محمد بن علی بن حمزہ طوسی

محمد بن علی بن حمزہ طوسی
کوائف
مکمل نام محمد بن علی بن حمزہ طوسی
لقب/کنیت عماد الدین،ابو جعفر
مدفن اطراف کربلا
علمی معلومات
تالیفات الوسیلۃ الی‌ نیل‌ الفضیلۃ.الواسطۃ،…
خدمات

عمادالدین‌ ابو جعفر محمد بن‌ علی‌ بن‌ حمزہ طوسی‌، مکتب امامیہ کے فقیہ ہیں جو پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں گزرے ہیں۔ صاحب‌ کتاب‌ الوسیلۃ اور ابن حمزہ طوسی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ابن‌ حمزہ‌ کو مکتب‌ شیخ طوسی میں سے شمار کرنا چاہئے۔ الوسیلہ میں ان کے فتاوا اور شیخ‌ طوسی‌ کے فتاوا کے مقائسے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے مکمل طور پر شیخ طوسی کے نظریات کو قبول کیا ہے۔

زندگی

ان کی زندگی‌، مشائخ‌ اور شاگردوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ سب سے پہلے ان کا نام منتجب‌ الدین‌ (متوفا بعد از ۶۰۰ ق‌) نے لیا کہ جس نے فہرست‌[1] میں ان کا نام بعنوان‌ فقیہ لیا اور الوسیلہ سمیت ان کے چند آثار کو انکی جانب منسوب کیا۔ چھٹی صدی ہجری کے فہرست نویس ابن شہرآشوب نے اگرچہ‌اس کا نام لیا لیکن مؤلف نے ایک کتاب بنام الوسائل‌ الی‌ نیل‌ الفضائل‌ کا نام‌ لیا جس کے متعلق مؤلف کو علم نہیں تھا[2] ہو سکتا ہے کہ یہ وہی ابن حمزہ کی الوسیلۃ الی نیل الفضیلۃ ہی ہو۔

ابن‌ حمزہ‌ کا شیخ طوسی اور سلار دیلمی‌ کو متوفا،[3] کہنا اور فہرست‌ منتجب‌ الدین‌ میں یہ ذکر ہونا کہ الوسیلہ ۵۸۴ق‌ سے پہلے تالیف ہوئی[4]، سے ظاہر ہوتا ہے کہ الوسیلہ کی تالیف ۴۶۳-۵۸۴ق‌ کے درمیانی سالوں میں تالیف ہوئی۔ اب اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ ابن‌ حمزہ‌ نے الوسیلہ میں ابن براج کے اثر قبول کرنے اور چھٹی صدی ہجری قمری کے آخری پچاس سالوں کے فقہا اور راوندی کے الوسیلہ سے استفادہ کرنے سے ممکن ہے کہ ابن حمزہ کی زندگی کے دورانیہ کو پانچویں صدی ہجری کے آخری پچاس سالوں اور چھٹی صدی ہجری کو معین کیا جائے آخری صدی کے مصادر میں کہا گیا ہے کہ ابن حمزہ کے نام کا مقبرہ کربلا کے اطراف میں موجود ہے۔[5]

فقہ ابن حمزہ

روش فقہی

ابن‌ حمزہ‌ کو مکتب‌ شیخ طوسی کا پیرو سمجھنا چاہئے کیونکہ الوسیلہ میں ان کے فتاوا اور شیخ طوسی کے فتاوا کے مقائسے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن حمزہ نے فقہی ابحاث میں مکمل طور پر شیخ طوسی کی پیروی کی ہے۔ اسی طرح ان فقہا میں سے شمار کرنا چاہئے کہ جنہیں حمصی‌ (چھٹی صدی ہجری قمری کے آخری پچاس سالوں کا فقیہ) نے شیخ‌ طوسی‌ کی فقہ‌ کا باب کھولنے والا قرار دیا اور حقیقت میں وہ شیخ طوسی کا پیرو کہا ہے۔ [6] البتہ یہ نظر میں رہنا چاہئے کہ ابن‌ حمزہ‌ نے بعض مقامات پر نظریات شیخ طوسی کی مخالفت بھی کی اور شاید بعض اوقات شیخ کے حکم میں تعادل قائم کرنے کی کوشش کی [7] بلکہ‌ ابن حمزہ نے فقہ میں ان نئی فروعات کا اضافہ کیا کہ جو شیخ طوسی کی کتب میں موجود نہیں تھیں۔[8]

ابن‌ حمزہ‌ کی فقہ میں نمایاں ترین چیز احکام بیان کرنے کی روش ہے۔ وہ پہلے مسئلے کی مختلف شقوں کو معین عدد کے ساتھ بیان کرتے ہیں پھر ایک ایک کر کے ان شقوق کی تفصیل بیان کی جاتی ہیں۔ انہوں نے واجب‌ و مستحب‌، حرام‌ و مکروہ‌ کی تقسیمات کو فعل‌ و ترک‌ و کمیت‌ و کیفیت‌ کے لحاظ سے ایک دوسرے کو تمیز دی اور ہر ایک کو جداگانہ ذکر کیا ہے۔ الوسیلہ کے مقدمے [9] میں ابن حمزہ کہتے ہیں: تقسیم بندی کی یہ روش حفظ احکام کی سہولت کا موجب بنے گی۔ اگرچہ‌ ابن‌ حمزہ‌ کو اس روش کا بانی نہیں کہا جا سکتا لیکن ابن حمزہ نے اس روش کو کمال تک پہنچایا ہے۔ فقہ‌ ابن‌ حمزہ‌ کے دیگر نمایاں کاموں میں بعض فقہی ابواب کے شروع میں انکی تعریفوں کا ذکر کرنا ہے۔ ابن حمزہ نے شیخ‌ طوسی‌ کے علاوہ دیگر معاصر فقہا سے بھی استفادہ کیا مثلاً چند مقامات[10] پر واضح طور پر نظریات‌ ابو یعلی‌ سلار دیلمی‌ کو نقل کیا[11] نیز وہ کسی حد تک ابن براج سے بھی متاثر ہے۔[12]

تأثیر فقہ

اگرچہ‌ چھٹی صدی ہجری قمری کے آخری پچاس سالوں میں ابن حمزہ کا نام نہیں آیا ہے لیکن اس زمانے کے آثار میں اسکے فقہی نظریات واضح مشہود ہیں۔ مقایسہ‌ بین‌ راوندی کی فقہ‌ القرآن‌ کے مندرجات کو الوسیلہ[13] سے ملائیں تو راوندی کا ابن حمزہ سے متاثر ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ راوندی نے نمازی کے لباس پر سؤر اور کتے کے خون کے حکم میں [14] ابن حمزہ کے شاذ فتوا کی تبعیت کی ہے۔ ابن زہرہ نے بھی الغنیۃ‌ میں کسی حد تک اس کی پیروی کی ہے۔ [15]

اسی طرح ابن‌ ادریس‌ نے السرائر کہ‌ جو ۵۸۷ – ۵۸۸ق‌ کی تالیف ہے، کو الوسیلہ میں کئی مقامات پر “بعض‌ کتب‌ اصحابنا” کہہ کر اس کا قول نقل کرتے اور اس کے اکثر نظریات‌ کو ایک طرح سے تنقید کرتے ہیں۔[16] البتہ‌ ابن‌ ادریس‌ کی نظر کئی مقامات پر نظر ابن‌ حمزہ‌ موافق‌ ہے۔[17]

شاذان بن جبرئیل قمی کا رسالہ ازاحۃ العلۃ فی‌ معرفۃ القبلۃ ظاہری طور پر الوسیلہ[18] کی تکمیل و تفصیل ہے۔ [19]

کتاب‌ الوسیلہ ساتویں صدی ہجری قمری میں مکتب‌ حِلّہ‌ میں بہت زیادہ توجہ کی حامل رہی۔ محقق حلی ابن‌ حمزہ‌ کا نام لئے بغیر الوسیلہ کو خاص طور پر عبادات کے حصے میں مورد قبول قرار دیتے ہیں بلکہ فصلوں کی تقسیم بندی، عناوین ابواب، بیان مسائل اور کبھی بیان مطالب میں ابن حمزہ کی پیروی ہی نہیں کرتے بلکہ‌ کسی حد تک اس کے نظریات کے تحت تاثیر بھی ہیں جبکہ یحیی بن سعید حلی نے نزہۃ الناظر[20] اور آبی‌ نے کشف‌ الرموز،( سال تألیف‌ ۶۷۲ق‌)[21] ابن‌ حمزہ‌ کے نام کی تصریح‌ کی اور اس کے فتاوا نقل کئے ہیں۔

حلہ‌ کے فقہی آثار میں سے علامہ حلی کی مختلف الشیعۃ وہ کتاب ہے جس میں ابن حمزہ کا ذکر اپنے عروج کو چھوتا ہے۔ علقمی کے تاج الدین ابن صلایا کو لکھے گئے خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ ساتویں صدی ہجری قمری میں شیعیان عراق خاص طور پر حلہ میں الوسیلہ رائج ترین کتاب تھی۔[22]

آثار

  1. الوسیلۃ الی‌ نیل‌ الفضیلۃ: یہ کتاب‌ الجوامع‌ الفقہیۃ کے ہمراہ تہران‌ سے (۱۲۷۶ق‌)، نجف‌ سے ۱۳۹۹ق‌ میں عبد العظیم‌ البکاء کی کوشش سے اور قم سے ۱۴۰۸ ق‌ میں محمد حسون‌ کی کوشش سے چاپ ہوئی۔
  2. الواسطۃ: اس کتاب کو منتجب‌ الدین‌[23] نے ابن حمزہ کی طرف نسبت دی ہے۔ الوسیلہ کے موجود نسخوں میں کچھ اضافات موجود ہیں [24] لیکن ص۴۶۶ کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب الواسطہ کا کچھ حصہ ہے۔
  3. المعجزات‌: اس کتاب کی بھی منتجب‌ الدین‌[25] نے ابن حمزہ کی طرف نسبت دی ہے اور بعض اسے الثاقب فی المناقب ہونے کی بنا پر صاحب‌ الوسیلہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
  4. الرائع‌ فی‌ الشرائع‌[26]
  5. مسائل‌ فی‌ الفقہ‌:[27]
متأخرین‌ میں سے صیمری کے ایک شاگرد نے کسی مستند کے بغیر التعمیم‌ اور التنبیہ‌ کو بھی ابن حمزہ سے منسوب کیا ہے۔[28]

حوالہ جات

  1. فہرست‌ اسماءِ علماءِ الشیعہ، ص۱۶۴
  2. معالم العلماء، ص۱۴۵
  3. فہرست‌ اسماءِ علماءِ الشیعہ، ص۱۸۰-۱۸۱، مختلف جگہوں پر
  4. نک: مقدمہ فہرست‌ اسماءِ علماءِ الشیعہ، ص۴۸
  5. الذریعہ، ج۱۰، ص۶۶؛ تأسیس‌ الشیعہ، ص۳۰۵
  6. نک: کشف‌ المحجہ، ص۱۲۷
  7. جیسے وضو میں کلی کرنے کے استحباب کو ناک میں پانی ڈالنے کے استحباب پر مقدم کرنا، نک: المختلف‌، ص۲۶، سطر
  8. نمونہ کے طور نک: الوسیلہ، ص۲۴۴؛ قس‌: المختلف، ج۲، ص۱۸۳، سطر ۱۲
  9. ص‌ ۴۲-۴۳
  10. الوسیلہ، ص۱۴۱، ۱۴۴، ۱۸۰
  11. قس‌: المراسم، ص۱۲، سطر ۱، ۱۷، ۱۸، و ص۱۴، سطر ۲۰
  12. بہ‌ عنوان‌ نمونہ‌ قس‌: بین‌ المہذب‌،ج۱، ص۱۹- ۲۵ و الوسیلہ، ص۷۲-۷۶، در احکام‌ آبہا و اَسئار
  13. بہ‌ عنوان‌ نمونہ‌ قس‌: فقہ‌ القرآن‌، ج۱، ص۱۸۹- ۱۹۹ و الوسیلۃ، ص۱۴۴-۱۴۶؛ فقہ‌ القرآن‌، ج۲، ص۵۸ و الوسیلۃ‌، ص۲۶۵؛ فقہ‌ القرآن‌، ج۲، ص۲۱۱و۲۱۲ و الوسیلۃ‌، ص۳۴۰ و ۳۴۲
  14. نک: السرائر، ص۳۵، سطر ۲۹؛ قس‌: الوسیلۃ، ص۷۷
  15. بہ‌ عنوان‌ نمونہ‌ قس‌: بین‌ الغنیہ، ص۴۰، ۴۳، ۴۴ و الوسیلہ، ص۱۱۲-۱۱۴، ۱۲۱
  16. بہ‌ عنوان‌ نمونہ‌ السرائر، ص۳۵، سطر ۴، ص۳۸، سطر ۷؛ قس‌: الوسیلہ، ص۷۶ و ۷۷
  17. نک: الوسیلہ، ص۲۸۲، سطر ۵؛ السرائر، ص۱۷۳، سطر ۲۱؛ قس‌: نزہۃ النواظر، ص۸۹
  18. ص‌ ۸۵ -۸۶
  19. نک : المبسوط، ج۱، ص۷۷- ۷۸ یہ مطلب ابن‌ حمزہ‌ و شاذان‌ کے یہاں مورد الہام‌ قرار پایا ہے۔
  20. ص‌ ۶، مختلف جگہیں
  21. ج۱، ص۴۰، مختلف مقامات
  22. نک: طبقات‌ الشافعیہ الکبری، ج۸، ص۲۶۵
  23. فہرست‌ اسماءِ علماءِ الشیعہ، ص۱۶۴
  24. الوسیلہ، ص۴۶۱- ۴۶۹
  25. فہرست‌ اسماءِ علماءِ الشیعہ، ص۱۶۴
  26. فہرست‌ اسماءِ علماءِ الشیعہ، ص۱۶۴
  27. فہرست‌ اسماءِ علماءِ الشیعہ، ص۱۶۴
  28. ریاض‌ العلماء، ج۵، ص۱۲۳

مآخذ

  • آبی‌، حسن‌، کشف‌ الرموز، قم‌، ۱۴۰۸ق‌.
  • آقا بزرگ‌، الذریعہ.
  • ابن‌ ادریس‌، محمد، السرائر، تہران‌، ۱۲۷۰ق‌.
  • ابن‌ براج‌، عبد العزیز، المہذب‌، قم‌، ۱۴۰۶ق‌.
  • ابن‌ حمزہ‌، محمد، الوسیلہ، تحقیق محمد حسون‌، قم‌، ۱۴۰۸ق‌.
  • ابن‌ داوود، حسن‌، الرجال‌، تحقیق جلال‌ الدین‌ محدث‌، تہران‌، ۱۳۸۳ق‌.
  • ابن‌ زہرہ‌، حمزہ بن‌ علی‌، «الغنیہ»، ضمن‌ الجوامع‌ الفقہیہ، تہران‌، ۱۲۷۶ق‌.
  • ابن‌ شہرآشوب‌، محمد، معالم‌ العلماء، نجف‌، ۱۳۸۰ق‌/۱۹۶۱ع
  • ابن‌ طاووس‌، علی‌، کشف‌ المحجۃ، نجف‌، ۱۳۷۰ق‌/۱۹۵۰ع
  • افندی، عبداللہ‌، ریاض‌ العلماء، تحقیق احمد حسینی‌، قم‌، ۱۴۰۱ق‌.
  • امین‌، محسن‌، اعیان‌ الشیعہ، بیروت‌، ۱۴۰۳ق‌.
  • حر عاملی‌، محمد، امل‌ الامل‌، تحقیق احمد حسینی‌، بغداد، ۱۳۸۵ق‌.
  • راوندی، سعید، فقہ‌ القرآن‌، تحقیق احمد حسینی‌، قم‌، ۱۳۹۷ق‌.
  • سبکی‌، عبد الوہاب‌، طبقات‌ الشافعیہ الکبری، تحقیق عبد الفتاح‌ محمد الحلو و محمود محمد الطناحی‌، قاہرہ‌، ۱۹۷۱ ع
  • سلار دیلمی‌، ابو یعلی‌، «المراسم»، ضمن‌ الجوامع‌ الفقہیہ، تہران‌، ۱۳۷۶ق‌.
  • شاذان‌ بن‌ جبرئیل‌ قمی‌، «ازاحہ العلہ فی‌ معرفہ القبلہ»، ضمن‌ بحار الانوار، ج۷۳، ص۸۱- ۸۵.
  • صدر، حسن‌، تأسیس‌ الشیعہ، بغداد، شرکہ النشر و الطباعہ العراقیہ.
  • طباطبایی‌، عبد العزیز، مقدمہ فہرست‌.
  • طوسی‌، محمد، المبسوط، تحقیق محمد تقی‌ کشفی‌، تہران‌، ۱۳۸۷ق‌.
  • طوسی‌، محمد، «النہایہ»، ضمن‌ الجوامع‌ الفقہیہ، تہران‌، ۱۲۷۶ق‌.
  • علامہ حلی‌، حسن‌، المختلف‌، تہران‌، ۱۳۲۴ق‌.
  • محقق‌ حلی‌، جعفر، شرائع‌ الاسلام‌، تحقیق عبد الحسین‌ محمد علی‌، نجف‌، ۱۳۸۹ق‌/ ۱۹۶۹ ع
  • منتجب‌ الدین‌، علی‌، فہرست‌ اسماءِ علماءِ الشیعہ، تحقیق عبد العزیز، طباطبایی‌، قم‌، ۱۴۰۴ق‌.
  • نجاشی‌، احمد، الرجال‌، تحقیق موسی‌ شبیری، قم‌، ۱۴۰۷ق‌.
  • یحیی‌ بن‌ سعید حلی‌، نزہۃ الناظر، تحقیق احمد حسینی‌ و نور الدین‌ واعظی‌، نجف‌، ۱۳۸۶ق‌.

بیرونی روابط

تبصرے
Loading...