سیدہ نساء العالمین

سیدہ نساء العالمین حضرت فاطمہ زہراءؑ کے القاب میں سے ایک ہے جس کے مطابق آپ دنیا اور آخرت میں تمام عورتوں کی سردار ہیں۔ یہ لقب پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت زہراء(س) کو عطا فرمایا۔ امام علی(ع) بھی حضرت فاطمہ(س) کو اسی لقب سے خطاب فرماتے تھے۔

پیغمبر(ص) کا عطا کردہ لقب

اہل سنت کے معتبر مصادر میں آیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے حضرت فاطمہؑ سے فرمایا: اے فاطمہ! کیا آپ اس پرراضی نہیں کہ تم عالمین کی مومنہ عورتوں کی سردار ہو؟ [1] امام علی(ع) نے بھی حضرت فاطمہؑ کے مزار پر ہونے والی گفتگو میں آپ کو اسی لقب سے یاد کیا ہے۔ [2]
اسی طرح بعض زیارت ناموں جیسے زیارت وارثہ، زیارت عاشورا نیز حضرت زہراء(س)، امام رضا(ع) اور حضرت معصومہ(س) کی ماثورہ زیارتوں میں بھی حضرت زہرا کو اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے۔

اہل سنت کی نگاہ میں بہترین خاتون

اہل سنت کے بعض علماء جیسے سیوطی، نسائی، ابوداود، قاضی قطب الدین وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت زہراء مختلف دلائل کی بنا پر دنیا کی بہترین عورتوں میں سے ہیں منجملہ ان دلائل میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • پیغمبر اکرمؐ کی حدیث: فاطمة بضعة منی، فاطمہ میرا پارۂ تن ہے چونکہ پیغمبر اکرمؐ تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں تو آپ کا پارہ تن بھی تمام عورتوں سے افضل ہے۔
  • خود پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہؑ سے مخاطب ہو کر فرمایا: اما ترضین ان تکونی سیدةالنساء المومنین کیا آپ اس بات پر راضی نہیں کہ آپ تمام مومنہ عورتوں کی سرادر ہیں۔
  • پیغمبر اکرم کی ازواج کے افضل ہونے کی حدیث کا مردود، ضعیف اور غیر مستند ہونا۔[3]

حضرت فاطمہ(س) کی شان میں علامہ اقبال کا فارسی میں کلام:

مریم از یک نسبت عیسی عزیز از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
نور چشم رحمۃ للعالمین آن امام اولین و آخرین
آنکہ جان در پیکر گیتی دمید روزگار تازہ آئین آفرید
بانوی آن تاجدار ہل اتی مرتضی مشکل گشا شیر خدا
پادشاہ و کلبہ‌ئی ایوان او یک حسام و یک زرہ سامان او
مادر آن مرکز پرگار عشق مادر آن کاروان سالار عشق
آن یکی شمع شبستان حرم حافظ جمعیت خیرالامم
تا نشیند آتش پیکار و کین پشت پا زد بر سر تاج و نگین
وان دگر مولای ابرار جہان قوت بازوی احرار جہان
در نوای زندگی سوز از حسین اہل حق حریت آموز از حسین
سیرت فرزند‌ہا از امہات جوہر صدق و صفا از امہات
مزرع تسلیم را حاصل بتول مادران را اسوۂ کامل بتول
بہر محتاجی دلش آنگونہ سوخت با یہودی چادر خود را فروخت
نوری و ہم آتشی فرمانبرش گم رضایش در رضای شوہرش
آن ادب پروردۂ صبر و رضا آسیا گردان و لب قرآن سرا
گریہ‌ہای او ز بالین بی‌نیاز گوہر افشاندی بدامان نماز
اشک او بر چید جبریل از زمین ہمچو شبنم ریخت بر عرش برین
رشتۂ آئین حق زنجیر پاست پاس فرمان جناب مصطفی است
ورنہ گرد تربتش گردیدمی سجدہ‌ہا بر خاک او پاشیدمی[4]

حوالہ جات

  1. المستدرک علی الصحیحین: ۱۷۰/۳ ح ۴۷۴۰؛ صحیح مسلم: ۵۷/۵ ذیل ح ۹۹؛ أسد الغابۃ: ۲۲۳/۷ رقم ۷۱۷۵۔ پیغمبر اکرم اور آپ کے اہل بیت کے فضائل، صحاح ستہ اور اہل سنت کے دیگر معبر کتابوں سے اقتباس،
  2. کلینی، کافی (الاصول)، ج ۱، باب مولد الزہراء، طہران: المکتبۃ الاسلامیۃ، ۱۳۸۸ق، صص ۳۸۲-۳۸۱۔
  3. اہل سنت کی نگاہ میں اس موضوع پر مزید معلومات کیلئے رجوع کریں: محمد راجی کناس، حیاة نساء اہل البیت، ۱۴۲۹ق، ص۶۶۰-۶۶۳
  4. علامہ اقبال، کلیات اشعار فارسی، ۱۳۶۶ش، ص۱۸۶-۱۸۷.

تبصرے
Loading...