عبد اللہ ابن سبا

عبد اللہ بن سباء یا عبداللہ بن سوداء (پہلی صدی ہجری کی تیسری یا چوتھی دہائی) تاریخ اسلامی کی مورد نزاع شخصیات میں سے ہے جس کے بارے میں تاریخی اور علم رجال کے مآخذ متضاد حکایات نقل کرچکی ہیں۔
ابن سبا کا نام پہلی مرتبہ طبری نے کتاب تاریخ الامم و الملوک میں ذکر کیا ہے۔ اور جن کتابوں سے طبری نے نقل کیا ہے بہت سارے شیعہ اور سنی علما نے ان کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔
اہل سنت کی بعض کتابوں میں اسے شیعہ مذہب کا موجد قرار دیا ہے، بعض محققین نے اسے غالی اور اہل بیت پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے ملعون قرار پایا ہے۔ جبکہ بعض تحقیقات میں تو ایسے شخص کے وجود سے ہی انکار کرتے ہوئے اسے افسانہ قرار دیا ہے جس کو شیعوں کے دشمنوں پیش کیا ہے۔ ابن سبا کے بارے میں بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سب سے مفصل کتاب، عربی زبان میں عبداللہ بن سبأ و اساطیر اخری ہے جسے شیعہ معروف عالم دین علامہ سید مرتضی عسکری نے لکھا ہے۔

انکار سے اثبات تک

ابن سبا کے بارے میں اس کا ہونے اور تاریخ اسلام میں کلیدی کردار ادا کرنے کا ادعا سے لیکر ایسے شخص کی کوئی حقیقت نہ ہونے تک کے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔
لیکن ابن سبا کے بارے میں تاریخی مطالعے سے مندرجہ ذیل نتائج ملتے ہیں۔

  • متقدم کتابوں میں

تاریخ اسلامی کی اہم اور سب سے قدیمی کتابیں جیسے؛ «طبقات» ابن سعد (۱۶۸-۲۳۰ق) اور «انساب الاشراف» بلاذری (متوفی ۲۷۹ھ) میں عثمان کے دور خلافت کے حادثات اور اس کے قتل کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہیں بھی ابن سبا کا نام نہیں لیا ہے۔ اور ایسے شخص کے ہونے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔[1]
ابراہیم بن محمد ثقفی (متولد۲۷۳ھ) کی کتاب الغارات میں کسی روایت کے ضمن میں عبد اللہ ابن سبا کا نام ذکر ہوا ہے۔[2] وہی روایت اسی مضمون کے ساتھ ابن‌قتیبہ (متوفی۲۷۶ھ) کی کتاب الامامۃ و السیاسۃ میں بھی آئی ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ عبد اللہ ابن سبا کی جگہ عبد اللہ بن وہب راسبی کا نام آیا ہے؛ آخر کار بلاذری نے اپنی کتاب انساب الاشراف میں ان دو روایات کے مسئلے کو حل کیا ہے اور اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ عبد اللہ بن وہب راسبی افراطی خوارج میں سے تھا اور علیؑ کو خدا کا منکر سمجھنے والوں میں سے تھا اور وہی ابن سبا ہے۔[3]

  • شیعہ مذہب کا بانی

بعض مورخین اور ان میں سے اکثر اہل سنت مورخین کا کہنا ہے کہ عبداللہ ابن سبا شیعہ مذہب کا بانی اور تاریخ میں کلیدی کردار ادا کرنے والا خاص کر عثمان میں قتل اور جنگ جمل میں علیؑ اور عایشہ کے درمیان مذاکرات کا مانع بننے والا ہے۔ اس نظریے کا علمبردار طبری ہے اور اس بات کا مبنی ایک روایت سمجھتے ہیں جسے سیف بن عمر نامی شخص نے روایت کی ہے۔[4]بعد کے تمام مآخذ میں اس نظریے کی نسبت تاریخ طبری کی طرف دی گئی ہے۔

  • اہل بیتؑ کے ہاں مبغوض فرد

علم رجال کے بہت سارے علما اور مورخین عبداللہ ابن سبا کو غالی سمجھتے ہیں کہ وہ امام علیؑ کے بارے میں مبالغہ کرتا تھا اور آپؑ کو الہی مقام تک لے جاتا تھا اور اسی وجہ سے شیعہ اماموں کی طرف سے سبّ اور لعنت کا مستحق قرار پایا ہے۔[5] اور شاید کشی کو اس نظریے کا مآخذ قرار دیا جاسکے؛ کیونکہ ان کے بعد اکثر شیعہ محققوں نے اسی راستے کو اپنایا ہے۔[6] بعض اہل سنت کے علما[7] اور مغربی اسلام شناسوں [8]نے بھی ابن سبا کے بارے میں اسی نظریے کی تائید کی ہے۔

  • افسانہ اور جعلی تاریخ

بعض متاخر محققین بھی اس نظریے کے معتقد ہیں کہ عبد اللہ بن سبا نامی کسی شخص کا وجود ہی نہیں تھا اور یہ سب بعض سیف ابن عمر کی طرح کے افراد کی طرف سے گھاڑی ہوئی باتیں ہیں۔ اور اپنا نظریہ ثابت کرنے کے لیے ان محققوں نے تاریخی مآخذ اور علم رجال پر فوقیت رکھنے والے اصول سے استناد کیا ہے۔ علامہ طباطبایی، علامہ عسکری اور ڈاکٹر طاہا حسین اس گروہ کے مشہور علما میں سے ہیں۔[9]

  • عبداللہ بن سبا یا عمار یاسر

عرب محقق ڈاکٹر علی الوردی نے اپنی کتاب وعاظ السلاطین میں عبد اللہ ابن سبا نامی شخص کا خیالی ہونے کے نظریے کی تائید کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے شخص کے وجود سے بھی انکار کیا ہے اور ادعا کرتا ہے: ان خصوصیات میں سے اکثر جو تاریخ طبری اور دیگر کتب میں ابن سبا کے لیے ذکر ہوئی ہیں وہ، پیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ کے باوفا صحابی عمار بن یاسرؓ میں پائے جاتے ہیں اور انہیں سبائیوں کا سرپرست بلکہ خود ان کو عبد اللہ ابن سبا کہا جاسکتا ہے۔[10]کتابوں میں عمار کا ابن السوداء کے نام سے مشہور ہونا، یہی شہرت ابن سبا کے لیے بھی تھی، عمار کی علیؑ سے بےحد محبت اور لوگوں کو ان کی بیعت کے لئے بلانا اور جنگ جمل میں عمار کا کردار ان شباہتوں میں سے ہیں جو عمار یاسر اور اہل سنت کی کتابوں میں مذکور عبد اللہ ابن سبا کے درمیان ہے۔[11]

شخصیت‌ شناسی

جو کچھ طبری یا دوسروں نے طبری کی پیروی کرتے ہوئے نقل کیا ہے اس کے مطابق عبد اللہ ابن سبا اہل صنعا کا ایک یہودی تھا اور اس کی ماں سیاہ فام تھی اور تیسرے خلیفے کے دور میں اسلام لے آیا ہے۔ اس کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیؑ کی طرح پیغمبر اکرمؐ بھی رجعت کریں گے۔ اس کا عقیدہ تھا کہ ہر پیغمبر کا ایک جانشین ہوتا ہے اور آخری پیغمبر کا جانشین علیؑ تھا جو کہ خاتم الاوصیاء ہے۔
عثمان نے اس حق کو غصب کیا ہے اور علیؑ پر ظلم کیا ہے؛ لہذا امت اسلامی کو ان کے خلاف قیام کر کے عثمان کو خلافت سے برکنار کرتے ہوئے حکومت علیؑ کو واپس کرنا چاہیے۔
ابن سبا نے اپنے اس عقیدے کی ترویج کے لئے اسلامی شہروں جیسے؛ کوفہ، شام، مصر اور بصرہ وغیرہ کا سفر کیا۔ اور پیغمبر اکرمؐ کے بعض اصحاب جیسے ابوذر، عمار بن یاسر، محمد بن ابی حذیفہ، عبدالرحمن بن عدیس، محمد بن ابی بكر، صعصعۃ بن صوحان عبدی اور مالك اشتر ان کے افکار کے فریب میں آکر اس کی طرف مائل ہوئے۔ اس کے عقاید ایسے پھیل گئے کہ عثمان مجبور ہوا چند بزرگ اصحاب کو اس کے عقیدے کی ترویج روکنے کے لیے مختلف شہر بھیجدے۔ یوں ابن سبا کی تحریک خلیفہ وقت کے خلاف قیام بن گیا اور اس کے نتیجے میں عثمان مارا گیا۔
ابن سبا کے مختلف شہروں میں مبلغین تھے جو لوگوں کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت دیتے تھے؛ اور یہی گروہ جنگ جمل اور صفین میں بھی کلیدی کردار رکھتے تھے۔[12]

مآخذ کی بررسی

جن کتابوں نے عبد اللہ ابن سبا کا نام ذکر کیا ہے ان میں سے اہل سنت سے کو تاریخ طبری اور شیعوں میں سے رجال کشّی اس نام کو ذکر کرنے والے مآخذ کے عنوان سے یاد کی جاتی ہیں۔

تاریخ طبری

عبد اللہ ابن سبا کا واقعہ نقل کرنے والی پہلی کتاب تاریخ طبری (۲۲۴-۳۱۰) ہے۔ اور اس نقل کی سند سیف ابن عمر نامی شخص ہے۔ دوسرے مورخین جیسے: ابن اثیر (متوفی: ۶۳۰ھ)،[13] ابن کثیر (متوفی: ۷۷۴ھ)، [14]
ابن عساكر (متوفی ۵۷۱) نے «تاریخ مدینۃ دمشق» میں اس واقعے کو سیف سے نقل کیا ہے۔[15]
متأخّرین میں سے بعض نے جیسے رشید رضا نے کتاب الشیعہ و السنہ، [16] اور علی سامی نشار، نے ابن سبا کے وجود پر تاکید کی ہے۔[17]

سیف ابن عمر

ابن سبا کے وجود کا اصلی راوی یعنی سیف ابن عمر اہل سنت کے بہت سارے علما جیسے؛ یحیی بن معین (متوفی ۲۳۳ق) نسایی (متوفی۳۰۳ھ)،[18] ابو داود (متوفی ۲۷۵)،[19] ابن حمّاد عقیلی (متوفّی۳۲۲ھ)، [20] ابن ابی حاتم (متوفی ۳۲۷ھ)[21] و ابن حبان (متوفی۳۵۴ھ)[22] کے نزدیک ضعیف اور ناقابل اعتماد ہے اور اس کو روایات میں ضعیف، جعلی حدیث لکھنے والا اور ناقابل اعتماد کے عناوین سے یاد کیا ہے۔
بعض دوسرے جیسے: ذہبی (متوفی ۷۴۸ھ) نے سیف کی روایات کا ضعیف اور متروک ہونے پر اہل سنت کے علما کے درمیان اجماع کا دعوی کیا ہے۔[23]

رجال کشی

علامہ عسکری نے ابن سبا کے بارے میں رجال کشی میں آنے والی روایات کو چند دلیلوں کی بنا پر رد کیا ہے:
الف: یہ روایاتیں شیعوں کی اصول اربعہ میں نہیں ہیں اور یہ نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ شیعہ علما ان روایات پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔
ب: نجاشی، محدث نوری اور محمدتقی شوشتری، کشی اور ان کی کتاب کو بعض اشتباہات اور ضعیف روایات کا حامل سمجھتے ہیں۔[24]

اس بارے میں لکھی گئی کتابیں

عبد اللہ ابن سبا کے بارے میں بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے سب سے اہم کتاب کہ جس میں عبد اللہ ابن سبا کے بارے میں بہت کچھ تحقیق کی ہے وہ الفتنۃ الکبری تالیف طہ حسین (۱۸۸۹ -۱۹۷۳ء) اور وعاظ السلاطین تالیف علی الوردی (متولد ۱۹۱۳ء)، ہیں؛ ان کے علاوہ خود ابن سبا کے بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض اہم کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

  • عبداللہ‌ بن‌ سبا‌ و اسا‌طیر اخری

تالیف: علامہ مرتضی عسکری(1914-2007ء)؛ شاید آپ وہ محقق ہیں جو اس موضوع پر سب سے زیادہ تحقیق کر چکے ہیں۔ اور چند کتابوں کی شکل میں اپنی تحقیق کو پیش کیا ہے۔ کتاب عبداللہ‌ بن‌ سبا‌ و اسا‌طیر اخری، عربی زبان میں دو جلدوں پر مشتمل ہے، ۱۳۷۵ھ کو نجف، ۱۳۸۱ھ کو بعض اضافے کے ساتھ قاہرہ اور ۱۳۸۸ھ کو بیروت میں چھاپ ہوئی۔ اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن ۱۳۹۳ھ کو بیروت میں مولف کے اصلاحات اور اضافات کے ساتھ چھپ کر منظر عام پر آگیا۔
یہ کتاب انگلش، فارسی، اردو اور ترکی زبان میں بھی ترجمہ ہوچکی ہے۔

  • آراء و اصداء حول‌ عبداللہ‌ بن‌ سبا‌ و روایا‌ت‌ سیف‌ فی‌ الصحف‌ السعودیۃ

کتاب عبداللہ بن سبأ کو چھپنے کے بعد مخالفت اور موافقت کا سامنا کرنا پڑا؛ بعض سعودی عرب کے ناشرین نے بھی اپنے پروفیسرز کے نظریات اس بارے میں منتشر کیا اور ان اظہارات اور علامہ عسکری کی طرف سے ان کے نظریات کے جوابات کو ایک کتاب بنام «آراء و اصداء حول عبداللہ بن سبأ و روایات سیف فی الصحف السعودیۃ» میں جمع کر کے 1421ھ کو زیور طبع سے آراستہ کیا۔

  • عبداللہ‌ بن‌ سبا‌ء من‌ منظور آخر

عبداللہ ابن سبا ملعون تھا

علم رجال کے بہت سارے علما اور مورخین عبداللہ ابن سبا کو غالی سمجھتے ہیں کہ وہ امام علیؑ کے بارے میں مبالغہ کرتا تھا اور آپؑ کو الہی مقام تک لے جاتا تھا اور اسی وجہ سے شیعہ اماموں کی طرف سے سبّ اور لعنت کا مستحق قرار پایا ہے۔

اختیار معرفۃ الرجال «رجال کشی»، ج۱، ص۳۲۳-۳۲۴

تالیف: اسد حیدر(۱۹۱۱ – ۱۹۸۰ء)، انتشارات مجمع جہانی اہل بیتؑ کے توسط سنہ۱۴۲۶ھ کو چھپ گئی۔

  • عبداللہ‌ بن‌ سبا‌ بین‌ الواقع‌ و الخیا‌ل‌

تالیف: ہادی خسروشا‌ہی‌ (متولد 1938ء) جو عربی زبان میں سنہ۱۴۲۶ھ کو مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی کی طرف سے چھپ گئی۔

  • عبداللہ بن سبا حقیقۃ ام خرافۃ

تالیف: علی آل محسن، عربی زبان میں سنہ۱۴۲۹ھ کو چھپ گئی۔

حوالہ جات

  1. طہ حسین، الفتنۃ الکبری، قاہرہ، ج۲، ص۱۳۲.
  2. ثقفی، الغارات، انجمن آثار ملی، ج۱، ص ۳۰۲.
  3. بلاذری، أنساب الأشراف، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ج۲ ، ص۳۸۲.
  4. ر.ک: طبری، تاریخ الأمم و الملوك، بیروت، ج‌۴، ص۳۴۰.
  5. مراجعہ کریں: طوسی، اختیار معرفۃ الرجال «رجال کشی»، موسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، ج۱، ص۳۲۳-۳۲۴.
  6. عسکری، عبد اللہ بن سبأ و دیگر افسانہ‌ہای تاریخی، ۱۳۸۷ش، ج‌۳، ص۶۱۴.
  7. بغدادی، الفرق بین الفرق، ۱۹۷۷م، ص۲۲۳.
  8. گویارد، سازمان‌ہای تمدن ‌‌امپراطوری‌ اسلام، ۱۳۳۶ش، ص‌۳۸-۴۰.
  9. مراجعہ کریں: عسکری، عبد اللہ بن سبأ و دیگر افسانہ‌ہای تاریخی، ج‌۱، ص ۶۸؛ طباطبایی، «عبداللہ بن سبا»، ص ۱۹۴؛ طہ حسین، الفتنۃ الکبری، قاہرہ، ج‌۲، ص۱۳۴.
  10. الوردی، وعاظ السلاطین، ۱۹۹۵م، ص۱۷۴.
  11. طباطبایی، «عبداللہ بن سبا»، ص۲۲۰-۲۲۱.
  12. طبری، تاریخ الأمم و الملوك، ج۴، ص۳۴۰.
  13. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج ۳، ص ۱۵۴.
  14. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج ۷، ص ۱۶۷.
  15. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، دارالفکر، ج ۲۹، ص ۳-۴.
  16. امینی، نظرۃ فی کتاب السنۃ و الشیعۃ لمحمد رشید رضا، مشعر، ص ۱۱.
  17. نشار، نشأۃ الفکر الفلسفی فی الاسلام، دارالمعارف، ج۱، ص۶۸.
  18. نسایی، الضعفاء والمتروكون للنسائی، ۱۳۹۶ق، ص۵۰.
  19. ابن حجر، تہذیب التہذیب، ۱۳۲۶ھ، ج ۴، ص۲۹۵.
  20. ابن حماد،الضعفاء الكبیر، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۱۷۵.
  21. ابن ابی حاتم، الجرح والتعدیل، ۱۳۷۱ق، ج ۴، ص۲۷۸.
  22. ابن حبان، المجروحین، ۱۳۹۶ق، ج۱، ص۳۴۵.
  23. ذہبی، المغنی فی الضعفاء، ج۱، ص۲۹۲، شمارہ۲۷۱۶.
  24. عسکری، عبد اللہ بن سبأ و دیگر افسانہ ہای تاریخی، ۱۳۸۷ش، ج۳، ص۶۱۵-۶۱۸.

مآخذ

  • ابن ابی حاتم، ابو محمد عبد الرحمن بن محمد، الجرح والتعدیل، حیدر آباد، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیۃ، ۱۳۷۱ق ۱۹۵۲ م.
  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ق.
  • ابن حبان، محمد، المجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروكین، محقق: محمود ابراہیم زاید، حلب، دار الوعی، ۱۳۹۶ق.
  • ابن حماد العقیلی، محمد بن عمرو، الضعفاء الكبیر، محقق عبد المعطی امین قلعجی، بیروت، دار المكتبۃ العلمیۃ، ۱۴۰۴ق، ۱۹۸۴م.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، ہند، مطبعۃ دائرۃ المعارف النظامیۃ، ۱۳۲۶ق.
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، محقق علی شیری، بیروت، دار الفکر، بی تا.
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق.
  • الوردی، علی، وعاظ السلاطین، بیروت، دار کوفان للنشر، ۱۹۹۵م.
  • امینی، عبدالحسین، نظرۃ فی کتاب السنۃ و الشیعۃ لمحمد رشید رضا، محقق احمد کنانی، تہران، مشعر، بی تا.
  • بغدادی، عبد القاہر بن طاہر، الفرق بین الفرق وبیان الفرقۃ الناجیۃ، بیروت، دار الآفاق الجدیدۃ، ۱۹۷۷م.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف، محققین محمد باقر محمودی و عباس احسان و عبدالعزیز دوری و محمد حمید اللہ، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، بی تا.
  • ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات (الاستنفار و الغارات، طبع قدیم)، محقق جلال الدین محدث، تہران، انجمن آثار ملی، بی تا.
  • ذہبی، محمد بن احمد، المغنی فی الضعفاء، المحقق الدكتور نور الدین عتر، بی تا. (نسخہ مکتبۃ الشاملۃ)
  • طباطبایی،سید محمد حسین، «عبداللہ بن سبا»، مجلہ مکتب تشیع، شمارہ ۴، اردیبہشت ۱۳۳۹ش.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوك، محقق محمد ابوالفضل ابراہیم، لبنان، بیروت (نسخہ کتابخانہ دیجیتال نور).
  • طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی) محقق مہدی رجایی و محمد باقر بن محمد میرداماد، قم، موسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، بی تا.
  • طہ، حسین، الفتنۃ الکبری، دارالمعارف، قاہرہ، بی تا.
  • عسکری، مرتضی، عبد اللہ بن سبأ و دیگر افسانہ‌ہای تاریخی، ترجمۂ احمد فہری زنجانی و عطاء محمد سردارنیا، قم، دانشکدہ اصول دین، ۱۳۸۷ش.
  • گویارد، استانسیلاس، سازمانہای تمدن ‌‌امپراطوری‌ اسلام، ترجمۂ سید فخر الدین طباطبائی، تہران،‌ کتابخانہ ابن سینا، ۱۳۲۶‌ش.
  • نسایی، ابو عبدالرحمن، الضعفاء والمتروكون للنسائی، حلب، دار الوعی، ۱۳۹۶ق.
  • نشار، علی سامی، نشأۃ الفکر الفلسفی فی الاسلام، قاہرہ، دارالمعارف، چاپ نہم، بی تا.
تبصرے
Loading...