محمدعلی جناح

محمد علی جناح یا قائد اعظم(1876ء – 1948ء) بر صغیر کے نامور وکیل اور سیاست دان تھے جن کی قیادت میں پاکستان نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اسی بنا پر آپ کو بانی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کو بابائے قوم کا لقب بھی دیا گیا۔

ابتدائی تعلیم کا آغاز 1882ء میں کیا۔ 1893ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے انگلستان روانہ ہو گئے۔ 1896ء میں بیرسٹری کا امتحان پاس کرکے وطن واپس آ گئے۔ 1897ء میں ممبئی میں وکالت کا آغاز کیا اور سن 1900ء میں ممبئی میں پریذیڈنسی مجسٹریٹ مقرر ہوئے۔ سن 1906ء سے آپ نے سیاست میں قدم رکھا اور اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں آپ نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ کانگرس سے اختلافات کی وجہ سے آپ نے کانگرس پارٹی چھوڑ دی اور مسلم لیگ کی قیادت میں شامل ہو گئے اور مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکاتی ایجنڈا پیش کیا۔ 1913ء سے پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے۔

سن 1940ء کو مسلم لیگ نے آپ کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کے قیام کا مطالبہ تھا۔ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی بیشتر نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ آخر کار برطانیہ کو مسلم لیگ کے مطالبہ پر راضی ہونا پڑا اور ایک علیحدہ مملکت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ یوں آپ کی بے باک قیادت اور انتھک جدوجہد سے 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض و جود میں آیا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے اور 11 ستمبر 1948ء کو کراچی میں انتقال ہوا اور 12 ستمبر 1948ء کو کراچی میں تدفین ہوئی۔

ولادت اور وفات

مزار قائد، کراچی

محمدعلی‌ جناح‌ 25 دسمبر 1876ء کو کراچی‌ میں پیدا ہوئے۔[1] آپ کے والد اور والدہ نے آپ کی پیدائش سے پہلے گجرات کی ریاست کاٹھیاواڑ کے گاؤں پنیلی سے کراچی مہاجرت کئے۔ آپ کے والد گجرات کے تاجر اور خوجا اسماعیلی شیعہ تھے، لیکن بعد میں انہوں نے شیعہ مذہب اختیار کیا۔آپ کا دادا کا تعلق پنجاب‌ سے تھا اور انہوں نے ایک اسماعیلی‌ خوجا لڑکی سے شادی کی تھی۔ آپ کی بہن فاطمہ‌ جناح‌ اپنے خاندان کو ایرانی نژاد سمجھتی تھیں۔[2] آپ 11 ستمبر 1948ء کو بیماری کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے جنازے میں تقریبا 10 لاکھ لوگوں نے شرکت کی اور ان کی وفات پر 40 دن سوگ کا اعلان کیا گیا۔[3] آپ کی تدفین سید انیس الحسنین نے شیعہ اثناعشری رسومات کے مطابق انجام دئے۔[4] آپ کو کراچی‌ میں سپرد خاک‌ کیا گیا جہاں آپ کا مدفن مزار قائد کے نام سے معروف ہے۔

تعلیم

محمدعلی‌ جناح‌ نے دسمبر 1886ء کو مدرسۃ الاسلام‌ سندھ[نوٹ 1] میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ آپ کو مروجہ تعلیم سے خاص دلچسپی نہیں تھی اسی بنا پر آپ کے والد نے اس امید پر کی ماحول کی تبدیلی سے شاید آپ کو مروجہ علوم میں رغبت حاصل ہو، آپ کو کچھ مدت کیلئے بمبئی‌ مدرسہ انجمن‌ اسلام‌ میں بھیجا۔[5]

جون 1891ء کو آپ نے سکول چھوڑ کر اپنے والد کے ساتھ تجارت شروع کی۔ لیکن کچھ مدت بعد اسے چھوڑ کر دوبارہ سکول واپس آگئے۔ دوسرے سال ان کے والد نے انگریزی زبان مکمل کرنے کیلئے آپ کو عیسائیوں کے تبلیغی مدرسہ میں بھیجا۔ اسی سال اکتوبر کے آخر تک آپ اسی مدرسے میں رہے اس کے بعد نومبر 1892ء کو لندن‌ چلے گئے۔ وہاں آپ نے کچھ مدت تک گراہم شپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں ملازمت اختیار کیا لیکن چونکہ یہ کام آپ کی مزاج کے مطابق نہیں تھا اسلئے اسے چھوڑ کر لندن بار ایسوسی ایشن میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کیا اور اپریل 1895ء میں آپ نے تعلیم مکمل کی۔ دوران تعلیم آپ انگلستان کے مسلمان کمیونٹی کے سرگرم رکن بھی تھے۔[6]

محمد علی جناح‌ نے سن 1896ء میں 20 سال کی عمر میں برصغیر کے نو عمر گریجویٹ اور وکیل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔[7] اسی سال آپ لندن سے وطن واپس آگئے اور کراچی‌ میں قیام پذیر ہوئے۔ 24 اگست 1896 کو آپ نے مسلمان وکیل کے عنوان سے بمبئی ہائی کورٹ میں کام کرنا شروع کیا۔ وکالت میں آپ کی غیر معلومی استعداد کی وجہ سے سن 1900ء میں آپ بمبئی سپریم کورٹ کے جج منتخب ہوئے لیکن آپ نے اس منصب کو قبول نہیں کیا اور وکیل کی حیثیت سے اپنا کام جاری رکھا۔[8]

سیاست میں قدم

محمد علی جناح‌ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز وطن واپس آنے کے بعد آل انڈیا نیشنل کانگریس کے رکن کے طور پر کیا۔ سن 1906ء میں آپ پہلی بار کانگریس کے صدر کے منشی کی حیثیت سے کلکتہ میں اس تنظیم کے سالانہ کنونشن میں شرکت کیا۔[9] سن 1909ء کو بمبئی مسلمان کمیونٹی کی نمائندگی میں پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔[10] اکتوبر 1913ء کو کانگریس کے ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے ممبر بھی بنے اور اس تنظیم کے اعلی عہدیدار کے عنوان سے مسلم ہندو اتحاد کیلئے اپنا کردار ادا کیا۔ 1914ء کو کانگریس کے وفد کی سربراہی کرتے ہوئے انگلستان گئے اور وہاں سے واپس آنے کے بعد چند سالوں کیلئے کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان حسن تفاہم اور اتفاق باہمی کیلئے کوشاں رہے۔ مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان انجام پانے والے عہد نامے میں بھی آپ نے نہایت اہم کردار ادا کیا اور آپ کی کوششوں سے آئین میں ترمیم کا کام شروع ہوا جس میں مسلمانوں کے حقوق کی ضمانت کو مسلّم قرار دیا گیا۔[11] اس عہد نامے میں چونکہ ہندو رہنماؤوں نے سیاسی طور پر مسلمانوں کی موجودیت کو تسلیم کیا تھا، اس بنا پر یہ عہد نامہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک تاریخ ساز اہمیت کا حامل تھا۔[12] ہندو اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی خاصر آپ کی کوششوں کے صلے میں آپ کو سفیر وحدت‌ کا لقب دیا گیا۔[13]

1919ء میں محاکمے کے بغیر بغاوت کے مقدمے کی سماعت کے لئے قانون ساز کونسل میں رولیٹ بل کی منظوری کے بعد آپ نے اس کونسل سے استعفا دیا۔ 1920ء سے 1940ء کے دوران ہندوستان کی سیاست کا معیار ہی مسلمانوں اور ہندؤوں کے درمیان خشونت اور تندروی پر قائم تھا۔ لیکن آپ سیاسی مسائل کو دینی مسائل سے جدا کرتے ہوئے مسلمانوں اور ہندؤوں کے درمیان تفاہم ایجاد کرنے میں سرگرم رہے۔ سن 1920ء کو آپ نے گاندھی کی حکومت سے “عدم ہمکاری” کی تحریک سے مخالف کرتے ہوئے کانگریس کے جلسے سے جس کی باگ دوڑ ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں تھی، واک آوٹ کیا اور کانگریس سے بھی کنارہ کشی اختیار کی۔[14]

سن 1930ء میں آپ نے چید سال لندن‌ میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔[15] یوں آپ نے 1931 سے 1934ء تک لندن میں وکالت کی ملازمت اختیار کی۔ اس دوران کبھی کبھار ہندوستان بھی جایا کرتے تھے۔ 1935ء کو آپ علامہ اقبال اور لیاقت‌ علی‌خان‌ کی اصرار پر ہندوستان واپس لوٹ آئے اور مسلم‌ لیگ‌ کی قیادت سنبھالی جو اس وقت اندرونی اختلافات کا شکار ہو گئے۔ مسلم لیگ کی تنظیم سازی اور اسے منظم کرنے کے باوجود بھی اسے قانون ساز کونسل کے انتخابات میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی یوں عملی طور پر کانگریس برسر اقتدار آئی اور کسی بھی مسلمان لیڈر کو حکومت میں شامل نہیں کیا۔[16]

1937 سے 1939ء کے درمیان ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان خشونت‌ اور درگیری‌ میں شدت آگئی۔ اس کے ساتھ ساتھ جن ریاستوں میں کانگریس کی حکومت قائم ہوئی وہاں مسلمانوں پر ہندؤوں کی حکومت کے تلخ اور ناگوار تجربے نے آپ کو علامہ اقبال کے دو قومی نظریے کو قبول کرنے پر مجبور کیا اور آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر مسلمان اپنی دینی اور ثقافتی اقتدار کے ساتھ زندگی گزارنا چاہیں تو انہیں ضرور ایک علیحدہ وطن کی ضرورت ہے۔[17] علامہ اقبال نے 21 جون 1937ء کو ایک تحریر کے ذریعے محمد علی جناح کو برصغیر کے مسلمانوں کا واحد رہنما کے طور پر معرفی کیا۔ 23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں دو دو قومی نظریے کو “قرار داد پاکستان” کی شکل میں منظور کیا گیا۔ اس کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں اکثریتی علاقوں کو ایک کر کے ایک علیحدہ ملک پاکستان کی تشکیل آپ کے اصلی اہداف میں شامل ہو گیا۔[18]

استقلال پاکستان

محمد علی جناح نے وطن واپسی کے بعد مسلم لیگ کی تتظیم نو کی اور اسے بر صغیر کے مسلمانوں کے درمیان گسترش دیا اور اس تنظیم کو ایک ایسے مقام تک لے آیا کہ دسمبر 1945 اور جنوری 1946 کے درمیان برگزار ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ نے ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے مخصوص تمام سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔[19] آپ نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کے مطالبے پر ڈٹے رہے اور آخر کار ان کی انتھک محنت کا صلہ 14 اور 15 اگست 1947 کی درمیانی شب پاکستان کی صورت میں معرض وجود میں آ گیا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر 15 اگست 1947 سے 21 ستمبر 1948ء تک کا مختصر عرصہ پاکستان کے حکومتی نظام کو مستقر کرنے میں صرف کیا۔[20]

خوجہ اثناعشری سے آپ کے تعلقات

محمد علی جناح کا تعلق شروع میں شیعہ اسماعیلیہ سے تھا لیکن بعد میں آپ نے مذہب تشیع اثناعشری اختیار کیا۔[21] اور بمبئی کے خوجہ اثناعشری کمیونٹی کے باقاعدہ رکن اور اس کمیونٹی کے مشاورتی ارکان میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔[22]

1892ء میں آپ نے ایمی بائی سے شادی کی جس وقت آپ کی عمر 16 سال تھی۔ شادی کے فوراً بعد آپ انگلستان روانہ ہو گئے۔ جس وقت آپ وکالت کی تعلیم کے لیے لندن میں مقیم تھے، کراچی میں متعدی وبا پھیل گئی جس سے ان کی نوعمر دولہن آپ کی والدہ شیریں عرف مٹھی بائی انتقال کرگئیں۔ ایمی بائی کی وفات کے کئی سالوں بعد 1918ء میں محمد علی جناح نے رتن بائی پیتت سے شادی کی جو معروف پارسی بینکار ڈنشا پیتت کی صاحبزادی تھیں۔ نکاح سے قبل رتن پٹیٹ مسلمان ہوئیں قبول اسلام کے بعد مریم جناح نام رکھا گیا تاہم وہ رتی کے نام سے ہی مشہور رہی۔ آپ کی شادی کے اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا عقد بمبئی کے خوجہ اثنا عشری رہنما شیخ ابوالقاسم نجفی نے پڑھا ہے۔ رتن بائی شادی کے 11 سال بعد وفات پا گئی جنہیں قائد اعظم کے حکم پر خوجہ اثناعشری قبرستان دفن کیا گیا۔[23]

بعض شیعہ مصنفین آپ کو خوجہ اثناعشری خاندان کے سیاسی شخصیات میں سے قرار دیتے ہیں۔[24]

آپ سے متعلق گوناگون نظریات

اکثر پاکستانی محققین آپ کو ایک افسانوی اور خلل ناپذیر شخصیت نیز قومی ہیرو کے طور پر یاد کرتے ہیں جبکہ ہندوستانی مصنفین آپ انگریز نوآبادیاتی پالیسی کا آلہ کار قرار دیتے ہیں جس نے متحد ہندوستان کو استعماری پشت پناہی میں دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔[25]

اسی طرح بعض لوگ ان کی زندگی کے ابتدائی دور خاص کر تعلیم کے دوران ان کی یورپی زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں ایک سیکیولر اور غرب زدہ شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس بعض لوگ ان کی زندگی کے آخری حصے میں آپ کی تقاریر اور رفتار و کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں ایک متعہد مسلمان حتی انہیں دین اور سیاست کو ایک دوسرے کا لازم و ملزوم نظریے کے مدافعین میں سے قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح بعض متشرعین ان کی مغربی زندگی کے بعض حرکات و سکنات سے استناد کرتے ہوئے ان پر شریعت پر عمل پیرانے ہونے میں سستی اور کاہلی نیز دین اور سیاست کو خلط کرنے اور غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کی تحفظ وغیرہ کا الزام لگاتے ہوئے افراط کا شکار ہو کر انہیں کافر قرار دیتے ہیں۔[26]

مزید مطالعہ کیلئے

  • کتاب محمدعلی جناح؛ مؤسس پاکستان، ہکتور بولیتو، ترجمہ: غلامرضا سعیدی، بہ کوشش و مقدمہ: سید ہادی خسروشاہی، انتشارات کلبہ اشراق۔

حوالہ جات

  1. احمد، جناح، ۱۹۹۷م، ص۳؛ برک‌ و قریشی، برک‌ و قریشی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۸۵م، ص۳۲۔
  2. برک‌ و قریشی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۸۵م، ص۳۲؛ احمد، جناح، ۱۹۹۷م، ص‌۳ـ۴۔
  3. برک‌ و قریشی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۸۵م، ص‌۲۳ـ۲۶؛ احمد، جناح، ۱۹۹۷م، ص‌۱۰ـ ۱۱؛ گریوال‌، محمدعلی‌ جناح‌، قائد اعظم، ص‌۲۲ـ۲۳؛ لودی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۹۷م، ص‌۱۵ـ۱۶
  4. عرب‌احمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۳۶۱۔
  5. برک‌ و قریشی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۸۵م، ص۳۴۔
  6. برک‌ و قریشی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۸۵م، ص۳۴ـ۳۵، ۳۷ـ۳۸، ۴۲؛ احمد، جناح، ۱۹۹۷م، ص۴۔
  7. احمد، جناح، ۱۹۹۷م، ص۴؛ اقبال‌ لاہوری‌، مقدمہ سروش‌، ص‌سی‌وسہ‌۔
  8. برک‌ و قریشی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۸۵م، ص۴۲ـ۴۳؛ منصوری‌، روز تولد قائد اعظم، ص۱۱۸۔
  9. احمد، جناح، ۱۹۹۷م، ص۶؛برک‌ و قریشی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۸۵م، ص۵۲۔
  10. منصوری‌، روز تولد قائد اعظم، ص۱۱۸
  11. احمد، جناح، ۱۹۹۷م، ص۶ـ۷؛ اظہر، قائد اعظم‌ پاکستان، در پاکستان‌، ص۱۱۵؛ منصوری‌، روز تولد قائد اعظم، ص۱۱۸۔
  12. گریوال، محمدعلی‌ جناح‌، قائد اعظم، ص۱۹۔
  13. احمد، جناح، ۱۹۹۷م، ص۶ـ۷۔
  14. رجوع کنید بہ کامران‌‌مقدّم‌، جناح‌ حماسہ‌یی‌ در تاریخ‌، ۱۳۶۰ش، ص۲۰ـ ۲۸؛برک‌ و قریشی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۸۵م، ص۱۶۶ـ۱۶۷، ۲۰۳ـ۲۰۴؛ عایشہ‌ جلال‌، ص۱۰ـ۱۱۔
  15. برک‌ و قریشی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۸۵م، ص۱۹۸
  16. رجوع کنید بہ احمد، جناح، ۱۹۹۷م، ص۹؛ عایشہ‌ جلال‌، ص۱۵ـ۴۰؛ کامران‌ مقدّم‌، جناح‌ حماسہ‌یی‌ در تاریخ‌، ۱۳۶۰ش، ص۲۹۔
  17. رجوع کنید بہ برک‌ و قریشی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۸۵م، ص۵۸، ۲۲۲ـ ۲۳۵۔
  18. اقبال‌ لاہوری‌، مقدمہ سروش‌، ص چہل‌وشش‌؛ برک‌ و قریشی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۸۵م، ص۱۸۵؛ احمد، جناح، ۱۹۹۷م، ص‌۱۰۔
  19. رجوع کنید بہ گریوال‌، محمدعلی‌ جناح‌، قائد اعظم، ص۱۸ـ۱۹؛ عایشہ‌ جلال‌، ص۳۵ـ۱۷۳۔
  20. برک‌ و قریشی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۸۵م، ص‌۲۳ـ۲۶؛ احمد، جناح، ۱۹۹۷م، ص‌۱۰ـ ۱۱؛ گریوال‌، محمدعلی‌ جناح‌، قائد اعظم، ص‌۲۲ـ۲۳؛ لودی‌، قاعد اعظم محمدعلی جناح، ۱۹۹۷م، ص‌۱۵ـ۱۶۔
  21. روغنی، شیعیان خوجہ در آینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۱۴۱۔
  22. عرب‌احمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۳۵۹۔
  23. عرب‌احمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۳۵۹۔
  24. زہرا روغنی، شیعیان خوجہ در آئینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۱۴۱؛ عرب‌احمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، ۱۳۸۹ش، ص۳۵۶-۳۶۲۔
  25. رجوع کنید بہ احمد، جناح، ۱۹۹۷م، ص‌۱۹ـ۳۲۔
  26. رجوع کنید بہ احمد، جناح، ۱۹۹۷م، ص‌۱۹۳ـ۲۰۲۔
  1. سند کا پہلا مدرسہ سے جس میں انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی اور دینی تعلیم بھی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جاتی تھی۔

منابع‌

  • اردو دائرہ معارف‌ اسلامیہ، لاہور ۱۳۸۴ـ۱۴۱۰/ ۱۹۶۴ـ۱۹۸۹، ذیل‌ «محمدعلی‌ جناح‌، قائد اعظم (از شیرمحمد گریوال‌)
  • اظہر، میرزاعلی‌ ، «قائد اعظم‌ پاکستان، در پاکستان‌[مجموعہ‌ مقالات‌]، کراچی‌۔
  • مجلہ ہلال، [ بی‌تا۔]
  • روغنی، زہرا، شیعیان خوجہ در آینہ تاریخ، پژوہشگاہ علوم انسانی و مطالعات فرہنگی، تہران، ۱۳۸۷ش۔
  • عرب‌احمدی امیربہرام، شیعیان خوجہ اثناعشری در گسترہ جہان، قم: شیعہ شناسی ۱۳۸۹ش۔
  • اقبال‌ لاہوری‌، محمد، کلیات‌ اشعار فارسی‌ مولانا اقبال‌ لاہوری‌، با مقدمہ‌ و شرح‌ احوال‌ و تفسیر کامل‌ احمد سروش‌، تہران [۱۳۴۳ش]۔
  • شہین‌دخت‌ کامران‌‌مقدّم‌، جناح‌ حماسہ‌یی‌ در تاریخ‌، [تہران‌] ۱۳۶۰ ش‌۔
  • محمد منصوری‌، «روز تولد قائد اعظم»، در پاکستان‌ [مجموعہ‌ مقالات‌]۔
  • Akbar S۔ Ahmed, Jinnah, Pakistan and Islamic identity, London ۱۹۹۷۔
  • Ayesha Jalal, The sole spokesman:Jinnah the Muslim League and the demand for Pakistan, Cambridge ۱۹۸۵;
  • S۔M۔ Burke and Salim al-Din Quraishi, Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah: his personality and his politics, Karachi ۱۹۹۷۔
  • EI ۲ , s۔v۔ “Djinah” (by K۔ Callard); Sher Muhammad Garewal, “Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah: the greatest leader of the present century”, Journal of the Research Society of Pakistan, XXXIV, no۔۱ (Jan۔ ۱۹۹۷)۔
  • Muhammad Zahi Khan Lodhi, “Quaid-i-Azam Muhammad Ali Jinnah: the greatest leader of the century”, Journal of the Research Society of Pakistan, XXXIV, no۔ ۴ Oct۔ ۱۹۹۷۔
تبصرے
Loading...