کبھی اسے انسان کی خلقت اولیہ سے مقایسہ کرتے ہوئے اپنی قدرت کی نشاندہی کرتا ہے۔
یا أَیہا النَّاسُ إِنْ کنْتُمْ فِی رَیبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاکمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَ غَیرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَینَ لَکمْ… وَتَرَی الْأَرْضَ ہامِدَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَیہا الْمَاءَ اہتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ مِنْ کلِّ زَوْجٍ بَہیجٍ(ترجمہ: اے لوگو اگر تمہیں دوبارہ اٹھائے جانے میں شبہ ہے تو یہ سمجھ لو کہ ہم نے ہی تمہیں پہلے خاک سے بنایا ہے پھر نطفہ سے پھر جمے ہوئے خون سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے جس میں سے کوئی مکمل ہوجاتا ہے اور کوئی ناقص ہی رہ جاتا ہے تاکہ ہم تمہارے اوپر اپنی قدرت کو واضح کردیں ہم جس چیز کو جب تک چاہتے ہیں رحم میں رکھتے ہیں اس کے بعد تم کو بچہ بناکر باہر لے آتے ہیں پھر زندہ رکھتے ہیں تاکہ جوانی کی عمر تک پہنچ جاؤ اور پھر تم میں سے بعض کو اٹھالیا جاتا ہے اور بعض کو پست ترین عمر تک باقی رکھا جاتا ہے تاکہ علم کے بعد پھر کچھ جاننے کے قابل نہ رہ جائے اور تم زمین کو مردہ دیکھتے ہو پھر جب ہم پانی برسادیتے ہیں تو وہ لہلہانے لگتی ہے اور ابھرنے لگتی ہے اور ہر طرح کی خوبصورت چیز اگانے لگتی ہے)[28]

بدن کی عدم قابلیت کے شبہہے کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس موجودات عالم پر حاکم علت و معلوم کے قوانین و ضوابط صرف متعارف اور اسباب و علل پر منحصر نہیں ہے اس کی واضح مثال اسی مادی دنیا میں بعض خارق العادہ چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں جیسے بعض انسانوں اور حیوانوں کا زندہ ہونا وغیرہ کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے۔[29]

علم الہی پر ہونے والے اعتراض کے جواب میں خدا کے لا محدود اور غیر متناہی علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَی* قَالَ عِلْمُہا عِندَ رَبِّی فِی کتَابٍ لایَضِلُّ رَبِّی وَ لَایَنسَی(ترجمہ: اس نے کہا کہ پھر ان لوگوں کا کیا ہوگا جو پہلے گزر چکے ہیں* موسٰی نے کہا کہ ان باتوں کاعلم میرے پروردگار کے پاس اس کی کتاب میں محفوظ ہے وہ نہ بہکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔)[30]

حوالہ جات

  1. خاتمی، ج۱، ص۲۰۴
  2. مصباح یزدی، ص۳۳۹-۳۴۱
  3. مصباح یزدی، ص۳۵۷-۳۵۰
  4. سجدہ، آیت نمبر 11
  5. فخر رازی، ج۲، ص۳۹
  6. ابن سینا، ص۴۲۳؛ فخر رازی، ج۲، ص۵۵
  7. رجوع کنید بہ: خوش صحبت، ۱۳۹۳، ص۳۸
  8. فیض کاشانی، ج۲، ص۸۲۷؛ خمینی، ص۱۸۶
  9. مصباح یزدی، ص۳۶۴-۳۶۵؛ سعیدی مہر، ج۲، ص۲۷۴
  10. حلی، کشف المراد، ص۲۵۸
  11. دخان/ آیت نمبر 38-40
  12. ربانی گلپایگانی، ج۲، ص۱۹۰
  13. انعام/ آیت نمبر 12
  14. مصباح یزدی، ص۳۶۶؛ محمدرضایی، ج۱، ص۱۸۷
  15. جاثیہ/ آیت نمبر 22-23
  16. سورہ کہف/آیت نمبر 21
  17. سورہ آل عمران/آیت نمبر 49
  18. سورہ روم/آیت نمبر 50
  19. مانند سورہ بقرہ، آیت ۴؛ سورہ نمل، آیت ۳
  20. مانند سورہ اسراء، آیت۱۰؛ سورہ فرقان، آیت۱۱؛ سورہ صبا، آیت۸؛ سورہ مؤمنون، آیت۷۴
  21. مانند سورہ الرحمن، آیت۴۶ تا آخر؛ سورہ الواقعہ، آیت۱۵-۳۸؛ سورہ الدہر آیت۱۱-۲۱
  22. مانند سورہ الحاقہ، آیت۲۰-۲۷؛ سورہ الملک، آیت۶-۱۱؛ سورہ الواقعہ، آیت۴۲، ۵۶
  23. مانند سورہ ص، آیت۲۶؛ سورہ سجدہ، آیت۱۴۰
  24. سورہ قیامت/آیت نمبر 3-5
  25. ملاصدرا، اسفار اربعہ، ج۹، ص۱۹۰-۱۹۱؛ حسینی تہرانی، ج۶، ص۸۵-۱۱۷
  26. سورہ رعد، آیت ۵
  27. سورہ سجدہ/آیت نمبر 10-11
  28. سورہ حج/آیت نمبر 5
  29. مصباح یزدی، ص۳۸۰
  30. سورہ طہ/آیت نمبر 51-52

منابع

  • ابن سینا، حسین بن علی، الشفا (الالہیات)، قم، مکتبة آیة اللہ مرعشی، ۱۴۰۴ق؛
  • حسینی تہرانی، سید محمد حسین، معاد شناسی، مشہد، نور ملکوت قرآن، ۱۴۲۳ق؛
  • حلی، حسن بن یوسف، الباب الحادی عشر مع شرحیہ النافع یوم الحشر و مفتاح الباب، شرح و توضیح: فاضل مقداد و ابوالفتح بن مخدوم، تہران، مؤسسہ مطالعات اسلامی، ۱۳۶۵ش؛
  • حلی، حسن بن یوسف، کشف‌ المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، قم، مؤسسہ امام صادق، ۱۳۸۲ش، چاپ دوم؛
  • خاتمی، فرہنگ علم کلام، تہران، نشر صبا، ۱۳۷۰ش؛
  • خمینی، سید روح اللہ، شرح چہل حدیث، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۷۸ش؛
  • خوش صحبت، مرتضی، معاد جسمانی از منظر علامہ طباطبایی با تأکید بر تفسیر المیزان، مجلہ معرفت کلامی، ش۱۲، بہار و تابستان ۱۳۹۳، ص۳۵-۵۶؛
  • ربانی گلپایگانی، علی، عقاید استدلالی، انتشارات نصایح،۱۳۸۰ش؛
  • سعیدی مہر، محمد،آموزش کلام اسلامی،کتاب طہ،۱۳۸۵ش؛
  • رازی، فخرالدین، الاربعین فی اصول الدین، قاہرہ، مکتبة الکلیات الازہریہ، ۱۹۸۶ء
  • فیض کاشانی، علم الیقین فی اصول الدین، تحقیق: محسن بیدار فر، قم، نشر بیدار، ۱۴۱۸ق؛
  • کدیور، محسن، مجموعہ مصنفات حکیم مؤسس آقا علی مدرس طہرانی، تہران، مؤسسہ اطلاعات، ۱۳۷۸ش؛
  • محمد رضایی، محمد و سبحانی، جعفر، اندیشہ اسلامی، دفتر نشر معارف، ۱۳۸۵ش؛
  • مصباح یزدی، محمد تقی، آموزش عقائد، تہران، شرکت چاپ و نشر بین الملل، ۱۳۷۷ش؛
  • ملا صدرا، صدرالدین محمد، الحکمة المتعالیة فی الاسفار الاربعة العقلیة، بیروت،‌دار احیاء التراث، ۱۹۸۱م، چاپ سوم؛
  • ملا صدرا، صدرالدین محمد، الشواہد الربوبیہ فی المناہج السلوکیہ، تصحیح و تعلیق: سید جلال‌الدین آشتیانی، مشہد، المرکز الجامعی للنشر، ۱۳۶۰ش، چاپ دوم؛
تبصرے
Loading...