سورہ

سوره یا سورت عربی زبان کا ایک لفظ ہے جو مسلمانوں کی اصطلاح میں قرآن کریم کے ایک جزو کو کہا جاتا ہے اور جو ایک خاص منظم اور مرتبط مضامین پر مشتمل ہوتا ہے۔ قرآن کریم ۱۱۴ سورتوں پر مشتمل ہے جس کا آغاز سورہ فاتحہ سے اور اختتام سورہ ناس پر ہوتا ہے۔

سورہ توبہ کے علاوہ قرآن کریم کی تمام سورتیں بسم الله الرحمن الرحیم سے شروع ہوتی ہیں۔ سورہ کا لفظ قرآن مجید میں 8 بار مفرد اور ایک بار جمع کے صیغے میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں سورتوں کی موجودہ ترتیب کے توقیفی (یعنی خدا کی جانب سے) ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

سورہ کے معنی

سورہ لغت میں مرتبہ، منزلت، کسی چیز کے ایک حصے اور بلندی اور ارتفاع کو کہا جاتا ہے۔ [2] [3] اور اصطلاح میں خدا کے کلام کے ایک خاص حصے کو کہا جاتا ہے جو ایک خاص نظم و ترتیب اور مختلف اجزا کا حامل ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی تمام سورتیں سوائے سورہ توبہ کے بسم الله الرحمن الرحیم سے شروع ہوتی ہیں۔ سورہ کا لفظ قرآن میں 8 بار مفرد اور ایک دفعہ جمع کی صورت میں آیا ہے۔ کلام الہی کے مختلف حصوں کو سورہ اس لئے کہا جاتا ہے جس طرح کسی شہر یا ملک کا باڈر دشمنوں کے مقابلے میں اس شہر یا ملک کا دفاع کرتا ہے اسی طرح قرآنی سورتیں بھی خدا کی قدرت کاملہ کے مظہر کے طور پر خدا کے دشمنوں کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح خدا کے حریم خداوندی کا دفاع کرتی ہیں۔[4] [5] یا اس حیثیت سے کہ جس طرح شہر کے حصار میں اس شہر کے تمام گھر یا شہر کی تمام چیزیں اس میں شامل ہوتی ہیں اسی طرح قرآن کی سورتیں بھی تمام آیات اور کلمات کو شامل ہیں اسی مناسبت سے اسے سورہ کہا جاتا ہے۔[6] لغت کے بعض ماہرین سورہ کو “سؤر” کے مادے سے مشتق سمجھتے ہیں جس کے معنی کسی چیز کا باقی ماندہ حصے کے ہیں۔ [7]

تقسیم بندی

تقسیم بندی بلحاظ زمان نزول

قرآن کریم کی سورتیں نازل ہونے کے زمانے کے لحاظ سے کلی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں:

مکی

مشہور نظریے کے مطابق وہ سورتیں جو رسول اکرم(ص) کے مدینہ ہجرت کرنے سے پہلے نازل ہوئی ہیں اگرچہ وہ مدینے میں ہی نازل ہوئی ہو انہیں مکی سورہ کہا جاتا ہے۔

مدنی

وہ سورتیں جو رسول اکرم(ص) کی مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد نازل اگرچہ وہ مکہ یا کسی اور جگہ ہی کیوں نہ ہوں وہ مدنی سورہ کہلاتی ہے ۔[8] [9]

مکی اور مدنی سورتوں کے تعین کے لحاظ سے دو اور ملاک اور معیار بھی ذکر کیے جاتے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ جو سورتیں مکہ اور اس کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اگر چہ ہجرت کے بعد ہی کیوں نہ ہوں وہ مکی اور جو سورتیں مدینہ اور اس کے بارے میں نازل ہوئی ہوں اگرچہ ہجرت سے پہلے ہی سہی وہ مدنی کہلاتی ہے ۔ دوسرا معیار یہ کہ جن سورتوں میں اہل مکہ کو مخاطب قرار دیا ہو وہ مکی اور جن میں اہل مدینہ کو مخاطب قرار دیا ہو انہیں مدنی کہا جاتا ہے۔[10] [11] [12] [13]

تقسیم بندی بلحاظ آیات

قرآنی سورتیں آیات اور مضامین کے طولانی یا مختصر ہونے کے اعتبار سے “سبع طوال”، “مئون”، “مثانی” اور مفصل میں تقسیم ہوتی ہیں۔

سبع طوال

آیات کے طولانی ہونے کی وجہ سے ان سورتوں کو یہ نام دیا گیا ہے جو سات سورتوں پر مشتمل ہیں۔ وہ سورتیں یہ ہیں: سورہ بقرہ، آل عمران، سورہ نساء، سورہ مائدہ، سورہ انعام، سورہ اعراف اور سورہ یونس۔

مئون

“مئون” ان سورتوں کو کہا جاتا ہے جو “سبع طوال” کے بعد طولانی سورتیں ہیں اور جن کی آیات 100 آیات سے زیادہ ہو وہ سورتیں یہ ہیں:: سورہ انفال،سورہ توبہ، سورہ نحل، سورہ ہود، سورہ یوسف، سورہ کہف، سورہ اسراء، سورہ انبیاء، سورہ طہ، سورہ مؤمنون، سورہ شعراء اور سورہ صافات۔

مثانی

“مثانی” ان سورتوں کو کہا جاتا ہے جن کی آیات کی تعداد 100 سے کم ہوں اور تقریبا 20 سورتیں جن میں سورہ قصص، سورہ نمل، سورہ عنکبوت، سورہ یس اور سورہ ص وغیرہ شامل ہیں۔

مفصل

مختصر سورتوں کو مفصل کہا جاتا ہے ان کو مفصل کہنے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ یہ سورے بسملہ کے ذریعے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں یا اس لئے کہ ان کی آیات کے فاصلے دوسرے سوروں کے مقابلے میں زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں مفصل کہا جاتا ہے۔[14] [15] [16]

عزائم

تفصیلی مضمون:عزائم

عَزائِم یا عَزائِمُ السُجود – واجب سجدوں کے معنی میں ان سوروں کو کہا جاتا ہے جن میں سجدہ واجب ہونے والی آیات موجود ہوں۔ وہ سورتیں یہ ہیں: سورہ سجده، سورہ فصلت، سورہ نجم اور سورہ علق [17] ان چار سورتوں میں ایک ایک ایسی آیت موجود ہوتی ہے اگر کوئی ان آیات کی تلاوت کریں یا اسے کسی سے سنیں تو اس پر ایک سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔[18]

حوامیم

تفصیلی مضمون:حوامیم

قرآن مجید کی موجودہ ترتیب کے مطابق چالیسویں :سورہ غافر سے لے کر چھیالیسویں سورے سورہ احقاف تک کے سوروں کو “حوامیم” کہا جاتا ہے ۔ان سورتوں کی مشترک خصوصیات یہ ہیں کہ یہ سورتیں حروف مقطعات میں سے “حم” سے شروع ہوتی ہیں۔[19] ان تمام سورتوں میں حروف مقطعہ کے فورا بعد وحی اور نزول قرآن کی بحث ہوئی ہے۔[20]

تعداد

تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہیں کہ قرآن کریم کی سورتوں کی تعدا 114 ہے لیکن آئمہ اہل بیت(ع) سے نقل شدہ بعض روایات کی رو سے سورہ ضحی اور سورہ شرح اسی طرح سورہ فیل اور سورہ قریش ایک سورہ حساب ہوتے ہیں ۔اس طرح قرآن کی سورتوں کی تعداد 112 ہو جاتی ہے۔ [21] مصحف عثمانی سے پہلے تدوین ہونے والے صحابہ کے بعض مصحفوں میں بھی سورتوں کی تعداد موجودہ تعداد سے کچھ تفاوت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر مصحف عبد اللہ بن مسعود میں سورتوں کی تعداد 111، [22] اور مصحف ابی بن کعب میں یہ تعدا 115 ہے۔[23] قرآن کریم کا موجودہ نسخہ جو اس وقت مسلمانوں کے ہاں موجود ہے مسلمانوں کے تیسرے خلیفے عثمان بن عفان کے حکم سے جمع آوری ہوا وہ 114 سورتوں پر مشتمل ہے۔ عثمان کے بعد امیر المؤمنین(ع) حضرت علی(ع) اور باقی آئمہ اہل بیت(ع) نے بھی اس کی تائید کی ہے۔[24]

نام گذاری

قرآن کریم کی تمام سورتوں کا مخصوص نام رکھا گیا ہے ۔ اکثر سوروں کا نام اس سورے کے ابتدائی حروف یا اس سورۃ کے مضامین میں موجود پیغام کو مدنظر رکھتے ہوئے رکھا گیا ہے۔ اس بنا پر ہر سورت کا نام اس کے مضامین کے ساتھ خاص مناسبت اور ربط رکھتا ہے۔ مثلا سورہ بقرہ کا نام اس سورۃ میں بنی اسرائیل کے گائے کی ذکر کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ اسی طرح سورہ نساء کا نام اس سورۃ میں عورتوں کے احکام ذکر ہونے کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔[25] بعض سورتیں ایک سے زیادہ نام رکھتی ہیں سیوطی نے سورہ حمد کیلئے 25 نام ذکر کیے ہیں ۔[26]

اس بات میں اختلاف نطر پایا جاتا ہے کہ سورتوں کے نام توقیفی ہیں یعنی پیغمبر اکرم(ص) نے وحی الہی کے تناظر میں یہ نام رکھے یا بعد میں صحابہ نے ان سورتوں کا نام تجویز کیا ہے۔سیوطی، زرکشی اور قرآنی محققین کا ایک گروہ ان ناموں کو توقیفی اور پیغمبر اکرم(ص) کی جانب سے قرار دیتے ہیں ۔[27][28]

آیۃ اللہ جوادی آملی ان ناموں کے توقیفی ہونے کو قبول نہیں کرتے اور احادیث میں معصومین کے توسط سے بعض سورتوں کا نام لئے جانے کو عوام کے ساتھ ہمراہی اور انہی کی زبان استعمال کرنے کے مترادف سمجھتے ہوئے فرماتے ہیں: ” بعید ہے کہ ایک سورہ جو نہایت بلند و بالا حکمتوں اور معارف الہی پر مشتمل ہو اور اس میں بہت سارے احکام کا ذکر ہو اس کا نام کسی حیوان کے نام پر رکھا جائے، اسی طرح 40 توحیدی دلائل پر مشتمل سورہ انعام کو حیوانوں کا نام دیا جائے یا سورہ نمل جو عمیق معارف اور بہت سارے پیغمبروں کی داستانوں پر مشتمل سورے کو چیونٹی (نمل) کا نامدیا جائے ۔[29]

ترتیب نزولی

مشہور نظریے کے مطابق قرآن کریم 23 سال کے عرصے میں بتدریج پیغمبر اکرم(ص) پر نازل ہوا ہے۔[30]، تاریخی شواہد کے مطابق امام علی(ع) پہلے شخص تھے جنہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد قرآن کو اس کے نزول ترتیب کو مد نظر رکھتے ہوئے جمع کیا اور اسے ایک اونٹ پر چڑھا کر صحابہ کے پاس لے آیا لیکن انہوں نے اس مصحف کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔[31] آپ(ع) نے اسے واپس لوٹا دیا اور اس کے بعد کسی کو بھی نہیں دکھایا۔ شیعوں کے مطابق یہ قرآن حضرت علی کے بعد دوسرے ائمہ تک بعنوان ارث منتقل ہوا اور اس وقت امام زمانہ(عج) کے پاس موجود ہے۔ [32] شیخ مفید کے بقول امیر المؤمنین(ع) حضرت علی(ع) نے قرآن کو اول سے آخر تک اس کے نزولی ترتیب کے مطابق جمع کیا اور مکی سورتوں کو مدنی سورتوں پر اور منسوخ کو ناسخ پر مقدم رکھتے ہوئے تدوین کیا۔ [33]

موجودہ ترتیب

مسلمانوں میں رائج قرآن کی موجودہ ترتیب مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان کے جمع کیے ہوئے قرآن کی ترتیب کے مطابق ہے ۔ جس کی ابتدا سورہ فاتحہ سے اور اس کا اختتام سورہ ناس پر ہوتا ہے۔ یہ نسخہ عثمان کی بعد حضرت علی(ع) اور دوسرے آئمہ اہل بیت(ع) کے توسط سے مورد تائید قرار پایا ہے۔ [34] سورتوں کی موجودہ ترتیب کا توقیفی یا اجتہادی ہونا کوئی مورد اتفاق نظریہ نہیں ہے۔ اس بنا پر بعض محققین جیسے سیوطی کہتے ہیں: “موجودہ ترتیب توقیفی اور پیغمبر کے حکم اور خدا کی طرف سے وحی کے تناظر میں مرتب ہوئی ہے ۔[35] لیکن بعض محققین اس ترتیب کو اجتہادی جانتے ہیں اور اسے مصحف عثمانی کو جمع کرنے والوں کا کام قرار دیتے ہیں۔ تیسرا نظریہ یہ کہ سورتوں کی موجودہ ترتیب توقیفی اور اجتہادی ترتیبوں کا مجموعہ ہے۔ یعنی بعض سورتوں کی ترتیب کو خود رسول خدا نے ترتیب دیا ہے جبکہ بعض سورتوں کو عثمان کی طرف سے قرآن کی جمع آوری پر مامور صحابہ نے ترتیب دیا ہے۔[36][37][38]

پہلا سورہ

قرآن کریم کا کونسا سورہ سب سے پہلے نازل ہوا اس بارے میں تین نظریے موجود ہیں:

  1. بعض کہتے ہیں کہ پہلا سورہ جو پیغمبر اکرم(ص) پر نازل ہوا وہ سورہ علق تھا جو پیغمبر اکرم(ص) کی بعثت کے ابتدا میں نازل ہوا۔
  2. بعض سورہ مدثر کو پہلا سورہ قرار دیتے ہیں: اس بارے میں ابن سلمہ نقل کرتا ہے کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سوال کیا کہ: کونسا سورہ یا آیہ پہلی بار نازل ہوا؟ جابر نے جواب دیا: “یا ایها المدثر “۔
  3. بعض کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ پہلا سورہ ہے جو پیغمبر پر نازل ہوا۔[39] [40] [41]

بعض محققین ان تینوں نظریوں کو یوں جمع کرتے ہیں کہ سورہ علق کی پہلی تین یا پانچ آیتیں سب سے پہلے بعثت کے ساتھ نازل ہوئیں۔ اس کے بعد سورہ مدثر کی چند آیتیں نازل ہوئیں لیکن پہلا سورہ جو مکمل طور پر نازل ہوا وہ سورہ فاتحہ تھا۔[42]

آخری سورہ

رسول خدا(ص) پر سب سے آخر میں نازل ہونے والے سورہ کے بارے میں بھی اختلاف ہے ۔ بعض نے سورہ توبہ، بعض نے سورہ نصر اور ایک گروہ نے سورہ مائدہ کو پیغمبر پر نازل ہونے والا آخری سورہ قرار دیا۔[43] شیعہ احادیث کے مطابق سورہ نصر آخری سورہ ہے؛ جب یہ سورہ نازل ہوا تو رسول خدا(ص) نے اسے اصحاب پر قرائت کیا، اس وقت رسول خدا کے چچا عباس بن عبد المطلب کے سوا تمام صحابہ خوش ہوئے ۔ عباس بہت غمناک ہوئے اور کہا: میرے خیال میں یہ سورہ آپ کی رسالت کی انتہا کی خبر دیتا ہے۔ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: اسی طرح ہے ہے جس کا آپ نے گمان کیا ہے۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم(ص) نے دو سال سے زیادہ عمر نہ فرمائی۔[44] چونکہ سورہ نصر فتح مکہ اور ہجرت کے آٹھویں سال نازل ہوا اور سورہ توبہ فتح مکہ کے بعد نویں سنہ ہجری کو نازل ہوا؛ ان دو باتوں کا نتجہ یہ ہے کہ آخری سورہ جو کامل طور پر نازل ہوا وہ سورہ نصر اور جبکہ آیات کے اعتبار سے آخری سورہ سورہ توبہ ہے۔[45]

تبصرے
Loading...