خاتم‌ بخشی

خاتَم‌ بَخشی یا انگوٹھی کا صدقہ، اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جس میں امام علیؑ نے نماز میں رکوع کی حالت میں کسی سائل کو اپنی انگوٹھی کا صدقہ دیا تھا۔ اس واقعے کا تذکرہ جہاں شیعہ اور سنی حدیثی مصادر میں موجود ہے وہاں مفسرین کے مطابق آیت ولایت کا شأن نزول بھی یہی واقعہ ہے۔ اس واقعے کو حضرت علی ؑ کے فضائل میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ بعض شیعہ فقہا اسی واقعے سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: نماز کی حالت میں بعض جزئی حرکات نماز کے بطلان کا سبب نہیں بنتے ہیں۔ اس حوالے سے بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نماز کی حالت میں غیر الله کی طرف متوجہ ہونا اور سائل کی آواز سننا حضرت علیؑ کی نماز میں عرفانی حالت کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ جس کے جواب میں علما فرماتے ہیں کہ جس طرح حضرت علیؑ کی نماز خدا کیلئے تھی اسی طرح ان کا یہ انفاق بھی خدا کی خوشنودی کیلئے تھا لہذا ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے۔

تفصیل واقعہ

احادیث کے مطابق ایک دن کوئی سائل مسجد نبوی میں داخل ہوا اوراس نے وہاں موجود لوگوں سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے اسے کچھ نہیں دیا۔ اس موقعے پر سائل نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کر کے خدا سے شکایت کی: خدایا! تو گواہ رہنا ! میں نے تیرے نبی کی مسجد میں مدد کی درخواست کی پر کسی نے مجھے کچھ نہیں دیا۔ عین اسی وقت حضرت علیؑ نے نماز میں رکوع کی حالت میں اپنی چھوٹی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ سائل آپ کے پاس گیا اور آپ کی انگلی سے انگوٹھی اتار لی۔[1] اس واقعے کی تاریخ کو سنہ 9 ہجری قمری یا سنہ 10 ہجری قمری ذکر کیا گیا ہے[حوالہ درکار]

محمد حسین شہریار نے ایک شعر میں اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے:

برو اے! گداے مسکین در خانه علی زن که نگین پادشاهی دهد از کرم گدا را [2]
اے فقیر! جاؤ علی کا دروازہ کھٹکھٹاؤ کیونکہ علیؑ اپنے کرم سے شاہی انگوٹھی سائل کو دے دیتا ہے

آیت ولایت کا نزول

مفسرین حضرت علیؑ کی طرف سے انگوٹھی کا صدقہ دینے کے واقعے کو آیت ولایت کا شأن نزول قرار دیتے ہیں۔[3] قاضی ایجی کہتے ہیں کہ مفسّرین اس آیت کے حضرت علیؑ کی شأن میں نازل ہونے پر اتفاق نظر رکھتے ہیں؛[4] البتہ اہل سنت کی بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ یہ آیت بعض دوسرے افراد کی شأن میں نازل ہوئی ہے۔[5]

بہت سارے اصحاب مانند ابن عباس،[6] عمار،[7] ابوذر،[8] انس بن مالک،[9] ابورافع مدنی[10] اور مقداد[11] وغیرہ کے مطابق آیت ولایت حضرت علیؑ کی طرف سے انگوٹھی کا صدقہ دینے کے بعد آپ کی شأن میں نازل ہوئی ہے۔
اس واقعہ کا تذکرہ شیعہ اور سنی حدیثی اور تاریخی مصادرکے ساتھ ساتھ فریقین کی بہت ساری تفاسیر میں بھی ہوا ہے۔[12]

انگوٹھی کی خصوصیات

امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق حضرت علیؑ نے جو انگوٹھی سائل کو بطور صدقہ دی اس کے حلقے کا وزن چار(4) مثقال، نگینے کا وزن پانچ (5) مثقال اور یہ نگینہ سرخ یاقوت کا تھا،۔اس کی قیمت 300 اونٹ چاندی اور 4 اونٹ سونے کے برابر تھی۔ یہ انگوٹھی مروان بن طوق کی تھی جو جنگ میں حضرت علیؑ کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ حضرت علیؑ نے اس کی انگوٹھی جنگی غنیمت کے طور پر پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں پیش کی تو پیغمبر اکرم نے اسے آپ کو بطور ہدیہ عنایت فرمایا تھا۔[13]

فقہ میں استناد

بعض شیعہ فقہا جزئی حرکات و سکنات کی وجہ سے نماز کے باطل نہ ہونے کو ثابت کرنے کیلئے حضرت علیؑ کی طرف سے نماز میں رکوع کی حالت میں انگوٹھی کا صدقہ دینے کے اس واقعے سے استناد کرتے ہیں۔[14] اسی طرح بعض فقہا نیت کے قلبی عمل ہونے اور اسکے زبان پر جاری کرنے کے ضروری نہ ہونے کیلئے اس واقعے سے استناد کرتے ہیں۔[15] اس طرح چونکہ مذکورہ آیت میں انگوٹھی کا صدقہ دینے کو زکات سے تعبیر کیا گیا ہے اس لئے اس واقعے سے یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ زکات مستحب صدقات کو بھی شامل ہوتی ہے۔[16]

اس حوالے سے بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نماز کی حالت میں غیر الله کی طرف متوجہ ہونا اور سائل کی آواز سننا حضرت علیؑ کی نماز میں عرفانی حالت کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ اس کے جواب میں علما فرماتے ہیں کہ جس طرح حضرت علیؑ کی نماز خدا کیلئے تھی اسی طرح ان کا یہ انفاق بھی خدا کی خوشنودی کیلئے تھا تو ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے پیغمبر اکرمؐ نے نماز کی حالت میں کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو جلدی ختم کیا تھا۔[17] علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ نماز کی حالت میں کسی اور عبادت کی طرف متوجہ ہونا نماز میں حضور قلب کے منافی نہیں ہے۔[18]

حوالہ جات

  1. حاکم حسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۰۹-۲۳۹۔
  2. گنجور؛ غزلیات، غزل شمارہ۲۔
  3. حاکم حسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۰۹-۲۳۹۔
  4. ایجی، شرح المواقف، عالم الکتب، ص۴۰۵۔
  5. طبری، جامع البیان، ۱۴۰۸ق، ج۱۰، ص۴۲۵۔
  6. حاکم حسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۳۲۔
  7. سیوطی، الدرالمنثور، ۱۴۰۳ق، ج۳، ص۱۰۶۔
  8. ابن تیمیہ، تفسیر الکبیر، ۱۴۰۸ق، ج۱۲، ص۲۶۔
  9. حاکم حسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۲۵۔
  10. طبرانی، المعجم الکبیر، بی‌تا، ج۱، ص۳۲۰-۳۲۱، ح۹۵۵۹۔
  11. حاکم حسکانی، شواہدالتنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۲۸۔
  12. سیوطی، الدرالمنثور، ۱۴۰۳ق، ج۳، ص۱۰۵؛ ابن ابی‌حاتم، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۱۱۶۲؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۰۸ق، ج۴، ج۶، ص۳۹۰۔
  13. بحرانی، البرہان، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۲۶-۳۲۷؛ نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۷، ص۲۵۹-۲۶۰۔
  14. فاضل مقداد، کنزالعرفان، ۱۴۲۵ق، ج۱، ص۱۵۸؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، ج۱، ص۲۴۴۔
  15. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۱۰ق، ج۸۱، ص۲۸۱؛ استرآبادی، آیات الاحکام، ۱۳۹۴ق، ص۲۴۴۔
  16. فاضل مقداد، کنزالعرفان، ۱۴۲۵ق، ج۱، ص۱۵۸۔
  17. طبسی، نشان ولایت و جریان خاتم‌بخشی، ۱۳۷۹ش، ص۴۹۔
  18. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۱۰ق، ج۸۱، ص۲۸۱۔

مآخذ

  • ابن ابی‌حاتم، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم مسندا عن رسول اللہ والصحابۃ والتابعین، تحقیق اسعد محمد الطیب، بیروت، المکتبۃ العصریۃ، ۱۴۱۹ق۔
  • ابن تیمیہ، احمد، تفسیر الکبیر، تحقیق: عبدالرحمن عمیرہ، بیروت،‌ دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۰۸ق۔
  • استرآبادی، محمد بن علی، آیات الاحکام فی تفسیر کلام الملک العلام،تصحیح: محمدباقر شریف‌زادہ گلپایگانی، تہران، کتابفروشی معراجی، ۱۳۹۴ق۔
  • ایجی، عبدالرحمن، المواقف فی علم الکلام، بیروت، عالم الکتب، بی‌تا۔
  • بحرانی، سید ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، تصحیح: قسم الدراسات الاسلامیۃ، مؤسسۃ البعثۃ، قم، مؤسسۃ بعثۃ، ۱۳۷۴ش۔
  • حاکم حسکانی، عبیداللہ، شواہدالتنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، چاپ دوم، قم، مجمع احیاءالثقافۃ الاسلامیۃ، ۱۴۱۱ق۔
  • حلی(فاضل مقداد)، مقداد بن عبداللہ، کنزالعرفان فی فقہ القرآن، قم، انتشارات مرتضوی، ۱۴۲۵ق۔
  • سیوطی، جلال الدین، الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور، بیروت،‌ دارالفکر، ۱۴۰۳ق۔
  • طبرانی، سلیمان احمد، المعجم الکبیر، تحقیق: حمدی عبدالمجید السلفی، چاپ دوم، بیروت،‌ داراحیاء التراث، بی‌تا۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تاویل القرآن، بیروت،‌ دارالفکر، ۱۴۰۸ق۔
  • طبسی، محمدجواد، نشان ولایت و جریان خاتم‌بخشی، فرہنگ کوثر، ش۴۸، اسفند ۱۳۷۹ش۔
  • فاضل کاظمی، جواد بن سعد اسدی، مسالک الافہام الی آیات الاحکام، بی‌جا، بی‌تا۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسۃ الطبع و النشر، ۱۴۱۰ق۔
  • نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم‌السلام، ۱۴۰۸ق۔
تبصرے
Loading...