زیارت امام حسین (ع)

زیارت امام حسینؑ اور آپؑ کے روضہ اقدس پر حاضری دینا شیعوں کے بہترین مذہبی اعمال میں سے ایک ہے۔ امام حسینؑ کی زیارت کے بہت سے فضائل اور ثواب ذکر ہوئے ہیں؛ من جملہ ان میں خدا کا زائرین پر فخر و مباہات کرنا اور پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کا ان کے حق میں دعا کرنا شامل ہیں۔ شیخ حرّ عاملی بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے امام حسینؑ کی زیارت کو واجب کفایی سمجھتے تھے۔

احادیث میں زیارت امام حسین کے مختلف آداب ذکر ہوئے ہیں؛ ‌من جملہ ان میں امام حسینؑ کی معرفت، غسل، پاک و پاکیزہ لباس زیب تن کرنا، حرم میں داخل ہونے کیلئے خدا سے اجازت طلب کرنا اور زیارتنامہ پڑھنا ہے۔ مختلف ایام اور مناستوں من جملہ روز عرفہ، روز عاشورا، نیمہ شعبان اور ماہ رجب کے ایام میں امام حسینؑ کی زیارت کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے۔ حدیثی منابع میں امام حسین کی زیارت سے متعلق مختلف زیارت نامے ذکر ہوئے ہیں جن میں زیارت وارث، زیارت ناحیہ مقدسہ اور زیارت عاشورا مشہور ہیں۔

پیدل زیارت کرنا زیارت امام حسین کے آداب میں سے ایک ہے جس پر شیعہ احادیث میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور شیخ مرتضی انصاری اور شیخ جعفر کاشف الغطاء جیسے علماء اربعین حسینی کے موقع پر پیدل زیارت کرنے پر مداومت کرتے تھے۔

تاریخی منابع کے مطابق جابر بن عبداللہ انصاری پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے امام حسینؑ کی زیارت کی۔ بنی عباس کے بعض خلفاء من جملہ ہارون رشید اور متوکل نے زیارت امام حسین میں رکاوت ڈالنے کی بہت کوششیں کی جبکہ آل بویہ، صفویہ اور قاجاریہ دور حکومت میں حرم امام حسینؑ کی تعمیر و توسیع سے متعلق کئی اقدامات کئے گئے۔

اہمیت

زیارت امام حسینؑ، آپ کے حرم میں حاضر ہو کر[1] بعض مخصوص اعمال جیسے سلام کرنا اور زیارت نامہ پڑھنا کو کہا جاتا ہے[2] پیغمبر اکرمؐ [3]اور [[ائمہ معصومین] [4] سے منقول بہت سارے احادیث کے مطابق زیارت امام حسین ایک بہترین اور بافضیلت ترین عبادت ہے۔ یہاں تک کہ اس سفر کے شروع سے لے کر زائر کا دوبارہ اپنے گھر واپس پہنچنے تک کا عرصہ اس کی عمر میں شمار نہیں ہو گا۔[5] احادیث میں زیارت امام حسینؑ کیلئے ذکر کئے گئے بعض فضائل یہ ہیں: اس شحض کو عرش الہی پر خداوند متعال کی زیارت کا ثواب دیا جائے گا، خدا کا زائرین پر فخر و مباہات کرنا، پیغمبر اکرمؐ، امام علیؑ اور حضرت فاطمہ(س) کی ہمجواری، زائر کے حق میں پیفمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کی دعا، نیک انجام، رزق و روزی میں وسعت اور عمر میں اضافہ[6]

بعض حدیثی منابع میں زیارت امام حسین کو واجب کفائی قرار دیا گیا ہے؛ من جملہ شیخ مفید نے کتاب المزار[7] اور شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ میں زیارت امام حسین کے واجب کفایی ہونے سے متعلق احادیث ذکر کئے ہیں۔[8]

زیارت کے آداب

ائمہ معصومینؑ سے مروی احادیث میں زیارت امام حسینؑ کی کیفیت اور اس کے ظاہری اور باطنی آداب کی طرف اشارہ کئے گئے ہیں؛ باطنی آداب میں امام حسین کی حقیقی معرفت، خلوص، حضور قلب اور حزن و اندوہ کے ساتھ زیارت کرنا جبکہ ظاہری آداب میں زیارت کے لئے غسل کرنا،[9] پاک و پاکیزہ لباس پہنا،[10] عطر کا استعمال اور زینت نہ کرنا،[11] سکوت اور خاموشی سے زیارت کرنا،[12] حرم میں داخل ہونے کیلئے خدا، پیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ سے اذن دخول مانگنا،[13] اور مخصوص زیارت ناموں جیسے زیارت جامعہ کبیرہ وغیرہ کا پڑھنا[14] شامل ہیں۔

کامل الزیارات میں امام صادقؑ سے مروی ایک حدیث میں قبر امام حسینؑ کے سرہانے دو رکعت نماز پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے جس کی پہلی رکعت میں سورہ حمد اور سورہ یس جبکہ دوسری رکعت میں سورہ حمد اور سورہ الرحمن پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔[15]

مختلف ایام اور مناسبتوں میں زیارت امام حسینؑ کی زیادہ تاکید کی گئی ہے ان میں روز عرفہ،[16] روز عاشورا،[17] نیمہ شعبان،[18] اور ماہ رجب کے ایام[19] شامل ہیں۔ شیعہ حدیثی منابع میں امام حسینؑ کی زیارت کے لئے مختلف مخصوص زیارت نامے ذکر ہوئے ہیں۔[20] اسی طرح امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کی زیارت کیلئے بھی بعض زیارت نامے موجود ہیں۔[21] زیارت وارث،[22] زیارت ناحیہ مقدسہ،[23] زیارت عاشورا،[24] اور زیارت رجبیہ[25] انہی زیارتوں میں سے ہیں۔

پیدل زیارت

امام حسینؑ کی زیارت کیلئے پیدل جانے کی فضیلت اور اس کے ثواب کے بارے میں اہل بیتؑ سے مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں۔ ان احادیث کے مطابق پیدل زیارت کرنے کا ثواب ایک لاکھ حسنہ اور ایک لاکھ گناہوں کی مغفرت ہے۔[26]

شیخ مرتضی انصاری اس سنت کے احیاء کرنے والوں میں شامل تھے اور آپ نجف سے کربلا پیدل زیارت کیلئے جایا کرتے تھے۔ میرزا حسین نوری بھی ہر سال پیدل امام حسینؑ کی زیارت کرتے تھے۔[27] سید محمد مہدی بحر العلوم اہل طوریج کے دستہ عزا کے ساتھ ہمیشہ پیدل زیارت کیلئے جایا کرتے تھے۔ اسی طرح شیخ جعفر کاشف الغطاء پابندی کے ساتھ پیدل زیارت پر جایا کرتے تھے اور مرعشی نجفی بیس مرتبہ پیدل کربلا کی زیارت سے مشرف ہوئے ہیں۔[28] گزشتہ کچھ برسوں میں شیعوں کی بڑی تعداد نیمہ شعبان اور خاص طور پر اربعین حسینی کے موقع پر پیدل زیارت کے لئے کربلا کا سفر کرتے ہیں۔

دور سے زیارت کرنا

زیارت امام حسین کے لئے جہاں روضہ اقدس پر حاضری دینے کی تاکید ہوئی ہے وہاں دور سے بھی زیارت کرنے کی سفارش ہوئی ہے یہاں تک کہ احادیث میں دور سے زیارت کرنے کو بھی مستحب قرار دیا گیا ہے۔[29] غسل زیارت، پاکیزہ لباس پہننا اور گھر کی چھت پر یا بیاباں میں جا کر زیارت پڑھنا مستحب ہے۔[30] اسی طرح زیارت سے پہلے یا بعد میں دو رکعت نماز پڑھنا بھی مستحب ہے۔[31] امام صادقؑ سے منسوب ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو کوئی اپنے گھر میں غسل کرے اور کسی بلندی پر جا کر امام حسینؑ کی خدمت میں سلام عرض کرے تو گویا اس شخص نے امام کی زیارت کی ہے۔[32]

تاریخی قدمت

شیعہ حدیثی منابع میں موجود بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسینؑ کی جائے شہادت اسلام سے پہلے بھی قابل احترام تھی۔[33] ایک حدیث میں آیا ہے کہ امام علی جنگ صفین سے واپسی پر جب کربلا پہنچے تو واقعہ عاشورا کو یاد کر کے آپ نے گریہ فرمایا۔[34]

نقل ہوا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرنے والے سب سے پہلے زائر جابر بن عبد اللہ انصاری تھے۔ جابر عطیہ کوفی کے ساتھ مدینہ سے کربلا گئے اور اربعین کے موقع پر کربلا پہنچے۔[35] کتاب لہوف میں سید بن طاووس لکھتے ہیں کہ اسی دن حضرت زینب(س) اور اسیران کربلا بھی کربلا میں وارد ہوئے ہیں۔[36] بعض مورخین عبید اللہ بن حر جعفی کو اولین زائر امام حسینؑ قرار دیتے ہیں۔[37]

بنی امیہ کے دور میں ان کی سخت گیریوں کے باوجود لوگ کربلا کی زیارت کو جاتے تھے۔[38] عقبی بن عمرو سہمی، عرب زبان شاعر پہلی صدی ہجری کے اواخر میں کربلا میں وارد ہوتا ہے اور مرثیہ نظم کرتا ہے۔[39] بنی امیہ کے زمانہ میں زائرین پر سختیوں کے باوجود حائر حسینی کی تخریب نہیں کی گئی۔ لیکن بعض عباسی خلفاء نے جن میں ہارون الرشید اور متوکل شامل ہیں، نے بارہا حرم امام حسین علیہ السلام کی تخریب کے لئے اقدام کئے، متوکل نے تو نشان قبر کو مٹانے اور عوام کو زیارت سے روکنے کی غرض سے زمین حرم کو کھود کر اس میں پانی جاری کرنے کا حکم دے دیا۔[40] اس کے بر عکس آل بویہ، جلایریان، صفویہ و قاجاریہ کی حکومت کے زمانے میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی توسیع و باز سازی و تزئین کے سلسلہ میں بنیادی اور وسیع پیمانے پر اقدامات کئے گئے۔ [41]

ابن بطوطہ (متوفی ۷۰۳ ق) نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت اور روضہ کے ایک گوشہ میں زائرین کے اطعام کا تذکرہ کیا ہے۔[42] ابن صباغ (۸۵۵ ق) نے بھی نویں صدی ہجری میں لوگوں کے بڑی تعداد میں زیارت کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔[43]

حوالہ جات

  1. دیباچہ ای بر زیارت، ۱۳۹۴ش، ص۹-۱۱؛ کارگر، حقیقت زیارت، ۱۳۹۱ش، ص۷.
  2. دیباچہ ای بر زیارت، ۱۳۹۴ش، ص۹-۱۱؛ کارگر، حقیقت زیارت، ۱۳۹۱ش، ص۷.
  3. رجوع کریں: جامع زیارات المعصومین، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۳۶-۳۹.
  4. رجوع کریں: جامع زیارات المعصومین، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۳۹-۶۹.
  5. امام صادق(ع): “بے شک امام حسینؑ کی زیارت کے ایام زائرین کی عمر میں شمار نہیں ہوگا” (حر عاملی، تفصیل وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۱۴، ص۴۱۴.).
  6. نجفی یزدی، اسرار عاشورا، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۰۳-۱۰۵.
  7. شیخ مفید، المزار، ۱۴۱۳ق، ص۲۶، باب حد وجوبها فی الزمان علی الأغنیاء و الفقراء، ص۲۸.
  8. حر عاملی، تفصیل وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۱۴، ص۴۴۳-۴۴۵.
  9. محمدی ری‌شہری، دانش‌نامہ امام حسین، ۱۴۳۰ق، ج۱۰، ص۴۳۵.
  10. محمدی ری‌شہری، دانش‌نامہ امام حسین، ۱۴۳۰ق، ج۱۰، ص۴۳۵.
  11. محمدی ری‌شہری، دانش‌نامہ امام حسین، ۱۴۳۰ق، ج۱۰، ص۴۳۵.
  12. محمدی ری‌شہری، دانش‌نامہ امام حسین، ۱۴۳۰ق، ج۱۰، ص۴۳۶.
  13. محمدی ری‌شہری، دانش‌نامہ امام حسین، ۱۴۳۰ق، ج۱۰، ص۴۳۶.
  14. محمدی ری‌شہری، دانش‌نامہ امام حسین، ۱۴۳۰ق، ج۱۰، ص۴۳۷.
  15. محمدی ری‌شہری، دانش‌نامہ امام حسین، ۱۴۳۰ق، ج۱۱، ص۱۶۹.
  16. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۴۲۴ق، ص۳۱۶.
  17. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۴۲۴ق، ص۳۲۳.
  18. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۴۲۴ق، ص۳۳۳.
  19. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۴۲۴ق، ص۳۳۸.
  20. رجوع کریں: محمدی ری‌شہری، دانش‌نامہ امام حسین، ۱۴۳۰ق، ج۱۱، ص۲۵۷.
  21. رجوع کریں: محمدی ری‌شہری، دانش‌نامہ امام حسین، ۱۴۳۰ق، ج۱۱، ص۲۸۱.
  22. محدثی، فرہنگ عاشورا، ۱۳۷۴ش، ص۲۱۳.
  23. محدثی، فرہنگ عاشورا، ۱۳۷۴ش، ص۲۱۰.
  24. محدثی، فرہنگ عاشورا، ۱۳۷۴ش، ص۲۰۷.
  25. محدثی، فرہنگ عاشورا، ۱۳۷۴ش، ص۲۰۶.
  26. نمونے کیلئے مراجعہ کریں: ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۴۲۴ق، ص۱۳۴؛ ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۴۲۴ق، ص۱۸۷؛ ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۴۲۴ش، ص۱۳۲.
  27. علوی، «فضیلت پیادہ روی برای زیارت معصومین»، ص۵۶.
  28. فرهنگ زیارت، ص ۵۶
  29. فرہنگ فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۳۲۹.
  30. فرہنگ فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۳۲۹.
  31. فرہنگ فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۳۲۹.
  32. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۴۲۴ق، ص۴۸۲.
  33. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴، ص۲۴۳-۲۴۴.
  34. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۴، ص۲۵۵-۲۵۶، ح۴.
  35. بحارالانوار، ج۶۸، ص۱۳۰،‌ح ۶۲
  36. اللہوف فی قتلی الطفوف، ص۱۱۴
  37. تاریخ طبری، ج۴، ص۴۷۰
  38. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ص۲۰۳ـ۲۰۶، ۲۴۲ـ۲۴۵
  39. فرهنگ زیارت، ص۲۹
  40. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص۳۹۵ـ۳۹۶؛ طوسی، الامالی، ص۳۲۵ـ۳۲۹
  41. کلیدار، تاریخ کربلاء و حائرالحسین(ع)، ص۱۷۱ـ۱۷۳
  42. فرهنگ زیارت، ص۲۹
  43. فرهنگ زیارت، ص۲۹

منابع

  • جامع زیارات المعصومین، مؤسسۃ الامام الہادی (ع)، ناشر: پیام امام ہادی (ع)، اعتماد، قم، ۱۳۸۹ش
  • اسرار عاشورا، سید محمد نجفی یزدی، دفتر انتشارات اسلامی، قم، ۱۳۷۷ش
  • ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، محقق و مصحح: امینی، عبد الحسین،‌ دار المرتضویۃ، نجف اشرف، چاپ اول، ۱۳۵۶ش
  • نورالعین فی المشی الی زیارۃ قبر الحسین (ع)، محمدحسن اصطہباناتی، دار المیزان، بیروت
  • شیخ مفید، محمّد بن محمد بن نعمان، کتاب المزار، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، قم، چاپ اول، ۱۴۱۳ق
  • شیخ طوسی، امالی، قم، دار الثقافہ، ۱۴۱۴ق
  • جمعی از نویسندگان، نگاہی نو بہ جریان عاشورا، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۸۷، چاپ ششم
  • کلینی، محمد بن یعقوب، کافی،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ق
  • تاریخ طبری، محمد بن جریر طبری،‌ دار التراث، بیروت، ۱۹۶۷م
  • اللہوف فی قتلی الطفوف،السید ابن طاووس، أنوار الہدی، قم، ۱۴۱۷ق
  • فرہنگ زیارت، فصلنامہ فرہنگی، اجتماعی، سیاسی و خبری، سال پنجم، شمارہ نوزدہم و بیستم، تابستان و پاییز، ۱۳۹۳ش
تبصرے
Loading...