اور نہ وہ کمزور ہے کہ اشیائ کے بنانے میں کوئی اس کی مدد کرے پس وہ پاک ہے پاک ہے اگر زمین و آسمان میں خدا کے سوا کوئی معبود ہوتا تو یہ ٹوٹ پھوٹ کر گرپڑتے پاک ہے خدا یگانہ یکتا بے نیاز جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے حمد ہے خدا کے لیے برابر اس حمد کے جو اس کے مقرب فرشتوں اور اس کے بھیجے ہوئے نبیوں نے کی ہے اور اس کے پسند کیے ہوئے محمد نبیوں کے خاتم پر خدا کی رحمت ہو اور ان کی آل پر جو نیک پاک خالص ہیں اور ان پر سلام ہو ۔
(پھر آپ نے خدائے تعالیٰ سے حاجات طلب کرنا شروع کیں۔ جب کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، اسی حالت میں آپ بارگاہ الٰہی میں یوں عرض گزار ہوئے):
پس حمد تیرے لئے ہے اے بزرگی بلند شان اے جلالت و عزت کے مالک فضل کرنے والے نعمت دینے والے بڑی بڑی عطائیں کرنے والے اور تو بخشش کرنے والا کرم کرنے والا نرمی کرنے والا مہربان ہے اے اللہ میرے لئے اپنا رزق حلال وسیع فرما میرے بدن اور میرے دین کی حفاظت فرما مجھے خوف سے بچا اور میری گردن کو جہنم کی آگ سے آزاد کردے اے اللہ مجھے غلط فہمی میں نہ ڈال دھوکے میں نہ رکھ مجھے فریب نہ کھانے دے اور نابکار جنّوں اور انسانوں کو مجھ سے دور کر دے۔
پھر آپ نے اپنے سراورانکھوں کو آسمان کیطرف بلند کیا جبکہ آپ کی انکھوں سے آنسوں رواں تھے اور آپ بآواز بلند عرض کر رہے تھے:
اے سب سے زیادہ سننے والے اور اے سب سے زیادہ دیکھنے والے، اے سب سے تیز تر حساب کرنے والے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے محمد و آل محمدؐ پر رحمت نازل فرما جو برکت والے سردار ہیں اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اے اللہ اپنی اس حاجت کا کہ اگر تو وہ عطا کردے تو جو کچھ تو نے نہیں دیا اس سے مجھے نقصان نہیں اور اگر تو وہ عطا نہ کرے تو جو تو نے دیا اس سے مجھے کوئی نفع نہیں، سوال کرتا ہوں کہ میری گردن جہنم سے آزاد کردے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو یکتا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، تیرے لئے حکومت، تیرے لئے حمد ہے اور تو ہر ایک چیز پر قدرت رکھتا ہے۔اے میرے رب، اے میرے رب، اے میرے رب۔
امامؑ مسلسل «يا ربّ» کہتے جارہے تھے اور آپؑ کے ارد گرد موجود افراد آمین کہتے جارہے تھے۔ امامؑ کے ساتھ رونے کی آواز بلند ہوگئی یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ پھر اپنا سامان اٹھا کر مشعرالحرام کی طرف روانہ ہوئے۔
مؤلف کا کہنا ہے کہ کفعمی نے بلد الامین میں امام حسین علیہ السلام سے دعائے عرفہ یہی تک نقل کیا ہے اور علامہ مجلسی نے زاد المعاد میں اس دعا کو کفعمی کی روایت کے مطابق نقل کیا ہے لیکن سید ابن طاووس نے کتاب اقبال میں «یارب، یارب» کے بعد اس کو بھی ذکر کیا ہے:
میرے اللہ تو نے اپنی قدرت کے آثار پر توجہ کا حکم کیا پس مجھ کو اپنے نور کے پردوں اور بصیرت کے راستوں کی طرف لے چل تاکہ اس کے ذریعے تیری درگاہ میں آؤں جس طرح انہی کے ذریعے تیری طرف راہ پائی انہیں دیکھ کر راز حقیقت کی خبر پاؤں اور ان کے سہارے اپنی ہمت کو بلند کروں بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے میرے اللہ یہ ہے میری پستی جو تیرے آگے عیاں ہے اور یہ ہے میری بری حالت جو تجھ سے پوشیدہ نہیں میں تیری بارگاہ میں پہنچنا چاہتا ہوں اور تجھ پر تجھی کو دلیل ٹھہراتا ہوں پس اپنے نور سے میری اپنی طرف سے رہنمائی کر اور اپنے حضور مجھے سچی بندگی پر قائم رکھ میرے اللہ مجھے اپنے پوشیدہ علوم میں سے تعلیم دے اور اپنے محکم پردے کے ساتھ میری حفاظت کر