غزوہ ودان

غزوه ودان
سلسلۂ محارب:
رسول اکرمؐ کے غزوات
ودان.png

تاریخ
مقام ابواء
محل وقوع ابواء سے 6 میل دور، مکہ سے 200 کلومیٹر شمال مشرق میں اور مدینہ سے 170 کلومیٹر جنوب مغرب کی جانب
نتیجہ بنو ضمرہ کے ساتھ میثاق صلح
سبب پیغمبر(ص) کو ملنے والی خبر کہ قریش کا تجارتی قافلہ ابواء سے گذرنا چاہتا ہے۔
ملک حجاز
فریقین
مسلمین قریش کا تجارتی قافلہ اور قبیلہ بنو ضمرہ
قائدین
حضرت محمد(ص)
رسول اللہ(ص) کے پہنچنے سے پہلے ہی قریش کا قافلہ جا چکا تھا اور بنو ضمرہ نے آکر آپ(ص) کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے کہ مذکورہ قبیلہ بعدازاں قریش نیز آپ(ص) کی حمایت نہیں کرے گا۔

غزوہ ودان یا غزوہ ابواء [عربی میں: غزوة ودان و غزوة الأبواء] رسول خدا(ص) کے غزوات میں سے ایک ہے جو مدینہ کے قریب ابواء کے میں انجام پایا۔ کہا جاتا ہے کہ غزوہ ودان آپ(ص) کا سب سے پہلا غزوہ تھا۔

وجہ تسمیہ

یہ غزوہ مدینہ کے قریب ابواء کے علاقے ودان میں انجام پایا۔ ودان جنوب مشرق میں جحفہ اور ابواء کے درمیان واقع ہے۔ چونکہ ودان ابواء سے صرف 6 میل یے فاصلے پر واقع ہے[1] اور یہ دو علاقے ایک دوسرے کے قریب واقع ہیں چنانچہ منابع میں مذکورہ غزوے کا تذکرہ دونوں ناموں سے ہوا ہے۔[2]

واقعے کی حقیقت

صفر ـ جو ہجرت مہینہ کا بارہواں مہینہ تھا ـ میں رسول خدا(ص) نے پہلا غزوہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا؛ چنانچہ آپ(ص) نے قریش کے تجارتی قافلے کو پکڑنے اور قبیلہ بنو ضمرہ بن بکر کنانی کی سرکوبی کے لئے مدینہ سے ابواء کی جانب عزیمت کی۔ اس مہم میں انصار کا کوئی فرد شامل نہ تھا۔ رسول اللہ(ص) نے سعد بن عبادہ کو مدنی عوام کے مسائل کے حل کے لئے ، مدینہ میں اپنی جگہ مقرر کیا۔[3]

رسول اللہ(ص) ودان میں پہنچے تو (قریش کا قافلہ جا چکا تھا اور ان کے حلیف قبیلے) بنو ضمرہ کے افراد رسول خدا(ص) کے ساتھ صلح و آشتی کے لئے آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی طرف سے مخشی بن عمرو ضمری نے معاہدہ صلح پر دستخط کئے جو اس زمانے میں بنو ضمرہ کا سردار تھا۔[4]۔[5] اس مہم کے دوران رسول خدا(ص) 15 دنوں تک مدینہ سے دور رہے۔

صلح نامے کے مندرجات

صلح کی اس قرار داد میں طے پایا کہ:

  1. قبیلہ بنی ضمرہ رسول اللہ(ص) کے خلاف کسی کی حمایت نہیں کرے گا اور مسلمان بھی ان کے خلاف کسی کی حمایت نہیں کریں گے۔
  2. مذکورہ قبیلے اس سلسلے میں کسی کو امداد نہیں پہنچائے گا۔

بالآخر عہدنامہ لکھا گیا اور رسول خدا(ص) مدینہ واپس آئے۔[6]

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. حموی، معجم البلدان، ص365۔
  2. ابن هشام، سیره نبوی، ص408۔
  3. ابن هشام، سیره نبوی، ص392۔
  4. ابن هشام، وہی ماخذ، ص392۔
  5. ابن اثیر، الکامل، ج7، ص125۔
  6. واقدی، المغازی، ص8۔

مآخذ

  • ابن اثیر، عزالدین علی، الکامل فی التاریخ، ترجمه (فارسی): ابوالقاسم حالت، تهران، مؤسسه مطبوعاتی علمی، 1371ش.
  • بیهقی، ابوبکر احمد بن حسین؛ دلائل النبوه، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، تهران، علمی و فرهنگی، 1361ش
  • حموی، شهاب الدین یاقوت، معجم البلدان ، دارصادر ، بیروت، 1995عیسوی۔
  • ابن خلدون ، عبدالرحمن بن محمد، ترجمه: عبدالمجید آیتی، سیره نبوی، تهران، کتابچی ، 1363هجری شمسی
  • ابن هشام، عبدالملک، ترجمه: ابوالقاسم الکامل، تهران، ناشر، مؤسسه مطبوعاتی علمی، 1371هجری شمسی
  • واقدی، محمد بن عمر، ترجمه (فارسی): محمود مهدوی دامغانی، المغازی، تهران، مرکز نشر دانشگاهی ، 1369هجری شمسی
  • بیهقی، ابوبکر احمد بن حسین، ترجمه: محمود مهدوی دامغانی ، دلائل النبوه، تهران، علمی و فرهنگی ، 1361هجری شمسی
  • ابن سعد هاشمی، محمد، ترجمه: محمود مهدوی دامغانی، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیه ، 1410هجری قمری.
تبصرے
Loading...