عبدالعظیم حسنی

عبدالعظیم بن عبداللہ بن علی بن حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی‌ طالب(۱۷۳-۲۵۲ ق)، عبد العظیم حسنی یا شاہ عبد العظیم کے نام سے معروف، حسنی سادات کے علماء اور علم حدیث کے راویوں میں سے تھے۔ عبدالعظیم حسنی کا نسب چار پشتوں میں امام حسن مجتبی(ع) سے ملتا ہے۔ تاریخ میں انہیں با تقوا، امین، صادق، دین شناس عالم دین، شیعہ اصول دین کا قائل اور محدث کے عناوین سے یاد کیا ہے۔ شیخ صدوق نے ان سے منقول احادیث کو جامع اخبار عبد العظیم کے نام سے جمع کیا ہے۔

عبدالعظیم حسنی نے امام رضا(ع) اور امام جواد(ع) کو درک کیا۔ منقول ہے کہ آپ نے امام ہادی(ع) کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کیا اور امام کے امامت کے دوران ہی وفات پائے ہیں۔ ایران کے شہر ری میں ان کا مزار حرم حضرت عبدالعظیم کے نام سے شیعیان جہان کیلئے زیارت گاہ کے طور پر سالوں سے عقیدت اور احترام کا حامل ہے۔ بعض احادیث میں ان کی زیارت کا ثواب امام حسین(ع) کی زیارت کے ثواب کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

ولادت اور نسب

عبدالعظیم حسنی بروز جمعرات 4 ربیع الثانی سنہ ۱۷۳ہ.ق کو ہارون الرشید کے دور میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔[1] آپ کے والد عبداللہ بن علی قافہ اور آپ کی والدہ اسماعیل بن ابراہیم کی بیٹی “ہیفاء” نام رکھتی تھی۔[2] آپ کا نسب چار پشتوں میں امام مجتبی(ع) سے جا ملتا ہے۔ نجاشی کہتے ہیں: حضرت عبدالعظیم کی وفات کے بعد غسل دیتے وقت آپ کے لباس میں ایک رقعہ پایا گیا جس میں ان کا نسب یوں درج تھا: میں ابوالقاسم فرزند عبداللہ فرزند علی، فرزند حسن، فرزند زید، فرزند حسن بن علی بن ابی طالب ہوں۔ [3] محقق میرداماد بھی ان کے بارے میں لکھتے ہیں: آپ (عبدالعظیم) روشن نسب اور آشکار شرافت کے حامل تھے۔ [4]

ازدواج اور اولاد

آپ کی زوجہ محترمہ آپ کی چچازاد تھی آپ کو ان کے بطن سے دو بچے بنام محمد اور ام سلمہ عطا ہوئے۔[5]شیخ عباس قمی آپ کے ایک بیٹے کی خصوصیات لکھتے ہوئی فرماتے ہیں: محمد ایک بزرگ شخصیت کے حامل تھے اور زہد و عبادت کے مقام پر بہت شہرت رکھتے تھے۔[6]

ائمہ(ع) کی مصاحبت

حضرت عبدالعظیم کو کئی اماموں کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

آقا بزرگ تہرانی نقل کرتے ہیں: عبدالعظیم حسنی نے امام رضا(ع) اور امام جواد(ع) کے زمانے کو درک کیا اور امام ہادی(ع) کی خدمت میں اپنا ایمان عرضہ کیا اور امام ہادی کے دور امامت میں ہی اس دنیا سے چلے گئے۔[7] لیکن آیت اللہ خویی نے حضرت عبدالعظیم کا امام رضا(ع) کے ساتھ ہم عصر ہونے کو رد کیا ہے۔[8]

شیخ طوسی اپنی کتاب رجال شیخ طوسی میں انہیں امام عسکری(ع) کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔[9] عزیز اللہ عطاردی نیز تصریح کرتے ہیں کہ عبدالعظیم حسنی کی زندگی اور ان سے منقول احادیث پر تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے امام کاظم(ع)، امام رضا(ع)، امام جواد(ع) اور امام ہادی(ع) کو درک کیا ہے۔[10]

کہا جاتا ہے کہ عبدالعظیم جب بھی امام جواد(ع) یا امام ہادی(ع) کی خدمت میں مشرف ہوتے تو نہایت ادب، خضوع و خشوع اور تواضع کا اظہار کرتے تھے اور نہایت ادب کے ساتھ ان اماموں کیلئے سلام عرض کرتے تھے۔ امام ان کے سلام کا جواب دینے کی بعد انہیں اپنے ساتھ بٹھاتے تھے یہاں تک کہ ایک دوسرے کے گھٹنے آپس میں ملتے تھے اور امام مکمل ان کی خیر و عافیت دریافت کرتے تھے۔ امام کا یہ رویہ دوسروں کیلئے موجب حسرت اور غبطہ ہوا کرتا تھا۔[11]

شیعوں کی سرکوبی کا دور

حضرت عبدالعظیم کی زندگی بنی عباس کے دور میں شیعوں کی سرکوبی کے دوران گزری ہے۔ آپ بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح سالوں سال دشمن کے ظلم و بربریت کا شکار رہتے تھے اسی لئے مدینہ، بغداد اور سامرا میں زندگی کے دوران تقیہ پیشہ کرتے تھے اور اپنا عقیدہ پوشیدہ رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود متوکل اور معتز عباسی کی ظلم و بربریت کا شکار رہتے تھے۔[12]

شہر ری کی طرف ہجرت

تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عبدالعظیم نے عباسی خلیفہ معتز کے ظلم و جور اور اذیت و آزار سے تنگ آکر اور شہید کرنے کے خوف سے امام ہادی علیہ السلام کے حکم پر سامرا – جو عباسیوں کا مضبوط گڑھ تھا – سے شہر ری ہجرت کی۔ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے علی بن موسی الرضا(ع) کی زیارت کی قصد سے خراسان کا سفر کیا اور راستے میں حمزۃ بن موسی بن جعفر(ع) کی زیارت کیلئے توقف کیا اور وہیں پر مخفیانہ زندگی گزارنے لگے۔[13]

نجاشی نے احمد بن محمد بن خالد برقی کے توسط سے اس واقعے کو یوں نقل کیا ہے:

حضرت عبدالعظیم وقت کے ظالم اور جابر حکمران کے ہاتھوں سے فرار کرتے ہوئے شہر ری آئے اور وہاں پر “سکۃ الموالی” نامی ایک محلے میں ایک شیعہ مؤمن کے گھر کے تہ خانے میں عبادت میں مشغول رہتے نھے۔ گھر سے مخفی طور پر باہر آکر کسی قبر کی زیارت کیلئے جاتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ قبر امام موسی کاظم(ع) کی نسل سے کسی شخص کی قبر ہے۔ آپ اسی تہ خانے میں زندگی گزارتے تھے یہاں تک کہ آپ کی ہجرت کی خبر ایک کے بعد ایک شیعوں کے کانوں تک پہنچی اور اس طرح اکثر شیعیان آپ کے وہاں رہنے سے با خبر ہو گئے تھے۔[14]

رحلت

کہا جاتا ہے کہ عبدالعظیم حسنی کی رحلت 15 شوال سنہ 252 ہجری کو امام ہادی(ع) کے زمانے میں واقع ہوئی۔ [15]آپ کی رحلت کی کیفیت کے بارے میں جو چیز تاریخ میں ثبت ہوئی ہے وہ دو قول طبیعی موت یا شہادت ہے۔ نجاشی نقل کرتے ہیں: عبدالعظیم بیمار ہوئے اور اسی بیماری میں دنیا سے چل بسے.[16] شیخ طوسی فرماتے ہیں: عبدالعظیم شہر ری میں وفات پائی اور ان کی قبر اسی شہر میں واقع ہے۔.[17]

اس کے مقابلے میں ایک اور روایت یہ بھی ہے جس میں آپ کو زندہ بہ گور کر کے شہید کئے جانے کی خبر دیتے ہیں۔ طریحی لکھتے ہیں: حضرت ابو طالب کی اولاد میں سے جو شخص شہر ری میں مدفون ہے وہ عبد العظیم حسنی ہے۔[18] واعظ کجوری اس بارے میں کہتے ہیں: رجال و انساب کی کتابوس میں حضرت عبدالعظیم کے حالات زندگی کے بارے میں تحقیق کی گئی تو ان کی شہادت کی خبر کو موثق نہیں پایا۔[19]

مدفن اور زیارت کا ثواب

محدث نوری کے مطابق کسی شیعہ مؤمن کو خواب میں رسول اکرم(ص) کی زیارت نصیب ہوئی اس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے ان سے فرمایا: کل “عبدالجبار بن عبدالوہاب رازی” کے گھر سیب کے باغ میں میری نسل سے ایک شخص دفن ہوگا۔ اس شخص نے اس باغ کو خریدا اور اسے عبدالعظیم اور دیگر شیعوں کی اموات کے نام وقف کر دیا۔ [20] اسی وجہ سے حرم عبدالعظیم حسنی “مسجد شجرہ” یا “مزار نزدیک درخت” کے نام سے معروف تھا۔[21]

شیخ صدوق نے انکی قبر کی زیارت کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق شہر ری کا ایک شخص امام علی النقی(ع) کی خدمت میں وارد ہوا اور کہا: حضرت سیدالشہداء(ع) کی زیارت سے مشرف ہوکر آیا ہوں تو امام(ع) نے فرمایا: قبر عبدالعظیم جو تمہارے نزدیک ہے، کی زیارت کا ثواب قبر حسین بن علی(ع) کی زیارت کے ثواب کے برابر ہے۔[22]

تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات میں تردید

آیت اللہ رضا استادی مجلہ نور علم میں معتقد ہیں کہ سب سے زیادہ قدیمی منبع جس میں عبدالعظیم حسنی کی تاریخ پیدائش اور وفات کو ذکر کیا ہے وہ جواد شاہ عبدالعظیمی (م۱۳۵۵ق)کی کتاب ” نور الآفاق” ہے۔ آیت اللہ استادی کئی مطالب کو ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ اس کتاب کے بہت سارے مطالب فاقد استناد بلکہ جعلی ہیں۔ انہی جعلی مطالب میں سے ایک حضرت عبدالعظیم حسنی کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات بھی ہے۔ ان کے یہ جعلی مطالب دوسری کتابوں تک بھی سرایت کر گئے ہیں۔ [23] آیت اللہ استادی کے مقالہ کے منتشر ہونے کے چند سال بعد رسول جعفریان محقق اور تاریخ نگار نے آیت اللہ استادی کے تحقیقات کا خلاصہ منتشر کیا۔[24]

فضائل اور شان و منزلت

علامہ حلی نے ان کی حالات زندگی لکھتے ہوئے انہیں ایک متقی اور پرہیزگار عالم کے عنوان سے یاد کیا ہے۔[25] محدث نوری عبدالعظیم حسنی کے فضائل کے بارے میں صاحب بن عباد کے رسالے سے نقل کرتے ہیں: آپ ایک با تقوا، پرہزگار، امانت دار، گفتار میں صادق، دین شناس اور توحید اور عدل جیسے اصول کے قائل تھے۔ [26] آپ کا تقوا اور پرہیزگاری ائمہ اطہار(ع) کے نزدیک آپ کے بلند درجات اور شان و منزلت کی نشانی ہے۔[27]

معصومین(ع) کی نگاہ میں

امام علی نقی(ع) نے حضرت عبدالعظیم کے سامرا کی سفر کے دوران ان کی تصدیق کی۔ امام ہادی(ع) انہیں ان الفاظ میں یاد کرتے ہیں: اے اباالقاسم! تم ہمارے برحق ولی ہو تم اسی دین کے پیروکار ہو جو خدا کے نزدیک پسندیدہ اور جسے تم نے ہم سے لیا ہے۔ خدا تمہیں دنیا اور آخرت میں اپنی گفتار میں ثابت قدم رکھے۔[28] امام(ع) اور عبدالعظیم کے درمیان یہ گفتگو “حدیث عرض دین” سے مشہور ہے۔

مقام علمی

ابو تراب رویانی کہتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ ابو حماد رازی کہتے تھے کہ میں سامرا میں امام ہادی(ع) کی خدمت میں وارد ہوا اور بعض حلال و حرام کے مسائل کے بارے میں سوال کیا۔ جب واپسی کا ارادہ کیا تو امام(ع) نے فرمایا: چنانچہ اگر دینی امور میں حلال و حرام کی [تشخیص] کے بارے میں تمہارے اوپر کوئی مسئلہ دشوار ہوا تو عبدالعظیم بن عبداللہ حسنی سے سؤال کرو اور انہیں میرا سلام پہنچا دو۔[29]

آپ سے مروی احادیث

کتب حدیثی اور متون روایی میں عبدالعظیم حسنی سے منقول احادیث کی تعداد ایک سو سے بھی زیادہ ہے۔ صاحب بن عباد کہتے ہیں: آپ کثرت سے احادیث نقل کرتے تھے اور امام جواد(ع) اور امام ہادی(ع) سے آپ نے حدیث نقل کی ہے۔[30]

آپ سے کچھ کتابیں بھی اس وقت ہمارے اختیار میں ہیں جیسے کتاب “خُطَب امیرالمؤمنین‌[31]اور کتاب “یوم و لیلہ” [32] جو ظاہرا اعمال پر مشتمل ہے جو ائمہ اطہار(ع) کی احادیث میں مختلف اذکار کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں۔ اور ہر مکلف دن اور رات میں مستحب یا واجب عمل انجام دے سکتا ہے۔[33] آپ کی ایک اور کتاب “روایات عبدالعظیم حسنی‌” کے نام سے معروف ہے۔[34]

بعض شیعہ بزرگان نے عبدالعظیم حسنی سے احادیث نقل کی ہیں منجملہ شیخ صدوق نے آپ سے منقول حدیثوں کے مجموعے کو “جامع اخبار عبدالعظیم‌” کے نام سے جمع کیا ہے۔[35] آپ نے بغیر واسطہ اماموں سے جو احادیث نقل کی ہیں ان میں دو احادیث امام رضا(ع) سے 26 احادیث امام جواد(ع) سے اور 9 احادیث امام ہادی(ع) سے نقل کیا ہے اور ان احادیث کی تعداد جو انہوں نے با واسطہ نقل کی ہیں ان حدیثوں کی تعداد 65 ہیں۔

آپ کے بارے میں لکھی گئی کتابیں

حضرت عبدالعظیم حسنی(ع) کی شخصیت کی پہچان کیلئے خرداد ماہ سنہ ۱۳۹۲ ش کو آپ کے حرم میں شیخ صدوق ہال میں آپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر ایک عظیم شان سیمنار منعقد ہوا جس کے نتیجے میں منتشر ہونے والے آثار کی تعداد 29 تک پہنچتی ہیں۔ جن میں سے بعد کا ذکر کیا جاتا ہے:

  • رسالۃ فی فضل سیدنا عبد العظیم الحسنی المدفون بالری، مؤلف صاحب بن عباد۔
  • أخبار عبد العظیم بن عبد اللہ بن علی بن الحسن بن زید بن الحسن بن علی بن أبی طالب (ع)، مؤلف شیخ صدوق، اور یہ کتاب الذریعۃ میں “حیاۃ عبد العظیم الحسنی” کے نام سے مذکور ہے۔
  • جنات النعیم فی أحوال سیدنا الشریف عبد العظیم، عربی، مؤلف ملا اسماعیل کزازی اراکی متوفی سنہ ۱۲۳۶ ہ.
  • روح و ریحان، یا جنۃ النعیم والعیش السلیم فی أحوال السید الکریم والمحدث العلیم عبد العظیم الحسنی (علیہ السلام)، فارسی، مؤلف : الحاج الشیخ باقر کجوری مازندرانی متوفی سنہ ۱۲۵۵ہ.
  • التذکرۃ العظیمیۃ، عربی، مؤلف الحاج الشیخ محمد ابراہیم کلباسی متوفی سنہ ۱۳۶۲ ہ.
  • الخصایص العظیمیۃ فی أحوال السید أبی القاسم عبد العظیم بن عبد اللہ الحسنی(ع)، مؤلف شیخ جواد شاہ عبدالعظیمی متوفی سنہ ۱۳۵۵ ه.
  • عبد العظیم الحسنی حیاتہ ومسندہ،
  • مسند حضرت عبد العظیم حسنی، فارسی، مؤلف عزیز اللہ عطاردی قوچانی، متوفی ۳ مرداد ۱۳۹۲.
  • آشنائی با حضرت عبد العظیم حسنی(ع) و مصادر شرح حال او، مؤلف رضا استادی.
  • بررسی کلی روایات حضرت عبد العظیم حسنی(ع)، مؤلف محمد کاظم رحمان ستایش.
  • شناخت نامہ حضرت عبد العظیم حسنی وشہر ری، مؤلف سید محمد حسین حکیم و علی أکبر زمانی نژاد.
  • مجموعۃ مقالات کنگرہ حضرت عبد العظیم حسنی(ع).
  • حکمت نامہ حضرت عبد العظیم الحسنی(ع)، فارسی، مؤلف محمد محمدی ری شہری.
  • عبدالعظیم الحسنی العالم الفقیہ والمحدّث المؤتمن، سیرتہ ومسندہ، عربی، مؤلف أحمد بن حسین العبیدان.

حوالہ جات

  1. الذریعہ، ج۷، ص۱۶۹. بر آستان کرامت، ص۵.
  2. عمدہ الطالب، ص۹۴.
  3. رجال نجاشی، ص۲۴۸.
  4. الرواشح السماویۃ، ص۸۶.
  5. جنہ النعیم، ج۳، ص۳۹۰. عمدہ الطالب، ص۹۴.
  6. منتہی الآمال، ج۱، ص۵۸۵.
  7. الذریعہ، ج۷، ص۱۹۰.
  8. معجم رجال الحدیث، ج۱۱، ص۵۳.
  9. رجال طوسی، ص۴۰۱.
  10. عبدالعظیم الحسنی حیاتہ و مسندہ، ص۳۷.
  11. زندگانی حضرت عبدالعظیم (ع)، ص 30.
  12. بر آستان کرامت، ص۷.
  13. جنہ النعیم، ج۴، ص۱۳۱.
  14. رجال نجاشی، ص۲۴۸.
  15. الذریعہ، ج۷، ص۲۹۰.
  16. رجال نجاشی، ص۲۴۸.
  17. الفہرست، ص۱۹۳.
  18. المنتخب، ص۸.
  19. جنہ النعیم، ج۵، ص۳۶۰.
  20. خاتمہ مستدرک، ج۴، ۴۰۵.
  21. عمدہ الطالب، ص۹۴. بر آستان کرامت، ص۱۲.
  22. ثواب الاعمال، ص۹۹.
  23. مجلہ نور علم شمارہ ۵۰-۵۱ ص ۲۹۷-۳۰۱
  24. انتقادہای رسول جعفریان دربارہ دو تاریخ ساختگی
  25. خلاصه الاقوال، ص۲۲۶.
  26. خاتمہ مستدرک، ج۴، ص۴۰۴.
  27. بر آستان کرامت، ص۹.
  28. امالی، ص۴۱۹ و ۴۲۰. روضہ الواعظین، ص۳۱ و ۳۲.
  29. مستدرک الوسائل، ج۱۷، ص۳۲۱.
  30. مسند الامام الجواد، ص۳۰۲.
  31. رجال نجاشی، ص۲۴۷.
  32. الذریعہ، ج۷، ص۱۹۰.
  33. جنہ النعیم، ج۵، ص۱۸۲.
  34. خاتمہ مستدرک، ج۴، ص۴۰۴.
  35. الہدایہ، ص۱۷۴. (مقدمہ)

منابع

  • ابن عنبہ، جمال الدین، عمدہ الطالب فی انساب آل ابیطالب، نجف، المطبعہ الحیدریہ، ۱۳۸۰ ہ.
  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت،‌دار الاضواء، ۱۴۰۳ ہ.
  • حلی، حسن بن یوسف، خلاصہ الاقوال فی معرفہ الرجال، تحقیق جواد قیومی، بی‌جا، نشر الفقاہہ، ۱۴۱۷ ہ.
  • خویی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، بی‌جا، بی‌نا، ۱۴۱۳ ہ.
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، الشریف الرضی، ۱۳۶۸ ش.
  • صدوق، محمد بن علی، الہدایہ، قم، مؤسسہ الامام الہادی، ۱۴۱۸ ہ.
  • ہمو، الامالی، قم، مؤسسہ البعثہ، ۱۴۱۷ ہ.
  • طریحی، فخرالدین، المنتخب فی جمع المراثی و الخطب، نجف، بی‌نا، ۱۳۶۹ ہ.
  • طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، تحقیق جواد قیومی، بی‌جا، نشر الفقاہہ، ۱۴۱۷ ہ.
  • عطاردی، عزیزاللہ، مسند الامام الجواد(ع)، مشہد، آستان قدس رضوی، بی‌تا.
  • ہمو، عبدالعظیم الحسنی حیاتہ و مسندہ، قم، دارالحدیث، ۱۳۸۳ ہ.
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال فی تواریخ النبی و الآل، قم، دلیل ما، ۱۳۷۹ ش.
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۱۶ ہ.
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، بیروت، آل البیت، ۱۴۰۸ ہ.
  • نوری، میرزا حسین، خاتمہ مستدرک الوسائل، قم، آل البیت، ۱۴۱۵ ہ.
  • نیشابوری، محمد بن الفتال، روضہ الواعظین، قم، الشریف الرضی، بی‌تا.
  • میرداماد، محمدباقر بن محمد، الرواشح السماویہ، تحقیق نعمت اللہ جلیلی، دارالحدیث، ۱۴۲۲ ہ ۱۳۸۰ ش.
  • واعظ کجوری، محمد باقر بن اسماعیل، روح و ریحان یا جنہ النعیم و العیش السلیم فی احوال السید عبدالعظیم الحسنی، قم، دارالحدیث، ۱۳۸۲ ش.
  • بر آستان کرامت (زیارتنامہ و زندگینامہ حضرت عبدالعظیم و امامزادگان مجاور)، دارالحدیث، ۱۳۹۲.

بیرونی روابط

تبصرے
Loading...