ظہور امام زمانہ

ظہور شیعوں کی اصطلاح میں غیبت کبری کے بعد امام مہدی علیہ السلام کا عالمی حکومت عدل کی تاسیس و تشکیل کے لئے قیام کی خاطر ظاہر ہونے کو کہا جاتا ہے۔

لغوی معنی

لفظ ظہور ـ جس کی جڑ “ظ ۔ ہ ۔ ر” ہے ـ کے معنی کسی مخفی چیز کے ظاہر ہونے کے ہیں۔[1] لفظ ظہور کے لسانی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ شدت کے ساتھ ظاہر ہونے کے معنی میں آتا ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ نمایان ہوجانے کے ہیں اور جو شیئے ظاہر ہوتی ہے وہ قبل ازاں خفیہ اور نہاں اور غائب تھی۔

ظہور کے مراحل

دوران ظہور کے لئے تین مراحل ہوسکتے ہیں:

  1. پہلا مرحلہ، ظہور اور آشکار ہونا جو صرف اللہ کے علم و ارادے تک محدود ہے۔
  2. دوسرا مرحلہ، اللہ کے امر سے قیام اور تحریک اور ظالمین کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا اور دشمنوں کے خلاف جنگ اور جدوجہد کرنا۔
  3. تیسرا مرحلہ، یہ استحکام اور عالمی حکومت کے قیام کا مرحلہ ہے۔

پہلا مرحلہ (ظہور)

1۔ زرارہ کہتے ہیں: میں نے امام باقر(ع) کو فرماتے ہوئے سنا:

إن للقائم غيبة قبل ظهوره۔

بےشک ہمارے قائم کے لئے غیبت ہے ان کے ظہور سے قبل۔۔۔۔[2]

2۔ امام صادق(ع) نے امہدی موعود(عح) کے ظہور کے بارے میں فرمایا:

إن منا إماما مستترا فإذا أراد الله إظهار أمره نكت في قلبه نكتة فظهر فقام بأمر الله تعالى۔

بتحقیق جب خداوند متعال نے ارادہ فرمایا کہ حضرت مہدی علیہ السلام کو ظاہر کردیں تو ان کے دل پر الہام فرمائے گا پس وہ ظاہر ہونگے اور اللہ کے امر سے قیام کریں گے۔[3]

قابل ذکر ہے کہ قیام کا مرحلہ ظہور کے مرحلے سے متاخر ہے: بایں بیان کہ پہلے ظہور حاصل ہوگا اور بعدازاں جب امام(عج) کے اصحاب و انصار اکٹھے ہونگے اور دیگر حالات سازگار ہوں گے تو آپ(عج) قیام و انقلاب کا آغاز کریں گے۔

دوسرا مرحلہ (قیام)

1۔ امام سجاد(ع) نے فرمایا:

إذا قام قائمنا أذهب الله عزوجل عن شيعتنا العاهة، وجعل قلوبهم كزبر الحديد، وجعل قوة الرجل منهم قوة أربعين رجلا، ويكونون حكام الارض وسنامها۔

جب ہمارے قائم قیام کریں خداوند متعال عیب و علت اور خوف کو ہمارے پیروکاروں کے دلوں سے مٹا دے گا اور ان کے دلوں کو لوہے کے ٹکڑوں کی مانند مستحکم کرے گا اور ہر فرد کو چالیس آدمیوں کی طاقت عطا کرے گا۔۔۔[4]

2۔ امام صادق(ع)‏ نے فرمایا:

إن القائم منا إذا قام لم يكن لاحد في عنقه بيعة۔

ہمارے قائم ایسے حال میں قیام کریں گے کہ کسی کی بیعت ان کی گردن پر نہ ہوگی۔[5]۔ [6]۔[7]

جو کچھ کہا گیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تمام روایات جن میں لفظ “قیام” یا اس لفظ کے مشتقات کو بروئے کار لایا گیا ہے عین مرحلۂ قیام سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ بعض مواقع پر قیام کا اطلاق حضرت مہدی(عج) ظہور کے مرحلے پر بھی ہوا ہے؛ تاہم ایسی اکثر روایات ـ جو لفظ قیام یا اس لفظ کے مشتقات پر مشتمل ہیں ـ کا تعلق مرحلہ ظہور کے بعد کے مرحلے سے ہے۔

3۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:

لا تقوم الساعة حتی یقوم قائم للحق منا وذالك حین يأذن له ومن تبعه نجا ومن تخلف عنه هلك۔

ہرگز قیامت بپا نہ ہوگی مگر یہ کہ اس سے قبل حق کے لئے قیام کرنے والا ہمارے خاندان سے اٹھے گا یہ وہ وقت ہوگا جب اس کو (پروردگار کی طرف سے) اذن ملے گا اور جو اس کی پیروی کرے گا نجات یافتہ ہوگا اور جو اس سے منہ موڑے گا ہلاک ہوجائے گا۔[8]

4۔ امام باقر(ع) نے فرمایا:

إذا قام قائمنا وضع الله يده على رؤوس العباد فجمع بها عقولهم وكملت به أحلامهم۔

ہمارے قائم قیام کریں گے تو خداوند اپنا ہاتھ اپنے بندوں کے سر پر رکھے گا اور ان کی عقلوں اور فکروں کو مجتمع کرے گا۔[9]

شاید زمانۂ ظہور کی روایات کے درمیان اختلاف کو اس بیان سے حل کیا جاسکے کہ ظہور کی بعض روایات زمانۂ ظہور کے لئے ہیں اور بعض دیگر زمانۂ قیام کے لئے۔

قابل ذکر ہے کہ بعض روایات میں حضرت مہدی(عج) کے قیام کو “خروج” کا عنوان دیا گیا ہے؛ امام صادق(ع) نے فرمایا:

::وخروج القائم من المحتوم۔

قائم کا خروج حتمی ہے۔[10]

تیسرا مرحلہ: (مہدوی حکومت)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں:
::لا تذهب الدنيا حتى يخرج رجل مني يحكم بحكومة آل داود ولا يسأل بينة، يعطي كل نفس حقها۔

دنیا کا اختتام نہیں ہوگا حتی کہ کہ میرے خاندان کا ایک فرد آل داؤد کی مانند فیصلے کرےگا کسی سے ثبوت نہیں مانگے گا اور ہر شخص کا حق اس کے دے دیگا”۔۔۔[11]

نیز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا:

أبشروا بالمهدي، رجل من قريش من عترتي، يخرج في اختلاف من الناس وزلزال، فيملا الأرض عدلا وقسطا كما ملئت ظلما وجورا، ويرضى عنه ساكن السماء وساكن الارض، ويقسم المال بالسوية، ويملا قلوب أمة محمد غنى، ويسعهم عدله حتى أنه يأمر مناديا فينادي: من له حاجة إلى المال يأتيه، فما يأتيه أحد۔

معاشروں کے تزلزل کے زمانے میں اٹھایا جائے گا؛ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے مالامال کریں گے جبکہ یہ ظلم و ستم سے مالامال ہوچکی ہوگی؛ آسمان اور زمین کے باشندے ان سے راضی و خوشنود ہونگے؛ بیت المال کو انصاف اور مساوات کی بنیاد پر تقسیم کریں گے اور امت محمد(ص) کے دلوں کو بےنیازی اور غنی سے بھر دیں گے اور ان کی حکومت کا عدل و انصاف پوری دنیا میں پھیل جائے گا اور عدل اس قدر فروغ پائے گا کہ منادی آنجناب(عج) کی طرف سے ندا دے گا کہ جو بھی ضرورتمند ہے ہمارے طرف آجائے تو ایک شخص بھی نہیں آئے گا۔۔۔[12]

نیز فرماتے ہیں:

ينزل بأمتي في آخر الزمان بلاء شديد من سلطانهم حتی تضيق الأرض عنهم فيبعث الله رجلا من عترتي فيملأ الأرض قسطا وعدلا ما ملئت ظلما وجورا يرضی عنه ساكن السماء شيئا من قطرها إلا صبته يعيش فيهم سبع سنين او ثمان او تسع۔

میری امت پر آخر الزمان میں سلطان کی طرف سے شدید بلا نازل ہوگی یہاں تک کہ زمین ان کے لئے تنگ ہوجائے گی پس خداوند متعال میری عترت سے ایک مرد کو اٹھا دے گا پس وہ اس (زمین) کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح کہ یہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہوگی۔[13]

ظہور کا زمانہ

وہ سوال جس نے لوگوں کے اذہان کو مصروف کئے رکھا ہے یہ ہے کہ امام زمانہ(عج) کب ظہور کریں گے؟ کیا ظہور کے لئے وقت کا تعین ہوا ہے؟

جواب یہ ہے کہ دینی پشواؤں کے کلام کے مطابق ظہور کا وقت لوگوں سے مخفی ہے۔

امام صادق(ع) فرماتے ہیں:

كذب الموقتون، ما وقتنا فيما مضى، ولا نوقت فيما يستقبل۔

وقت کا تعین کرنے والے جھوٹے ہیں، ہم نے ماضی میں وقت کا تعین نہیں کیا اور مستقبل کے بارے میں بھی وقت کا تعین نہیں کرتے۔[14]

چنانچہ جو لوگ ظہور کے لئے کوئی خاص وقت معین کرتے ہیں فریبی اور جھوٹے ہیں اور یہ بات احادیث میں واضح کی گئی ہے۔

ایک صحابی نے امام باقر(ع) سے ظہور کے زمانے کے بارے میں پوچھا تو آپ(عج) نے فرمایا:

كذب الوقاتون، كذب الوقاتون، كذب الوقاتون۔

وقت کا تعین (یعنی ظہور کے لئے وقت معین) کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں، وقت کا تعین کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں، وقت کا تعین کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں۔[15]

اس قسم کی احادیث سے اس نکتے کا ادراک بخوبی ممکن ہے کہ ہمیشہ ایسے افراد تھے جو شیطانی محرکات کی بنا پر ظہور کے لئے وقت معین کرتے تھے اور ایسے افراد مستقبل میں بھی ہونگے۔ اسی بنا پر ائمۂ معصومین علیہم السلام نے اپنے پیروکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وقت کا تعین کرنے والے افراد کے سامنے خاموشی اور غیر جانبداری اختیار نہ کریں بلکہ انہیں جھٹلا دیں۔

امام صادق ‏(ع) نے اس حوالے سے اپنے ایک صحابی محمد بن مسلم سے فرمایا:

من وقت لك من الناس شيئا فلا تهابن أن تكذبه، فلسنا نوقت لاحد وقتا۔

ان لوگوں کو کوئی پروا کئے بغیر جھٹلا دو جو ظہور کے لئے وقت کا تعین کرتے ہیں کیونکہ ہم نے کبھی بھی کسی لئے وقت کا تعین نہیں کیا ہے۔[16]

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. الفراهیدی، العین، ج4، ص37۔
  2. طوسی، الغیبه، ص332۔
  3. طوسی، الغیبه، ص164۔
  4. شیخ صدوق، الخصال، ص542۔
  5. كمال‏الدين و تمام النعمة، ج2، ص480۔
  6. امين الاسلام طبرسي، اعلام الوري، ص 426۔
  7. النعمانی، الغیبة، ص196۔
  8. ابن بابویه، عیون اخبار الرضا، ج2، ص65۔
  9. کلینی، الکافی، ج1، ص25۔
  10. طوسی، الغیبه، ص435۔
  11. کلینی، الکافی، ج1، ص397۔
  12. ینابیع الموده، ج3، 344۔
  13. التستری، احقاق الحق، ج19، ص664۔
  14. شیخ طوسی، الغیبه، ص426۔
  15. شیخ طوسی، الغیبه، ص425۔
  16. شیخ طوسی، الغیبه، ص426۔

مآخذ

  • الفراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، تحقیق الدکتور مہدی المخزومی و الدکتور إبراہیم السامرائی، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، بی‌تا۔
  • الطوسي، الشيخ محمد بن حسن، الغيبۃ، تحقيق: الشيخ عباد اللہ الطہراني، الشيخ علي أحمد ناصح، مؤسسۃ المعارف الإسلاميۃ – قم المقدسۃ، الطبعۃ الأولى، 1411ہجری قمری۔
  • الصدوق، الشيخ محمد بن علي، كتاب الخصال، جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلميۃ قم المقدسۃ ۔ 1403ہجری قمری / 1362ہجری شمسی۔
  • ابن بابويہ القمى، الصدوق، محمد بن على بن الحسين، عيون أخبار الرضا، مقدمہ و تعلیق: حسين الاعلمي، منشورات مؤسسۃ الاعلمي للمطبوعات بيروت – لبنان 1404ہ‍جری قمری / 1984عیسوی۔
  • الطبرسي، الشيخ أمين الاسلام أبو علي الفضل بن الحسن، تحقيق: مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام لاحياء التراث – قم المشرفۃ الطبعۃ: الاولي – ربيع الاولى – 1417 ہ‍
  • ابن بابويہ القمى، الشيخ أبو جعفر الصدوق محمد بن على بن الحسين، عيون أخبار الرضا، انتشارات الشریف الرضی، الطبعۃ الاولى ۔ قم ۔ 1378ہ ش
  • الكليني الرازي، ثقۃ الاسلام أبى جعفر محمد بن يعقوب بن اسحاق، الكافي، تصحیح: على اكبر الغفاري، دار الكتب الاسلاميۃ ۔ الطبعۃ الثالثۃ ۔ طہران 1388ہجری قمری۔
  • القندوزي الحنفي، الشيخ سليمان بن ابراہيم، ينابيع المودۃ لذوى القربى، تحقيق: سيد علي جمال اشرف الحسيني، الناشر: دار الاسوۃ للطباعۃ والنشر المطبعۃ: اسوہ ۔ قم ۔ الطبعۃ: الاولى تاريخ النشر: 1416 ہ‍. ق
  • التستری، العلامۃ القاضی السید نور اللہ الحسینی المرعشی، الشہید فی بلاد الہند سنہ 1019ہجری قمری، تعلیق: السید شہاب الدین الحسینی المرعشی، ناشر: مکتبۃ المرعشی النجفی، قم المشرفہ، 1406ہجری قمری۔
  • النعمانی، محمد بن ابراہیم بن جعفر الکاتب، المعروف بہ ابن ابی زینب، الغیبۃ، تحقیق: فارس حسون کریم، دار الجوادین(ع) ۔ قم المشرفۃ ۔ الطبعۃ الاولی 1432ہجری قمری / 2011عیسوی۔
  • ابن بابویہ القمى، الشیخ الصدوق محمد بن على بن الحسين، تصحیح: على اكبر الغفاري، مؤسسۃ النشر الاسلامي (التابعۃ) لجامعۃ المدرسين بقم المشرفۃ (ايران) ۔ محرم الحرام 1405 – الموافق ل‍: مہر 1363.
تبصرے
Loading...