سورہ قیامہ

سورہ قیامت قرآن کی 75ویں اور مَکّی سورتوں میں سے ہے جو 29ویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کو اس کی ابتداء میں خداوندعالم کی طرف سے لفظ “قیامت‌” کی قسم کھانے کی وجہ سے اس نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سورہ قیامت میں معاد کے حتمی ہونے اور اس دن رونما ہونے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں سے ایک گروہ کی نورانیت اور خوشخالی کے ساتھ جبکہ دوسرے گروہ کی غمگینی اور بدحالی کے ساتھ توصیف کی گئی ہیں۔ آخر میں اس بات پر تأکید کرتے ہیں کہ انسان اپنے نفس اور اپنے کردار سے متعلق دوسروں سے زیادہ آگاہ ہے۔

آیت نمبر 3 اور 4 اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہیں جن میں خداوندعالم کو نہ فقط بوسیدہ ہڈیوں کے جمع کرنے بلکہ انسان کے انگلیوں کے سروں کو بھی دوبارہ بنانے پر قادر قرار دی گئی ہیں۔ اس آیت میں جو نکتہ بیان کیا گیا ہے وہ ہر انسان کی شناخت اور اس کے انگوٹھے کی نشان کی طرف اشارہ ہے۔ اس سورت کی فضیلت کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوئی ہے کہ جو شخص سورہ قیامت کی تلاوت کرے تو جبرئیل قیامت کے دن اس شخص کے حق میں گواہی دے گا کہ یہ شخص روز قیات پر ایمان رکھتا تھا اور قیامت کے دن یہ شخص دوسروں سے زیادہ روشن اور نورانی چہرے کے ساتھ محشور ہو گا۔

تعارف

اس سورت کو سورہ قیامت یا سورہ لااُقسِمُ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ دونوں نام اس کی پہلی آیت سے لئے گئے ہیں جہاں خداوندعالم نے قیامت کی قسم کھائی ہے۔[1]

  • ترتیب اور محل نزول

سورہ قیامت مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 31ویں جبکہ مُصحَف شریف کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے 75ویں سورہ ہے[2] جو قرآن کے 29ویں پارے میں واقع ہے۔

  • آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات

سورہ قیامت 40 آیات، 164 کلمات اور 676 حروف پر مشتمل ہے۔ آیتوں کے اختصار کے اعتبار سے اس کا شمار مُفَصَّلات میں ہوتا ہے۔[3]

مضامین

سورہ قیامت میں معاد کے واقع ہونے کو ایک قطعی اور یقینی امر قرار دینے کے ساتھ اس دن رونما ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سورت میں قیامت کے دن انسانوں کو دو گروہ میں تقسیم کرتے ہوئے ایک کی نورانی اور سفیدرو جبکہ دوسرے گروہ کو مغموم اور بدحال قرار دیتے ہیں۔ آگے چل کر اس سورت میں خداوند عالم بیان فرماتا ہے کہ انسان دنیا کو نقدا پا کر آخرت کو فراموش کرتے ہیں اور جب قیامت آتی ہے تو وہ اس بات پر کف افسوس ملتے ہیں۔ اسی طرح اس سورت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان اگرچہ ظاہرا عذر پیش کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ اپنے نفس اور کردار پر دوسروں سے زیادہ واقف ہوتا ہے۔ آخر میں خدا کے منکرین سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ وہ خدا جو انسان کو نیستی سے وجود میں لاتا ہے کیا وہ مردہ انسان کو زندہ کرے پر قادر نہیں ہے؟۔[4]

قیامت کے انکار کے علل و اسباب

 

 

مقدمہ؛ آیہ۱-۲
انسان میں نفس لوامہ، قیامت کے وجود کی نشانی

 

 

پہلا عامل؛ آیہ۳-۴
اعاده معدوم کے محال ہونے کا وہم

 

 

دوسرا عامل؛ آیہ۵-۱۳
مختلف گناہوں کی طرف رغبت

 

 

تیسرا عامل؛ آیہ۱۴-۱۹
معاد کی دلیلوں کو ماننے سے انکار

 

 

چوتھا عامل؛ آیہ۲۰-۳۵
دنیا سے وابستگی اور آخرت کو فراموش کرنا

 

 

پانچواں عامل؛ آیہ۳۶-۴۰
انسان کو دوبارہ بنانے میں خدا کی ناتوانی کا گمان

مشہور آیتیں

  • أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُ، بَلَىٰ قَادِرِينَ عَلَىٰ أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ(ترجمہ: کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی (بوسیدہ) ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے؟ ہاں ضرور جمع کریں گے ہم اس کی انگلیوں کے پور پور درست کرنے پر قادر ہیں۔) (آیت 3ـ4)

احادیث کے مطابق یہ آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جب پیغمبر اکرمؐ کے ایک ہمسائے نے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہوئے کہا کہ آخر کس طرح خداوند عالم مردوں کے ہڈیوں کو جمع کرکے دوبارہ انسان کو خلق کرے گا؟۔ اس کے جواب میں قرآن کہتا ہے کہ خدا نہ صرف مردوں کے بوسیده ہڈیوں کو جمع کرنے پر قادر ہے بلکہ انسان کے انگلیوں کے سروں کو بھی دوبارہ بنانے پر قادر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آیتیں حقیقت میں انگیوں کے نشانات کے ذریعے انسان کی شناخت سے متعلق ایک ظریف نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو آج کل کے جدید دور میں ایک علمی مسئلے کی شکل اختیار کر گئی ہے اور سائنسدانوں نے اپنی تحقیق کے ذریعے ثابت کئے ہیں کہ بہت کم لوگ پائے جاتے ہیں جن کے انگیوں کے نشانات دوسروں سے ملتے جلتے ہوں۔[6]

  • لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ، إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (ترجمہ: (اے رسول (ص)) آپ(ص) اپنی زبان کو اس (قرآن) کے ساتھ حرکت نہ دیجئے تاکہ اسے جلدی جلدی (حفظ) کر لیں۔ بیشک اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھانا ہماے ذمہ ہے۔) (آیت 16-17)

احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ قرآن کو دریافت کرنے اور اسے حفظ کرنے میں بہت زیادہ شوق اور دلچسپی رکھنے کی وجہ سے اسے وحی کے فورا بعد تکرار کرتے تھے اس موقع پر یہ آیتیں نازل ہوئی۔[7] لیکن ایک اور تفسیر میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ وحی کے ختم ہونے سے پہلے ہی اسے پڑھتے چلے جاتے تھے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قرآن پیغمبر اکرمؐ کے قلب مطہر پر اس سے پہلے دفعی طور پر نازل ہوا تھا۔[8] اس شبہہ کے جواب میں جس میں کہا جاتا ہے کہ قرآن کے فقط معانی خدا کی طرف سے ہیں اور الفاظ خود پیغمبر اکرمؐ کے ہیں، مذکورہ آیات سے استدلال کیا جاتا ہے کہ جس میں لفظ “قرآنہ” آیا ہے جس کے معنی پڑھنے کی ہیں جو اس بات کی تصریح کرتی ہے کہ قرآن کے الفاظ بھی خدا ہی کی طرف سے تھے نہ کسی اور کی طرف سے۔[9]

فضیلت اور خواص

اس سورت کی فضیلت کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوئی ہے کہ جو شخص سورہ قیامت کی تلاوت کرے تو جبرئیل قیامت کے دن اس شخص کے حق میں گواہی دے گا کہ یہ شخص روز قیات پر ایمان رکھتا تھا اور قیامت کے دن یہ شخص دوسروں سے زیادہ روشن اور نورانی چہرے کے ساتھ محشور ہو گا۔[10] امام باقرؐ سے بھی نقل ہوئی ہے کہ جو شخص اس سورت کی تلاوت پر مداومت کرے اور اس کی آیات پر عمل پیرا ہوں تو خدا اسے بہترین شكل صورت کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ محشور کرے گا، اس حالت میں کہ ہشاش بشاش چہرہ کے ساتھ ہنستا مسکراتا پل صراط اور میزان سے گزرے گا۔[11]

تفسیر برہان میں اس سورت کے بعض خواص ذکر ہوئے ہیں جن میں رزق و روزی میں وسعت، امنیت، لوگوں کے درمیان محبوبیت،[12] عفاف و پاكدامنی میں تقویت[13] اور ضعف و ناتوانی کا ازالہ وغیره شامل ہیں۔[14]

متن اور ترجمہ

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ ﴿1﴾ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ﴿2﴾ أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَجْمَعَ عِظَامَهُ ﴿3﴾ بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ ﴿4﴾ بَلْ يُرِيدُ الْإِنسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ ﴿5﴾ يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ ﴿6﴾ فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ ﴿7﴾ وَخَسَفَ الْقَمَرُ ﴿8﴾ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ﴿9﴾ يَقُولُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ ﴿10﴾ كَلَّا لَا وَزَرَ ﴿11﴾ إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ ﴿12﴾ يُنَبَّأُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ﴿13﴾ بَلِ الْإِنسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ﴿14﴾ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ ﴿15﴾ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿16﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿17﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿18﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿19﴾ كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ ﴿20﴾ وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ ﴿21﴾ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ﴿22﴾ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴿23﴾ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ ﴿24﴾ تَظُنُّ أَن يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ ﴿25﴾ كَلَّا إِذَا بَلَغَتْ التَّرَاقِيَ ﴿26﴾ وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ ﴿27﴾ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ ﴿28﴾ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ﴿29﴾ إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ ﴿30﴾ فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّى ﴿31﴾ وَلَكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّى ﴿32﴾ ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ يَتَمَطَّى ﴿33﴾ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى ﴿34﴾ ثُمَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى ﴿35﴾ أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى ﴿36﴾ أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى ﴿37﴾ ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى ﴿38﴾ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى ﴿39﴾ أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى ﴿40﴾

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

نہیں! میں قَسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔ (1) اور نہیں! میں قَسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی۔ (2) کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی (بوسیدہ) ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے؟ (3) ہاں ضرور جمع کریں گے ہم اس کی انگلیوں کے پور پور درست کرنے پر قادر ہیں۔ (4) بلکہ انسان چاہتا ہے کہ اپنے آگے (آئندہ زندگی میں) بھی بدعملی کرتا رہے۔ (5) (اس لئے) پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا؟ (6) پس جب نگاہ خیرہ ہو جائے گی۔ (7) اور چاند کو گہن لگ جائے گا۔ (8) اور سورج اور چاند اکٹھے کر دئیے جائیں گے۔ (9) اس دن انسان کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟ (10) ہرگز نہیں! کہیں کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ (11) اس دن صرف آپ(ص) کے پروردگار کی طرف ٹھکانہ ہوگا۔ (12) اس دن انسان کو بتایا جائے گا کہ اس نے کیا (عمل) آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا؟ (13) بلکہ خود انسان اپنے حال کو خوب جانتا ہے۔ (14) اگرچہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔ (15) (اے رسول (ص)) آپ(ص) اپنی زبان کو اس (قرآن) کے ساتھ حرکت نہ دیجئے تاکہ اسے جلدی جلدی (حفظ) کر لیں۔ (16) بیشک اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھانا ہماے ذمہ ہے۔ (17) پس جب ہم اسے پڑھیں تو آپ(ص) بھی اسی کے مطابق پڑھیں۔ (18) پھر اس کا واضح کرنا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ (19) ہرگز نہیں بلکہ تم جلدی ملنے والی (دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ (20) اور آخرت (دیر سے آنے والی) کو چھوڑتے ہو۔ (21) اس دن کچھ چہرے تر و تازہ ہوں گے۔ (22) اپنے پروردگار کی نعمت (و رحمت) کو دیکھ رہے ہوں گے۔ (23) اور کئی چہرے اس دن بےرونق ہوں گے۔ (24) وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے والا سلوک کیا جائے گا۔ (25) ہرگز نہیں جب جان (کھینچ کر) حلق تک پہنچ جائے گی۔ (26) اور کہاجائے گا کہ اب کون ہے جھاڑ پھونک کرنے والا؟ (27) اور وہ سمجھ لے گا کہ اب (دنیا سے) جدائی کا وقت ہے۔ (28) اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔ (29) اس دن تمہارے پروردوگار کی طرف کھینچ کرجانا ہوگا۔ (30) (اتنا کچھ سمجھانے کے باوجود اس مخصوص آدمی نے) نہ تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی۔ (31) بلکہ اس نے جھٹلایا اور منہ پھیر لیا۔ (32) پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چلا گیا۔ (33) یہ (روش) تیرے ہی لئے سزاوار ہے اور تیرے ہی لائق ہے۔ (34) پھر یہ تیرے ہی لائق ہے اور تیرے ہی لئے سزوار ہے۔ (35) کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اسے یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟ (36) کیاوہ شروع میں منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو (رحم میں) ٹپکایا جاتا ہے؟ (37) پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھر اس (خدا) نے اسے پیدا کیا اور پھر (اس کے) اعضاء درست کئے۔ (38) پھر اس سے دو قِسمیں بنائیں مرد و عورت۔ (39) کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ مُردوں کو پھر زندہ کر دے۔ (40)

حوالہ جات

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • اشرفی، امیررضا، «الہی بودن متن قرآن از منظر علامہ طباطبايی و نقش آن در تفسير الميزان»، مجلہ قرآن‌شناخت، سال اول، شمارہ اول، ۱۳۸۷ش۔
  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان، تہران، بنیاد بعثت، ۱۴۱۶ق۔
  • حسینی، سیدموسی، «وحیانی بودن الفاظ قرآن»، فصلنامہ پژوہش‌ہای قرآنی۔
  • دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، تحقیق: صادق حسن زادہ، تہران، ارمغان طوبی، ۱۳۸۲ش۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ترجمہ: بیستونی، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۹۰ش۔
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان، ترجمہ محمدباقر موسوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۷۴ش۔
  • کفعمی، ابراہیم بن علی، المصباح للکفعمی، ،قم، محبین، ۱۴۲۳ق۔
  • گروہ کارورزی وحی، «الہی بودن الفاظ قرآن»، مجلہ معرفت، شمارہ ۷۳، دی‌ماہ ۱۳۸۲ش۔
  • معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بی‌جا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دہم، ۱۳۷۱ش۔

بیرونی روابط

تبصرے
Loading...