دعائے جوشن کبیر

جوشن کبیر، پیغمبر اکرم(ص) سے اللہ کی 1001 صفات پر مشتمل 100 فقروں میں نقل ہوئی ہے۔ جبرائیل نے پیغمبر خدا(ص) نے اس دعا کی تعلیم دی ہے۔ آج یہ دعا لیالیِ قدر کے مراسمات میں ایران اور عراق سمیت دنیا بھر میں شیعیان اہل بیت(ع) کے درمیان مرسوم ہے۔ بعض لوگ ایک حدیث کی رو سے دعائے جوشن کبیر کو کفن پر لکھواتے ہیں۔[1]

نزولِ دعا کی کیفیت

جوشن کبیر کا فقرہ نمبر 28
یا عِمَادَ مَنْ لا عِمَادَ لَهُ یا سَنَدَ مَنْ لا سَنَدَ لَهُ یا ذُخْرَ مَنْ لا ذُخْرَ لَهُ یا حِرْزَ مَنْ لا حِرْزَ لَهُ یا غِیاثَ مَنْ لا غِیاثَ لَهُ یا فَخْرَ مَنْ لا فَخْرَ لَهُ یا عِزَّ مَنْ لا عِزَّ لَهُ یا مُعِینَ مَنْ لا مُعِینَ لَهُ یا أَنِیسَ مَنْ لا أَنِیسَ لَهُ یا أَمَانَ مَنْ لا أَمَانَ لَهُ ؛
ترجمہ: اے پشت پناہ اس کی جس کی کوئی پشت پناہ نہیں؛ اے سہارا اس کا جس کا کوئی سہارا نہیں؛ اے اثاثہ اس کا جس کا کوئی اثاثہ؛ اے پناہ اس کی جس کی کوئی پناہ نہیں؛ اے فریاد رس اس کا جس کا کوئی فریاد رس نہیں؛ اے فخر اس کا جس کا کوئی فخر نہیں ہے؛ اے عزت اس کی جس کی کوئی عزت نہیں؛ اے مددگار اس کا جس کا کوئی مددگار نہیں؛ اے ساتھی اس کا جس کا کوئی ساتھی نہیں؛ اے مددگار اس کا جس کا کوئی مددگار نہیں؛ اے ہم نشین جس کا کوئی ہم نشین نہیں؛ اے امان و پناہ جس کی کوئی امان و پناہ نہیں ہے۔

امام سجاد(ع) اپنے والد ماجد امام حسین(ع) کے سے اور آپ(ع) اپنے والد ماجد امام علی (ع) سے اور آپ(ع) پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ ایک جنگ کے دوران، جبکہ رسول خدا(ص) بھاری زرہ پہنے ہوئے تھے، اور زرہ آپ(ع) کے جسم شریف کو اذیت پہنچا رہی تھی، جبرائیل اترے اور آپ(ص) کو خداوند متعال کا سلام پہنچاکر عرض کیا: “اس زرہ کو اپنے بدن سے اتار دیں اور اس کے بجائے یہ دعا پڑھ لیں جو آپ کے لئے اور آپ کی امت کے لئے امان ہے“۔[2] اس دعا کو اسی بنا پر “جوشن کبیر” (بڑی زرہ) کا نام دیا گیا ہے۔

کفعمی نے جوشن کبیر کو المصباح اور[3] البلد الامین[4] میں نقل کیا ہے۔

مندرجاتِ دعا

جوشن کبیر کا فقرہ نمبر 52
ياسُرُورَ الْعارِفينَ، يامُنَى الْمُحِبّينَ، يا اَنيسَ الْمُريدينَ، يا حَبيبَ التَّوَّابينَ، يا رازِقَ الْمُقِلّينَ، يا رَجآءَ الْمُذْنِبينَ، يا قُرَّةَ عَيْنِ الْعابِدينَ، يا مُنَفِّسَ عَنِ الْمَكْرُوبينَ، يا مُفَرِّجَ عَنِ الْمَغْمُومينَ، يا اِلهَ الْأَوَّلينَ وَالْأخِرينَ؛
ترجمہ: اے عارفین کی شادمانی، اے محبین کی آرزو، اے مریدوں کے ہمدم، اے توبہ گاروں کے محبوب، اے ناداروں کے رازق، اے گناہگاروں کی امید، اے عبادت گزاروں کی آنکھوں کی روشنی، اے غمزدگان کا غم مٹانے والے، اے گذرنے والوں اور آنے والوں کے معبود۔

جوشن کبیر کا فقرہ نمبر 99
يا مَنْ لا يَشْغَلُهُ سَمْعٌ عَنْ سَمْعٍ، يا مَنْ لا يَمْنَعُهُ فِعْلٌ عَنْ فِعْلٍ، يا مَنْ لا يُلْهيهِ قَوْلٌ عَنْ قَوْلٍ، يا مَنْ لا يُغَلِّطُهُ سُؤالٌ عَنْ سُؤالٍ، يا مَنْ لا يَحْجُبُهُ شَىْ ءٌ عَنْ شَىْ ءٍ، يا مَنْ لا يُبْرِمُهُ اِلْحاحُ الْمُلِحّينَ، يا مَنْ هُوَ غايَةُ مُرادِ الْمُريدينَ، يا مَنْ هُوَ مُنْتَهى هِمَمِ الْعارِفينَ، يا مَنْ هُوَ مُنْتَهى طَلَبِ الطَّالِبينَ، يا مَنْ لا يَخْفى عَلَيْهِ ذَرَّةٌ فِى الْعالَمينَ؛
ترجمہ: اے وہ جسے ایک استماع دوسرے استماع سے باز نہیں رکھتی، اے وہ جس کے ایک فعل میں دوسرا فعل رکاوٹ نہیں بنتا، اے وہ ایک کلام اس کو دوسے کلام سے غافل نہیں کرتا، اے وہ جسے ایک درخواست دوسری درخواست کی نسبت اشتباہ میں نہیں ڈالتی، اے وہ جس کے لئے ایک چیز دوسری چیز کے سامنے حائل نہیں ہوتی، اے وہ جسے اصرار کرنے والوں کا اصرار تھکا نہیں دیتا، اے وہ جو تلاش کرنے والوں کی منتہائے آرزو ہے؛ اے وہ جو عارفوں کی ہمت کی نقطۂ انتہا ہے، اے وہ طلب کرنے والوں کی طلب کہ نقطۂ آخر ہے، اے وہ جو پوری کائنات میں ایک ذرہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں۔

یہ دعا 100 فقروں پر اور ہر فقرہ خدا کے 10 اسماء پر مشتمل ہے سوائے فقرہ نمبر 55 کے جس میں 11 نام مندرج ہیں؛ چنانچہ، یہ دعا خداوند متعال کے 1001 اسماء الہیہ پر مشتمل ہے۔[5] دعا کے ہر فقرے کے آخر میں ذیل کی دعا پڑھی جاتی ہے:

سُبْحَانَك‏ يا لَا إِلَهَ‏ إِلَّا أَنْتَ‏ الْغَوْثَ‏ الْغَوْثَ‏ خَلِّصْنَا مِنَ‏ النَّارِ یا رَبِّ” کتاب بلد الامین ميں مروی ہے کہ ہر فقرے کا آغاز “بِسمِ اللهِ ۔۔۔” سے ہونا چاہئے اور ہر فقرے کے آخر میں یہ دعا پڑھی جائے: “سُبْحَانَك‏ يا لَا إِلَهَ‏ إِلَّا أَنْتَ‏ الْغَوْثَ‏ الْغَوْثَ‏ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَخَلِّصْنَا مِنَ النَّارِ یا رَبِّ یا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكرَامِ یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ“۔

علامہ مجلسی کی کتاب زاد المعاد میں اس دعا کے ہر فقرے کے خواص بیان ہوئے ہیں؛ مثلا تیسرے فقرے کے خواص بتاتے ہوئے کہا گیا ہے: “لِطَلَبِ النُّصْرَةِ وَسَعَةِ الرِّزْق‏“؛[6] چوبیسویں فقرے کے لئے کہا گیا ہے: لِتَنوِيرِ القُلُوبِ وَإُقالَةِ العَثَراتِ[7] اور سینتالیسویں فقرے کے لئے بیان ہوا ہے:”لِنُورَانِیةِ الْقَلْبِ وَالْعَین‏۔[8]

اس دعا میں اللہ کے اسمائے حسنی اور دوسری عبارات قرآن سے ماخوذ ہیں اور انہیں اس انداز سے مرتب کیا گیا ہے کہ مسجع اور موزون ہونے کے علاوہ، بیشتر فقروں میں اسماء اور صفات، آخری حروف کے لحاظ سے ہم شکل اور مشابہ ہیں۔[9]

بعض مکررہ صفات

خداوند متعال کی چھ صفات اس دعا میں دہرائی گئی ہیں:

  • یا من لم یتخذ صاحبةً ولا ولداً” فقرہ نمبر 62 و 84؛
  • یا نافع” فقرہ نمبر 9 و 32؛
  • یا من هو بمن رجاه کریم” فقرہ نمبر 18 و 96؛
  • یا من هو بمن عصاه حلیم” فقرہ نمبر 18 و 96؛
  • یا من فضله عمیم” فقرہ نمبر 48 و 98؛
  • یا انیس من لا انیس له” فقرہ نمبر 28 و 59۔

ممکن ہے کہ صفات خطاؤں اور تحریف و تصحیف کے نتیجے میں دہرائی گئی ہوں اور یہ خطا ابتدائی نسخہ نگاروں کے ہاتھوں انجام پائی ہے اور بعد کے نسخوں میں اس کو دہرایا گیا ہے۔

جوشن کبیر کی فضیلت

ایک روایت کے مطابق، جو بھی گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھے خداوند متعال اس کو محفوظ رکھتا ہے اور اس کو بہت زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور جو بھی اس کو اپنے کفن پر لکھ دے وہ قبر کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے اور جو اس کو رمضان المبارک کے آغاز میں پڑھے خدا اس کو شب قدر کی فضیلت کا ادراک عطا فرماتا ہے اور جو اس کو ایک مہینے کے دوران تین مرتبہ پڑھے اپنی پوری زندگی میں اللہ کی حفاظت و امان میں رہے گا۔[10]

کتاب شرح الأسماء، أو، شرح دعاء الجوشن الکبیر؛ تألیف ملا ہادی سبزواری

جوشن کبیر ان دعاؤں میں سے ہے اور شیعیان اہل بیت(ع) قدر کی راتوں کے دوران انفرادی اور اجتماعی صورتوں میں اس کی قرائت کا اہتمام کرتے ہیں۔

شرحیں

شیعہ علماء نے دعائے جوشن کبیر پر شرحیں لکھی ہیں،[11] جن میں مشہورترین شرح ملا ہادی سبزواری کی ہے۔ اس شرح میں عرفانی اور فلسفی رنگ عنصر نمایاں ہے۔ یہ شرح دعا کے فقروں کی ترتیب کی بنیاد پر مرتب ہوئی ہے اور فارسی اور عربی اشعار سے بھی استشہاد کیا گیا ہے۔ شارح نے لغوی مباحث میں فیروزآبادی کی کتاب قاموس اللغہ سے بہت رجوع کیا ہے۔ انھوں نے بحث کے تقاضوں کے پیش نظر فلسفی، عرفانی اور کلامی مباحث بھی پیش کئے ہیں۔[12]

حوالہ جات

  1. مجلسی، بحارالانوار، ج91، ص382: امام حسین(ع) نے فرمایا: والد ماجد علی بن ابی طالب(ع) نے مجھے وصیت فرمائی کہ دعائے جوشن کبیر کو حفظ کرو، اور آپ(ع) کے کفن پر مکتوب کروں اور اپنے اہل خانہ کو سکھا دوں اور انہیں اس کے پڑھنے کی رغبت دلاؤں۔
  2. رجوع کریں: کفعمی، المصباح، ص246، حاشیہ؛ نیز شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان۔
  3. کفعمی، المصباح، ص247ـ260.
  4. البلد الامین، ص544 ـ 558.
  5. رجوع کریں: کفعمی، المصباح، ص247ـ 260۔
  6. ترجمہ: فتح و نصرت اور وسعت رزق کے لئے؛ مجلسی، زاد المعاد، ص430۔
  7. ترجمہ: قلوب کو نورانی کرنے اور لغزشوں کی بخشش کے لئے؛ وہی ماخذ، ص432۔
  8. ترجمہ: قلب اور آنکھوں کی روشنی کے لئے؛ وہی ماخذ، ص435۔
  9. کفعمی، المصباح، ص247ـ 260۔
  10. کفعمی، المصباح، ص246ـ 247، حاشیه۔
  11. رجوع کریں: آقابزرگ طهرانی، ج2، ص66- 67، ج5، ص287، ج13، ص247ـ248۔
  12. سبزواری، شرح الاسماء، ص33۔

مآخذ

  • طهرانی، آقابزرگ، الذریعة إلی تصانیف الشیعة.
  • سید ابن طاؤس، رضی الدین ابی القاسم علی بن موسی بن جعفر بن محمد الحسنی الحسینی، مهج الدعوات ومنهج العبادات، بیروت، 1399ق.
  • سبزواری، هادی بن مهدی، شرح الاسماء (شرح دعاءالجوشن الکبیر)، تهران، چاپ نجفقلی حبیبی، 1375 ش.
  • کفعمی، ابراهیم بن علی، البلدالامین و الدّرع الحصین، بیروت، چاپ علاءالدین اعلمی، 1418ق.
  • کفعمی، ابراهیم بن علی، المصباح، چاپ سنگی [تهران]، 1321، چاپ افست قم، 1405.
  • المجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، زاد المعاد- مفتاح الجنان، مترجم و شارح: علاء الدین الأعلمی، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، بیروت . لبنان 1423ھ‍/2003ع‍

بیرونی روابط

تبصرے
Loading...