محمد بن علی نقی ؑ

محمد بن علی نقی(متوفی 252ھ) شیعوں کے دسویں امام، امام علی نقی علیہ السلام کے سب سے بڑے فرزند ہیں جو سید محمد اور اہل قریہ کی اصطلاح میں سبع الدجیل (مرد شجاع) کے نام سے معروف ہیں۔ روحانی اور اخلاقی عظمت اور منزلت کی وجہ سے شیعہ اور غیر شیعہ سب یہ گمان کرتے تھے کہ امام علی نقی علیہ السلام کے بعد منصب امامت ان کو ملے گا۔ لیکن امام علی نقیؑ کی زندگی میں ہی ان کی وفات نے اس گمان کو ختم کر دیا اور یہ واضح ہو گیا کہ امام علی النقیؑ کے بعد امامت امام حسن العسکریؑ کو ہی ملے گا۔

سید محمد کا روضہ عراق کے بلد نامی شہر میں واقع ہے جو امرا کے جنوب میں ۵۰ کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ آپ کا روضہ تمام شیعوں خاص طور پر عراق کے شیعوں میں بےحد مقبول زیارت گاہ ہے۔ ان کی بہت سی کرامات نقل ہوئی ہیں۔

سنہ 252ھ میں آپ بَلَد نامی شہر میں وفات پا گئے اور وہی پر مدفون ہیں۔ آپ کا روضہ پہلی بار چوتھی صدی ہجری میں تعمیر ہوا جس کے بعد مختلف ادوار میں علماء، مراجع اور بادشاہوں کے توسط سے اس کی تعمیر و توسیع ہوتی رہی ہے۔ جن میں سلسلہ آل بویہ بادشاہ عضدالدولہ دیلمی، سلسلہ صفویہ کے بادشاہ شاہ اسماعیل صفوی، چودہویں صدی ہجری کے مرجع تقلید میرزای شیرازی اور چودہویں صدی ہجری کے شیعہ محدیث میرزا حسین نوری کا نام قابل ذکر ہیں۔

سید محمد کی نسل آپ کے پوتے شمس‌الدین محمد جو میرسلطان بُخاری کے نام سے مشہور تھے، کے ذریعے آگے چلی۔ اسی طرح سادات آل بَعاج جو عراق اور ایران کے بعض مناطق میں زندگی بسر کرتے ہیں، آپ کی نسل سے ہیں۔

سید محمد کی زندگی اور کرامات کے بارے میں مختلف کتابیں بھی لکھی گئی ہیں؛ من جملہ ان میں محمدعلی اُردوبادی (۱۳۱۲-۱۳۸۰ھ)کی عربی زبان میں لکھی گئی کتاب “حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ” مشہور ہے جو فارسی میں “ستارہ دُجَیل” کے نام سے ترجمہ ہوا ہے۔

7 جولائی 2016ء کو شام کے وقت سید محمدؑ کا روضہ ایک دہشت گردانہ حملے کا شکار ہوا۔

زندگی‌نامہ

سید محمد امام ہادیؑ کے فرزند ارجمند ہیں۔[1] کہا جاتا ہے کہ آپ کی والدہ کا نام حدیث یا سلیل تھا۔[2] آپ کی پیدائش سنہ 228ھ کو مدینہ کے قریب صریا نامی جگہے پر ہوئی۔[3] سنہ 233ھ کو متوکل عباسی کے حکم پر جب امام ہادیؑ کو سامرا احضار کیا گیا تو سید محمد صریا ہی میں رہے۔[4] آپ کس سنہ ہجری کو سامرا اپنے والد گرامی کے پاس چلے گئے اس بارے میں کوئی دقیق معلومات میسر نہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ سنہ 252ھ کو سامرا سے مدینہ کی طرف چل نکلے[5] اور جب بلد نامی جگہے پر پہنچے تو بیماری کی وجہ سے فوت ہوگئے اور وہیں پر دفن ہوئے۔خطا در حوالہ: Closing missing for tag اسی طرح آپ سید محمد بعاج،[6] سَبع الدُّجَیل اور سَبع الجزیرہ کے القاب سے بھی ملقب تھے۔[7]

اولاد

چودہویں صدی ہجری کے مورخ شیخ عباس قمی نے سید حسن براقی (متوفی 1332ھ) سے نقل کیا ہے کہ آپ کی نسل آپ کے پوتے شمس‌الدین محمد (متوفی 832 یا 833ھ) کے ذریعے آگے چلی۔[8] شمس‌الدین کا نسب چار واسطوں سے سید محمد کے فرزند علی تک پہنچتا ہے اور چونکہ وہ بخارا میں متولد اور وہیں پر جوان ہوئے تھے میرسلطان بُخاری کے نام سے مشہور تھے اور ان کی اولاد بخاریوں کے نام سے معروف تھے۔[9] وہاں سے وہ بلاد روم چلے گئے اور شہر بروسا میں مقیم ہوئے اور وہیں پر مدفون ہیں۔[10] شیخ عباس قمی اسی طرح سید حسن براقی سے نقل کرتے ہیں کہ سید محمد بَعاج بھی سید محمد کی اواد میں سے تھے۔[11] کہا جاتا ہے کہ سادات آل بعاج جو میسان، ذی‌قار، واسط، قادسیہ، بغداد اور نجف اشرف[12] اسی طرح ایران کے شہر خوزستان وغیرہ میں آباد ہیں، بھی سید محمد کے فرزند علی اور احمد کی اولاد ہیں۔[13]

مقام و منزلت

شیعہ محقق باقر شریف قرشی(متوفی 1433ھ) کے مطابق سید محمد کے اخلاق اور ادب نے ان کو دوسروں سے ممتاز بنایا تھا۔[14] اسی بنا پر بعض شیعہ حضرات کا خیال تھا ک امام ہادیؑ کے بعد امامت کا منصب سید محمد کو ملے گا۔[15] سید محمد ہمیشہ اپنے بھائی امام حسن عسکریؑ کے ساتھ ہوا کرتے تھے[16] اور باقر شریف قرشی کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے ذمے لئے تھے۔[17] شیخ عباس قمی کے نقل کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی موت پر اپنے گریبان چاک کئے اور اس کام پر آپ پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں حضرت موسی کا اپنے بھائی حضرت ہارون کی موت پر گریبان چاک کرنے کے ساتھ استناد کرتے تھے۔[18]

تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مورخین سعد بن عبداللہ اشعری اور حسن بن موسی نوبختی کے مطابق شیعوں کی ایک جماعت نے امام ہادیؑ کی شہادت کے بعد سید محمد کی وفات سے انکار کرتے ہوئے ان کی امامت کے قائل ہو گئے اور سید محمد کو اپنے والد گرامی کا جانشین اور مہدی موعود قرار دیتے تھے؛ کیونکہ ان کے بقول امام ہادیؑ نے امامت کے لئے ان کی معرفی کی تھی اور چونکہ امام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا جائز نہیں اور بداء حاصل نہیں ہوا ہے پس حقیقت میں وہ ان کی موت نہیں ہوئی ہے اور ان کے والد امام ہادیؑ سے ان کو لوگوں کے گزند سے محفوظ کرنے کے لئے ان کو چھپایا ہے۔[19] یہ لوگ مذکورہ تمام باتوں پر عقیدہ رکھتے تھے حالانکہ سید محمد امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی اس دنیا سے چلے گئے تھے[20] اور امام ہادیؑ نے سید محمد کے وفات کے دن آپ کی خدمت میں تلسیت کے لئے آنے والے لوگوں کے سامنے امام حسن عسکریؑ کی امامت کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔[21] ایک حدیث کے مطابق اس وقت آپ کی خدمت میں آل ابی‌طالب، بنی‌ہاشم اور قریش وغیرہ کے 150 سے بھی زیادہ لوگ موجود تھے۔[22]

شیعہ محدیث میرزا حسین نوری(متوفی 1320ھ) کے مطابق سید محمد کے کرامات متواتر طور پر اور اہل سنت کے یهاں بھی مشہور ہیں؛ اسی بنا پر عراق کے لوگ ان کے نام کی قسم کھانے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اگر کسی شخص پر کسی چیز کے چرائے جانے کی تہمت لگائی جاتی تو اس چیز کو متعلقہ شخص کو دے دیتے ہیں لیکن سید محمد کی قسم نہیں کھاتے ہیں۔[23] بعض منابع میں سید محمد سے بعض کرامت نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ یہ کہ محمدعلی اردوبادی (۱۳۱۲-۱۳۸۰ھ) نے اپنی کتاب “حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ” میں ان کی تقریبا 60 کرامات کا ذکر کیا ہے۔[24]

وفات

سید محمد نے سن ۲۵۲ ھجری قمری میں خانہ خدا کی زیارت کے لئے سفر کا ارادہ کیا۔ جس وقت آپ بلد نامی قریہ (سامرا، عراق) کے پاس پہچے آپ کی طبیعت خراب ہو گئی اور ۲۹ جمادی الثانیۃ میں آپ نے وفات پائی۔ شیعوں نے آپ کو وہیں پر دفن کر دیا اور بعض نے آپ کو عباسیوں کی طرف سے زہر دینے کے احتمال کا ذکر بھی کیا ہے۔[25]

آپ کی وفات کے بعد امام علی نقیؑ نے آپ کے لئے مجلس ختم منعقد کی اور بعض بنی ہاشم جن میں حسن بن حسن افسط بھی شامل ہیں، نے نقل کیا ہے:

سید محمد کی وفات کے روز جب ہم امام علی نقیؑ کے بیت الشرف میں گئے تو دیکھا کہ صحن خانہ میں فرش بچھا ہوا ہے اور حلقہ بنائے ہوئے بیٹھے ہیں، ہم نے جمعیت کا اندازہ لگایا تو غلاموں اور دوسرے افراد کے علاوہ ۱۵۰ لوگ آل ابی طالب، بنی ہاشم اور قریش سے موجود اور شریک تھے کہ اچانک امام حسن عسکریؑ جن کا گریبان اپنے بھائی کی موت کی وجہ سے چاک تھا، وہاں وارد ہوئے اور اپنے والد ماجد کے پاس کھڑے ہو گئے، ہم حضرت کو نہیں پہچانتے تھے۔ کچھ دیر کے بعد امام علی نقیؑ نے ان کی طرف رخ کرکے فرمایا:
“یا بنی احدث للہ شکرا فقد احدث فیک امرا۔” ترجمہ: (اے بیٹا اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے یہ امر تمہارے سپرد کیا) امام حسن عسکریؑ نے گریہ کیا اور فرمایا: ” الحمد اللہ رب العالمین، ایاہ نشکر نعمہ علینا و انا للہ و انا الیہ راجعون۔” ترجمہ: (تمام حمد عالمین کے پروردگار کے لئے ہے، جو نعمتیں اس نے ہمیں عطا فرمائی ہیں، ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور بیشک اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔) میں نے پوچھا وہ کون ہیں؟ جواب ملا وہ امام علی نقیؑ کے بیٹے حسن عسکری ہیں۔ اس وقت ان کا سن ۲۰ سال کے قریب معلوم ہو رہا تھا تو ہم نے سمجھ لیا کہ اپنے والد امام علی نقیؑ کے بعد وہ ہمارے امام ہوں گے۔[26]

فرقہ محمدیہ

سید محمد کی وفات کے بعد بعض شیعوں نے جو ان کی امامت کے طرف دار تھے۔ انہوں نے کہا: ان کی وفات نہیں ہوئی ہے وہ زندہ ہیں۔ کیونکہ امام علی نقیؑ نے امامت کے لئے ان کا تعارف کرایا ہے اور جیسا کہ امام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا جائز نہیں ہے اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ بداء واقع ہوا ہے لہذا وہ امام کے جانشین ہیں اور ان کے والد نے لوگوں کی طرف انہیں گزند پہنچنے کے خوف سے چھپا دیا ہے۔[27]

امام زادہ سید محمد کا روضہ

امام زادہ سید محمد کا روضہ صلاح الدین ضلع کے شہر بلد میں واقع ہے جو شمال بغداد سے ۸۵ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اور آج وہ شیعوں کی ایک زیارت گاہ کے طور پر معروف ہے۔

اس روضہ کی اولین تعمیر کے سلسلہ میں واضح اطلاعات دسترس میں نہیں ہیں۔ البتہ جو تعمیراتی کام سن ۱۳۷۹ سے ۱۳۸۴ ھجری قمری کے درمیان انجام پائے ہیں ان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس روضہ کی سب سے پہلی عمارت کی چوتھی صدی ھجری میں عضد الدولہ دیلمی کے ہاتھوں انجام پائی ہے۔ اور اس کے بعد دوسری تعمیر دسویں صدی ہجری میں شاہ اسماعیل صفوی نے فتح بغداد کے بعد کرائی تھی۔

ضریح پر موجود ایک کتیبہ پر لکھا ہوا ہے:

یہ سید جلیل ابو جعفر سید محمد بن امام علی نقیؑ کا مرقد ہے جو عظیم الشان انسان تھے اور شیعوں کو یہ گمان تھا کہ امام علی نقیؑ کے بعد عہدہ امامت ان تک پہچے گا اور جب ان کی رحلت ہو گئی تو امام علی نقیؑ نے امام حسن عسکریؑ کی امامت کی طرف اشارہ فرمایا۔ جس وقت امام ہادیؑ مدینہ سے سامرا کی طرف جا رہے تھے اس وقت سید محمد ایک کم عمر بچہ تھے اور بعد میں جب وہ بلوغ کی منزل میں پہچے تو انہوں نے سامرا کا سفر کیا اور کچھ عرصہ وہاں رہے اور اس کے بعد انہوں نے مدینہ واپسی کا قصد کیا اور جب سامرا سے ۹ فرسخ کے فاصلہ پر بلد نامی دیہات تک پہچے تو بیمار پڑ گئے اور وہیں آپ کی وفات ہو گئی۔[28]

دہشت گردانہ حملہ

۱۷ تیر ۱۳۹۵ شمسی بمطابق 7جولائی2016 میں شام کے وقت سید محمدؑ کا روضہ ایک دہشت گردانہ حملہ کا شکار بنا۔ داعش نامی دہشت گرد گروہ کے افراد نے پہلے تو روضے پر دور سے گولے برسائے پھر اس کے بعد کچھ دہشت گردوں نے روضہ کے نزدیک خودکش حملہ کے ذریعہ خود کو بم باندھ کر اڑا دیا۔[29]

کرامات

سید محمد کی طرف بہت سی کرامات دیکھنے میں آئیں ہیں۔ میرزا حسین نوری نے اپنی کتاب النجم الثاقب میں تحریر کیا ہے:

سید محمد، صاحب کرامات متواتر ہیں۔ حتی وہ اہل سنت کے یہاں بھی شہرت رکھتے ہیں۔ عراق کے لوگ حتی بادیہ نشین ان کے نام کی قسم کھانے سے ڈرتے ہیں۔ اگر ان پر مال کی چوری کا الزام لگایا جائے تو وہ مال تو واپس کر دیتے ہیں لیکن سید محمد کی قسم نہیں کھاتے۔

بعض علمائ نے سید محمد کی کرامات کے سلسلہ میں کتابیں تالیف کی ہیں؛ منجملہ ان میں سے ایک فارسی کتاب ہے جس کا نام یہ ہے: رسالہ ای در کرامات سید محمد بن علی الہادی، جس کے مولف مہدی آل عبد الغفار کشمیری ہیں۔ یہاں پر ان کی کرامات کے ایک نمونہ کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ علامہ سید میرزا ہادی خراسانی، سید حسن آل خوجہ سے جو امامین عسکریین کے روضہ کے خادم تھے، نقل کرتے ہیں:

وہ کہتے ہیں کہ میں ایک روز ابو جعفر سید محمد کے روضہ مبارک کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا کہ متوجہ ہوا کہ ایک عرب شخص جس نے اپنا ایک ہاتھ اپنی گردن کے پیچھے کی طرف کیا ہوا تھا، روضہ میں وارد ہوا تو میں اس کے نزدیک گیا اور اس سے اس کی بیماری کی علت کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے کہا کہ میں گزشتہ سال ایک روز اپنی بہن کے گھر گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے صحن میں ایک گوسفند بندھا ہوا ہے، میں نے چاہا کہ اسے ذبح کرکے کھایا جائے میری بہن ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی اور کہا کہ یہ گوسفند سید محمد کی نذر ہے۔ میں اس کی باتوں پر توجہ نہیں دی اور اسے ذبح کر ڈالا۔ تین دن کے بعد سے میرے ہاتھ میں لقوے کے آثار نمایاں ہونے لگے اور دن بہ دن وہ بڑھنے لگا میں اس کی علت کی طرف متوجہ نہیں تھا یہاں تک کہ ادھر میں اس کی طرف متوجہ ہوا اور میں پشمیان ہوں اور شفا کے لئے یہاں سید محمد کے روضہ پر آیا ہوں۔ اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ روضہ میں داخل ہوا اور گریہ و زاری کرنے لگا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں حرکت پیدا ہو گئی ہے۔ اس نے سجدہ شکر ادا کیا اور اس کے نذر مانی کہ ہر سال ایک گوسفند لا کر سید محمد کی طرف سے اسے ذبح کرے گا۔[30]

سید محمد کے سلسلہ میں کتاب

حیات و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الهادیؑ نام کی ایک کتاب جس کے مولف محمد علی اردو بادی (۱۳۱۲۔۱۳۸۰ ق) ہیں اور جو عربی زبان میں سید محمد کی سوانح عمری کے سلسلہ میں تالیف کی گئی ہے اور اس کا فارسی ترجمہ ستارہ دجیل کے نام سے علی اکبر مہدی پور کے مقدمہ کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اس کتاب کے آخر میں ایک ضمیمہ (ص ۱۴۳ سے ۱۹۹) شامل کیا گیا ہے جس میں مولف کتاب اور ان کی اولاد کی سوانح حیات کے ساتھ سید محمد پر کتاب نامہ اور ان کا زیارت نامہ موجود ہے۔ یہ کتاب دو حصوں میں تدوین کی گئی ہے۔ مصنف نے پہلے حصہ میں امام زادہ سید محمد کی زندگی کے مراحل کی تبیین کی ہے اور دوسرے حصہ میں ان کی کرامات کا ذکر کیا ہے۔

فوٹو گیلری

حوالہ جات

  1. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۱۱-۳۱۲۔
  2. بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۲۔
  3. بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۲۔
  4. بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۲۔
  5. بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۴۔
  6. ملاحظہ کریں: حرزالدین، مراقد المعارف، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۲۶۲۔
  7. بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۲۔
  8. قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۸۹۳۔
  9. حسینی مدنی، تحفۃ الازہار، التراث المکتوب، ج۳، ص۴۶۱-۴۶۲۔
  10. حسینی مدنی، تحفۃ الازہار، التراث المکتوب، ج۳، ص۴۶۱-۴۶۲۔
  11. قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۸۹۳۔
  12. بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۱۰۔
  13. حرزالدین، مراقد المعارف، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۲۶۲(پانویس۲)۔
  14. قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔
  15. قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۸۹۱؛ قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔
  16. اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ص۲۱۔
  17. قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔
  18. قمی، سفینۃ البحار، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۴۱۰؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۰، ص۵۔
  19. اشعری قمی، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱؛ نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۴۰۴ق، ص۹۴۔
  20. اشعری، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱۔
  21. مجلسی، بحارالانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۶۔
  22. مجلسی، بحارالانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۵۔
  23. نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۲۷۲۔
  24. اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۵۰ بہ بعد۔
  25. قرشی زندگانی امام حسن عسکریؑ، ص:۳۰
  26. مجلسی، بحار الأنوار، ج‏۵۰، ص ۲۴۶
  27. اشعری قمی، المقالات و الفرق، ص۱۰۱
  28. احسان مقدس، ص۳۱۲
  29. خبرگزاری ابنا
  30. احسان مقدس ، ص۳۰۲.

مآخذ

  • احسان مقدس، راهنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، نشر مشعر
  • رجائی، مهدی، المعقبون، من آل ابی‌ طالب، موسسه عاشورا، قم، ۱۳۸۵ش
  • طوسی، محمد بن حسن،الغیبه، قم، دار المعارف الإسلامیة، ۱۴۱۱ق
  • قرشی، باقر شریف، زندگانی امام حسن عسکریؑ‏، ترجمه سید حسن اسلامی‏، قم‏، جامعه مدرسین‏، ۱۳۷۵ش‏
  • کلینی، محمد بن یعقوب ،اصول کافی ،تحقیق علی اکبر غفاری ،تهران، دارالکنب الاسلامیه، ۱۳۸۸ق
  • مجلسی، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، تهران‏، اسلامیة،۱۳۶۳ش
  • مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، ۱۴۱۳ق
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، تحقیق علی اکبر غفاری بیروت، دارالمعرفه، ۱۳۹۹ق
  • اشعری قمی، المقالات و الفرق، تصحیح محمد جواد مشکور، مرکز انتشارات علمی و فرهنگی، ۱۳۶۱ش
تبصرے
Loading...