خمسی سال

خمسی سال، خمس حساب کرنے کے لیے معین کیا ہوا سال ہے کہ جس کا آغاز پہلی آمدنی ملتے ہی شروع ہوتا ہے۔

نامگذاری

شیعہ فقہ کے مطابق پہلی آمدنی کے ملنے کے ایک سال بعد اس آمدنی سے بچت سے پانچواں حصہ کو خمس کے طور پر دینا واجب ہے۔[1]اس ایک سال کی مدت کو خمسی سال کہا جاتا ہے۔ خمسی سال یا السنۃ الخمسیۃ، قدیمی فقہی منابع اور اسی طرح جواہر الکلام، عروۃ الوثقی اور تحریر الوسیلہ جیسی کتابوں میں نہیں ملتی ہے۔ اور یہ اصطلاح چودھویں صدی شمسی کے دوسرے حصے میں شیعہ فقہی کتابیں خاص کر توضیح المسائل اور استفتائات میں آئی ہے۔[2]

بعض اہم احکام

خمسی سال کا آغاز

شیعہ فقہا کی نظر میں خمسی سال کا آغاز مکلفین کی نسبت اور ان کی درآمد کے تحت مختلف ہے۔ جن لوگوں کی روزانہ آمدنی ہوتی ہے جیسے دکاندار اور تاجر، تو ان کا خمسی سال کا آغاز کام شروع کرنے کے دن سے ہوتا ہے۔ اور جن کی ماہانہ آمدنی ہوتی ہے تو پہلی تنخواہ لینا ہی خمسی سال کا آغاز شمار ہوتا ہے اور کسانوں کا خمسی سال پیداوار کو پہلی بار حاصل کرنے سے آغاز ہوتا ہے۔[3] اور بعد کے سالوں میں وہی دن خمس حساب کرنے کے لیے معین ہوتا ہے۔

قمری یا عیسوی سال

  • اکثر شیعہ فقہا خمس حساب کرنے کے لئے قمری یا عیسوی سال میں فرق کے قائل نہیں ہیں۔ اور دونوں میں سے جس کے تحت بھی خمس دیں جائز سمجھتے ہیں؛[4]البتہ بعض نے احتیاط واجب کی بنا پر قمری سال کو مبنا قرار دیا ہے۔[5]

دیگر احکام

  • خمسی سال، خمس واجب ہونے کے موارد میں سے سال کی آمدنی سے جو بچ جاتا ہے اس سے مربوط ہے۔ لیکن دوسرے موارد جیسے مال غنیمت اور معدن وغیرہ میں لحاظ نہیں کیا جاتا ہے۔
  • خمسی سال کی انتہا پر مکلف کو چاہیے کہ اپنی بچث ( نقد ہو یا غیر نقد و خوراکی چیزیں) کا پانچواں حصہ ادا کرے۔[6]
  • اکثر شیعہ فقہا نے خمسی سال تبدیل کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔[7]البتہ بعض نے سال کو آگے پیچھے کرنے کو حاکم شرعی کی اجازت پر موقوف ہے۔[8]اور بعض نے جس پر خمس واجب ہوا ہے اس کے متضرر نہ ہونے پر مشروط کیا ہے۔[9]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. شیخ انصاری، کتاب الخمس، ۱۴۱۵ق، ص۷۱.
  2. مراجعہ کریں: امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۶۳۰؛ فاضل لنکرانی، تفصیل الشریعہ، ۱۴۲۳ق، ص۱۳۹؛ خامنہ ای، اجوبۃ الاستفتائات، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۱۶۳.
  3. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۱۸.
  4. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۱۸.
  5. وحید خراسانی، توضیح المسائل، ۱۴۲۶ق، احکام خمس، مسألہ۱۷۸۳، ص۵۲۰.
  6. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۸.
  7. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۱۸.
  8. امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۶۳۰؛ مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۱۱۰.(آیت اللہ مکارم، خمسی سال کو تاخیر میں ڈالنے کے لیے حاکم شرع کی اجازت لازم قرار دیتے ہیں۔
  9. خامنہ‌ای، اجوبۃ الاستفتائات، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۱۶۴-۱۶۳.

مآخذ

  • امام خمینی، توضیح المسائل، تصحیح: مسلم قلی‌پور گیلانی، ۱۴۲۶ق.
  • بنی‌ہاشمی خمینی، سید محمدحسن، توضیح المسائل مراجع؛ مطابق با فتوای شانزدہ نفر از مراجع معظم تقلید، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۳۹۲ش.
  • خامنہ‌ای، سیدعلی، اجوبۃ الاستفتاءات، بیروت، الدارالاسلامیہ، ۱۴۲۰ق.
  • شیخ انصاری، مرتضی، قم، کنگرہ بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، ۱۴۱۵ق.
  • لنکرانی، محمدفاضل، تفصیل الشریعہ فی شرح تحریر الوسیلہ، تحقیق: حسین واثقی و دیگران، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار، ۱۴۲۳ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتاءات جدید، تحقیق: ابوالقاسم علیان‌نژادی، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب علیہ‌السلام، ۱۴۲۷ق.
  • وحید خراسانی، حسین، توضیح المسائل، قم، مدرسہ الامام باقرالعلوم، ۱۴۲۶ق/۱۳۸۴ش.
تبصرے
Loading...