دعائے سمات

دعائے سمات [عربی میں دعاء السمات] امام محمد باقر(ع) سے منقولہ دعا ہے اور اس کی قرائت روز جمعہ کی آخری گھڑیوں میں مستحب ہے۔ امام باقر(ع) سے منقولہ حدیث کی رو سے اللہ کا اسم اعظم اسی دعا میں ذکر ہوا ہے۔ شیعہ علماء، نے اس دعا پر بہت ساری شرحیں لکھی ہیں۔

وجۂ تسمیہ

سمات جمع “سِمَۃ” کی جمع ہے جس کے معنی علامت اور نشانے کے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ اس دعا میں استجابت کی علامتیں بکثرت ہیں چنانچہ اس کو سمات کا نام دیا گیا ہے۔[1]

دعا کی سند

دعائے سمات کو شیخ طوسی نے مصباح المتہجد میں،[2] سید ابن طاؤس نے در جمال الاسبوع میں،[3] کفعمی نے البلد الامین[4] اور المصباح میں،[5] مجلسی نے بحارالانوار[6] اور زاد المعاد میں،[7] معتبر اسناد سے امام زمانہ (عج) کے دوسرے نائب خاص محمد بن عثمان عمری سے انھوں نے اپنی سند سے امام صادق(ع) سے اور آپ(ع) نے اپنے والد ماجد امام محمد باقر(ع) سے نقل کیا ہے۔[8] سید ابن طاؤس نے اپنی کتاب جمال الاسبوع میں اس دعا کو تین واسطوں سے نقل کیا ہے۔[9] شیخ عباس قمی نے یہ دعا مفاتیح الجنان میں[10] شیخ طوسی کی مصباح المتہجد سے نقل کی ہے۔

سید ابوالقاسم خوئی سند کی قوت کی تائید نہیں کرتے۔[11] تاہم علامہ مجلسی کا کہنا ہے کہ یہ دعا اصحاب امامیہ (علمائے شیعہ) کے درمیان شہرت کی انتہا پر رہی ہے اور وہ پابندی سے اس کی قرائت کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔[12]

وقت قرائت

امام خمینی(رح):
اس عظیم الشان دعا (سمات) کے متن و سند سے منکرین کو جرأتِ انکار نہیں ہے اور خاص و عام اور عارف اور معمولی اافراد کے ہاں مقبول ہے اور یہ دعائے شریفہ اعلی مرتبت مضامین اور بہت سے معارف پر مشتمل ہے جس کی خوشبو عارف کے دل کو مسحور، اور بیخودی کی کیفیت سے دوچار، کردیتی ہے اور اس کی اور اس کی نسیم سالک کی جان میں نفخۂ الٰہیہ الہیہ (خدا کی پھونک) پھونک دیتی ہے

اس دعا کی قرائت روز جمعہ کی آخری گھڑیوں میں[13] اور شب شنبہ مستحب ہے؛ اور جو بھی کہیں جاتے وقت یا بوقت حاجت، یا اس دشمن کی جانب رخ کرتے وقت، جس سے وہ خائف ہے، یا ایسے حکمران کے پاس جاتے وقت، جس سے وہ ڈرتا ہے، یہ دعا پڑھے، وہ حاجت روا ہوجاتا ہے، دشمن کے شر سے محفوظ رہتا ہے؛ اور جو اس دعا کو نہ پڑھ سکے، وہ اس کو مکتوب کرے اور اپنے بازو پر باندھ لے یا اپنے بغل میں قرار دے، اس کے اثرات وہی ہونگے۔[14] شیعیان اہل بیت(ع) روز جمعہ کی آخری ساعتوں میں، مذہبی مقامات میں اجتماعی صورت میں، یا پھر انفرادی طور پر، دعائے سمات کی قرائت کا اہتمام کرتے ہیں۔

مضامین و مندرجات

دعائے سمات میں، خداوند متعال کو اسم اعظم، انبیاء اور ان مقدس مقامات کی قسم دلائی جاتی ہے یا ان کے واسطے سے دعا و التجا کی جاتی ہے جہاں اس نے اپنے رسولوں کے ساتھ کلام کیا اور ان پر وحی اتار دی۔ دعا کا آغاز خدا کے ساتھ رازونیاز اور مناجات سے ہوتا ہے اور ضمنی طور پر خدا کی نعمتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ بنو اسرائیل کے ساتھ حضرت موسی(ع) کی ہمراہی، دریا سے ان کا عبور اور فرعون اور اس کے لشکریوں کی ہلاکت کا تذکرہ کیا جاتا ہے؛ اگلے فقروں میں موسی بن عمران، ابراہیم خلیل، اسحاق بن ابراہیم اور یعقوب بن اسحاق کے ساتھ خداوند متعال کے ہمکلام ہونے نیز خداوند متعال کی طرف سے ان کی امداد کا تذکرہ ہوا ہے۔ یہ دعا یادآوری کراتی ہے کہ کس طرح خداوند متعال نے آدم(ع) اور ان کی ذریت پر اپنی رحمت نازل فرمائی ہے اور پھر پچھلی امتوں پر اللہ کی برکتوں کو بیان کیا جاتا ہے اور تاکید کی جاتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت اور ذریت بھی ان برکتوں میں شامل ہیں اور اور پھر خداوند متعال سے التجا کی جاتی ہے کہ پیغمبر(ص) اور خاندان پیغمبر پر صلوات بھیج دے، اپنی رحمت و برکت میں انہیں شامل فرمائے، جس طرح کہ اس نے ابراہیم(ع) اور خاندان ابراہیم پر صلوات بھیجی اور انہیں اپنی برکت و رحمت میں شامل کیا۔

دعا کی منزلت

امام باقر(ع) سے منقولہ حدیث میں ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا: “لَوْ حَلَفْتُ لَبَرَرْتُ أَنَّ اسْمَ اللَّهِ الْأَعْظَمِ قَدْ دَخَلَ فِیهَا فَإِذَا دَعَوْتُمْ فَاجْتَهِدُوا فِی الدُّعَاءِ(ترجمہ: اگر قسم اٹھاؤں کہ خدا کا اسم اعظم اس دعا میں ہے، جو اس میں داخل ہوا ہے، تو جب دعا کرو تو دعا میں کوشش کرو)“۔[15]

شرحیں

آقا بزرگ طہرانی نے مرقوم کیا ہے کہ دعائے سمات پر 20 شرحیں لکھی گئی ہیں۔[16]

  1. خلاصۃ الدعوات فی شرح دعاء السمات، بقلم: سید محمد مہدی بن محمدجعفر موسوی تُنِکابنی. انھوں نے اپنی کتاب “خلاصۃ الاخبار” کے آخر میں ـ جو انھوں نے سنہ 1250ھ ق، تالیف کی ہے ـ، میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔[17]
  2. دُرِّ منثور در شرح دعای شبور، بقلم: عبدالجلیل بن نصراللہ (متوفٰی تیرہویں صدی ہجری)۔ یہ شرح فارسی میں ہے اور سنہ 1246ھ ق میں پایۂ تکمیل تک پہنچی ہے۔[18]
  3. روائح النسمات فی شرح دعاء السمات، بقلم: محمد حسن میرجہانی۔ یہ شرح فارسی میں ہے اور سنہ 1373ھ ق میں طبع زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے۔[19]
  4. صفوۃ الصفات فی شرح دعاء السمات، بقلم: ابراہیم بن علی بن حسن کفعمی (متوفٰی 905 ھ ق)۔ یہ شرح سنہ 895 ھ ق، میں تالیف ہوئی ہے اور اس کے متعدد نسخے دستیاب ہیں۔[20]
  5. کشف الحجاب عن الدعاء المستجاب، بقلم: سید عبداللہ بن محمدرضا شبر (متوفٰی 1242ھ ق)۔ یہ شرح سنہ 2141که به سال 1241ھ ق، میں تالیف ہوئی ہے۔[21]۔[22]۔خطا در حوالہ: Closing missing for tagفهرست نسخ خطّى كتاب خانه آيۃ اللّه مرعشى، ج24، ص267۔
  6. اللمعات فی شرح دعاء السمات، بقلم: سید ابوالقاسم دہکردی (متوفٰی 1352ھ ق)۔ اس شرح کی تحریر ـ جس کی ہر فصل کو “لمعہ” کا عنوان دیا گئی ہے ـ سنہ 1349ھ ق، میں پایۂ تکمیل کو پہنچی ہے۔[23]
  7. مفتاح النجاۃ فی شرح دعاء السمات، بقلم: آقا محمود بن محمد علی بن وحید بہبہانی (متوفٰی 1269 یا 1271ھ ق)۔ یہ شرح فارسی میں لکھی گئی ہے اور اس کی تالیف کا کام سنہ 1260ھ ق، میں اختتام پذیر ہوا ہے۔
  8. وسیلۃ النجاۃ فی شرح دعاء السمات، تالیف: عبدالواسع علامی۔
  9. وسیلۃ النجاۃ فی شرح دعاء السمات، بقلم: شیخ علی اکبر بن محمد حسین نہاوندی (متوفٰی 1369ھ ق)۔ مؤلف اس شرح کو ـ جس کا دوسرا نام “عناوین الجُمُعات فی شرح دعاء السمات” ہے ـ سال کے ایام جمعہ کی عدد کے مطابق ـ 48 عناوین کے تحت مرتب کرنا چاہتے تھے لیکن لیکن صرف پانچ عناوین لکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور پانچواں عنوان “وبمشيتك التي دان لها العالمون اور شرح کا یہ حصہ مؤلف ہی کے خط سے سنہ 1332ھ ق میں ـ سنگی طباعت (lithography) سے ـ شائع ہوئی تھی۔ مؤلف اس حصے کی اشاعت کے بعد خانۂ خدا کی زیارت کا شرف حاصل کرنے کی غرض سے حجاز کا رخ کیا اور شرح کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔
  10. شرح دعاء السمات، مؤلف: محمد ابراہیم بن عبد الوہاب سبزواری اسراری (متوفٰی 1291ھ ق)۔ مؤلف نے اس شرح کو ـ جس کی زبان عربی ہے ـ سنہ 1350ھ ق میں تالیف کیا ہے۔
  11. شرح دعاء السمات، بقلم: محمد باقر مجلسی (متوفٰی 1110ھ ق)۔ یہ شرح “بحار الانوار” کے ضمن میں مندرجہ “کتاب الدعاء” مندرج ہے۔ صاحب الذریعہ نے دعائے سمات کا ترجمہ بھی علامہ مجلسی سے منسوب کیا ہے۔
  12. شرح دعاء السمات، بقلم: سید محمد جعفر طباطبایی شولستانی (متوفٰی قرن 12ھ ق)۔ اس شرح کی تالیف سنہ 1113ھ ق، میں مکمل ہوئی ہے۔
  13. شرح دعاء السمات، بقلم: حسن بن محمد باقر قرہ باغی، جو سنہ 1261ھ ق کو نجف میں تالیف ہوئی ہے۔
  14. شرح دعاء السمات، بقلم: درویش علی بن حسین بغدادی حائری (متوفٰی حدود 1277ھ ق)۔
  15. شرح دعائے سمات، بقلم: ملا محمد صالح بن محمدباقر روغنی قزوینی (متوفٰی تقریبا 1075ھ ق)۔ یہ شرح فارسی میں ہے۔
  16. شرح دعاء السمات، بظاہر “میرعبد الفتاح بن علی حسینی مراغی (متوفٰی قرن 13ھ ق)” کے قلم سے۔
  17. شرح دعاء السمات، بقلم: علی بن عبداللہ علیاری تبریزی (متوفٰی 1327ھ ق)۔
  18. شرح دعائے سمات، بقلم: محمدعلی بن نصیر الدین چہاردہی رشتی نجفی (متوفٰی 1334ھ ق)۔ یہ شرح فارسی میں ہے۔
  19. شرح دعاء السمات، بقلم: سید کاظم بن قاسم حسینی رشتی (متوفٰی 1259ھ ق)۔ اس شرح کی طباعت ـ جو عربی میں لکھی گئی ہے ـ سنہ 1277ھ ق میں بمقام تبریز انجام پائی ہے۔
  20. شرح دعاء السمات، بفلم: شیخ محمد عاملی۔
  21. شرح دعاء السمات، بقلم: کتاب “ریاض الصالحین” کے مؤلف “سید محمد بن محمد باقر حسینی” (متوفٰی بارہویں صدی ہجری)۔ یہ شرح عربی میں ہے اور گویا اسی کتاب کا ہی حصہ ہے۔
  22. شرح دعاء السمات، بقلم: محمد بن عبداللہ بن علی بلادی بحرانی (متوفٰی بارہویں صدی ہجری)۔ اس شرح کی تالیف سنہ 1166ھ ق میں، بصورت “شرح مزجی”[24] صورت میں انجام پائی ہے۔
  23. شرح دعائے سمات، بقلم: محمد مؤمن بن علی نقی، جو فارسی میں لکھی گئی ہے۔
  24. شرح دعاء السمات، بقلم: نامعلوم۔ اس کتاب کی زبان عربی ہے۔ آج تک اس شرح کے پانچ نسخوں کا سراغ لگایا جاچکا ہے اور اس شرح کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے: “نَحمدُكَ وَنَدعُوكَ فِي السَّراءِ وَنَسأَلُكَ وَنَرجُوكَ الإِجابةَ فِي الضَّراءِ“۔
  25. شرح دعاء السمات، بقلم: شیخ ہلال الدین اسماعیل خوئی (متوفٰی حدود 1313ق)۔ مؤلف کی کتاب جلیس الواحد و انیس الفارد سنہ 1313ھ ق میں تالیف ہوئی اور انھوں نے اس کتاب میں مذکورہ شرح ایک ناسخ نسخہ شامل کیا ہے۔
  26. شرح دعاء السمات، بقلم: یوسف بن محمد مہدی خوانساری۔
  27. شرح دعاء السمات، بقلم: نامعلوم۔ یہ شرح عربی میں ہے اور اس کی کتابت 1105ھ ق میں مکمل ہوئی ہے۔ اس شرح کے ابتدائی صفحات دستیاب نہیں ہیں۔
  28. شرح دعاء السمات، بقلم: نامعلوم۔ یہ شرح عربی میں ہے اور اس کے دستیاب نسخے کی کتابت گیارہویں صدی ہجری میں انجام پائی ہے۔
  29. شرح دعاء السمات، بقلم: نامعلوم۔ اس شرح کے دستیاب نسخے کی کتابت گیارہویں صدی ہجری میں انجام پائی ہے اور اس نسخے کی کتابت بارہویں صدی ہجری میں ہوئی ہے۔
  30. شرح دعاء السمات، بقلم: نامعلوم۔ یہ شرح عربی میں ہے اور سنہ 1238ھ ق میں تالیف ہوئی ہے اور اس کا قلمی نسخہ شہیر شیراز کے کتابخانۂ شاہ چراغ میں موجود ہے۔ [25]

حوالہ جات

  1. دایرة المعارف شیعه، ج 7، ص 527۔
  2. طوسی، مصباح المتهجد، ج1، ص 420 ـ 417۔
  3. ابن طاؤس، جمال الاسبوع، ص 538 ـ 533۔
  4. کفعمی، بلدالامین، ص 91 ـ 90۔
  5. کفعمی، مصباح، ص 426 ـ 424۔
  6. مجلسی، بحارالانوار، ج 87، ص 100ـ 96۔
  7. مجلسی، زاد المعاد، ص488۔
  8. مجلسی، بحار الانوار، ج 90، ص 96۔
  9. سید ابن طاؤس، جمال الأسبوع، ص 321۔
  10. قمی، مفاتیح الجنان، ص 135ـ 128۔
  11. خوئی، منية السائل، ص 224۔
  12. مجلسی، بحارالأنوار، ج 87، ص 101ـ 102۔
  13. طوسی، مصباح المتهجّد، ص416۔
  14. صدر سید جوادی، دائرة المعارف تشیع، ج7، ص 527۔
  15. مجلسی، بحارالانوار، ج87، ص100ـ 96۔
  16. آقابزرگ طهرانی، الذریعة، ج8، ص190۔
  17. آقا بزرگ طهرانی، وہی ماخذ، ج7، ص227 اور ج13، ص251۔
  18. فهرست نسخه هاى خطى كتابخانه آية اللّه مرعشى، ج6، ص376۔
  19. الذريعة إلى تصانيف الشيعة، ج11، ص 255 اور ج13، ص249۔
  20. آقا بزرگ طهرانی، وہی ماخذ، ج13، ص409 اور ج15، ص50۔
  21. الذريعۃ إلى تصانيف الشيعۃ، ج13، ص250۔
  22. وہی ماخذ، ج18، ص25۔
  23. الذريعة إلى تصانيف الشيعة، ج18، ص346 و فهرست نسخ خطّى كتاب خانه مسجد اعظم، ص 340۔
  24. – شرح مزجی؛ جس میں متن کی تفسیر و وضاحت کچھ اس طرح سے ہو کہ ـ خاص علائم کے بغیر ـ اس کو متن کے الفاظ اور جملوں سے الگ کرنا ممکن نہ ہو، اس کو “مزجی شرح” کہا جاتا ہے۔ شرح مزجی واژه یاب دهخدا۔
  25. حوزه نیٹ۔

مآخذ

  • آقا بزرگ طهرانی، الذريعة إلی تصانیف الشيعة.
  • فهرست نسخ خطّى كتاب خانه دانشكده الهيّات تهران.
  • فهرست نسخ خطّى كتاب خانه آيۃ اللّه مرعشى. قم.
  • فهرست نسخ خطّى كتاب خانه مسجد اعظم قم.
  • کفعمی، ابراهیم بن علی عاملی، البلد الامین و الدرع الحصین، بیروت، موسسه الاعلمی للمطبوعات، 1418ھ ق
  • کفعمی، ابراهیم بن علی عاملی، المصباح فی الادعیه و الصلوات و الزایارات، قم، دارالراضی، 1405ع‍
  • ابن طاؤس، علی بن طاؤس، جمال الاسبوع بکمال المشروع، بیروت، دارالرضی، 1330ع‍
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، موسسه فقه شیعه، بیروت، 1411ھ ق
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، دار احیاء تراث عربی، بیروت، 1403ھ ق
  • مجلسی، محمدباقر، زادالمعاد، بیروت، چاپ علاءالدین اعلمی، 1423ھ‍ ق
  • صدر سید جوادی، احمد، دائرة المعارف تشیع، تهران، نشر شهید سعید محبی، 1380ھ ش
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان، تهران، مرکز نشر فرهنگی رجاء، 1369ھ ش

بیرونی روابط

تبصرے
Loading...