لیلی بنت ابی مرۃ

لَیلیٰ بنت أبی مُرَّة بن عُروَة بن مسعود الثَقَفی، امام حسین (ع) کی زوجہ اور حضرت علی اکبر (ع) کی والدہ ہیں۔ لیلیٰ کا نسب باپ کی طرف سے قبیلۂ ثقیف اور ماں کی طرف سے بنی امیہ تک پہنچتا ہے۔ بعض شان و منزلت کے لحاظ سے انہیں اپنے زمانے کی مشہور ترین خواتین میں سمجھتے ہیں۔[1] لیلا (لیلیٰ) کا نام شیعہ معاشرے میں معروف ہے اور حضرت علی اکبر کی والدہ کا نام لیلی ہونے کی وجہ سے یہ نام معروف ہے۔ لیلیٰ کے کربلا میں موجود ہونے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔

نام

اکثر منابع نے ان کا نام لیلی ذکر کیا ہے۔ لیکن ابن‌ سعد نے طبقات کبری میں ان کا نام آمنہ ذکر کیا ہے۔[2]معاصرین میں سے بعض نے ان کا نام ام لیلیٰ ذکر کیا ہے۔[3] اسی وجہ بعض اوقات مجالس امام حسین میں انہیں ام لیلیٰ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

نسب

لیلیٰ کے باپ کا نام ابی مُرَّه بن عُروَه بن مسعود بن مُعَتِّب ہے جو قبیلۂ ثقیف سے تھا۔[4]ابی مُرَّه پیامبر(ص) کے زمانے میں پیدا ہوا۔ ابی مره اور اسکا باپ عروه بن مسعود دونوں رسول اللہ کے صحابہ میں سے تھے ۔ ابو مره نے اپنے بھائی کے ہمراہ رسول خدا کی خدمت میں اسلام قبول کیا۔[5] عروة بن مسعود اسلام کے سادات اربعہ میں سے ایک تھا اور عرب کے بزرگوں میں سے گنا جاتاہے۔ اسے صاحب یس کی مانند اور بن مریم کے مشابہ افراد میں شمار کرتے ہیں۔[6]
لیلیٰ کی والدہ میمونہ بنی امیہ میں سے ابوسفیان کی بیٹی تھی۔[7] وہ ام شیبہ کے نام سے معروف تھی۔[8]

ازدواج اور فرزند

امام حسین(ع) نے لیلیٰ سے ازدواج کی اور علی اکبر (ع) اس شادی کا ثمرہ تھے ۔[9]

واقعہ کربلا میں موجودگی

قدیمی مآخذ میں لیلی کے واقعۂ کربلا میں ہونے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے لیکن بعد کے مآخذ میں کربلا میں انکا حضور مذکور ہے۔ ان منبعوں کے مطابق اپنے بیٹے کی شہادت کے وقت لیلیٰ اپنے خیمے میں مشغول دعا تھی اور انہوں نے علی اکبر کے جسم کو ٹکڑوں کی صورت میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔[10]

ایک اور لیلیٰ

حضرت علی(ع) کی ایک بیوی لیلی بنت مسعود کے نام سے تھیں جو ابوبکر بن علی(ع) کی والدہ تھی اور وہ شہدائے کربلا میں سے ایک ہیں۔[11] اسی لیلیٰ کو کبھی اشتباہ کی بنا پر علی اکبر (ع) کی والدہ کہا گیا ہے۔[12]

حوالہ جات

  1. محلاتی، ج۵، ص۲۹۵.
  2. الطبقات الکبری، خامسہ۱، ص۴۷۰
  3. محلاتی، ج۵، ص۲۹۵
  4. الاستیعاب،ج‌۳، ص۱۰۶۶
  5. الإصابہ، ابن حجر العسقلانی، ج‌۷، ص۳۰۶.
  6. الاستیعاب، ج‌۳، ص۱۰۶۷.
  7. إبصارالعین، السماوی، ص:۴۹
  8. مقاتل الطالبیین، ص۸۶.
  9. إمتاع الأسماع، المقریزی، ج‌۶، ص۲۶۹.
  10. إبصارالعین، السماوی، ص۲۲۴.
  11. الاختصاص، المفید، ص۸۲.
  12. السیرة النبویہ و أخبار الخلفاء، أبوحاتم التمیمی، ج‌۲، ص۵۵۹.

منابع

  • ابن اثیر، علی بن محمد(م ۶۳۰)، أسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت،‌دار الفکر، ۱۴۰۹.
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبدالله(م ۴۶۳)،، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،‌دار الجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲.
  • ابوحاتم تمیمی، السیرة النبویۃ و أخبار الخلفاء، الکتب الثقافیہ، بیروت، ۱۴۱۷ق، چاپ سوم.
  • اصفہانی، ابوالفرج علی بن الحسین(م ۳۵۶)، مقاتل الطالبیین، تحقیق سید احمد صقر، بیروت،‌دار المعرفۃ، بی‌تا.
  • سماوی، محمد بن طاہر،إبصار العین فی أنصار الحسین علیہ السلام، دانشگاه شہید محلاتی، قم، ۱۴۱۹ق، چاپ اول.
  • شیخ مفید، الإختصاص، کنگره شیخ مفید، ۱۴۱۳ق، چاپ اول.
  • محلاتی، ذبیح الله، ریاحین الشریعہ، دارالکتب اسلامیہ، تہران، بی‌تا.
  • مقریزی، تقی الدین، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدة و المتاع، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۲۰ق، چاپ اول.
تبصرے
Loading...