رضاعی محرم

رِضاعی مَحرم، وہ رشتہ دار ہیں جو دودھ پلانے کى وجہ سے ایک دوسرے کے مَحْرَم بنتے ہیں اور اسى کى بنا پر ان کے درمیان بعض خاص احکام جارى ہوتے ہیں؛ جیسے شادى کا حرام ہونا۔ اسلامى فقہ میں رضاع سے مَحرم ہونے کے لیے کچھ مخصوص شرائط رکھے گئے ہیں۔

رضاع سے مَحرم بننا

رِضاعی مَحرم وہ رشتہ دار ہیں جو ایک بچے کا کسى عورت کا دودھ پینے سے بنتے ہیں۔ فقہى اصطلاح میں کسى اور عورت کا دودھ پینے والے بچے کو «مرتضع»، اور دودھ پلانے والى عورت کو «مرضعہ» اور دودھ پلانے والى عورت جس مرد سے حاملہ ہوئى ہے اس مرد کو «فحل» یا «صاحب لبن» (دودھ کا صاحب) کہا جاتا ہے۔[1] فقہى کتابوں میں نکاح کے باب میں «رضاعى مَحرم» کے بارے میں بحث کى گئى ہے۔

شرایط

رضاعى محرم بننے کے لئے شیعہ فقہاء نے مندرجہ ذیل شرائط بیان کى ہے:

  • دودھ پلانے والى عورت شرعى طور پر حاملہ ہوئى ہو۔
  • دودھ پینے والے بچے کى عمر قمری دو سال سے کم ہو۔
  • بچہ پستان سے منہ لگا کر دودھ پئے، کسى اور طریقے سے نہ ہو مثلا بچے کے حلق میں انڈیلا گیا ہو۔
  • دودھ پلانے والى عورت زندہ ہو۔
  • بچہ صرف ایک ہى عورت سے دودھ پئے۔
  • دودھ کو پے در پے پى لے (درميان ميں غذا یا کسى اور عورت کا دودھ نہ پئے)۔
  • بچہ لازم مقدار میں دودھ پى لے۔[2] [نوٹ 1]

اہل سنت کا نظریہ

رضاع کے ذریعے محرم ہونے کو اہل‌ سنت بھى مان لیتے ہيں؛ لیکن بعض شرائط کے بارے ميں امامیہ کے ساتھ ہم نظر نہیں ہیں۔ اہل سنت کى چاروں مذاہب میں پستان سے دودھ پینا شرط نہیں ہے بلکہ دودھ کسى بھى طریقے سے بچے کے حلق تک پہنچنا محرم بننے کے لئے کافى ہے۔ اسى طرح شافعیوں اور حنبلیوں کے مطابق کم از کم 5 دفعہ اور حنفیوں اور مالکیوں کے مطابق محرم ہونے کے لئے اتنى مقدار میں دودھ پینا کافى ہے کہ لوگ کہیں کہ بچے نے دودھ پى لیا ہے۔ حنفیوں نے بچے کى عمر کو دو سے ساڑھے دو سال قرار دیا ہے لیکن شافعیوں اور حنبلیوں نے دو سال کى عمر قرار دیا ہے۔ اسى طرح شافعیوں کے برخلاف حنفی اور مالکیوں کے مطابق رضاعى محرم بننے کے لئے رضاعى ماں کا زندہ ہونا بھى شرط نہیں ہے۔[3]

رضاعی محرم

امام صادق(ع) کى ایک روایت کے مطابق جو لوگ نسب کے ذریعے محرم ہیں وہ رضاع اور دودھ پینے سے بھى محرم ہوتے ہیں۔[4] دودھ پلانے سے رضاعى ماں اور رضاعى باپ اور دودھ پینے والے بچے اور اس کى نسل آپس میں ایک دوسرے کیلئے محرم بنتے ہیں۔ جو بچہ کسى عورت کا دودھ پیتا ہے تو مندرجہ ذیل افراد اس کے لئے محرم بنتے ہیں۔

  • رضاعی ماں (وہ عورت جس نے بچے کو دودھ پلایا ہے)۔
  • رضاعی باپ (وہ مرد جس سے رضاعى ماں حاملہ ہوئى تھى)۔
  • رضاعى ماں کے والدین اور اس کے اجداد ۔
  • رضاعى باپ کے والدین اور اس کے۔
  • رضاعى ماں کى اولاد اوراولاد کى اولاد۔
  • رضاعى ماں باپ کے بہن بھائى۔
  • رضاعى ماں باپ کے چچے اور پھوپھیاں۔
  • رضاعى ماں باپ کے ماموں اور خالے۔[حوالہ درکار]

شیعہ فقہاء کی نظر میں دودھ پلانے سے رضاعى باپ کى رضاعى اولاد اور نسبى اولاد کے آپس میں محرم بننے میں کوئی فرق نہیں ہے؛ لیکن بعض نے رضاعى ماں کى رضاعى اولاد کے محرم ہونے کو نہیں مانتے ہوئے کہا ہے کہ رضاعى ماں کى صرف نسبى اولاد اس شیر خوار کے لئے محرم بنتى ہے۔۔[5] [نوٹ 2]

کبیر رضاع

کبیر رضاع کا مطلب یہ ہے کہ کوئى بالغ مرد کسى نامحرم عورت کا دودھ پى لے۔ اہل سنت کے بعض ظاہریہ مسلک کے ماننے والے جیسے ابن حزم نے اہل‌ سنت کے منابع میں عایشہ سے منقول ایک روایت[6] سے استناد کرتے ہوئے رضاع کبیر کو بھى محرم بنانے کے اسباب میں سے شمار کیا۔[7]لیکن شیعہ علماء [8] اور اہل‌سنت کے اکثر علما نے رضاع کبیر کو مَحرم بننے کے اسباب میں سے قرار نہیں دیا ہے بلکہ اس طرح کسى نامحرم عورت کے دودھ پینے کو حرام سمجھا ہے۔[9]

قوانین اور رضاع کے احکام

مختلف اسلامى ممالک کے عائلى قوانین میں بھى رضاع کے بارے میں ذکر ہوا ہے اور ہر مذہب کے فقہ کے مطابق قوانین بنائے گئے ہیں اگرچہ اکثر مسلمان ممالک میں ہر شخص عائلى قوانین میں اپنے فقہ کا تابع ہے اگرچہ اس ملک میں قانون کسى بھى فقہ کے مطابق رائج ہو لہذا ہر ملک میں رائج فقہ کے مطابق رضاع کے قوانین ذکر ہوئے ہیں۔

حوالہ جات

  1. مراجعہ کریں۔ شیخ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۹۳۔
  2. مراجعہ کریں: محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۲۶-۲۲۸؛ علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۱۳۶-۱۳۷؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۲۹، ص۲۶۴-۳۰۹۔
  3. جزیری و دیگران، الفقہ علی المذاہب الاربعہ و مذہب اہل البیت، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۳۲۴، پانویس۔
  4. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۴۳۷۔
  5. علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۱۳۷۔
  6. ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، دارالفکر، ج۱، ص۶۲۵، باب رضاع الکبیر، ح۱۹۴۳
  7. ابن حزم، المحلی، دارالفکر، ج۱۰، ص۸-۹، ۱۷۔
  8. مراجعہ کریں: محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۲۶-۲۲۸؛ علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، ۱۴۱۱ق، ص۱۳۶؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۲۹، ص۲۶۴۔
  9. مالک بن انس، الموطأ، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۴۰۶؛ قرطبی، تفسیر القرطبی، ۱۴۰۵ق، ج۱۶، ص۱۹۳؛ سمرقندی، تحفۃ الفقہاء، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۲۳۶-۲۳۷۔
  1. دودھ کى مقدار کے بارے میں فقہاء کے مختلف نظریات ہیں اکثر نے تعداد کو معیار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دودھ کم از کم 10 یا 15 دفعہ پے در پے فقیہان دربارہ ملاک برای مقدار لازم دیدگاہ‌ہای مختلفی دارند۔ بیشتر آنان ملاک را دفعہ قرار دادہ و گفتہ‌اند کودک حداقل ۱۰ یا ۱۵ دفعہ پى لے۔ بعض نے مقدار کے معیار کو یوں بیان کیا ہے کہ اتنى مقدار میں دودھ پى لے کہ اس کے بدن میں گوشت اور ہڈیاں بڑھے؛ اور بعض نے وقت کو معیار قرار دیتے ہوئے محرم بننے کے لیے کم از کم ایک دن اور رات دودھ پینے کو لازم قرار دیا ہے۔
  2. شیعہ فقہاء کى نظر کے مطابق شیرخوار بچے کا والد شیرخوار بچے کے رضاعى باپ کى نسبى یا رضاعى اولاد سے شادى نہیں کرسکتا ہے اسى طرح رضاعى ماں کى نسبى اولاد سے بھى شادى نہیں کرسکتا ہے۔ اسى طرح اکثر فقہاء نے شیرخوار کے نسبى بہن بھائیوں کے لئے شیرخوار کے رضاعى بہن بھائیوں سے شادى کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔

منابع

  • ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، تحقیق: محمد فؤاد عبدالباقی، دارالفکر۔
  • سمرقندی، تحفۃ الفقہاء، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۳م۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، تصحیح: علی خراسانی و دیگران، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۷ق۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، تصحیح: علی خراسانی و دیگران، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۷ق۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تبصرۃ المتعلمین فی احکام الدین، تصحیح: محمدہادی یوسفی غروی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ق۔
  • قرطبی، تفسیر القرطبی، تحقیق: احمد عبدالعلیم بردونی، بیروت، داراحیاء العربی، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق۔
  • مالک بن انس، الموطأ، تصحیح: محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، داراحیاء العربی، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۵م۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسین، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تصحیح: عبدالحسین محمد علی بقال، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، ۱۴۰۸ق۔
  • منصور، جہانگیر، قانون مدنی با آخرین اصلاحیہ‌ہا و الحاقات ہمراہ با قانون مسؤلیت مدنی، تہران، نشر دیدار، ۱۳۸۹ش۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح: عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ق۔
  • جزیری، عبدالرحمن، غروی و مازح، محمد و یاسر، الفقہ علی المذاہب الاربعہ و مذہب اہل البیت (ع)، بیروت، دارالثقلین، ۱۴۱۹ق-۱۹۹۸م۔
تبصرے
Loading...