مسیلمہ کذاب

مُسَیلَمۃ بن ثُمامَۃ حَنَفی وائِلی (متوفی 12ہ۔ق) جو مسیلمہ كَذَّاب کے نام سے معروف تھا، نے 10ہ۔ق کو پیغمبری کا دعوا کیا۔ وہ سنہ 12ہ۔ق کو جنگ یمامہ میں خالد بن ولید کے سپاہیوں کے ہاتھوں مارا گیا۔

مسیلمہ کذاب حضرت محمدؐ کی نبوت کو قبول کرتا تھا لیکن اس کا دعوا یہ تھا کہ وہ نبوت میں آنحضرتؐ کے ساتھ شریک ہیں۔ اس نے اپنے پیروکاروں پر زنا اور شراب کو حلال جبکہ نماز سے ان کو معاف کیا تھا۔ اسی طرح وہ پیغمبر اکرمؐ کے بعض معجزات کو تکرار کرنا چاہتا تھا لیکن ہر دفعہ اس کی مرضی کے برخلاف نتیجہ نکلتا تھا۔

نام، نسب اور لقب

مسیلمہ کا تعلق یمامہ کے بنی‌ حنیفہ سے تھا۔ ان کا پورا نام مسیلمہ بن ثمامہ بن کبیر بن حبیب حنفی وائلی[1] اور ان کی کنیت أبوثمامہ ہے۔[2] اس کا لقب رحمان تھا اور زمانہ جاہلیت میں رحمان یمامہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔[3] اس نے سنۃ الوفود (9ہ۔ق) کو اپنے خاندان کے بعض بزرگوں کے ساتھ یمامہ سے مدینہ ہجرت کیا۔ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ ان کی ملاقات کے بارے میں دو قول نقل ہوئے ہیں:

  1. مسیلمہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی ملاقات کو گیا اور وہاں پہنچ کر اس نے کہا: اگر محمد مجھے اپنا جانشین مقرر کریں تو میں ان کی پیروی کروں گا۔ پیغمبر اکرمؐ نے جواب میں فرمایا: اگر تم میرے ہاتھ میں موجود اس چیز(اسوقت پیغبر اکرمؐ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک ٹہنی تھی) کی بھی درخواست کروگے تو میں وہ چیز بھی تمہیں نہیں دونگا۔ اپنے معاملات میں جو چیز خدا نے تمہارے لئے مقرر فرمایا ہے اس کی مخالفت مت کرو اگر خدا کے حکم سے روگردانی اختیار کرو گے تو تم ضرور خدا کی گرفت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکو گے۔[4]
  2. مسیلمہ مدینہ میں اپنے ساتھیوں کے سامان کی نگرانی کرتا رہا اور اصلا پیغمبر اکرمؐ سے ملاقات کیلئے نہیں گیا تھا۔[5] ان کے ساتھیوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد کہا کہ ہم نے اپنا ایک ساتھی ہمارے سامان وغیرہ کی نگرانی کیلئے چھوڑ آئے ہیں، پیغمبر اکرمؐ نے حکم دیا جو کچھ ان کیلئے دیا گیا ہے ان کے ساتھی کیلئے بھی دیا جائے۔[6]

مسیلمہ نے وطن واپسی کے بعد پیغمبری کا دعوا کیا[7] جس پر رسول خداؐ نے اسے مسیلمہ کذاب کا نام دیا۔[8] ان کا نام ہارون اور مسلمہ بھی کہا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا نام مسلمہ تھا نبوت کے ادعا کے بعد مسلمانوں نے تحقیر کی خاطر مسیلمہ (چھوٹا مسلمان) کے نام سے یاد کرتے تھے۔[9]

نبوت کا دعوا

مسیلمہ نے ہجرت کے گیارہویں سال پیغمبر اکرمؐ کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے نبوت کا دعوا کرتے ہوئے اپنے آپ کو پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ کار رسالت میں شریک قرار دیا۔ جس پر رسول خداؐ نے انہیں “مسیلمہ کذّاب” کا نام دیا۔[10] پیغمبر اکرمؐ نے حبیب بن زید بن عاصم کو ان کی طرف بھیجا لیکن جب حبیب بن زید نے مسیلمہ کی ادعای نبوت کی تأیید نہیں کی مسیلمہ نے انہیں قتل کر ڈالا۔[11] پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد مسیلمہ کیلئے زمینہ ہموار ہو گیا یوں اس نے بعض لوگوں کو اپنے ارد گرد جمع کیا اور قرآن کے مقابلے میں نثر کے کچھ جملات جعل کر کے اپنے پیروکاروں کے سامنے پیش کرتے تھے۔[12] مسیلمہ نے “سجاح بنت حارث تمیمی” کہ جو خود بھی دعویدار نبوت تھی، سے شادی کیا۔[13] اور اپنے پیروکاروں سے نماز صبح اور نماز عشاء کی بخشودگی کو ان کا مہریہ قرار دیا۔[14]

اسی طرح اس نے اپنے پیروکاروں کیلئے شراب اور زنا کو حلال جبکہ نماز سے سب کو معاف کر دیا لیکن وہ پیغمبر اسلامؐ کے نبوت کی گواہی دیتا تھا۔[15]

الٹے معجزات

بعض اطلاعات کے مطابق مسیلمہ پیغمبر اسلامؐ کے بعض معجزات کو تکرار کرنا چاہتا تھا لیکن ہر دفعہ نتیجہ بالکل برعکس نکتا تھا۔ مثلا اس نے کسی کنویں میں اپنا آب دہان پھینکا تو اس کنویں کا پانی خشک ہو گیا۔ کسی بچے کو اس کے پاس لے گیا تاکہ وہ اس کے حق میں دعا کریں، جیسے ہی انہوں نے اس بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا وہ بچہ گنجا ہو گیا۔ ان کے وضو کا پانی کسی باغ میں پھنکا گیا تو وہاں اس کے بعد کوئی سبزہ نہیں اگا۔ کسی کی آنکھ پر ہاتھ پھیرا تو وہ نابینا ہو گیا۔[16]

وفات

سن 12 ہجری قمری[17] کو ابوبکر نے خالد بن ولید کی سربراہی میں یمامہ کی طرف ایک لشکر بھیجا،[18] خالد بن ولید نے عقرباء نامی مقام پر مسیلمہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ جنگ کیا۔ مسیلمہ سن 12 ہجری قمری کو ربیع الثانی کے مہینے میں ہلاک ہوا۔[19] ان کو قتل کرنے میں وحشی بن حرب (قاتل حمزہ سید الشہداء)، عبداللہ بن زید بن عاصم اور ابودجانہ کا کردار نمایاں رہا ہے۔[20] البتہ ان افراد میں سے ہر ایک جدا گانہ طور پر بھی ان کے قاتل کے طور پر معرفی ہوئے ہیں۔[21]

حوالہ جات

  1. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۷، ص۲۲۶۔
  2. ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، دارالمعرفہ، ج۲، ص۵۷۶۔
  3. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۷، ص۲۲۶؛ بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۸۸م، ص۱۰۹۔
  4. بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۲۰۳۔
  5. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۱۳۰؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، دارالمعرفہ، ج۲، ص۵۷۶۔
  6. ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، دارالمعرفہ، ج۲، ص۵۷۶-۵۷۷۔
  7. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۷، ص۲۲۶۔
  8. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۱۴۶۔
  9. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۷، ص۲۲۶
  10. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۱۴۶
  11. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۲۰؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۴۳۔
  12. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۷، ص۲۲۶۔
  13. ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۷، ص۳۴۴۔
  14. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۲۔
  15. ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، دارالمعرفہ، ج۲، ص۵۷۷۔
  16. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۳۲۷
  17. ابن اثیر، اسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۱۹۴۔
  18. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۴۲۹۔
  19. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۱۳۱
  20. ابن اثیر، اسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۹۶
  21. ابن اثیر، اسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۶۶۲،ابن اثیر، اسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۱۴۷

منابع

  • ابن اثیر، علی بن محمد، أسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م۔
  • ابن اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق: علی شیری، بیروت، دارالأضواء، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱م۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق: عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م۔
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق: علی محمدالبجاوی، بیروت، دارالجیل، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م۔
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویہ، تحقیق: مصطفی سقا و ابراہیم ابیاری و عبدالحفیظ شبلی، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا۔
  • بخاری، محمد بن إسماعيل، صحيح البخاری، محقق الناصر، محمد زہير بن ناصر، دمشق، دار طوق النجاۃ، چاپ اول، ۱۴۲۲ق۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، ۱۹۸۸م۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمدأبوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م۔
  • زرکلی، خیرالدین، الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت، دارالعلم للملایین، ۱۹۸۹م۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بی‌تا۔
تبصرے
Loading...