فتوا

فتوا کسی بھی شرعی ذمہ داری کے تئیں مجتہد کی رائے کو کہا جاتا ہے۔ کسی بھی مجتہد کے فتاویٰ عام طور سے ایک کتاب میں پائے جاتے ہیں جسے توضیح المسائل کہا جاتا ہے۔ایک مجتہد کے فتوے اور حاکم شرع کے حکم میں کچھ فرق پائے جاتے ہیں۔ فتوا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کسی بھی چیز کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے جیسے مستحب ہے، واجب ہے یا حرام ہے۔

تعریف

کسی بھی مسئلہ میں مجتہد کی جانب سے حکم شرعی کے بیان کو فتوا کہا کہا جاتا ہے جو مقلدین کی آگاہی کے لئے بیان کیا جاتا ہے۔ [1]

حکم اور فتوے میں فرق

فقہا کی جانب سے جو احکام شرعی صادر کئے جاتے ہیں ان میں بعض کو حکومتی احکام کا درجہ دیا جاتا ہے۔ یا وہ دستورات ہوتے ہیں جو امام معصوم یا اس کے نائب کی طرف سے صادرہوتے ہیں۔ .[2]
اس طرح کےاحکام اور ان فتوے میں چند جہات سے فرق پایا جاتا ہے جو ایک مجتہد مکلف کی شرعی ذمہ داریوں کو واضح کرنے کے لئے بیان کرتے ہیں:

  1. فتوے میں مجتہد مکلف کو حکم شرعی کی خبر دیتا ہے اور کلی حکم شرعی کو بیان کرتا ہے۔ لیکن حکم میں حاکم شرع کی طرف سے حکم صادر اور انشا کیا جاتا ہے۔ فتوا کلی است ولی حکم، جزیی است.
  2. فتوا چونکہ کلی ہوتا ہے،اس لئے اس میں مکلفین کے حالات اور مصلحتوں کو نظر میں نہیں رکھا جاتا،لیکن حکم میں افراد کی مصلحت کو سامنے رکھا جاتا ہے،اب اُس حکم کا تعلق چاہے عدالتی امور سے ہو یا سیاسی اور معاشرتی معاملات سے ہو۔
  3. فتوے کی وسعت عام طور سے محدود ہوتی ہے اور ہر مجتہد کا فتوا اس کے مقلدین ہی پر لاگو ہوتا ہے،لیکن حکم کا نفاذ تمام افراد یہاں تک کہ دوسرے مجتہدین اور مراجع پر بھی حجیت رکھتا ہے اور اس کا اتباع اس وقت تک واجب جب تک اس کا غلط ہونا بالکل واضح نہ ہو۔ [3]

فتوے کی نشاندہی کرنے والے الفاظ

وہ تعبیریں جو ایک مجتہد کے فتوے کو بیان کرتی ہیں،وہ جس مسئلہ میں بیان ہوئی ہوں اس میں کسی دوسرے مجتہد کی طرف رجوع نہیں کیا جا سکتا۔یہ تعبیریں دو طرح کی ہوتی ہیں:

  • بعض تعبیریں، براہ راست فتوا ہیں جیسے وہ تعبیریں جو حکم شرعی کے پانچ حالتوں میں سے کسی ایک کو بیان کرتی ہیں ؛ یعنی واجب، حرام، مکروه، مستحب اور مباح کی تعبیریں۔
  • بعض دوسری تعبیریں جو فقہا کے بیانات میں استعمال ہوتی ہیں وہ براہ راست فتوا نہیں ہوتیں؛ لیکن بالواسطہ فتوے کو بیان کرتی ہیں۔ جیسے مندرجہ ذیل تعبیریں کہ اگر ان سے پہلے، حکم کو احتیاط کی قید کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا ہے، تو اس سے معلوم ہوتا ہےکہ فتوا ہے۔مندرجہ ذیل تعبیریں فتوا کی جگہ استعمال ہوتی ہیں اور فتوے کے حکم میں ہیں:

«اقویٰ یہ ہے، اقویٰ، بر بنائے اقویٰ، اظہر یہ ہے، اظہر، ظاہر یہ ہے، بعید نہیں ہے، اولی یہ ہے، احوط اقویٰ، ، حرج نہیں، قوت سے خالی نہیں ہے، کوئی اشکال نہیں، اصحّ یہ ہے، اصحّ، اقرب، اشبہ.» [4]

اگر چہ ان اصطلاحات سے،عملی طور پر مکلف کی ذمہ درای میں کوئی فرق نہیں پڑتا،لیکن ہر ایک کے اپنے خاص معنی ہیں اور فتوے کے اہمیت کی نشاندہی کرتی ہیں۔[حوالہ درکار]

استفتاء

فقہ میں استفتاء سے مراد وہ سوال ہے،جو مختلف شرعی مسائل سے متعلق مقلدین اپنے مجتہدین سے پوچھتے ہیں۔ سوال کرنے والے کو مستفتی کہا جاتا ہے۔ [5]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. فرهنگ نامہ اصول فقہ، ۱۳۸۹ش، ص۶۰۰.
  2. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۳، ص۳۶۲.
  3. رجوع کیجئے: ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۳، ص۳۶۲.
  4. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۶۴۱؛ نیز رجوع کیجئے: عاملی، الاصطلاحات الفقهیہ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۵۷.
  5. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۴۴۲.

مآخذ

  • عاملی، یاسین عیسی، الاصطلاحات الفقهیہ فی الرسائل العملیہ، بیروت،‌ دار البلاغة، ۱۴۱۳ھ.
  • مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرهنگ‌نامہ اصول فقہ، قم، طبع اول، ۱۳۸۹ش.
  • هاشمی شاهرودی، محمود، فرهنگ فقہ مطابق مذهب اهل بیت علیهم السلام، قم، موسسہ دائرة المعارف فقہ اسلامی، طبع اول، ۱۳۹۲ش.
تبصرے
Loading...