سجدہ نماز

سجدۂ نماز نماز کے واجبات میں سے ایک ہے اور ہر رکعت میں دو سجدے کیے جاتے ہیں ۔ہر رکعت کے دونوں سجدے مل کر ایک رکن شمار ہوتا ہے ۔ شیعہ مذہب کی تعلیمات کے مطابق کھانے اور پہننے والی چیزوں پر سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے ۔سجدہ میں پیشانی کے علاوہ دیگر چھ اعضا کا لگانا واجب ہے نیز سجدے میں ذکر مخصوص کا پڑھنا بھی ضروری ہے ۔ اس سے متعلق احکام واجب ، مستحب اور مکروہ کی صورت میں بیان کئے جاتے ہیں ۔

طریقہ

نماز میت کے علاوہ تمام واجب اور مستحب نمازوں میں خدا کا حکم بجا لاتے ہوئے ہر نماز کی رکعت میں رکوع کے بعد جس چیز پر سجدہ کرنا صحیح ہو اس چیز پر اپنی پیشانی کو رکھنا نیز دونوں گھٹنے،پاؤں کے انگوٹھےاور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو لگانا سجدہ کہلاتا ہے نیز اس حالت میں جسم کے سکون کی حالت میں آجانے کے بعد مخصوص ذکر پڑھا جانا ضروری ہے ۔

  • ایک رکعت کے دو سجدوں کا جان بوجھ کر چھوڑنا نماز کے بطلان کا باعث ہے کیونکہ ہر رکعت کے دو سجدے نماز کا رکن ہیں بھول کر دو سجدوں کا چھٹنا مشہور فقہا کے نزدیک باطل کا سبب ہے ۔

احکام

نماز کی ہر رکعت کے دو سجدے مل کر نماز کا ایک رکن کہلاتے ہیں ۔ نیز سجدہ نماز کے واجبات میں بھی شمار ہوتا ہے ۔اس سے متعلق اہم احکام درج ذیل ہیں:

سجدے کا کم یا زیادہ ہونا

ایک سجدے کا جان بوجھ کر زیادہ یا کم کرنا نماز کو باطل کرتا ہے ۔رکوع میں جانے سے پہلے اگر یاد آ جائے کہ ایک سجدہ کم کیا ہے تو نمازی بیٹھ جائے اور بھولے ہوئے سجدے کو انجام دے .باقی نماز کو ختم کرنے کے بعد دو سجدے سہو بھی کرنا ضروری ہے اور اگر رکوع کے بعد یاد آئے کہ ایک سجدہ بھول گیا تھا نماز جاری رکھے نماز ختم کرنے کے بعد بھولے ہوئے سجدہ کی قضا ادا کرنے کے بعد دو سجدے سہو بھی کرے ۔[1][2]

ذکرِ سجدہ

نماز کے سجدے میں کم سے کم ایک مرتبہ سُبْحانَ رَبِّی الاَعْلیٰ وَ بِحَمْدِهِ یا تین مرتبہ سُبْحانَ اللّهِ کہے ۔

سجدے میں شک

سجدے کے انجام دینے میں شک ہو سجدے کو انجام دے اور اگر اسکی انجام دہی میں ظن یعنی پچاس فیصد سے زیادہ انجام دینے کا احتمال ہو تو اس کی پرواہ نہیں کی جائے گی ۔

مستحبات

  • رکوع کے بعد سجدے میں جانے سے پہلے تکبیر کہنا۔
  • سجدے میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ زمین پر لگانا ۔
  • ناک کو زمیں پر لگانا۔
  • ذکر سجدہ طاق تعداد میں پڑھنا۔
  • دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور حالت سکون میں اَستَغْفِرُ اللہَ ربی و اَتُوْبُ اِلَیہ۔ کہنا۔
  • مردپہلے ہاتھوں کو زمین پر رکھے اور عورتیں پہلے گھٹنوں کوزمین پر رکھیں۔
  • سجدہ میں دعا کرے اور خدا سے اپنی حاجتیں طلب کرے۔بہتر ہے یہ دعا ہے:

یاخیرالمسئولین ویاخیرالمعطین ارزقنی وارزق عیالی من فضلک فانک ذوالفضل العظیم

سجدے کی جگہ

روایات اور سنت پیغمبر کی بنیاد پر پاکیزہ اور ایسی چیز پر نماز کا سجدہ کرنا درست ہے جو چیز کھانے اور پہننے میں استعمال نہ ہوتی ہو ۔[4] جیسے خاک، پتھر ، لکڑی ،ریت اور ماسہ وغیرہ ۔.[5][6]

سونے چاندی جیسی معدنیات اور قبر پر سجدہ کرنا درست نہیں ہے اکثر فقہا کے نزدیک عقیق اور فیروزے جیسے معدنی پتھروں پر شجدہ کرنا صحیح نہیں ہے ۔[7] ٹھیکری اور بھٹے کی پکی ہوئی اینٹ پر سجدہ کرنے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے ۔

نمازی کے سجدے کرنے کی جگہ اور اس کے کھڑے ہونے کی جگہ سے چار انگلیاں نہ تو بلند اور نہ نیچی ہی ہونی چاہئے ۔نیز سجدہ کرنے کی جگہ متحرک نہیں ہونے چاہئے اسی وجہ کیچڑ نما مٹی پر سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے ۔[8]

اہل سنت قالین اور کپڑے وغیرہ پر سجدہ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں[9]

مسجد نبوی اور خانۂ خدا میں وہابی حضرات شرک اور قبر کو پوجنے کے بہانے اہل شیعہ کو مٹی سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کی وجہ سے مورد ملامت اور ان کے ساتھ سخت رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں [10]

کاغذ پر سجدہ

پنبہ اور روئی کے علاوہ لکڑی اور گھاس سے بنے ہوئے کاٖغذ یا ٹشو پیپرز پر سجدہ کرنا درست ہے ۔ اس صورت کے علاوہ یا ان کی جنس کی عدم واقفیت کی صورت میں ان پر سجدہ کرنے میں فقہا میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔[11]

  • جس چیز پر سجدہ کرنا درست اس چیز پر سجدہ کرنا ممکن نہ ہو تو روئی کے بنے لباس پر سجدہ کر سکتا ہے اگر وہ بھی نہ ہو تو ہر طرح کے لباس پر سجدہ کر سکتا ہے ۔ان کے نہ ہونے کی صورت میں ہاتھ کی پشت پر سجدہ کرے یا عقیق وغیرہ پتھر پر سجدہ کرے ۔اختلاف نظر پایا جاتا ہے ۔[12]

تربت امام حسین پر سجدہ

شیعہ مکتب کی روایات کے مطابق سجدہ کرنے کیلئے برترین چیز حضرت امام حسین علیہ السلام کی تربت ہے ۔روایت میں آیا ہے کہ حضرت امام حسین کی قبر کی مٹی پر سجدہ کرنے سے ساتوں زمینیں منور ہو جاتی ہے [13] تربت امام حسین علیہ السلام پر سجدہ کرنا پردوں کے ہٹ جانے کا باعث بنتا ہے[14] آئمہ طاہرین کی سیرت اسی مٹی پر سجدہ کرنے کی رہی ہے[15] نیز سید حمیری امام زمانہ سے اس مٹی پر سجدہ کرنے کی فضیلت بیان کرتے ہیں ۔[16]

غیر خدا کو سجدہ کرنا

سجدے کیلئے لائق اور سزاوار صرف خدائے ذو الجلال کی ذات ہے ۔ لہذا خدا کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ آئمہ طاہرین کی قبور ہی کیوں نہ ہوں ۔البتہ خدا کی جانب سے آئمہ طاہرین کی قبور کی زیارت کا شرف نصیب ہونے پر خدا کا شکر بجالانے کی نیت سے ان کی قبور کے نزدیک سجدہ کرنا جائز ہے ۔[17]

  • قرآن کریم کی آیات کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام کو انکے بھائیوں کا سجدہ کرنا علمائے شیعہ کے نزدیک عبادت و پرستش کی نیت سے سجدہ نہیں تھا بلکہ وہ احترام کی اور تعظیم کیلئے سجدہ تھا ۔[18]

حوالہ جات

  1. الحدائق الناضرة، ج۸، ص۲۹۰
  2. جواہر الکلام، ج۱۰، ص۱۶۸-۱۶۹.
  3. سجدے ک مستحبات
  4. سایت ولی عصر(عج)
  5. پورتال انهار
  6. جواہر الکلام، ج۸، ص۴۱۱-۴۱۲.
  7. جواہر الکلام، ج۸، ص۴۱۲.
  8. مستند العروة (الصلاة)، ج۲، ص۱۹۱.
  9. الفِقْهہ الإسلاميُّ وأدلَّتُہ (الشَّامل للأدلّۃ الشَّرعيَّۃ والآراء المذہبيَّۃ وأہمّ النَّظريَّات الفقہيَّۃ وتحقيق الأحاديث النَّبويَّۃ وتخريجہا)، ج1، ص731. المؤلف: أ. د. وَہبَۃ بن مصطفى الزُّحَيْلِيّ، أستاذ ورئيس قسم الفقہ الإسلاميّ وأصولہ بجامعۃ دمشق – كلّيَّۃ الشَّريعۃ، الناشر: دار الفكر – سوريَّۃ – دمشق
  10. سازمان حج و زیارت
  11. جواہر الکلام، ج۸، ص۴۳۰-۴۳۲.
  12. العروة الوثقی، ج۲، ص۳۹۴-۳۹۵.
  13. حر عاملی ،وسائل الشیعہ 5/366
  14. حر عاملی ،وسائل الشیعہ 5/366
  15. ارشاد القلوب دیلمی، ج۱، ص۱۱۵
  16. احتجاج طبرسی، ج۲، ص۴۸۹
  17. العروة الوثقی، ج۲، ص۵۸۷.
  18. اسلام پدیا

کتابیات

  • فرہنگ فقہ فارسی، زیر نظر آیت الله سید محمود شاہرودی، انتشارات موسسہ دائرة المعارف فقہ اسلامی
  • إرشاد القلوب إلی الصواب(للدیلمی)، دیلمی، حسن بن محمد، ناشر: الشریف الرضی، قم، ۱۴۱۲ق
  • اَلإحتجاج علی أہل اللجاج(للطبرسی)، طبرسی، احمد بن علی، نشر مرتضی، مشہد، ۱۴۰۳ق
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۰۹ق
  • مجیدی، غلام حسین، نہج الفصاحہ، چاپ اول، مؤسسہ انصاریان، قم
  • مفردات الفاظ القرآن، راغب اصفہانی (م. ۴۲۵ ق.)، بہ کوشش صفوان عدنان داوودی، اول، دمشق،‌دار القلم، ۱۴۱۲ ق.
  • تحریر الاحکام الشرعیہ علی مذہب الامامیہ، حسن بن یوسف العلامہ الحلی (م. ۷۲۶ ق.)، بہ کوشش ابراہیم بہادری، اول، قم، مؤسسہ الامام الصادق(علیه‌السلام)، ۱۴۲۰ ق.
  • الذکری، محمد بن مکی العاملی الشہید الاول (م. ۷۸۶ ق.)، ]بی جا]، ]بی نا]، ]بی تا]، چاپ سنگی.
  • جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، محمد حسن نجفی (م. ۱۲۶۶ ق.)، هفتم، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی.
  • مستند العروة الوثقی، تقریرات آیة الله خوئی (م. ۱۴۱۳ ق.)، مرتضی بروجردی، قم، مدرسۃ دار العلم، [بی تا].
  • العروة الوثقی، سید محمد کاظم یزدی (م. ۱۳۳۷ ق.)، پنجم، قم،‌دار التفسیر، اسماعیلیان، ۱۴۱۹ ق.
تبصرے
Loading...