عائشہ بنت ابو بکر

عا‎ئشہ بنت ابوبکر (متوفی سنہ ۵۸ ہجری قمری) حضرت خدیجہ کبری اور سودہ کے بعد پیغمبر اسلامؐ کی تیسری زوجہ ہیں۔ شادی کے وقت ان کی عمر کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ واقعۂ افک آپ کی زندگی کے اہم واقعات میں سے ہے جس میں آپ پر تہمت لگانے پر قرآن میں سورہ نور کی بعض آیتیں میں تہمت لگانے والوں کی مذمت کی گئی ہیں۔

پیغمبر اکرم کی زوجات میں حضرت عا‎ئشہ اپنے سیاسی موقف اور پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد آپ کی سرگرمیوں کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔ خلیفہ اول اور دوم کو خلافت تک پہنچنے میں انہوں نے بڑا کردار ادا کیا اور ان دونوں کی فضیلت میں احادیث نقل کر کے ان کے مقام کو اور مضبوط بنا دیا۔

حضرت عثمان کے دور خلافت کے ابتدا ایام میں ان کے ساتھ تھی لیکن بعد میں کچھ وجوہات کی بنا پر ان سے دور ہوگئی اور عثمان کے خلاف تحریک شروع کی جو عثمان کے قتل پر ختم ہوئی۔ لیکن حضرت عثمان کے قتل کے بعد ان کے خون کے انتقام کے بہانے امام علیؑ کے مقابلے میں آگئی اور بعض دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر جنگ جمل کی قیادت کی۔

اہل سنت بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے حضرت عا‎ئشہ کے لئے بلند مقام و مرتبت کے قا‎ئل ہیں۔ جبکہ شیعہ ان روایات کو رد کرتے ہوئے پیغمبرؐ کو ان کی طرف سے دی جانے والی آزار و اذیت اور امام علیؑ کے دور خلافت میں ان کے خلاف موقف اختیار کرنے نیز جنگ جمل وجود میں لانے میں ان کے کردار کی وجہ سے ان پر انتقاد کرتے ہیں۔

سوانح حیات

حضرت عا‎ئشہ حضرت ابوبکر کی بیٹی ہیں جو قبیلہ بنی تیم سے تھا۔ ان کی والدہ “رومان بنت عمیر” قبیلہ بنی کنانہ سے تھی۔[1] بعثت کے چوتھے یا پانچویں سال مکہ میں متولد ہوئیں۔[2]

حضرت عائشہ کی کنیت ان کے بھتیجے عبداللہ بن زبیر کی وجہ سے “ام عبداللہ” سے مشہور ہوئی۔[3]بہت سارے تاریخی مصادر میں انہیں “ام المؤمنین” کہا گیا ہے۔[4]

کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ آپ کو “حمیراء” کہہ کر پکارتے تھے۔[5] اس بارے میں ایک روایت بھی مشہور ہے کہ جس میں آپؐ نے عائشہ سے فرمایا: کَلِّمینی یا حُمَیْراء(اے حمیرا مجھ سے بات کرو۔) کہا جاتا ہے کہ پہلی بار غزالی نے اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ان سے پہلے کسی بھی کتاب میں یہ حدیث ذکر نہیں ہوئی ہے۔ اسی لئے اہل سنت کے عالم دین الفتنی (متوفی ۹۸۶ھ) لکھتا ہے کہ غزالی نے جو کچھ نقل کیا ہے وہ بے بنیاد ہے۔[6]شیعہ عالم دین علامہ عسکری بھی اس روایت کو بے بنیاد سمجھتتے ہوئے اسے غزالی کی جعلی حدیث قرار دیتے ہیں جس میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے۔[7]

وفات

حضرت عائشہ ۱۰ شوال سنہ ۵۸ ہجری قمری یا (۵۷ھ) کو 66 سال کی عمر میں مدینہ میں وفات پائی۔ ابوہریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔[8]بعض نے تاریخ وفات کو رمضان کی 17 تاریخ قرار دیا ہے۔[9]

حضرت عائشہ کی علت وفات کے بارے میں اختلاف ہے۔ اہل سنت ان کی موت کو طبیعی موت قرار دیتے ہیں جبکہ دوسرے معاویہ کو آپ کے قتل میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ معاویہ نے اپنی مکر اور چالاکی سے ایک گڑا کھودا اور عائشہ کو اس میں گرا دیا۔[10] اور اس کی علت معاویہ کی طرف سے یزید کے لیے بیعت مانگنے پر حضرت عائشہ کا اعتراض قرار دیتے ہیں۔[11] ان لوگوں کے نزدیک قتل کا یہ واقعہ ذی‌الحجہ کی آخری تاریخ کو واقع ہوا ہے۔[12]

حضور پاکؐ سے شادی

عائشہ رسول خداؐ کی بیویوں میں سے ایک ہے جن سے خدیجہ کی وفات اور سودہ بنت زمعۃ بن قیس سے شادی کے بعد، آپؐ نے شادی کی ہے۔[13]اور یہ مشترک زندگی 9 سال پانچ مہینے تک جاری رہی۔[14] پیغمبر اکرمؐ سے شادی کی تاریخ معلوم نہیں ہے لیکن یہ شادی حضرت خدیجہؑ کی رحلت کے بعد ہونے میں سب کا اتفاق ہے لیکن پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ ہجرت سے دو یا تین سال پہلے ہو‎ئی ہے اس میں اختلاف ہے۔[15] بعض گزارشات میں ذکر ہے کہ آپؐ کی عائشہ سے شادی، سودہ کی شادی سے پہلے ہوئی ہے، لیکن بعض زیادہ مشہور روایات کی بنا پر عا‎ئشہ سے شادی کرنے سے پہلے، سودہ سے شادی ہو‎ئی تھی۔[16]
منقول ہے کہ عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ ابوبکر کے پاس گئی اور عائشہ کے باپ سے شادی کی بات کی اور گیارہ بعثت کو شوال کے مہینے میں حضورؐ نے عائشہ سے شادی کی۔[17]اور 400 درہم حق مہر رکھا۔[18]

شادی کے وقت عمر

عائشہ کی پیغمبر اکرمؐ سے شادی کے وقت کی عمر کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، اس طرح سے کہ شادی کے وقت عا‎ئشہ کی عمر چھ سے 18 سال کے درمیان تھی۔[19] مشہور تاریخی منابع کے مطابق پیغمبر اکرم سے شادی کے وقت عا‎ئشہ کی عمر چھ یا سات سال تھی [20] لیکن رخصتی اس کے چند سال بعد مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی بعد جب عائشہ کی عمر نو سال کی ہوئی تھی تو تب ہوئی۔[21]
اس طرح سے بعض محققین کا کہنا ہے کہ مختلف تاریخی کتابوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عائشہ کی عمر پیغمبر اکرمؐ سے شادی کے وقت 18 سال تھی۔ان کا کہنا ہے کہ عائشہ ابتدائی مسلمانوں میں سے ہے اور بعثت کے ابتدائی دنوں میں بچی تھی۔ ان کے مطابق اگر بعث کے وقت عائشہ کی عمر سات برس کی ہوگی تو شادی کے وقت 17 ہوسکتی ہے اور ہجرت کے وقت 20 سال، مگر یہ کہ کہا جائے کہ آپؓ نے اس وقت اسلام لے آیا جب کہ عمر ابھی سات سال بھی نہیں ہوئی تھی۔[22]
اور اس سے کچھ پہلے جبیر بن مطعم سے اس کا نکاح ہونا تھا لیکن پیغمبر اکرم سے شادی کی تجویز کی وجہ سے جبیر سے شادی کا معاملہ ختم ہوا اور عا‎ئشہ کا پیغمبر اکرم سے عقد ہوا۔[23] عا‎ئشہ کی رخصتی کئی سال بعد اورمدینہ سے ہجرت کے بعد نو سال کی عمر میں ہو‎ئی۔[24]

افک کا واقعہ

پانچ ہجری کو غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر اسلامی فوج جب آرام کرنے رک گئی تو عا‎ئشہ رفع حاجت کی غرض سے کچھ فاصلے پر گئی اور گلے کی ہار گم ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ ڈھونڈنے میں مصروف رہی جبکہ لشکر میں کسی کو بھی عا‎ئشہ وہاں پر نہ ہونے کا علم نہیں تھا اور فوج روانہ ہوئی اس خیال سے کہ عا‎ئشہ کجاوے میں موجود ہے اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ عا‎ئشہ جب واپس پلٹی تو دیکھا سب چلے گئے ہیں، اور وہ جگہ خالی ہوگئی ہے اور وہ اسی مقام پر رک گئی یہاں تک کہ صفون ابن معطل نامی ایک شخص پہنچا اور اس نے اپنی اونٹ عا‎ئشہ کے حوالے کیا اور اس کو لشکر تک پہنچا دیا۔ یہ واقعہ بعض اصحاب کو عا‎ئشہ کے بارے میں بدگو‎ئی کرنے کا سبب بنا اور عا‎ئشہ کے کردار کشی کرنے والا یہ ٹولہ اسلامی متون کے مطابق منافقوں کا گروہ تھا یہاں تک کہ قرآن کریم نے سورہ نور کی بعض آیتوں(آیہ ۱۱ سے ۲۶ تک) میں پاکدامن خواتین پر تہمت لگانے کو گناہ کبیرہ قرار دیا اور عائشہ کو اس سے بری سمجھا اور تہمت لگانے والوں کی مذمت کی۔[25]اہل سنت ان آیتوں کو عائشہ کی فضیلت قرار دیتے ہوئے اسے دوسری ازواج رسول سے برتر سمجھتے ہوئے خود عائشہ اور اس کے رشتہ داروں سے اس کی برتری کو نقل کرتے ہیں۔ جیسے کہ نقل ہوا ہے: رسول اللہ کی سب سے محبوب بیوی عائشہ ہے۔[26] اس کے باوجود بعض شیعہ علماء اگرچہ ان آیات کو عائشہ کے بارے میں نقل ہونے کو مانتے ہیں لیکن اسے عائشہ کے لیے فضیلت نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ صرف الزام کو اس سے دور کیا ہے اور کچھ نہیں۔[27]جبکہ بعض لوگ ان آیتوں کو ماریہ قبطیہ کے بارے میں قرار دیتے ہیں جو ابراہیم ابن رسول اللہ کی موت کے بعد نازل ہوئی۔[28]

پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد

پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد عائشہ کی زندگی کے بارے میں چند مرحلوں میں تحقیق کی جاسکتی ہے۔

شیخین کا دور

عائشہ،ابوبکر اور عمر کی خلافت کے دوران بلاواسطہ سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرتی تھی لیکن پیغمبر اکرم کی بیوی اور پہلے خلیفہ کی بیٹی ہونے کے ناطے معاشرے میں بڑی حیثیت کی حامل تھی اور خلیفہ اول اور دوم کی مورد توجہ تھی۔ شیعہ بعض مؤلفین کے مطابق ابوبکر کے خلیفہ بنانے میں بھی ان کا کردار تھا اور پیغمبر اکرم کی حیات کے آخری دنوں میں اپنے باپ کی خلافت کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ اور اسی طرح سے ابوبکر اور عمر کی فضیلت میں پیغمبر اکرم سے کچھ روایات نقل کر کے ان دونوں کی خلافت کو مضبوط کرنے میں مدد کی۔[29] اور احادیث اور فتوی کو فکری اور فقہی حمایت میں بیان کر کے دونوں خلیفوں کی سیاست کو تقویت پہنچانے میں بڑا کردار ادا کیا۔[30] اس کے مقابلے میں ایسی گزارشیں بھی ملتی ہیں کہ پہلے دو خلیفوں کی طرف سے عا‎ئشہ کے لیے تحفہ تحا‎ئف اور بیت المال سے دوسری ازواج نبی سے زیادہ رقم دی جاتی تھی۔[31]خلیفہ دوم کا عقیدہ تھا کہ عائشہ کو پیغمبر اکرم باقی زوجات کی نسبت زیادہ چاہتے تھے اسی لئے دوسروں کی نسبت اسے دو ہزار درہم زیادہ دیا۔ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۲، ص۶۷.اور یہ کام شیعوں کی نظر میں بے عدالتی ہے۔[32]

عثمانؓ کا دور

دوسرے خلیفے کی وفات اور عثمان خلافت پر آنے کے بعد عائشہ کی زندگی نئے موڈ میں داخل ہوئی اور اسلامی معاشرے میں بڑا سیاسی کردار ادا کیا۔[33] کی خلافت کے ابتدا‎ئی دنوں میں عا‎ئشہ کا عثمان کے ساتھ رابطہ صحیح رہا یہاں تک کہ عائشہ ان کی فضیلت میں احادیث بیان کرنے لگی۔[34] لیکن خلافت کے دوسرے حصے میں یہ رابطہ کم ہوتا گیا اور آخر کار دشمنی اور عثمان کے قتل کی سرپرستی تک جا پہنچا۔[35] جو عائشہ اور خلیفہ سوم کے اختلافات کے بارے میں ذکر ہوا ہے وہ عثمان کی حکومت کرنے میں کمزوری اور اقربا پروری کی وجہ سے تھے۔ اسی طرح بعض اصحاب جیسے؛عبداللہ بن مسعود، عمار، ابوذر اور جندب وغیرہ پر ظلم و ستم کرنے کی وجہ سے یہ سب چیزیں سیاسی اور فکری طور پر ان دونوں کے باہمی اختلافات کا باعث بنیں۔[36]اس نے اپنے بیانات میں جو کچھ وہ اور عثمان کے درمیان مسجد نبوی میں پیش آیا تھا اس پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔[37] عثمان نے بھی انہیں نوح اور لوط یک بیویوں سے تشبیہ دی جنہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور جہنم چلی گئیں۔ اور اس جملے پر عائشہ نے سخت موقف انتخاب کیااور «اُقْتُلوا نَعْثَلاً فَقَدْ کَفَر» (یعنی اس نادان بوڑھے کو قتل کردو۔) کہتے ہوئے عثمان کو موت کے لائق سمجھی۔[38]

امام علیؑ کا دور

عا‎ئشہ امام علیؑ کے مخالفوں میں سے تھی۔ بعض مصنفوں نے اس اختلاف کی ابتداء کو پیغمبر اکرمؐ کی زندگی دوران تک لے گئے ہیں۔[39]اگرچہ مختلف گروہوں کو امام علیؑ کی خلافت کے خلاف جمع کرنے اور انہیں نظم دے کر ایک لشکر تیار کرنے سے جنگ جمل وجود میں آئی اور یہی علیؑ سے دشمنی کی واضح دلیل ہے، اگرچہ بعض اہل سنت مصنفوں نے اس کی وجہ مخالفوں کے بہکاو‎ے سے متاثر ہونا قرار دیا ہے، یا بصرہ پر فوجی چڑھا‎ئی کو عثمان کے قاتلوں سے قصاص لینا قرار دیا ہے نہ علی کی مخالفت، اور عا‎ئشہ کے اس فعل کو اجتہاد میں خطا قرار دیا ہے جس پر خود عا‎ئشہ بھی پشیمان تھی ۔[40]جبکہ شیعہ علما نے عثمان کا قصاص یا عائشہ کی پشیمانی کو نقد کرتے ہوئے اسے قبول نہیں کیا ہے۔[41]
عا‎ئشہ جو عثمان کی مخالف تھی اور عثمان کے قتل کے وقت مکہ میں تھی جب خلافت علی علیہ السلام کو ملنے کی خبر ملی تو مکہ میں ہی رہ گئی۔ اور ایک عرصے کے بعد جب طلحہ اور زبیر مکہ پہنچے تو عرب قبیلوں سے کچھ جنگجو لیکر تینوں بصرہ کی طرف روانہ ہو‎ئے اور عثمان کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان کیا [42] اور اس شہر پر قبضہ کرنے کے بعد امام علی علیہ السلام کی فوج سے نبرد آزما ہو‎گئے۔[43]ایک نقل میں آیا ہے کہ عائشہ نے ام سلمہ کو بھی عثمان کے قصاص میں ساتھ دینے کی دعوت کی تو آپ نے اس کی دوغلی پالیسی کہ ایک طرف عثمان کو کافر کہتی ہے اور دوسری طرف اسے شہید قرار دیتے ہوئے اسے مظلوم قرار دے کر خونخواہی کا مطالبہ کرنے پر اعتراض کیا۔[44]
شیخ مفید کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی بیوی ہونے اور خلیفہ اول کی بیٹی ہونا سبب ہوا کہ امام علیؑ کے دشمن کی پوزیشن مضبوط ہوجائے۔[45] جنگ ختم ہونے کے بعد امام علیؑ نے عائشہ سے، جو کہ زخمی بھی ہوئی تھی، سخت الفاظ میں بات کی اور محمد ابن ابی بکر کو اپنی خواہر کی حالات سے باخبر رہنے کا حکم دیا پھر اسے احترام کے ساتھ مدینہ لے آئے۔[46]
اس جنگ میں چونکہ عا‎ئشہ ایک اونٹ پر سوار ہوکر آ‎ئی تھی اسی لیے جنگ جمل کے نام سے مشہور ہوگئی اور یہ مسلمانوں کی پہلی داخلی جنگ تھی۔

معاویہ کا دور

اگرچہ بعض نے بنی امیہ کے دور کو عائشہ کا خاموش دور قرار دیا ہے لیکن بعض نے عائشہ کی ان کے ساتھ ہمکاری کو فاش کیا ہے۔[47] اگرچہ ان کا بھائی محمد بن ابی بکر کو معاویہ نے بہت بری حالت میں قتل کرایا اور حجر ابن عدی اور ان کے ساتھیوں کو عثمان نے قتل کرایا تھا اس وجہ سے ان سے راضی نہیں تھی اور ان کی مذمت بھی کرتی تھی لیکن امام علیؑ کی شہادت کے بعد ان سے جا ملی۔[48] معاویہ نے بھی اپنے کو عائشہ کے بہت قریب کردیا اور عا‎ئشہ کو مالی تحفے تحا‎ئف بھی بھیجنے لگا۔[49] کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک لاکھ دینار بھیجا اور اٹھارہ ہزار کا قرضہ بھی ادا کیا۔[50]

امام حسنؑ کی تدفین

عائشہ کی زندگی میں انجام دینے والی اقدامات میں سے ایک امام حسن علیہ السلام کے جنازے کو پیغمبر اکرم کی قبر مطہر کے جوار میں دفن سے روکنا ہے۔[51] پیغمبر اکرم کے دفن کی جگہ عا‎ئشہ کا گھر ہے اور اس سے پہلے خلیفہ اول اور دوم بھی اسی مکان میں دفن ہوچکے تھے امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسین (علیہ السلام) کو امامت ملی اور اپنے بھا‎ئی کی وصیت کے مطابق آپکے جسد اطہر کو پیغمبر اکرم کی قبر کے قریب دفن کرنا چاہا لیکن عا‎ئشہ نے مدینے کے گورنر مروان بن حکم کی مدد سے دفن کرنے سے منع کیا اور امام حسین علیہ السلام لڑا‎ئی جھگڑے سے بچنے کے لیے اس اقدام سے منصرف ہوگئے۔[52] اور امام کے جنازے کو بقیع میں دفنایا گیا۔[53] بعض کا کہنا ہے کہ جب عائشہ نے دیکھا کہ مروان بن حکم اور اس کے ساتھی اسلحہ کے ساتھ تشییع کرنے آئے تھے اور یہ بڑا خطرناک مرحلہ تھا اس لئے وہاں پر دفن سے منع کیا۔[54]

عا‎ئشہ کی خصوصیات

اہل سنت کی روایی اور تاریخی کتابوں میں عائشہ کے بارے میں تفصیلی بحث ہوئی ہے۔[55] اور انہیں عالم معرفی کیا ہے جسے وہ اپنے باپ سے سیکھی تھی۔ طب سے بھی کچھ آشنائی تھی۔[56] اسی طرح ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آیات، احکام، اسلامی سنتیں، شعر، عرب جنگیں، قضاوت، قیافہ شناسی کے بارے میں علم رکھتی تھی۔[57]آپ کی پیغمبر اکرمؐ سے شادی کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ آپؐ کی بیویوں میں سے صرف آپ غیر شادی شدہ تھیں۔[58]اہل سنت کی کتابوں میں پیغمبر اکرمؐ کی آپ سے محبت کے بارے میں کچھ گزارشات ملتی ہیں اور اسے پیغمبر اکرمؐ کی محبوترین اور سب سے خوبصورت بیوی معرفی کیا ہے۔[59] [60]

شیعوں کا نظریہ

شیعہ محققین نے عائشہ کی فضایل کو رد کیا ہے اور اہل سنت کی کتابوں میں جو فضیلتیں بیان ہوئی ہیں انہیں جعلی اور غلو پر مشتمل قرار دیا ہے، یہاں تک کہ عائشہ کے لیے فضیلت بنانے اور محبوب بناتے ہوئے رسول اللہؐ کی ذات کی تحقیر اور قربانی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا ہے۔[61]اہل سنت نے جہاں عائشہ کی بہت فضیلتیں بیان کی ہے ان کے برخلاف شیعوں نے اسے بے ادب، بخیل اور حسد جیسی صفات سے متصف کیا ہے اور بعض دفعہ ان کی ان عادتوں کی وجہ سے پیغمبر اکرمؐ بھی ناراحت ہوئے ہیں اور بعض موقعوں پر تو عائشہ کو تذکر بھی دیا ہے۔[62] شیعوں کے مطابق عائشہ کا پیغمبر اکرمؐ کی دوسری بیویوں کی نسبت حساسیت اور حسد کی بنیادی پر کئے جانے والے اقدامات ناپسند تھے۔[63]عائشہ کی حسد کے واقعات میں سے ایک جو تاریخ میں ذکر ہوا ہے وہ پیغمبر اکرمؐ کی دوسری بیویاں خاص کر حضرت خدیجہؑ سے حسد کرنا ہے۔ اور اس بارے میں اہل سنت کی کتابوں میں بھی مختلف جگہوں پر ذکر آیا ہے۔ خود ان سے ہی نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کا خدیجہ کے نام لینے پر حسد کرتی تھی۔[64]اور اسی طرح ماریہ قبطیہ سے بھی حسد کرتی تھی جب ان کو بیٹا ہوا۔[65]اور یہ بھی نقل ہوا ہے کہ اس کی حسد کرنے سے پیغمبر اکرمؐ ناراض ہوتے تھے۔[66]
شیعوں نے عائشہ کی خوبصورتی اور پیغمبرؐ کے ہاں محبوبیت کے بارے میں بھی کہا ہے کہ چونکہ ان روایات میں سے اکثر خود عائشہ یا ان کا بھتیجا یعنی عروۃ بن زبیر سے نقل ہوئی ہیں، اس لئے ان روایات پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے اور خوبصورتی اور محبوبیت کے رد میں بہت ساری دلائل بھی پیش کئے ہیں۔[67]

لعنت کی حرمت کا فتوای

کویت کا لندن میں سکونت پذیر شیعہ عالم یاسر الحبیب کی طرف سے عائشہ کی توہین اور لعن کرنے پر بعض [احساء]] سعودی عرب کے علماء نے آیت‌ اللہ خامنہ‌ای سے زوجۂ رسول خدا، عائشہ کے بارے میں اس طرح کے توہین آمیز اور تحقیر آمیز کلمات کے بارے میں اپنی نظر بیان کرنے کی درخواست کی تو آپ نے اس سوال کے جواب میں یوں فرمایا: «اہل سنت برادری کی مقدسات جن میں سے پیغمبر اکرمؐ کی زوجہ (عائشہ) پر تہمت لگانا حرام ہے۔ یہ موضوع تمام انبیاء کی بیویاں خاص کر سید الانبیاء حضرت محمدؐ کی بیویوں کو بھی شامل ہے۔»اس فتوی کا دنیا میں خاص کر اسلامی دنیا میں بڑا استقبال ہوا۔[68]

نقل حدیث میں کردار

پیغمبر اکرم کی روایات اور سیرت نقل کرنے والوں راویوں میں سب سے اہم عا‎ئشہ ہے۔ اور اس سے منقول روایات کی تعداد 2210 احادیث ہیں۔[69] جبکہ پیغمبر اکرمؐ کی دوسری تمام بیویوں نے 612 احادیث نقل کی ہیں۔ مسند احمد میں 2270 احادیث عائشہ سے نقل ہوئی ہیں جو پوری شریعت کا ایک چوتھائی حصہ کی حامل ہیں۔[70]
اس سے نقل ہونے والی کچھ حدیثں شیعہ محققین کی طرف سے مورد نقد قرار پا‎ئی ہیں۔[71][72]

کتاب‌شناسی

علامہ عسکری کی کتاب

عائشہ کے بارے میں اب تک بہت ساری کتابیں دنیا کی مختلف زبانوں میں لکھی گئی ہیں اور بہت سارے شیعہ اور سنی علما نے اس بارے میں قلم فرسائی کی ہے جن میں سے بعض کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

  • «أحادیث ام المؤمنین عایشۃ» تالیف سید مرتضی عسکری
  • «عائشہ در دوران علی علیہ‌السلام» تالیف: سید مرتضی عسکری
  • «نقش عائشہ در تاریخ اسلام» تالیف: سید مرتضی عسکری، اس کتاب کا اردو میں سید علی اختر روضوی نے «تاریخ اسلام میں عائشہ کا کردار» کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔
  • «عائشہ بعد از پیغمبر» تالیف: کورت فریشلر
  • «عائشہ در صحاح ستہ» تالیف: حسین طیبیان
  • «عائشہ در حیات محمدؐ» تالیف: سپہروز مولودی.

حوالہ جات

  1. طبقات الکبری، ج۸، ص۴۷؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۰۹
  2. عسکری، نقش عائشہ در احادیث اسلام، ج۱، ص۴۵؛ ابن حجر، الاصابۃ، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۲۳۱.
  3. ابن سیدالناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۶۸؛ ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۱۴، ص۲۲.
  4. ابن طولون، الائمۃ الاثناعشر، ص۱۳۱.
  5. دینوری، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۳ق، ص۸۲.
  6. الفتنی، تذکرۃ الموضوعات، ص۱۹۶.
  7. عسکری، احادیث ام‌المؤمنین عائشۃ، ۱۴۱۸ق، ص۲۵و۲۶.
  8. ذہبی، تاریخ اسلام، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۶۴؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۵۲۰.
  9. مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۴۲.
  10. بیاضی، الصراط المستقیم، ۱۳۸۴ق، ج۳، ص۴۸.
  11. حر عاملی، اثبات الہداۃ، ۱۴۲۵ق، ج۳، ص۴۰۲.
  12. سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۵۰۳.
  13. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۸۱.
  14. ابن حزم، جوامع السیرۃ النبویۃ، ص۲۷.
  15. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۲۳۵؛ ابن حجر، الاصابۃ، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۲۳۲.
  16. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۸، ص۴۶؛ ابن قتیبہ، المعارف، ص۱۳۳-۱۳۴؛صالحی شامی، سبل الہدی، ج۱۱، ص۴۵؛ ابن قتیبہ، المعارف، ۱۴۱۰ق، ص۱۳۳-۱۳۴؛ صالحی شامی، سبل الہدی، ۱۴۱۴ق، ج۱۱، ص۴۵.
  17. ابن سیدالناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۶۸.
  18. سہیلی، الروض الانف، ۱۴۱۲ق، ج۷، ص۵۳۴.
  19. ابن حجر، الاصابۃ، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۲۳۲؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۱۹۱.
  20. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۴۷-۴۸
  21. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۲، ص۶۴۴؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۴۷-۴۸.
  22. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۲۸۵-۲۸۷.
  23. بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۰۹
  24. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج۲، ص۶۴۴؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۴۷-۴۸
  25. نک: ابن ہشام، سیرہ النبویہ، ج۲، ص۲۹۷-۳۰۲ ؛ بخاری، صحیح بخاری، ج ۵، ص۲۲۳-۲۲۷؛
  26. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۸، ص۶۸.
  27. طباطبایی، المیزان، ج۱۵، ص۱۴۴.
  28. یوسفی غروی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، ج ۳، ص۳۵۰؛ عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ج۱۲، ص۳۲۰، ۳۲۶
  29. واردی، نقش ہمسران رسول خدا در حکومت امیر مومنان، ص۱۱۴
  30. تقی‌زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دائرۃالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۱۵.
  31. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۵۳
  32. تقی زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر، ص۱۱۵-۱۱۶
  33. تقی‌زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دائرۃالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۱۷.
  34. مسلم، صحیح مسلم، ج۷، ص۱۱۷.
  35. عسکری، نقش عائشہ در تاریخ اسلام، ج۱، ص۱۵۰.
  36. تقی‌زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دائرۃالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۲۰.
  37. ابن اعثم، الفتوح، ج۲، ص۴۲۱
  38. طبری، تاریخ طبری، ج۳، ص۴۷۷.
  39. واردی، نقش ہمسران رسول خدا در حکومت امیر مومنان، ص۱۰۳؛ مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۴۲۶
  40. ندوی، سیرہ السیدہ عائشہ‌ام المومنین،‌ ص۱۸۹-۱۹۲
  41. سید مرتضی، الذخیرہ، ۱۴۱۱ق، ص۴۹۶؛ مفید، الفصول المختارۃ، ۱۴۱۳ق، ص۱۴۱.
  42. ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۷۱-۷۲
  43. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۱۸۰-۱۸۱
  44. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۴۵۴.
  45. مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۲۲۶و۲۲۷.
  46. مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۱۶۰-۱۶۹. ۳۶۹-۳۸۲.
  47. تقی‌زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دائرۃالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۲۶.
  48. ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۰۵؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۵، ص۲۵۷.
  49. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۱۳۶و۱۳۷.
  50. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۱۳۶.
  51. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۸۲.
  52. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۲۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۴، ص۱۴۱
  53. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۷ق، ج۳، ص۶۶.
  54. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۷ق، ج۳، ص۶۱.
  55. مراجعہ کریں: ابن اثیر، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۸۹-۱۹۱؛ ابن حجر، فتح الباری، ج۷، ص۸۳؛ صالحی شامی، سبل الہدی و الرشاد، ۱۴۱۴ق، ج۱۱، ص۱۶۴
  56. ابن حنبل، مسند احمد، ج۶، ص۶۷؛ حاکم نیشابوری، مستدرک حاکم،
  57. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۳.
  58. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۴۰۹.
  59. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۸، ص۶۸.
  60. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۸ق، ج۸، ص۹۹.
  61. تقی‌زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دایرۃالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۱و۱۰۲.
  62. مجلسی،بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۲۲۷؛ سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۲۹۰؛تقی‌زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دایرۃالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۹۷و۱۰۱-۱۰۴
  63. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۲۹۱.
  64. مسلم بن حجاج نیشابوری، صحیح مسلم، ج ۴، ص۱۸۸۹
  65. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۸۷.
  66. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج ۴ ص۲۷۸و۲۷۹.
  67. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۲۸۹-۲۹۱.
  68. (عائشہ یا اہل سنت کی کسی بھی مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے۔)توہین بہ عائشہ و ہر یک از نمادہای اہل‌سنت حرام است. خبرگزاری خبرآنلاین. تاریخ انتشار: دوشنبہ ۱۲ مہر ۱۳۸۹.
  69. مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰، ج۶، ص۴۳.
  70. عسکری، احادیث ام المؤمنین عائشۃ، ۱۴۱۸ق، ص۳۲.
  71. عسکری، احادیث ام المومنین عا‎ئشہ
  72. عسکری، احادیث ام المومنین عائشہ، طیبیان، عائشہ در صحاح ستہ.

مآخذ

  • ابن الاثیر، عزالدین (م۔۶۳۰)، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت،‌دار الفکر، ۱۴۰۹/۱۹۸۹۔
  • ابن اثیر، علی بن أبی الکرم(۶۳۰ق)،الکامل فی التاریخ، تحقیق عمر عبد السلام تدمری،‌دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، الطبعۃ: الأولی، ۱۴۱۷ق۔
  • ابن الجوزی، عبد الرحمن بن علی(۵۹۷ق)، زاد المسیر فی علم التفسیرالمکتب الإسلامی، بیروت، الطبعۃ: الثالثۃ، ۱۴۰۴ق۔
  • ابن سعد، محمد (م۔۲۳۰)، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت،‌دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۰/۱۹۹۰
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ (م۔۴۶۳)، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،‌دار الجیل، ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
  • ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم (م۔۲۷۶)، المعارف، تحقیق ثروت عکاشۃ، القاہرۃ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، ط الثانیۃ، ۱۹۹۲
  • ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم(م۔۲۷۶)، الإمامۃ و السیاسۃ المعروف بتاریخ الخلفاء، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، ط الأولی، ۱۴۱۰ق۔
  • ابن قیم، محمد بن أبی بکر، إعلام الموقعین عن رب العالمین، تحقیق طہ عبد الرؤوف سعد،‌دار الجیل، بیروت، ۱۹۷۳۔
  • ابن قیم، محمد بن أبی بکر أیوب، الأمثال فی القرآن الکریم، تحقیق إبراہیم محمد، مکتبۃ الصحابۃ،طنطا،مصر،۱۴۰۶، الطبعۃ الأولی۔
  • ابن ہشام، عبدالملک (م۲۱۸)، السیرہ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت،‌دار المعرفۃ، بی‌تا۔
  • أبی حیان، محمد بن یوسف(۷۴۵ق)، تفسیر البحر المحیط، تحقیق الشیخ عادل أحمد عبد الموجود،‌دار الکتب العلمیۃ، لبنان، بیروت، الطبعۃ الأولی، ۱۴۲۲ق۔
  • ابن خلکان، أحمد بن محمد بن إبراہیم بن أبی بکر ابن خلکان برمکی إربلی (۶۸۱ق)، وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان، محقق إحسان عباس، دارصادر، بیروت۔
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، مصر، دارالحیاء الکتب العربیہ، ۱۳۸۷ش۔
  • ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، علی بن الحسین بن محمد بن أحمد بن الہیثم المروانی الأموی القرشی، أبو الفرج الأصبہانی(۳۵۶ق)، المحقق السید أحمد صقر،‌دار المعرفۃ، بیروت۔
  • بابایی، احمد علی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۲ش۔
  • بخاری، محمد بن إسماعیل(۲۵۶ق)، صحیح البخاری،، تحقیق د۔ مصطفی دیب البغا،‌دار ابن کثیر، الیمامۃ، بیروت، الطبعۃ الثالثۃ، ۱۴۰۷ش۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف، ج۱، تحقیق محمد حمید اللہ، مصر،‌دار المعارف، ۱۹۵۹۔
  • تقی زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دایرہ المعارف اسلام، قم، شیعہ شناسی۔
  • ثعالبی، عبد الرحمن بن محمد(۸۷۵ق)، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن،مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، بیروت۔
  • ثعلبی، أحمد بن محمد(۴۲۷ق)، الکشف والبیان، أبی محمد بن عاشور،‌دار إحیاء التراث العربی – بیروت، الطبعۃ: الأولی، ۱۴۲۲ہ-۲۰۰۲م۔
  • حسین فاطمی، سید علی، نقد و بررسی دیدگاہ‌ہای موجود دربارہ افشای راز پیامبر(ص) در آیات ابتدایی سورہ تحریم، مجلہ تاریخ در آینہ پژوہش، شمارہ۱۱، پاییز ۸۵۔
  • زمخشری، محمود بن عمر جار اللہ، الکشاف عن حقائق التنزیل، تحقیق عبد الرزاق المہدی، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ اسلام، تحقیق تدمری،‌دار الکتاب العربی، بیروت، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق۔
  • سمرقندی، نصر بن محمد(۳۶۷ق)، بحر العلوم، تحقیق د۔ محمود مطرجی،‌دار الفکر، بیروت۔
  • سید بن طاوس، الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف، الخیام، قم، چاپ اول، ۱۳۹۹ق۔
  • صالحی الشامی، محمد بن یوسف (۹۴۲م۔ق۔)، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت،‌دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۴۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، قم، دارالحدیث، ۱۴۲۶ق۔
  • عسکری،‌ مرتضی، احادیث ام المومنین عا‎ئشہ، بیروت، مجمع العلمی الاسلامی۔
  • عسکری، سید مرتضی، نقش عا‎ئشہ در تاریخ اسلام، ترجمہ عطا سردارنیا، تہران، مجمع علمی اسلامی۔
  • قرطبی، ابوعبد اللہ محمد بن أحمد(۶۷۱ق)، الجامع لأحکام القرآن،‌دار الشعب القاہرۃ۔
  • مسلم نیشابوری، مسلم بن الحجاج(۲۶۱ہ)، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبد الباقی،‌دار إحیاء التراث العربی، بیروت۔
  • مقاتل بن سلیمان(متوفای۱۵۰ق)، تفسیر مقاتل بن سلیمان، تحقیق أحمد فرید،‌دار الکتب العلمیۃ، لبنان،بیروت، الطبعۃ الأولی، ۱۴۲۴ق۔
  • نباطی، علی من محمد، الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم، محقق رمضان، میخائیل، المکتبۃ الحیدریۃ، نجف، چاپ اول، ۱۳۸۴ق۔
  • ندوی، سلیمان، سیرہ السیدہ عائشہ‌ام المومنین، ترجمہ بہ عربی محمد رحمہ اللہ حافظ الندوی، دمشق،‌دار القلم، ۲۰۱۰م۔
  • نیشابوری، حسن بن محمد(۷۲۸ق)، تفسیر غرائب القرآن ورغائب الفرقان، تحقیق الشیخ زکریا عمیران،‌دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ: الأولی، ۱۴۱۶ق۔
  • واردی، تقی، نقش ہمسران رسول خدا در حکومت امیر مومنان، قم، بوستان کتاب،
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب(م۔۲۹۲)، تاریخ الیعقوبی، بیروت،‌دار صادر، بی‌تا
  • یوسفی غروی، محمد ہادی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، قمع مجمع الفکر الاسلامی، ۱۴۲۳ق۔
تبصرے
Loading...