مباح

مباح

مباح ایک فقہی اصطلاح ہے ۔ اسکے ذریعے ایسے عمل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ جس کی نسبت شارع مقدس کی طرف سے کوئی مخصوص حکم مذکور نہیں ہوتا ہے ۔اسکے نتیجے میں ایسے عمل کا انجام دینا یا ترک کردینا برابر ہوتا ہے اور اس پر کسی قسم کی سزا یا جزا مرتب نہیں ہوتی ہے ۔پس اس بنا پر جس فعل کی نسبت واجب، حرام، مستحب یا مکروه کا حکم ذکر نہ ہو اسے مباح کہا جاتا ہے ۔

روایات میں جائز اور حلال دونوں کیلئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔وکالتی فقہ میں اباحہ کا ایک اور مخصوص معنا مراد لیا جاتا ہے ۔ اس سے مراد کسی چیز سے نفع حاصل کرنے کا اذن و اجازت کا ہونا یا کسی چیز کے مالک ہونے کا اذن ہونا ہے ۔ شرعی احکام میں مباح عام ترین حکم ہے ۔مشہور فقہا اصالت اباحہ کے قائل ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ ہر کام کا کرنا یا انجام دینا جائز ہے جب تک اس کے خلاف کسی حکم کی دلیل بیان نہ ہو جائے ۔

معنا

اباحہ بَوح اور بُوْوح کے مادہ سے اجازت دینے کے معنا میں ہے۔[1]

فقہی اصطلاح کے مطابق اسلام کے احکام خمسہ میں سے ایک حکم مباح ہے ۔اس سے اس کام کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جسے فقہی اعتبار سے کرنا یا چھوڑنا برابرا ہوتا ہے اور اس کے کرنے یا چھوڑنے پر کسی قسم کی سزا یا جزا نہیں دی جاتی ہے۔[2]

دوسرے الفاظ میں ایسا فعل ہے کہ جس کے متعلق واجب،‌ حرام، مستحب یا مکروه میں سے کوئی حکم بیان نہ ہوا ہو۔اسکے نتیجے میں بالغ و عاقل شخص اسے انجام دینے میں مختار اور آزاد ہوتا ہے ۔جیسے عام حالات میں کھانے اور پینے کیلئے کوئی حکم بیان نہیں ہوا ہے انسان جیسے چاہے عمل کرے ۔
مذکورا تعریف کے مطابق عبادات میں اباحہ کا کوئی مصداق موجود نہیں ہے ۔[3] عبادت سے مربوط تمام اعمال واجب و مستحب و حرام و مکروه میں سے کسی ایک کے تحت آئیں گے ۔

مباح اور حلال

شریعت میں حلال حرام کے مقابلے میں ہے ۔جو چیز بھی حرام نہیں وہ حلال میں شامل ہو گی ۔اس لحاظ سے حلال مباح سے اعم ہے ۔یعنی ہر مباح حلال ہے لیکن ہر حلال مباح نہیں ہے جیسا کہ مکروہات حلال ہیں لیکن وہ مباح نہیں ہیں ۔

اباحہ اور جواز

جواز منع کی ضد ہے اور جائز حلال کی مانند مباح سے اعم ہے ،جیسے ہر مباح جائز ہے لیکن ہر جائز مباح نہیں ہے مثلامستحبات اور مکروہات جائز ہیں لیکن مباح نہیں ہیں ۔

قرآن اور سنت نبوی

قرآن میں اباحہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے نیز رسول گرامی کی زبان مبارک سے بھی یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے ۔۔لیکن دانشمند اور فقہا متعدد آیات کو اباحہ کے بیان میں سمجھتے ہیں مثلا یا اَیهَا النّاس کلوا مِمّا فِی الاْرْض حَلالاً طَیباًسورۂ بقرہ آیت ۱۶۸

اصالت اباحہ

فقہا اور اصولیون کے درمیان اس عمل اور فعل کے متعلق بحث موجود ہے کہ جس کے متعلق شریعت اسلام میں کوئی حکم بیان نہیں ہوا ہے؛ یعنی اگر شریعت میں کسی ایک مخصوص فعل کے متعلق قرآن احادیث میں کوئی حکم بیان نہ ہوا ہو تو اس فعل کو انجام دینا جائز ہے یا نہیں۔

اس مقام پر دو نظریات اصالت اباحہ اور اصالت حَظْر ہائے جاتے ہیں ۔ اصالت حظر یعنی جب تک کسی فعل کے کرنے پر جواز کی دلیل نہ پائی جائے اس وقت اسے انجام دینا جائز نہیں ہے اصالت اِباحہ اس کے برعکس ہے اور اس کے مطابق اگر شریعت کسی فعل کے متعلق خاموش ہو تو انسان اسے انجام دینے میں خود مختار ہے اور یہ مباح کے امور میں سے سمجھا جاتا ہے ۔

امامیہ کی مشہور نظر

فقہائے امامیہ کے درمیان مشہور ہے کہ عقل اور شرع کا حکم اصالت اباحہ پر قائم ہے ۔[4] امامیہ کا مستند شرعی آیات اور آئمہ طاہرین سے منقول احادیث ہیں جن میں سے یہ ہیں:

  1. هُوَ الَّذی خَلَق لَکم ما الاْرْض جَمیعاًسورۂ بقرہآیت ۲۹؛
  2. یا اَیهَا النّاس کلوا مِمّا فِی الاْرْض حَلالاً طَیباً سورۂ بقرهآیت ۱۶۸؛
  3. قُل لا اَجِدُ فی ما اُوحِی اِلَی مُحَرَّماً عَلی طاعِم یطْعَمُه اِلاّ اَن یکون مَیتةً اَو دَماً مَسْفُوحاً اَوْ لَحْم خِنْزیر سورۂ انعام آیت ۱۴۵.
  1. امام صادق(ع) سے منقول ہے :کل شَی ء مُطْلَق حَتّی یرِد فیه نَهْی: تمام اشیاء مباح ہیں جبتک ان کے متعلق نہی نہ آ جائے ۔[5]

شہری فقہ اور حقوقی قوانین میں مالک ہونا یا نفع کا حاصل کرنا

فقہ میں اباحہ کا ایک اور معنا استعمال ہوتا ہے جو مالک ہونے میں اذن یا جس مال کا کوئی مخصوص مال نہ ہو اس سے نفع حاصل کرنے میں صاحب اجازت ہونےکے معنی میں ہے ۔مالک ہونے کے اذن کے موارد میں جہاں مالک ہونے کا اذن ہو اسے اباحہ تملک اور کسی چیز کے فائدہ حاصل کرنے کی اجازت کو اباحہ انتفاع کہتے ہیں:

  • انتفاع کے قابل مباحات: وہ مباح ہیں جس سے تمام مسلمان استفادہ کر سکتے ہیں اور اس استفادے کو کسی میں منحصر کرنا ممنوع ہوتا ہے اور اس طرح اس سے استفاہ کیا جئاے کہ جو دوسروں کے استفادے میں رکاوٹ نہ بنے ۔جیسے عمومی راستے سڑکیں وغیرہ۔
  • تملک کے قابل مباحات: ایسے مباحات ہیں مسلمانوں کے امام اور شرعی موازین کے مطابق مالک ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔جیسے مردہ اور بنجر زمینوں کو کاشت کے قابل بنانے پر مالک ہونا یا مباح پانیوں سے مچھلی کا شکار کے ذریعے مالک ہونا۔

حوالہ جات

  1. فراہیدی، ازہری
  2. فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، ج ‌۱، ص ۲۰۴
  3. شہید اول، ج۱، ص۳۱
  4. انصاری، ۱۹۹
  5. حر عاملی، ۱۸/۱۲۷- ۱۲۸

منابع

  • آمدی علی، الاحکام فی اصول الاحکام، بیروت، ۱۴۰۵ق /۱۹۸۵م.
  • ابن حزم، علی، الاحکام فی اصول الاحکام، بیروت، ۱۴۰۵ق /۱۹۸۵م.
  • ابن قدامه، عبداللہ، روضۃ الناظر و جنۃ المناظر، بیروت، ۱۴۰۱ق /۱۹۸۱م.
  • ازہری، محمد، تہذیب اللغہ، قاہرہ، ۱۹۶۶م.
  • بدخشی، محمد، مناہج العقول فی شرح منہاج الوصول…، بیروت، ۱۴۰۵ق /۱۹۸۴م.
  • تہانوی، علی، کشاف اصطلاحات الفنون، تحقیق آلویس شپرنگر، کلکتہ، ۱۸۴۸-۱۸۶۱م.
  • حر عاملی، محمد، وسائل الشیعہ، بیروت، ۱۳۸۳، ۱۳۸۷ق /۱۹۶۳، ۱۹۶۷م.
  • حکیم، محمدتقی، الاصول العامہ للفقہ المقارن، قم، ۱۹۷۹م.
  • شہید اول، محمد، القواعد و الفوائد فی الفقہ و الاصول و العربیہ، قم، ۱۳۹۹ق /۱۹۷۹م.
  • شہید ثانی، زین الدین، معالم الاصول، ترجمہ آقا ہادی مازندرانی، تہران، ۱۳۷۷ق /۱۹۵۷م.
  • علم الہدی، مرتضی، الذریعہ الی اصول الشریعہ، تہران، ۱۳۴۶ش.
  • غزالی، محمد، المستصفی، قاہره، ۱۳۲۲ق /۱۹۰۴م.
  • فراہیدی، خلیل، العین، قم، ۱۴۰۵ق /۱۹۸۵م.
  • فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت (ع)، جمعی از پژوہشگران زیر نظر ہاشمی شاہرودی، سید محمود، مؤسسہ دائرة المعارف فقہ اسلامی، قم، چاپ اول، ۱۴۲۶ق.
  • قانون مدنی ایران.
  • قرآن کریم.
  • موسوعہ جمال عبدالناصر الفقہیہ، قاہره، ۱۳۸۶ق /۱۹۶۶م.

بیرونی رابط

http://ur.wikishia.net/view/%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%AD%DB%81

تبصرے
Loading...