غزوہ ذوالعشیرہ

غزوه ذو العشیرہ
سلسلۂ محارب:
رسول خدا(ص) کے غزوات
غزوہ ذوالعشیرہ.png

فریقین
مسلمین قریش کا تجارتی قافلہ
قائدین
حضرت محمد(ص) ابو سفیان
در غزوه ذی العشیره، جنگی رخ نداد، بلکه محمد پیامبر اسلام با بنی مدلج و هم پیمانان آن قبیله پیمان بست و به مدینه بازگشت.

غزوہ عشیرہ یا غزوہ ذوالعشیرہ، [عربی میں: غزوة ذي العشیرة] رسول خدا(ص) کے غزوات میں سے ایک ہے جو ماہ جمادی الاول سنہ 2 ہجری میں، غزوہ بواط کے کچھ عرصہ بعد، انجام پایا۔

غزوہ بواط کے بعد ـ 15 جمادی الاول کو ایک خبر مدینہ پہنچی کہ قریش کا ایک بڑا تجارتی قافلہ ابو سفیان بن حرب کی سرکردگی میں مکہ سے شام جارہا ہے۔

رسول خدا(ص) نے ابوبکر / یا ابو سلمہ بن عبدالاسد کو مدینہ میں جانشین قرار دیا اور مہاجرین میں سے 200 افراد کا لشکر لے کر قریشی قافلے “ینبع” کے علاقے میں “ذوالعشیرہ” ـ جس کا فاصلہ مدینہ سے کچھ زیادہ نہیں ہے ـ تک تعاقب کیا اور کئی دن تک وہیں قیام کیا لیکن انہیں کوئی قافلہ نظر نہیں آیا کیونکہ وہ چند روز قبل وہاں سے گذر چکا تھا۔

یہ وہی قافلہ تھا جس پر شام سے واپسی کے وقت ایک بار پھر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور مکہ کے قریشی بڑی نفری لے کر باہر آئے اور یہ نقل و حرکت جنگ بدر پر منتج ہوئی۔ غزوہ ذوالعشیرہ میں کوئی جنگ نہیں ہوئی اور رسول خدا(ص) نے قبیلہ بنو مدلج اور ان کے حلیف قبائل کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے اور مدینہ پلٹ آئے۔

علی(ع) ابو تراب بن گئے

ابن ہشام عمار بن یاسر سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: غزوہ ذوالعشیرہ میں ہم علی بن ابی طالب کے ساتھ ہم سفر اور مانوس تھا اور ذوالعشیرہ میں ہمارے چند روزہ قیام کے دوران ایک دن علی بن ابی طالب نے مجھ سے کہا: “آؤ نخلستانوں میں کام کاج میں مصروف بنو مدلج کے پاس چلیں” اور ہم آپ(ع) کے ہمراہ نخلستان میں چلے گئے۔ ہم بیٹھ کر ان کا کام دیکھ رہے تھے کہ اسی اثناء میں نیند ہم پر غالب آئی اور دونوں اٹھ کر کھجور کے ایک درخت کے سائے میں نرم ریت پر سو گئے۔

ہم اس وقت جاگے جب رسول اللہ(ص) نے آکر ہمیں اپنے پائے مبارک سے ہلایا اور میں اور علی(ع) اٹھے اور آپ(ص) کے سامنے کھڑے ہوگئے؛ جبکہ ہمارے سر اور چہرے دھول مٹی سے اٹے ہوئے تھے۔ رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے مخاطب ہوکر فرمایا: “اے ابا تراب یہ کیا حالت ہے؟

اور بعدازاں فرمایا: کیا میں تمہیں بدبخت ترین اور شقی ترین لوگوں کا تعارف نہ کراؤں؟

ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ!

فرمایا: ان میں سے ایک وہی شخص ہے جس نے صالح کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں اور ـ پھر علی(ع) کے ماتھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ـ دوسرا شخص وہ ہے جو تمہارے سر کے اس حصے پر تلوار سے وار کرے گا اور تمہاری داڑھی کو خون میں رنگ دے گا۔

منابع

  • رسولی محلاتی، سید هاشم، زندگانی حضرت محمد صلی الله علیه و آله، 1374 هجری شمسی؛ ص289۔
  • قمی، شیخ عباس، منتهي الامال۔
تبصرے
Loading...