حسن مثنی

حسن‌ بن‌ حسن‌ بن‌ علی بن ابی‌ طالب، حسن مثنی کے نام سے معروف، حضرت امام حسنؑ کے بیٹے ہیں۔ جن کی شادی حضرت امام حسینؑ کی بیٹی فاطمہ سے ہوئی۔ آپ 85 ہجری قمری میں زندہ تھے۔ آپ علویوں کے بزرگ سمجھے جاتے تھے۔ حسن مثنی کربلا کے میدان میں زخمی ہوئے اور اپنے ماموں اسماء بن خارجہ فزاری کے توسط سے اس معرکے سے نجات حاصل کر سکے۔ کوفہ میں اپنے ماموں کے زیر نگرانی صحت یاب ہوئے۔ اس کے بعد کوفہ سے مدینہ واپس آگئے۔

حجاج بن یوسف کے خلاف عبد الرحمان بن محمد بن اشعث کی شورش میں آپ نے عبد الرحمان کا ساتھ دیا۔ حسن مثنی اپنے زمانِ حیات میں حضرت علی ؑ کے موقوفات کے متولی تھے۔ حسن مثنی کے امامت کا دعوی کرنے کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ زیدیہ مکتب کے بعض مآخذ اور ملل و نحل کے علما نے انہیں زیدیوں کا امام قرار دیا ہے۔

نام و نسب

آپ کے والد کا نام حضرت امام حسنؑ تھا جو شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام “خَوْلَہ بنت منظور بن زَبّان فَزاری” تھا۔[1] سنہ 36 ق میں محمد بن طلحہ بن عبید اللہ کی جنگ جمل میں قتل ہونے کے بعد حضرت امام حسنؑ کے عقد میں آئیں۔[2] حسن مثنی کی کنیت “ابو محمد” تھی[3]۔

ازدواج

حضرت امام حسینؑ کی بیٹی فاطمہ آپ کی زوجہ تھیں۔ امام حسین نے واقعہ کربلا سے پہلے اپنی بیٹی کا عقد حسن مثنی سے کیا۔[4] جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

حسن مثنی نے حضرت امام حسین ؑ سے انکی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کا رشتہ مانگا۔[5] امام نے فرمایا: میری بیٹیوں فاطمہ اور سکینہ میں سے جسے چاہو انتخاب کر سکتے ہو۔ حسن مثنی نے شرم کی وجہ سے کچھ نہ کہا۔ لیکن امام نے فاطمہ کا عقد حسن مثنی سے کر دیا۔[6] ابن فندق کے بقول یہ شادی حضرت امام حسینؑ کی شہادت کے سال انجام پائی۔[7] حضرت امام حسینؑ کی شہادت 61 ہجری قمری کی 10 محرم کو ہوئی۔ اس لحاظ سے زیادہ احتمال یہی ہے کہ عاشورا سے کچھ مدت پہلے 60 ہجری میں ہی مکہ میں انجام پائی۔ پس اس بنا پر حسن مثنی اپنی زوجہ فاطمہ بنت الحسین کے ہمراہ کربلا میں موجود تھے۔[8]

اولاد

حضرت فاطمہ سے انکی اولاد عبد اللہ محض، ابراہیم عمر، حسن مثلث تھے۔ ان تینوں فرزندوں کی وفات عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے زندان میں ہوئی۔[9]
پھر ان کے بعد عبد اللہ بن حسن ایک عالم اور ادیب شخص تھے جنہوں نے عباسیوں کے خلاف تحریکوں کی قیادت کی۔[10] نفس زکیہ کے نام سے مشہور ہونے والے محمد اور قتیل باخَمْرا کے نام سے مشہور ابراہیم بھی ان کی نسل میں سے ہیں۔

واقعۂ عاشورا

حسن مثنی واقعۂ کربلا میں موجود تھے ابو مخنف کی احمد بن ابراہیم حسنی سے منقول روایت کے مطابق اس وقت آپ کی عمر 19 یا 20 سال تھی۔[11] روز عاشورا آپ نے بڑی بہادری کے ساتھ حضرت امام حسینؑ کی معیت میں جنگ کی اور زخمی ہو کر اسیر ہوئے۔ لیکن اپنے ماموں اسماء بن خارجہ فزاری کے توسط سے نجات پائی اور کوفہ میں ان کی زیر نگرانی آپ کا علاج ہوا۔ صحت یاب ہونے کے بعد مدینہ واپس آگئے۔[12]

نقلِ حدیث

حسن مثنی اپنے والد حضرت امام حسنؑ اور دوسرے افراد سے روایت نقل کرتے ہیں۔[13]

متولی موقوفات امام علی

حضرت علی ؑ کی وصیت[14] کے مطابق حسن مثنی مدینے میں حضرت علی ؑ کے موقوفات کے شرعی متولی تھے۔ [15]

حجاج بن یوسف ثقفی جب مدینے کا حاکم تھا تو اس نے حسن مثنی سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے چچا عمر بن علی کو ان موقوفات کی تولیت میں شریک قرار دے لیکن چونکہ یہ تولیت حضرت فاطمہ زہراؑ کی اولاد سے مخصوص تھی اس لئے آپ نے انکار کیا اور شام میں عبد الملک بن مروان کے پاس گئے جہاں اموی خلیفہ نے بھی حجاج کو اس کام سے منع کیا۔[16]

حسن مثنی نے اپنے بعد ان موقوفاتِ کی تولیت اپنے فرزند عبد اللہ کے سپرد کی لیکن منصور عباسی نے عبد اللہ کو زندانی کر دیا اور ان موقوفات کی تولیت اپنے اختیار میں لے لی۔[17]

عبد الرحمان بن محمد کی معاونت

جب عبد الرحمان بن محمد بن اشعث کندی نے حجاج بن یوسف ثقفی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنے آپ کو خلیفہ نامزد کرنے کا ارادہ کیا تو چونکہ لوگ اس وقت خلافت صرف قرشی شخص کی نسبت قبول کرنے کو تیار تھے،اس نے اس کے متعلق علویوں کے بزرگوں حضرت امام سجادؑ اور حسن مثنی سے خط و کتابت کی۔ امام سجادؑ نے اس کے اس تقاضے کو رد کر دیا اور حسن مثنی نے بھی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے بیعت توڑنے کے احتمال کی بنا پر اسے رد کیا لیکن عبد الرحمان بن محمد کے مسلسل اسرار کی بنا پر اسے قبول کر لیا اور اس کے ساتھ بعنوان خلیفہ انکی بیعت ہوئی۔ عراق کے مشہور علما عبدالرحمان بن‌ابی لیلی، شعبی، محمدبن سیرین و حسن بصری نے ان کی بیعت کی [18]اور حسن مثنی الرضا کے نام سے ملقَب ہوئے ۔

لیکن شیخ مفید کے مطابق حسن مثنی نے ہرگز ادعائے امامت نہیں کیا اور نہ کسی نے اس کے نام سے ایسا ادعا نہیں کیا ہے ۔[19]

مکتب زیدیہ

زیدی مذہب میں حسن مثنی کو زیدیوں کے امام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔[20]

وفات

85 ہجری میں ابن اشعث کے قتل کے بعد حسن مثنی مخفی ہو گئے لیکن آخرکار ولید بن عبد الملک کے ساتھیوں نے انہیں مسموم کیا اور قتل کرنے کے بعد جنازے کو مدینہ بھیجا اور انہوں نے اسے بقیع میں دفنا دیا۔[21]

صحیح بخاری میں روایت منقول ہے جس کی بنا پر فاطمہ بنت الحسین نے ان کے مزار پر قبہ کی تعمیر کروائی۔[22]

حوالہ جات

  1. مصعب‌ بن عبداللّہ، نسب قریش، ص۴۶؛ ابن قتیبہ، المعارف، ص۱۱۲؛ طبری، ج۵، ص۴۶۹
  2. ابن‌عنبہ، عمدةالطالب، ص۹۸؛ قس ابن‌قتیبہ، المعارف، ص۱۱۲.
  3. ابن‌عنبہ، عمدةالطالب، ص۹۸
  4. رجوع کریں: مصعب‌ بن‌عبداللّه، نسب قریش، ص۵۱؛ حسنی، المصابیح، ص۳۷۹.
  5. المنتظم، ج۷، ص۱۸۳
  6. مفید، ارشاد، ص۳۶۶
  7. ابن فندق، لباب الانساب، ص۳۸۵
  8. قاضی، تحقیقی درباره اولین اربعین، ص۳۷۷
  9. ابن‌سعد، ج۵، ص۳۱۹؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۲، ص۴۰۳ـ۴۰۴؛ ابن‌عنبہ، عمدۃ الطالب فی انساب آل ابیطالب، ص۱۰۱.
  10. رجوع کریں: ابوالفرج اصفہانی، ج۲۱، ص۸۵ـ۹۳
  11. رجوع کریں:مقتل، ص۳۷۹؛ قس طبری، ج۵، ص۴۶۹.
  12. رجوع کنید به حسنی، المصابیح، ص۳۷۹؛ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج‌اللّه علی العباد، ج۲، ص۲۵؛ ابن‌طاووس، ص۶۳
  13. رجوع کریں: ابن‌عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۳، ص۶۱ـ۶۲.
  14. مصعب‌ بن عبداللّه، نسب قریش، ص۴۶؛ حسنی، ص۳۸۴
  15. مصعب‌ بن عبداللّه، نسب قریش، ص۴۶؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۲، ص۴۰۳؛ مفید، ج۲، ص۲۳.
  16. مصعب‌ بن عبداللّه، نسب قریش، ص۴۶ـ۴۷؛ بلاذری؛ حسنی، المصابیح، ص۳۸۴؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۳، ص۶۵؛ ابن‌عنبہ، عمدةالطالب فی انساب آل ابیطالب، ص۹۹.
  17. حسنی، المصابیح، ص۳۸۳؛ مُحَلِّی، الحدائق الوردیۃ فی مناقب ائمة الزیدیۃ، ج۲، ص۲۳۸
  18. حسنی، المصابیح، ص۳۸۰ـ۳۸۱
  19. مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج‌اللّه علی العباد، ج۲، ص۲۶
  20. حسنی، المصابیح، ص۳۷۹؛ محلی، الحدائق الوردیۃ فی مناقب ائمۃ الزیدیۃ، ج۲، ص۲۳۵.
  21. حسنی، المصابیح، ص۳۸۲؛ ابن‌عنبہ، عمدةالطالب فی انساب آل ابیطالب، ص۱۰۰.
  22. صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب۶۱؛ فتح الباری فی شرح صحیح بخاری، ج۳، ص۲۵۵، باب۶۱

مآخذ

  • ابن‌عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت، ۱۴۱۵ـ۱۴۲۱/ ۱۹۹۵ـ۲۰۰۱.
  • ابن‌عنبہ، عمدةالطالب فی انساب آل ابیطالب، چاپ محمدحسن آل طالقانی، نجف، ۱۳۸۰/۱۹۶۱.
  • ابن فندق، بیہقی علی بن زید،لباب الأنساب و الألقاب و الأعقاب، محقق رجایی، مہدی،کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی(ره)، قم.
  • ابن‌قتیبہ، المعارف، چاپ ثروت‌ عکاشہ، قاہره، ۱۹۶۰.
  • ابوالفرج‌اصفہانی. مقاتل الطالبین۔
  • احمدبن یحیی بلاذری، انساب‌الاشراف، چاپ محمود فردوس‌العظم، دمشق، ۱۹۹۶ـ۲۰۰۰.
  • احمد بن ابراہیم حسنی، المصابیح، چاپ عبداللّه حوثی، صنعا.
  • طبری، تاریخ، بیروت.
  • حُمید بن احمد مُحَلِّی، الحدائق الوردیہ فی مناقب ائمہ الزیدیہ، چاپ مرتضی بن زید محطوری حسنی، صنعا ۱۴۲۳/۲۰۰۲.
  • قاضی طباطبایی، محمدعلی، تحقیق درباره اول اربعین حضرت سید الشہدا علیه‌السلام، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی؛ سازمان چاپ وانتشارات، تہران، ۱۳۸۳.
  • مصعب بن عبداللّه، کتاب نسب قریش، چاپ لوی پرووانسال، قاہره، ۱۹۵۳.
  • محمدبن محمدمفید، الارشاد فی معرفۃ حجج‌اللّه علی العباد، قم، ۱۴۱۳.
  • مفید، ارشاد، ترجمہ محمدباقر محمودی، انتشارات اسلامیہ، ۱۳۸۰ش.
تبصرے
Loading...