محمد بن ابی بکر

محمد بن ابی بکر بن ابی‌قحافہ، امام علیؑ کے نہایت ہی قریبی اور خاص اصحاب میں سے تهے اور آپ ؑ کے دور خلافت میں مصر کے گورنر منصوب ہوئےـ

آپ خلیفہ اول اور اسماء بنت عمیس کے فرزند تهے اور ابوبکر کی رحلت کے بعد جب امام علی ؑ نے اسماء بنت عمیس سے شادی کی تو اپنی ماں کے ساتھ امام علیؑ کے گھر آگئے اور وہیں انکی پرورش ہوئی۔ امام علیؑ اور ان کے درمیان اس قدر محبت اور الفت قائم ہوئی تھی کہ امام علیؑ انہیں اپنی اولاد کی طرح جانتے تھے۔ امام علیؑ کے نزدیک ان کے مقام و منزلت کو پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک ابوذر کے مقام و منزلت کی طرح قرار دیا گیا ہے۔

محمد بن ابی بکر خلیفہ سوم کے اقدامات کے سرسخت مخالفین میں سے تھے۔امام علیؑ کے دور خلافت میں شرطۃ الخمیس میں سے تهے اور جنگ جمل اور جنگ صفین میں امام علیؑ کی فوج کے سپہ سالاروں میں سے تهے۔ حدیثی اور تاریخی منابع میں ان کی تعریف و تمجید کی گئی ہے۔ آخر کار انہیں معاویہ کے لشکر کی جانب سے مصر پر کئے گئے حملے میں شہید کیا گیا۔

تاریخ پیدائش اور حسب و نسب

محمد بن ابی بکر حجۃ الوداع کے سال ذوالقعدۃ کے مہینے میں پیدا ہوئے۔[1] آپ پیغمبر اکرمؐ کے سفر حج کے دوران ذی الحلیفہ (مکہ کے راستے میں مسجدالنبی سے آٹھ کیلو میٹر کے فاصلے پر) کے مقام پر پیدا ہوئے۔ [2]

انکی کنیت ابوالقاسم تھے اسی بنا پر وہ پیغمبرؐ کے ہم نام تھے۔

انکے والد ابوبکر، مسلمانوں کے پہلے خلیفہ تھے۔ ابھی وہ دو سال اور چند مہینے کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوا۔ ان کی ماں اسماء بنت عمیس صدر اسلام کے مسلم خواتین میں سے تھیں آپ ابتدا میں جعفر بن ابی طالب کی عقد میں تهیں لیکن ان کی شہادت کے بعد آپ نے ابوبکر سے شادی کی تهی جس کے نتیجے میں محمد بن ابی بکر متولد ہوئے۔[3]

امام علیؑ کے گھر میں پرورش پانا

ابوبکر، کی وفات کے بعد اسماء بنت عمیس نے حضرت علیؑ سے شادی کی یوں محمد بن ابی بکر بھی اپنی ماں کے ہمراہ حضرت علیؑ کے گھر آگئے۔[4]

حضرت علیؑ کے زیر سایہ ان کی پرورش ہونے لگی یوں وہ قریب سے آنحضرت کی زندگی اور سیرت سے آشنا ہوئے اسطرح ان میں حضرت علیؑ سے والہانہ محبت اور الفت پیدا ہوئی۔ حضرت علیؑ کو بھی ان سے اتنی ہی لگاؤ تهی اور اسے “صلب ابوبکر سے اپنا بیٹا” قرار دیتے تھے۔[5] نہج البلاغہ میں اسی حوالے سے آپ یوں فرماتے ہیں:

وہ (محمد) میرا دوست ہے چونکہ اسے اپنی اولاد کی طرح میں نے تربیت دی ہے۔[6]

شخصیت اور اعتقادات

اکثر مورخین نے محمد بن ابوبکر کو نیک اور اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہوئے انہیں صداقت، دیانت اور نجابت کا مصداق قرار دیئے ہیں۔ [7] ان کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے لوگوں سے درخواست کر رکھا تها کہ اگر ان سے حق کے خلاف کوئی کام سرزد ہو جائے تو انہیں تذکر دیا جائے۔[8]

شیعہ منابق حدیثی میں محمد بن ابی بکر کی توصیف کی گئی ہے چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ: ” وہ [محمد] اگر چہ اہل بیت میں سے نہیں تھا، لیکن اہل بیت کی طرح نجیب تھا اور اپنے خاندان میں سب سے نیک سیرت اور پاکیزہ کردرا کے مالک تھے۔” [9] اسی طرح امام علیؑ نے ان کے بارے میں فرمایا:

“خدا محمد پر اپنی رحمتیں نازل کرے چونکہ انہوں نے جتنا ہو سکتا تھا اپنا وظیفہ انجام دینے کی کوشش کیا۔” [10] حضرت علیؑ کے نزدیک ان کے مقام و منزلت کو پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک ابوذر غفاری کے مقام و منزلت کے ساتھ مقایسہ کیا گیا ہے۔ وہ حضرت علیؑ کے حواریوں میں سے تھے۔[11]

خلفائے ثلاثہ کے بارے میں محمد بن ابی بکر کا نظریہ یہ تھا کہ انہوں نے خلافت کے حوالے سے حضرت علیؑ کو نظرانداز کئے اور خصوصا حضرت عثمان کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ انہوں نے احکام خداوندی اور حضرت محمد ؐ کی سنت سے روگردانی کی۔[12] حضرت علیؑ کے بارے میں اس کا اعتقاد تھا کہ آپؑ پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لانے والا پہلا شخص تھا اور ہر حوالے سے جب بھی ضرورت پڑی آپؐ کی مدد کیلئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر تیار رہے۔ اسی طرح وہ معاویہ اور بنی امیہ کو غاصب جانتے تھے جنہوں نے ریاکاری اور طاقت کے بل بوتے پر اسلام میں شگافت پیدا کئے۔ محمد بن ابی بکر معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے خدا کی راہ میں جنگ تصور کرتے تھے۔[13]

سیاسی سرگرمیاں

خلیفہ سوم کا دور خلافت

محمد بن ابی بکر کی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز خلیفہ سوم عثمان کے دور خلافت سے شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ بعض مغربی مورخین نے انہیں عثمان کی قتل میں ملوث قرار دیئے ہیں[14]، لیکن حقیقت میں مختلف دلائل کی بنا پر یہ بات درست دکهائی نہیں دیتی۔ منجملہ یہ کہ اسوقت انکی عمر فقط 13 سال تهی اس کے علاوہ صدر اسلام کی تاریخی منابع میں بھی کہیں پر اس بات کا تذکرہ نہیں ملتا ہے ہے۔

محمد بن ابی بکر خلیفہ سوم کے دور خلافت میں دوران نوجوانی سے گذر کر جوانی کے مرحلے میں قم رکھتے ہی مشرکین کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں میں اسلام کے سپاہی کے عنوان سے شرکت کرنے لگا اور خلیفہ سوم کی مخالفت بھی انہی جنگوں میں سے ایک جنگ “صواری”[15] سے شروع ہوئی۔ اس جنگ میں عثمان نے نیوی فورس کی کمان عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کے سپرد کیا حالنکہ پیغمبر اکرم کے دور میں آپؐ نے اس کا خون مباح قرار دیتے ہوئے اسے حجاز کی طرف جلاوطن فرمایا تھا اور قرآن[16] میں بھی اس کی کفر کی تصریح کی گئی ہے۔ محمد بن ابی بکر نے عثمان کے اس اقدام اور پیغمبر اکرم کے صحابہ کو نظر انداز کرنے پر عثمان کی مخالفت کی۔[17]

اس کے علاوہ انہوں نے عثمان کے دور خلافت کے آخری ایام میں مختلف مواقع پر ان کی مخالفت کی منجملہ یہ کہ: اصحاب کے درمیان عدالت اور انصاف کی رعایت نہ کرنا؛ کیونکہ عثمان نے اپنے قوم و قبیلے کے بہت سارے لوگوں جیسے مروان بن حکم کو حکومت کے کلیدی عہدے پر منصوب کیا جبکہ پیغمبر اکرم کے بڑے بڑے اصحاب کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ اسی طرح سنت پیغمبر اکرم پر عمل نہ کرنا اور اقرباء پروری اور ذاتی مصلحتوں کی بنا پر حکومتی عہوں کی تقسیم بھی ان موارد میں سے ہیں جن میں انہوں نے خلیفہ کی مخالفت کی ہیں۔[18]

عثمان کے قتل میں محمد بن ابی بکر کا کردار

خلیفہ سوم کے اقدامات سے تنگ آکر آخر کار مسلمانوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا جو 40 دن یعنی 7 ذوالقعدۃ سے 18 ذوالحجہ سنہ ۳۵ ہجری تک جاری رہا[19]، اس دوران محمد بن ابی بکر نے قریب سے حالات پر گہری نظر رکھا اور اپنے عقیدے کے مطابق عثمان کی مخالفت پر اصرار کرتا رہا۔ البتہ آیا عثمان کے قتل میں اس کا بھی کوئی کردار تھا یا نہیں اس حوالے سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں وہ کچھ یوں ہے:

  • بعض مورخین کا خیال ہے کہ محمد بن ابی بکر نے چند دیگر افراد کے ساتھ خلیفہ پر حملہ کیا اور پہلی تلوار خود انہوں نے ہی چلائی تھی اس کے بعد دوسرے افراد نے بھی وار کرکے عثمان کو قتل کیا۔[20]
  • اس حوالے سے دوسرا نظریہ یہ ہے کہ محمد بن ابی بکر مزید 13 افراد کے ساتھ مل عثمان کے پاس گیا اور اسلامی حکومت کے مختلف مناطق میں اس کے منصوب کردہ والیوں پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے ساتھ موجود 13 افراد میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا وہ عثمان کو قتل کرے۔[21]
  • اس حوالے سے تیسرا نظریہ یہ ہے کہ اگرچہ محمد بن ابی بکر عثمان کے مخالفین میں سے تھے اور ان کے گھر کے محاصرے کے دوران بھی وه پیش پیش تھے لیکن وہ عثمان کے قاتلین میں سے نہیں تھے بلکہ عثمان کے پاس سے ان کے چلے جانے کے بعد دوسرے افراد نے عثمان پر وار کرکے انہوں قتل کیا۔[22] تیسرے نظریے کے صحیح ہونے پر مختلف قرائن اور شواہد بھی موجود ہیں۔[23]

امام علیؐ کا دوران خلافت

محمد بن ابی بکر امام علیؑ کے دوران خلافت میں شرطۃ الخمیس میں سے تھے۔[24]

جنگ جمل میں ان کے خدمات

جنگ جمل کے حوالے سے محمد بن ابی بکر کا عقیدہ تھا کہ ناکثین اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے عثمان کی خونخواہی کو صرف ایک بہانہ بنا رہے تھے لھذا ان کے بارے میں وہ کہتے تھے:
“خدا کی قسم خود انہی کی علاوہ کوئی اور عثمان کا قاتل نہیں ہے۔”[25]

جب جنگ شروع ہوئی اور دونوں لشکر حملے کیلئے تیار ہوئے تو امام علیؐ نے محمد بن ابی بکر کو اپنی لشکر کے ایک گروہ کا کمانڈر بنایا۔ انہوں نے اس جنگ میں شجاعت کے جوہر دکھائے اور “ثور بن عدی” جو لشکر جمل کے کمانڈروں میں سے ایک تھا، کو ہلاک کیا۔[26] جنگ کے بعد انہوں نے جنگ میں شکست کھانے والوں کے ساتھ انصاف نہایت ہی انصاف سے برتاؤ کیا چنانچہ عبداللہ بن زبیر کو جو اس جنگ کے مسببین اور سرکردگان میں سے تھے اور میدان جنگ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے، امام علیؑ کے پاس جا کر ان کی سفارش کی اور انہیں اپنی بہن عایشہ کے ہاں لے گئے۔[27] اس کے بعد امامؑ کے حکم سے اپنی بہن عایشہ کو نہایت ہی احترام کے ساتھ بصرہ کے دیگر چالیس عورتوں کے ساتھ مکہ پھر وہاں سے مدینہ لے گئے۔[28]

جنگ صفین میں ان کے خدمات

اگرچہ جنگ صفین شروع ہونے سے پہلے محمد بن ابی بکر امام علیؑ کی طرف سے مصر کی گورنری پر منصوب ہوئے تھے لیکن بعض قرائن و شواہد اس بات کے اوپر دلالت کرتی ہیں کہ محمد بن ابی‌بکر نے اس جنگ میں امام‌ؑ کی لکشر میں معاویہ کے خلاف جنگ لڑی ہے۔[29] امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ جنگ صفین میں قریش کے پانچ اشخاص امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے ہمراہ تھے کہ محمد بن ابی بکر ان میں سے ایک ہے۔[30]

آپ جنگ کے موقع پرحسنین (علیہماالسلام) کے ساتھ امام علیؑ کے رکاب میں جنگ لڑ رہے تھے اور آپؑ نے اپنی فوج کے پیادہ نظام یا دوسری قول کی بنا پر آپ نے اپنی فوج کے میسرہ کی کمانڈ محمد بن ابی بکر کے سپرد فرمایا۔[31]

بعض منابع کے مطابق جنگ کے دوریان جب معاویہ نے عبیداللہ بن عمر کو منظم سپاہیوں کے ساتھ امام علیؑ کے ساتھ جنگ کیلئے بھیجا تو امامؑ نے محمد بن ابی بکر کو بعض سپاہیوں کے ساتھ جنگ میں بھیجا یہاں تک کہ دونوں طرف کے بہت سارے سپاہی مارے گئے۔[32]

مصر کی گورنری

امام علیؑ نے ماہ رمضان‌ سنہ ۳۶ ہجری کو محمد بن ابی بکر کو مصر کی گورنری پر منصوب فرمایا۔[33] اکثر منابع اس بات پر متفق ہیں کہ محمد بن ابی بکر مالک اشتر سے پہلے مصر کی گورنری پر منصوب ہوا تھا۔[34] مختلف تاریخی قرائن و شواہد کی رو سے پتہ چلتا ہے کہ مصر کی حکومت امام علیؑ کی دوران خلافت کے ابتدائی ایام میں قیس بن سعد بن عبادہ کے ہاتھ میں تھی پهر ان کے بعد یہ حکومت محمد بن ابی بکر کے پاس پہنچی اور جب ان پر مصر کی حکومت کو چلانا مشکل ہوا تو امام علیؑ نے مالک اشتر کو مصر کی گورنری پر منصوب فرمانے کا ارادہ فرمایا۔[35]

  • مصر کی حکومت میں درپیش مسائل

مصر کی گورنری میں جن مسائل سے محمد بن ابی بکر دوچار تھے ان میں سے پہلا مسئلہ گوشہ نشینی اختیار کرنے والا طبقہ تھا۔ یہ وہ افراد تھے جو عثمان کے قتل ہونے کے بعد ان کے خون کا بدلہ لینے اور ان کی غم میں اظہار ہمدردی کی قصد سے مصر کے ایک علاقے بنام “خربتا” میں گوشہ نشینی اختیار کیں اور امام علیؑ کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ محمد بن ابی بکر نے مصری میں پہنچنے کے ایک مہینے بعد امام علیؑ کے حکم پر ان افراد کے نام ایک خط لکھا جس میں انہیں گوشہ نشینی ترک کرکے ان کی بیعت کرنے یا مصر سے خارج ہونے کی درخواست کی۔ انہوں نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا اور جواب دیا: “ہم سے جنگ کرنے میں جلد بازی نہ کی جائے” [36] ، اس پر محمد بن ابی بکر نے ایک مدت تک ان کے ساتھ نرمی سے پیش آیا یہاں تک کہ جنگ صفین اپنے اختتام کو پہنچی۔ شروع میں یہ لوگ بھی محمد سے آمنا سامنا ہونے سے ڈرتے تھے لیکن جنگ صفین کے اختتام پر حکمیت کے مسئلے کی وجہ سے جب حالات دگرگون ہوئے تو ان میں بهی اسلامی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی جرئت پیدا ہو گئی۔

بعد میں ان کے ساتھ مختلف جنگیں لڑی گئیں جن میں محمد بن ابی بکر کو ظاہرا شکست سے دوچار ہونا پڑا یوں محمد بن ابی بکر کو اندازہ ہو گیا کہ ان کے فتہ انگیزی کو ختم کرنا ان کی بس کی بات نہیں ہے یوں انہوں نے ان سے صلح کیا اور مخالفین اس بات کو قبول کیا کہ وہ “فسطاط” مصر کی حکومت کا دار الحکومت میں داخل نہیں ہونگے۔ اس کے بعد یہ گروہ معاویۃ بن ابی سفیان کے تحت کنٹرول مناطق میں کوچ کرگئے اور آخر کار معاویہ سے جا ملے۔[37]

مصر کے حالات کی دگرگونی اور اس گوشہ نشینی اختیار کرنے والے گروہ کو تسلیم کروانے میں ناکامی اور بعد مصریوں کی جانب سے محمد بن ابی بکر کی کمسن اور ناپختگی کی شکایت کی وجہ سے امام علیؑ ارادہ فرمایا کہ مصر پر ایک قدرت مند اور تجربہ کار گورنر کو منصوب کرنے کا ارادہ فرمایا یوں آپ نے مالک اشتر کو مصر کی گورنری پر منصوب کرکے انہیں مصر کی طرف روانہ فرمایا۔[38]

اگر چہ مالک اشتر مصر پہنچنے سے پہلے “قلزم” نامی جگہے پر معاویہ کے کارندوں کے ہاتھوں زہر سے شہید ہو گئے لیکن محمد بن ابی بکر امام علیؑ سے کسی حد تک ناراض ہو گئے کہ ان کی جگہ مالک اشتر کو کیوں مصر کی گورنری پر منصوب کیا گیا۔ اس بات کے پیش نظر امامؑ نے ان کی دلجویی کی خاطر ان کی طرح ایک خط لکھا جس میں ان سے یوں مخاطب ہوئے:

“مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ کی جگہ مالک اشتر کو مصر کی گورنری پر منصوب کرنے پر آپ ناراض ہو گئے ہو، یہ کام اس لئے نہیں کیا گیا کہ تمہیں اپنے فرائض کی ادائگی میں سستی کرنے والا پایا ہوں یا یہ کہ تم سے اس سے زیادہ کی توقع رکھتا ہوں، بلکہ اگر تمہارے ہاتھوں سے حکومت چهینی گئی ہے تو یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جگہ کی حکومت سونپ دوں جس کے انتظامات تمہارے لئے آسان ہے اور وہاں پر حکمرانی کرنا تمہارے لئے زیادہ پسند ہے”۔[39]
شامیوں کا مصر پر حملہ

جنگ صفین سے فارغ ہونے کے بعد معاویہ نے مصر پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں اس نے گوشہ نشینی اختیار کرنے والے گروہ کے سرکردگان کے نام ایک خط رکھا اور ان سے ساتھ دینے کی درخواست کی۔[40] جب عمرو بن عاص کی سربراہی میں تقریبا 10 ہزار سپاہیوں [41] پر مشتمل شامی لشکر نے مصر پر حملہ کیا تو اس گروہ نے بھی معاویہ کا ساتھ دیا۔ یوں “المسناۃ” نامی جگہے پر محمد بن ابی بکر کی 2 ہزار نفری پر مشتمل لشکر جس کی کمانڈ” کنانۃ بن بشر” کر رہے تھے کو معاویہ کی 6 ہزار نفری جنہیں 10 ہزار گوشہ نشینی اختیار کرنے والوں کی پشت پناہی حاصل تھی کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

شہادت اور آرامگاہ

محمد بن ابی بکر کی شہادت کیسے واقع ہوئی اس حوالے سے مختلف دیدگاہ موجود ہیں۔ اکثر تاریخی منابع اس بات کے معتقد ہیں کہ شامیوں سے شکست کھانے کے بعد انکا لشکر انہیں تنہا چهوڑ کر فرار ہو گئے یوں وہ مجبور ہو کر کسی خرابے میں پناہ لیا جہاں معاویۃ بن حدیج نامی شخص جو در حقیقت مصر کے گوشہ نشینی اختیار کرنے والے گروہ کے سرکردگان میں سے تھا، کے ہاتھوں شہید ہوگئے اور انکی میت کو گدے کی کھال میں ڈال کر جلایا گیا۔[42] بعض مورخین کا خیال ہے کہ سپاہیوں کے فرار اختیار کرنے کے بعد محمد بن ابی بکر نے “جبلۃ بن مسروق” کے گھر یا ایک اور قول کی بنا پر بنی غافق کے کسی خاتون کے گھر خود کو پنہان کیا اور بعد میں “معاویۃ بن حدیج” کے ساتھ میدان جنگ میں شہید ہو گئے۔[43] اس حوالے سے یہ بھی تارخی منابع میں ملتا ہے کہ “عمرو عاص” نے انہیں گرفتار کرنے کے بعد قتل کیا۔[44]

آپ کی تاریخ شہادت صفر المظفر سنہ 38 ہجری قمری ذکر ہوئی ہے۔[45] جب ان کی شہادت کی خبر امیرمومنین حضرت علیؑ تک پہنچی تو آپ نے ان پر گریہ فرمایا اور یوں ارشاد فرمایاد:

کان لله عبداً صالحاً و لنا ولداً صالحاً(محمد خدا کا صالح بندہ اور میرے لئے فرزند صالح تھا۔)[46]

کہا جاتا ہے کہ ان کی شہادت کے بعد انکی بہن عایشہ نے کبھی بھی کباب نہیں کهایا اور ہمیشہ معاویہ، عمرو بن عاص اور معاویۃ بن حدیج کیلئے بد دعا کرتی تھیں۔ اسماء بنت عمیس نیز اپنے بیٹے کی شہادت کے غم میں دنیا سے رخصت کر گئیں۔[47]

ان کی محل دفن کے بارے میں منقول ہے کہ انہیں جس جگہ پر شہید کیا گیا تھا وہیں پر “زمام” مامی ایک مسجد میں سپرد خاک کیا گیا۔ بعض کا کہنا ہے کہ وہاں پر صرف ان کا سر دفن کیا گیا تھا۔[48]، جبکہ بعض کے مطابق مسلمانوں کی ایک جماعت نے ان کے بدن کو ان کے سر کے ساتھ مذکورہ مسجد میں دفن کیئے۔[49]

ہمسر و فرزندان

مشہور قول کے مطابق محمد بن ابی بکر کی زوجہ “یزدگرد” آخری ساسانی بادشاہ، کی بیٹی تھی۔ اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ “یزدگرد” کی دور بیٹیاں مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہو گئی تھیں جن میں سے ایک کے ساتھ امام حسینؑ نے جبکہ دوسری سے محمد بن ابی بکر نے شادی کی تھی۔[50]

محمد بن ابی بکر کی بازماندگان میں ان کے بیٹے “قاسم” (وفات ۹۲ یا ۱۰۸ق)، جو اپنے زمانے میں مدینے کا فقیہ اور بڑے علماء میں سے تھا۔[51] اپنے والد کی شہادت کے بعد ان کی کفالت ان کی پهوپهی “عایشہ” نے سنبھال لی تھی۔ [52] وہ امام سجاد اور امام باقرؑ کے خواص اور اصحاب میں سے تھا۔ ان کی بیٹی ام فروہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے شادی کی جس کے نتیجے میں امام جعفر صادقؑ متولد ہوئے۔ [53]

ان کے نام امام علی کے مکاتبات

مصر پر محمد بن ابی بکر کی حکومت کے دوران امام علیؑ اور ان کے درمیان کئی خطوط رد و بدل ہوئے جن میں سے دو فقرے نہج البلاغہ میں بھی آیا ہے، [54] جبکہ دوسرے خطوط تاریخی کتابوں میں موجود ہے ہے۔ یہ خطوط مختلف موضوعات جیسے: اخلاقی اور اجتماعی نصیحتیں، فقہی، حقوقی اور سیاسی مسائل قابل ذکر ہیں۔ مصر کی سماجی حالات کچھ یوں تھی کہ غیر مسلم مختلف مکاتب فکر کے ساتھ مسلمانوں کو مل جل کر رہنا پڑتا تھا اور بعض اوقات ان کے درمیان رہن سہن میں دشواریاں بھی پیش آتی تھیں اس وجہ سے محمد بن ابی بکر ان مسائل کے حل کیلئے امامؑ سے خط و کتابت پر مجبور تھے۔

اسی طرح مبتلابہ فقہی اور شرعی مسائل کو بطور احسن حل و فصل کرنے کیلئے محمد بن ابی بکر نے امامؑ کی طرف ایک اور خط بھیجا جس میں قضاوت، حلال و حرام اور آداب و رسوم کے حوالے سے امامؑ سے رہنمائی حاصل کی۔[55] امام علیؑ ان کی اس درخواست پر بہت خوش ہوئے اور جواب میں ایک تفصیل خط تحریر فرمایا۔ [56]

مصر پر “عمرو عاص” کے حملے کے بعد امامؑ کی طرف سے محمد بن ابی بکر نے نام لکھے گئے تمام خطوط شام میں معاویہ تک پہنچایا گیا اور معاویہ نے انہیں محفوظ رکها یوں یہ خطوط بنی امیہ کے خزانوں میں باقی رہا یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنی حکومت کے دوران انہیں آشکار کیا۔ [57]

حوالہ جات

  1. طوسی، رجال طوسی، ص۴۹؛ تستری، قاموس الرجال، ج۹، ص۱۸؛ شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۲۷۷؛ مامقانی، تنقیح المقال، ج۲، ص۵۷؛ خویی، معجم رجال الحدیث، ج۱۴، ص۲۳۰؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۴، ص۳۲۶.
  2. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، ص۱۳۶۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۵۳۸.
  3. شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۲۷۷؛ طریحی، مجمع البحرین، ج۱، ص۲۳۱ و ج۴، ص۸۸؛ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۴، ص۳۲۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۵۳۸.
  4. شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۲۷۷؛ طریحی، مجمع البحرین، ج۱، ص۲۳۱ و ج۴، ص۸۸؛ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۴، ص۳۲۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۵۳۸.
  5. مامقانی، تنقیح المقال، ج۲، ص۵۸.
  6. نہج البلاغہ، خطبہ ۶۷
  7. حسینی، سید حسن، مجلہ مشکوہ، شمارہ ۸۳، ص۶۱
  8. ثقفی، الغارات، ج ۱، ص۲۲۶؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۳، ص۲۰۳.
  9. مامقانی، تنقیح المقال، ج ۲، ص۵۷؛ طوسی، رجال الکشی، ص۶۴؛ مجلسی، بحارالأنوار، ج ۳۳، ص۵۸۵؛ شوشتری، قاموس الرجال، ج ۷، ص۴۹۶.
  10. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج ۴، ص۸۳.
  11. حرز الدین، مراقد المعارف، ج ۲، ص۲۴۶
  12. نصر ابن مزاحم منقری، وقعۃ صفین، ص۱۱۸؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۲، ص۹۲.
  13. نصر ابن مزاحم منقری، وقعۃ صفین، ص۱۱۸؛ بن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۲، ص۹۲
  14. ویلفرد مادلونگ، جانشینی حضرت محمد، ص۱۰۱.
  15. یہ جنگ جو ایک قول کی بنا پر سنہ ۳۱ اور دوسرے قول کی بنا پر ۳۴ ہجری قمری میں واقع ہوئی۔ اس جنگ میں مسلمان سپاہیوں کی سپہ سالاری معاویہ بن ابی سفیان کر رہے تھے۔ اس جنگ میں رومی فوج کی سپہ سالاری “ہرقل” یا “ہراکلیوس” کر رہے تھے اور دشمن کے تقریبا 700 سپاہی اس جنگ میں ہلاک ہوئے جبکہ مسلمان سپاہی کی تعداد جو اس جنگ میں شہید ہو گئے 100 نفر سے بھی کم تھے یوں جنگ مسلمانوں کے حق میں تمام ہو گئی۔ حمال الدین یوسف بن تغری بردی، النجوم الزاہرۃ فی ملوک مصر و القاہرہ، تحقیق محمد حسین شمس الدین، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۳ق، ج ۱، ص۱۰۲؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ترجمہ عباس خلیلی، تہران، مؤسسہ مطبوعاتی علمی، بی‌تا، ج ۳، ص۱۹۶؛ محمدیوسف کندی، ولاۃ مصر، تحقیق حسین نصار، بیروت،‌دار بیروت للطباعۃ و النشر و‌دار صادر للطباعۃ و النشر، ۱۳۷۹ق، ص۵۰.
  16. انعام، ۹۳
  17. حسینی، سید حسن، مجلہ مشکوہ، شمارہ ۸۳، ص۶۳
  18. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج ۳، ص۴۰۵
  19. تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص۱۷۶
  20. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۷، ص ۱۸۸
  21. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج ۳، ص۴۰۵.
  22. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج ۳، ص۴۱۵؛ ابن شبہ، تاریخ مدینۃ المنورہ، ج ۴، ص۱۲۸۸.
  23. ر.ک: حسینی، سید حسن، نگاہی بہ زندگی و شخصیت محمد بن ابی بکر& مجلہ مشکوہ، ش۸۳، ص۶۵-۶۶.
  24. خویی، معجم رجال الحدیث، ج۱۴، ص۲۳۰.
  25. شیخ مفید، الجمل و النصرۃ سید العترۃ فی حرب البصرہ، ص۲۳۹
  26. ابن اعثم، الفتوح، ص۴۳۴.
  27. ابن اعثم، الفتوح، ص۴۲۷؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۴، ص۱۱.
  28. الکامل فی التاریخ، ج ۴، ص۹
  29. حمد بن علی کنانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، ج ۶، ص۱۵۲؛ قرطبی، الاستیعاب، ج ۳، ص۴۲۲
  30. کشی، رجال کشی، ج۱، ص۲۸۱؛ تستری، قاموس الرجال، ج۹، ص۱۸؛ مامقانی، تنقیح المقال، ج۲، ص۵۷ خویی، معجم رجال الحدیث، ج۱۴، ص۲۳۰.
  31. عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج ۹، ص۷۰
  32. ابن اعثم، الفتوح، ص۵۳۳
  33. ثقفی، الغارات، ج ۱، ص۲۲۴؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۳، ص۵۵۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج ۲، ص۳۹۳.
  34. تاریخ ابن خلدون، ج ۱، ص۶۱۴؛ مقریزی، الخطط المقریزیہ، ج ۱، ص۸۲۸
  35. حسینی، سید حسن، نگاہی بہ زندگی و شخصیت محمد بن ابی بکر، مجلہ مشکو‌ۃ، ش۸۳، ص۶۸
  36. ثقفی، الغارات، ج ۱، ص۲۵۴؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۴، ص۳۳.
  37. کندری، ولاۃ مصر،، ص۵۱؛ مقریزی، الخطط المقریزیہ، ج ۱، ص۸۲۸.
  38. سیوطی، حسن المحاضرۃ فی تاریخ مصر و القاہرہ، ج ۱، ص۵۸۳.
  39. نہج البلاغہ، نامہ ۳۴
  40. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج ۴، ص۷۶؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۴، ص۱۶۲
  41. سیوطی، حسن المحاضرۃ فی تاریخ مصر و القاہرہ، ج ۱، ص۵۸۴؛ البتہ اگرچہ گوشہ نشینی اختیار کرنے والے گروہ کی تعداد میں مبالغے کا احتمال پایا جاتا ہے۔
  42. قرطبی، الاستیعاب، ج ۳، ص۴۲۳؛ ابن جوزی، المنتظم، ج ۳، ص۱۳۱۸؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج ۲، ص۴۰۳؛ ابن شبہ، تاریخ مدینۃ المنورہ، ج ۴، ص۱۲۸۵
  43. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج ۴، ص۸۰؛ عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج ۹، ص۷۰؛ تاریخ ابن خلدون، ج ۱، ص۶۳۴.
  44. قرطبی، الاستیعاب، ج ۳، ص۴۲۳؛ عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج ۹، ص۷۰.
  45. ثقفی، الغارات، ج ۱، ص۲۸۵؛ دمیری، حیات الحیوان الکبری، ج ۱، ص۳۵۰؛ قرطبی، الاستیعاب، ج ۳، ص۴۲۲
  46. شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۲۷۸.
  47. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۶، ص۸۸.
  48. دمیری، حیات الحیوان الکبری، ص۱، ص۳۵۱
  49. زرکلی، الاعلام، ج ۶، ص۲۲۰؛ حرز الدین، مراقد المعارف، ج ۲، ص۲۴۴.
  50. وفیات الاعیان، ج ۴، ص۵۹؛ اعیان الشیعہ، ج ۸، ص۴۴۶.
  51. مسعودی، تنبیہ الاشراف، ص۲۶۴.
  52. عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، ج ۶، ص۱۵.
  53. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۳، ص۱۹۰؛ حرزالدین، مراقد المعارف، ج ۲، ص۲۴۹.
  54. نہج البلاغہ، نامہ ۲۷ و ۳۴.
  55. ثقفی، الغارات، ج ۱، ص۲۲۷.
  56. ثقفی، الغارات، ج ۱، ص۲۲۸؛ شوشتری، نہج الصباغہ، ج ۱۴، ص۴۶۰-۴۵۳.
  57. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۳، ص۲۱۱؛ شوشتری، نہج الصباغہ، ج ۱۴، ص۴۵۰؛ حرزالدین، مراقد المعارف، ج ۲، ص۲۴۷.

منابع

  • ابراہیم بن محمد ثقفی کوفی، الغارات، تحقیق میر جلال الدین حسینی ارموی، تہران، انتشارات انجمن آثار ملی، ۱۳۹۵ ق
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، انتشارت نی، ۱۳۶۸ش
  • ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ترجمہ عبدالمحمد آیتی، تہران، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، ۱۳۶۳ش
  • ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر، بیروت،‌ دارالفکر، ۱۴۰۷ق-۱۹۸۶م.
  • ابوالحسن علی بن حسن مسعودی، تنبیہ الاشراف، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، ۱۳۴۹ش،
  • احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، بیروت،‌دار صادر للطباعۃ و النشر و‌دار بیروت للطباعۃ و النشر، ۱۳۷۹ق
  • احمد بن علی مقریزی، الخطط المقریزیہ، تحقیق محمد زینہم، قاہرہ، مکتبۃ مدبولی، ۱۹۹۸م
  • تستری، محمد تقی، قاموس الرجال، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۰ق.
  • حمد بن علی کنانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۸۵۳م
  • خویی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، منشورات مدینۃ العلم آیۃ اللہ العظمی الخوئی، نجف، ۱۳۹۸ق.
  • شوشتری، نوراللہ، مجالس المؤمنین، سید احمد الموسوی، تہران، کتاب فروشی اسلامیہ.
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، موسسہ النشر الاسلامی التابعہ لجماعہ المدرسین بقم، قم، ۱۳۷۳.
  • عبدالرحمان سیوطی، حسن المحاضرۃ فی تاریخ مصر و القاہرہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ،‌دار احیاء الکتب العربیہ،
  • علی بن ابیطالبؑ، امام اول، نہجج البلاغہ، شریف رضی، شارح عبد الحمید بن ہبہ اللہ ابن ابی الحدید، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، کتابخانہ حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی(رہ)، قم.
  • کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی (مع تعلیقات میر داماد الأسترآبادی)، رجایی، مہدی، طوسی، محمد بن حسن، تصحیح و تعلیق:میرداماد، محمد باقر بن محمد، موسسۃ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۳۶۳.
  • محمد حرزالدین، مراقد المعارف، تحقیق محمد حسین حرز الدین، قم، منشورات سعید بن جبیر، ۱۳۷۱ش
  • مفید، محمد بن محمد، لأمالی، علیاکبر غفاری،احقیق حسین استاد ولی، حسین، کنگرہ شیخ مفید، قم.
  • نصر ابن مزاحم منقری، وقعۃ صفین، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، قم، مؤسسۃ العربیۃ الحدیثۃ للطبع و النشر و التوزیع، ۱۳۸۲ق،
  • ویلفرد مادلونگ، جانشینی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ، ترجمہ احمد نمایی، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، ۱۳۷۷ش،
تبصرے
Loading...