حدیث

حدیث اسلامی علوم کی ایک اصطلاح ہے جس کا اطلاق رسول اللہؐ اور دیگر معصومینؑ کے فرامین یا ان کی روش، سیرت اور ان کے تائید کردہ اعمال پر ہوتا ہے۔

حدیث اور قرآن گزشتہ 15 صدیوں سے مسلمانوں کیلئے دین اور شریعت کی فہم و ادراک میں بنیادی کردار ادا کرتی آئی ہے۔

حدیث کی اہمیت کے پیش نظر احادیث کے مندرجات و مضامین اور ان کی سند کا جائزہ لینے کے لئے مختلف علوم معرض وجود میں آئے ہيں جنہیں مجموعی طور پر علوم حدیث کہا جاتا ہے اور اسی عنوان کے ذیل میں احادیث کی زمرہ بندی کی جاتی ہے۔ احادیث کی سند کا جائزہ روایت حدیث میں جبکہ مضامین و مندرجات (محتویات) کا جائزہ درایت حدیث میں لیا جاتا ہے۔ علم رجال اور مصطلح الحدیث کو روایت حدیث کے ذیلی موضوعات کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان علوم میں فہم حدیث اور احادیث کا اعتبار جانچنے کے لئے احادیث کی متعدد اقسام بیان ہوئی ہیں۔

مسلمانوں کی کتب حدیث میں سے 10 کتابوں کا کردار بنیادی اور مرکزی ہے۔ ان دس عناوین میں سے چار: کتب اربعہ کا تعلق شیعہ مذہب سے اور چھ عناوین صحاح ستہ کا تعلق اہل سنت سے ہے۔

مہم ترین کتب‌ روایی شیعہ، کافی کلینی، تہذیب الاحکام و الاستبصار فیما اختلف من الاخبار شیخ طوسی، و من لایحضره الفقیہ شیخ صدوق ہیں۔ ان کتب کے مجموعے کو کتب اربعہ کہتے ہیں۔

اہل سنت کی یہ ۶ کتب، صحیح بخاری و صحیح مسلم (جو صحیحین کے نام سے مشہور ہیں)، و سنن ابی داود، سنن ترمذی، سنن نسائی و سنن ابن ماجہ، ان کی معتبر ترین کتب‌ روایی‌ شمار ہوتی ہیں۔ ان کتب کے مجموعے کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔

کتب اربعہ

شیعیان اہل بیت (ع) کی مشہور ترین اور معتبر ترین درج ذیل کتب اربعہ کہلاتی ہیں:

ان چار کتابوں کو مجموعی طور پر کتب اربعہ یا اصول اربعہ کہا جاتا ہے۔[1]

صحاح ستہ

اہل سنت کے ہاں معتبر ترین اور مشہور ترین درج ذیل چھ کتب حدیث ہیں جنہیں مجموعی طور پر صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔

مجموعی طور پران چھ کتابوں کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔

حدیث اور روایت کے معنی

لفظ “حدیث” صفت مشبہہ ہے مادہ “ح د ث” سے، جس کے معنی “جدید، بات، داستان اور حکایت” کے ہیں۔

“حدیث” اور “روایت” میں لغوی لحاظ سے مکمل فرق اور اختلاف ہے لیکن علمی اصطلاح میں یہ دو الفاظ “مترادف” الفاظ کے عنوان سے استعمال ہوتے ہیں۔

بعض اوقات یہ دو الفاظ مختلف معانی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس صورت میں لفظ “حدیث” معصومین(ع) کا کلام نقل کرنے کے معنی میں آتا ہے اور لفظ “روایت” “کلام معصوم، و غیر معصوم، تاریخ، واقعہ یا حادثہ” نقل کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

[حدیث کو خبر بھی کہتے ہیں اور] خبر کو بظاہر اس لحاظ سے “حدیث” کہا گیا کہ یہ قرآن کریم کے برابر میں آتی ہے (اور دونوں کا مقصود احکام الہیہ بیان کرنا ہوتا ہے) کیونکہ اہل سنت کی اکثریت کا خیال ہے کہ قرآن قدیم ہے اور اس لحاظ سے جو احکام پیغمبر(ص) کی جانب سے صادر ہوتے ہیں انہیں بمقابلۂ قرآن ـ جو قدیم ہے ـ “حدیث” کہا جاتا ہے۔[3]

واضح رہے کہ حدیث معنی اور مضمون کے لحاظ سے “وحیانی” اور بلحاظ لفظ “انسانی” ہے۔

حدیث کا اثر، خبر اور علم کے ساتھ تعلق

ابتدائی ہجری صدیوں میں “اثر، خبر اور علم” کا مفہوم حدیث کے مفہوم کے ساتھ برابری کرتا تھا۔

اثر

اثر کے لغوی معنی باقیماندہ اور نقش پا کے ہیں۔ یہ لفظ ـ خاص طور پر اہل سنت کے ہاں ہر اس نقش کے لئے استعمال ہوتا تھا جو شریعت اور تعلیمات دین سے باقی رہا ہوتا تھا، خواہ وہ بلاواسطہ پیغعمبر(ص) کا کلام ہوتا، خواہ وہ بالواسطہ طور پر آنحضرت(ص) کے اصحاب، یا تابعین یا تابعین کے تابعین سے باقی رہا ہوتا تھا نیز حتی مدینۃ الرسول میں باقیماندہ اور رواج یافتہ سیرت کو “اثر” کا نام دیتے تھے۔ لیکن یہ اصطلاح شیعہ علماء کے ہاں صرف معصومین(ع) سے منقولہ روایت کے لئے استعمال ہوتی ہے اور بعض علماء کے ہاں ہر اس شیئے کو اثر کہا جاتا ہے جو ان سے منقول و مروی ہو۔[4]

خبر

خبر کی تعریف میں آراء مختلف ہیں: بعض کہتے تھے کہ حدیث کے دو حصے ہیں: حدیث مرفوع خبر ہے اور حدیث موقوف اثر ہے[5]؛ اور بعض دوسرے کہتے تھے کہ حدیث معصوم سے نقل شدہ کلام ہے اور خبر عام ہے اور ہر اس کلام کو اثر کہتے ہیں جو سابقین سے نقل ہوا ہو اور اثر ان دو سے بھی عام تر اور وسیع تر ہے[6]۔[7] اور بعض دوسرے ان اختلافات سے بچنے کی سبیل کے طور پر تین اصطلاحات کو معادل، مترادف اور ہم معنی سمجھتے تھے۔[8]۔[9]

عِلم

لفظ “علم” عصر حاضر میں استعمال نہیں ہوتا ہے لیکن بہت سے نمونے موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظ پہلی صدی ہجری میں وسیع سطح پر اور دوسرح صدی ہجری میں محدود سطح پر اس خبر کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے جس کو آج ہم “حدیث” کہتے ہیں۔ اس زمانے میں حدیث کے لئے جو لفظ سب سے پہلے اس زمانے کے لوگوں کے ذہن میں ابھرتا تھا لفظ “علم” تھا۔ صحابہ اور تابعین سے ایسی عبارات کا مجموعہ پایا جاتا ہے جن میں “علم کے چلے جانے”، “اٹھائے جانے”، “بوسیدہ ہوجانے” کے سلسلے میں تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ اور “علم کے چلے جانے” ” سے “حاملین علم” کے اٹھ جانے کا مطلب لیا گیا ہے۔

حدیث کی تقسیمات

علوم حدیث میں ـ حدیث کی سند یا متن کے بہتر ادراک کے لئے ـ مختلف قسم کی درجہ بندیاں کی گئی ہیں جن کے نمونے حسب ذیل ہیں:

  • تقسیم، سند کے راویوں کی تعداد کی بنیاد پر: خبر واحد، خبر مُسْتَفیض اور خبر متواتر؛
  • تقسیم، سند کے اعتبار کے لحاظ سے: صحیح اور اس کی قسمیں (صحیح مُضاف، متفق علیہ، اعلٰی، اوسط، ادنٰی)، حَسَن، موثوق، قوی، *ضعیف اور ااس کی اقسام (مُدْرَج، مشترک، مُصَحَّف، مؤتلف اور مختلف)؛
  • تقسیم، قطع یا اتصال سند کے لحاظ سے: مُسنَد، مُتَّصِل، مَرفوع، موقوف، مَقطوع، مُرْسَل، مُنْقَطِع، مُعْضَل یا مشکل، مُضْمَر، مُعَلَّق، مُعَنْعَن، مُہمَل؛
  • تقسیم، متن کے لحاظ سے: نَصّ، ظاہر، مُؤَوَّل، مُطلَق و مُقَید، عام و خاص، مُجْمَل و مُبَین، مُکاتَب و مکاتِبہ، مشہور، متروک، مطروح، حدیث قدسی، شاذ، مقلوب، متشابہ؛
  • تقسیم، روایت پر عمل کے لحاظ سے: حجت و لاحجت، مقبول، ناسخ اور منسوخ۔

اسناد حدیث و اصلیت مأخذ

پہلی صدی ہجری میں اہل سنت کے ہاں ہر اس حدیث کو اہمیت دی جاتی تھی جو پیغمبر اکرم(ص) سے نقل ہوتی تھی اور اس کی سند کو توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ دوسری صدی ہجری میں جاعلین اور واضعین حدیث کی موجودگی محسوس ہوئی تو موضوعہ احادیث کا سد باب کرنے کے لئے ذکر سند کو اوزار اور ہتھیار کے طور پر ذکر کرنا ضروری سمجھا گیا۔ [10]۔[11] اور اس روش کے رائج ہونے کی وجہ سے پیغمبر(ص) اور صحابہ سے بغیر سند کے نقل روایت میں شدید کمی آئی؛ تاہم یہ سلسلہ محدود سطح پر دوسری صدی کے آخر تک اصحاب حدیث میں سے بعض علماء میں سے مالک بن انس[12] کے ہاں اور اصحاب رائے میں سے ابو حنیفہ[13] اور ان کے شاگرد محمد شیبانی[14] کے نزدیک دیکھنے کو ملتا ہے۔ دوسری صدی کے آخر میں محمد بن ادریس شافعی کی کوششوں سے جملہ “کہاں سے لائے ہو؟” قطعی اور غالب ضابطے کے طور پر رائج ہوا۔

شیعیان آل رسول(ص) کے ہاں ابتداء ہی سے معصومین سے نقل روایت کرنے والے افراد کے حوالے سے حساسیت پائی جاتی تھی اور ائمۂ معصومین(ع) نے انہیں قبول حدیث کے معیاروں سے آگاہ کردیا تھا۔

جعلِ حدیث

حدیث کے مآخذ میں متعدد حدیثیں پائی جاتی ہیں جن کے ضمن میں رسول اللہ(ص) کے زبانی لوگوں کو آپ(ص) کی حدیثیں نقل کرنے کی ترغیب دلائی گئی اور انہیں آپ(ص) پر جھوٹ باندھنے سے باز رکھا گیا ہے۔

رسول خدا(ص) کے وصال کے دن ہی سے واقعۂ سقیفہ کے اجلاس کے ضبط شدہ مکالمات کے مطابق مہاجرین نے خلافت کا عہدہ اپنے لئے مختص کرنے کے لئے قرآن کی آیات سے نہیں بلکہ پیغمبر(ص) سےس منقولہ ایک حدیث سے استناد و استدلال کیا جس کی عبارت تھی: الائمة من قریش[15]۔[16] اور یہ استناد اسی آغاز سے ہی حدیث کے کلیدی کردار کی عکاسی کرتا ہے۔

امیرالمؤمنین(ع) نے بدعت آمیز احادیث کے رواج پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ایک خطبے کے ضمن میں فرمایا ہے کہ “لوگوں کے ہاتھوں میں (احادیث رسول اللہ(ص)) میں سے حق و باطل اور سچ اور جھوٹ، ہے”، اور پھر ناقلین حدیث کو چار زمروں میں تقسیم کرتے ہیں:

  1. منافقین جو جان بوجھ کر پیغمبر(ص) پر جھوٹ باندھتے ہیں؛
  2. رسول خدا(ص) سے سن کر اسے صحیح محفوظ نہیں کرسکے اور وہم و اشتباہ کا شکار ہوئے ہیں؛
  3. امر و نہی کو پیغمبر(ص) سے سنا لیکن ان کے ناسخ کو وصول نہیں کرسکے ہیں؛
  4. احادیث کو درست سمجھا اور حفظ کیا ہے اور امانتداری سے دوسروں تک منتقل کیا ۔[17]

تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ اور تابعین نے پیغمبر(ص) کی تعلیمات کو منتقل کرتے ہوئے ان تعلیمات سے اپنے تصور و ادراک کو منتقل کرچکے ہیں اور غالبا عین الفاظ رسول کو ضبط و ثبت کرنے کے پابند نہ تھے۔ عملی میدان میں بھی صحابہ سے منقولہ حدیثوں میں ایسی حدیثیں بکثرت پائی جاتی ہیں جن میں ایک واقعے کو بیان کیا گیا ہے لیکن ان کے الفاظ بالکل مختلف ہیں اور یہ حدیثیں اس قسم کی روش کے صحابہ کے ہاں معمول ہونے کی قطعی دلیل ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلاف، علمائے خلف کی مانند عین الفاظ نقل کرنے کے لئے اہمیت کے قائل نہیں تھے۔ یہ مشکل معصومین(ع) کی ڈھائی صدیوں پر محیط موجودگی کے بدولت، اہل تشیع کے ہاں بہت کم کہیں دکھائی دیتی ہے۔

كلام لأمير المؤمنين(ع) حول اختلاف الناس في الحديث

بِسْمِ اللَّـہ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

إِنَّ فِي اءَيْدِي النَّاسِ حَقّا وَباطِلاً، وَصِدْقا وَكَذِبا، وَناسِخا وَمَنْسُوخا، وَعامّا وَخاصّا، وَمُحْكَما وَمُتَشابِها، وَحِفْظا وَوَهما، وَلَقَدْ كُذِبَ عَلَى رَسُولِ اللَّه (صلی الله عليه وَآله) عَلَى عَهدِه حَتَّى قامَ خَطِيبا فَقالَ: مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدا فَلْيَتَبَوَّاءْ مَقْعَدَه مِنَ النَّارِ.

وَإِنَّما اءَتاكَ بِالْحَدِيثِ اءَرْبَعَة رِجالٍ لَيْسَ لَهمْ خامِسٌ:

رَجُلٌ مُنافِقٌ مُظْهرٌ لِلْإِيمانِ، مُتَصَنِّعٌ بِالْإِسْلامِ، لا يَتَاءَثَّمُ وَلا يَتَحَرَّجُ، يَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّه صمُتَ عَمِّدا، فَلَوْ عَلِمَ النَّاسُ أَنه مُنافِقٌ كاذِبٌ لَمْ يَقْبَلُوا مِنْه، وَلَمْ يُصَدِّقُوا قَوْلَه، وَلَكِنَّهمْ قالُوا: صَاحِبُ رَسُولِ اللَّه (صلی الله عليه وَآله) رَآه، وَسَمِعَ مِنْه، وَلَقِفَ عَنْه، فَيَاءْخُذُونَ بِقَوْلِه، وَقَدْ اءَخْبَرَكَ اللَّه عَنِ الْمُنافِقِينَ بِما اءَخْبَرَكَ، وَوَصَفَهمْ بِما وَصَفَهمْ بِه لَكَ، ثُمَّ بَقُوا بَعْدَه، فَتَقَرَّبُوا إ لى اءَئِمَّة الضَّلالَة وَالدُّعاة إ لَى النَّارِ بِالزُّورِ وَالْبُهتانِ، فَوَلَّوْهمُ الْاءَعْمالَ، وَجَعَلُوهمْ حُكَّاما عَلَى رِقابِ النَّاسِ، فَاءَكَلُوا بِهمُ الدُّنْيا، وَإِنَّمَا النَّاسُ مَعَ الْمُلُوكِ وَالدُّنْيا إِلا مَنْ عَصَمَ اللَّه؛ فَهذا اءَحَدُ الْاءَرْبَعَة.

وَرَجُلٌ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّه شَيْئا لَمْ يَحْفَظْه عَلَى وَجْهه، فَوَهمَ فِيه وَلَمْ يَتَعَمَّدْ كَذِبا، فَهوَفِي يَدَيْه وَيَرْوِيه وَيَعْمَلُ بِه، وَيَقُولُ: أَنا سَمِعْتُه مِنْ رَسُولِ اللَّه (صلی الله عليه وَآله) فَلَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُونَ أَنه وَهمَ فِيه لَمْ يَقْبَلُوه مِنْه، وَلَوْ عَلِمَ هوَأَنه كَذَلِكَ لَرَفَضَه.

وَرَجُلٌ ثالِثٌ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّه (صلی الله عليه وَآله) شَيْئا يَاءْمُرُ بِه ثُمَّ إِنَّه نَهى عَنْه وَهوَلا يَعْلَمُ، اءَوْ سَمِعَه يَنْهى عَنْ شَيْءٍ ثُمَّ اءَمَرَ بِه وَهوَلا يَعْلَمُ، فَحَفِظَ الْمَنْسُوخَ وَلَمْ يَحْفَظِ النَّاسِخَ، فَلَوْ يَعْلِمَ أَنه مَنْسُوخٌ لَرَفَضَه، وَلَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُونَ إِذْ سَمِعُوه مِنْه أَنه مَنْسُوخٌ لَرَفَضُوه.

وَآخَرُ رابِعٌ لَمْ يَكْذِبْ عَلَى اللَّه وَلا عَلَى رَسُولِه، مُبْغِضٌ لِلْكَذِبِ خَوْفا مِنَ اللَّه، وَتَعْظِيما لِرَسُولِ اللَّه (صلی الله عليه وَآله) وَلَمْ يَهمْ، بَلْ حَفِظَ ما سَمِعَ عَلَى وَجْهه، فَجاءَ بِه عَلَى ما سَمِعَه: لَمْ يَزِدْ فِيه وَلَمْ يَنْقُصْ مِنْه، فَهوَحَفِظَ النَّاسِخَ فَعَمِلَ بِه، وَحَفِظَ الْمَنْسُوخَ فَجَنَّبَ عَنْه، وَعَرَفَ الْخاصَّ وَالْعامَّ، وَالْمُحْكَمَ وَالْمُتَشَابِه فَوَضَعَ كُلَّ شَيْءٍ مَوْضِعَه وَعَرَفَ المُتَشابِه وَمُحْكَمَه.

وَقَدْ كانَ يَكُونُ مِنْ رَسُولِ اللَّه (صلی الله عليه وَآله) الْكَلامُ لَه وَجْهانِ: فَكَلامٌ خَاصُّ، وَكَلامٌ عَامُّ، فَيَسْمَعُه مَنْ لا يَعْرِفُ ما عَنَى اللَّه سُبْحانَه، بِه وَلا ما عَنَى رَسُولُ اللَّه (صلی الله عليه وَآله) فَيَحْمِلُه السَّامِعُ، وَيُوَجِّهه عَلى غَيْرِ مَعْرِفَة بِمَعْناه، وَما قُصِدَ بِه، وَما خَرَجَ مِنْ اءَجْلِه وَلَيْسَ كُلُّ اءَصْحابِ رَسُولِ اللَّه (صلی الله عليه وَآله) مَنْ كانَ يَسْاءَلُه وَيَسْتَفْهمُه حَتَّى إِنْ كانُوا لَيُحِبُّونَ أَن يَجِي ءَ الْاءَعْرابِيُّ اءَوَالطَّارِئُ فَيَسْاءَلَه (عليه السلام) حَتَّى يَسْمَعُوا، وَكانَ لا يَمُرُّ بِي مِنْ ذلِكَ شَيْءٌ إِلا سَاءلْتُه عَنْه وَحَفِظْتُه، فَهذِه وُجُوه ما عَلَيْه النَّاسُ فِي اخْتِلافِهمْ، وَعِلَلِهمْ فِي رِواياتِهمْ۔

نہج البلاغہ خطبہ نمبر 201۔



اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے


لوگوں کے ہاتھوں میں حق ہے اور باطل، جھوٹ ہے اور سچ، ناسخ ہے اور منسوخ، نیز عام ہے اور خاص، محکم ہے اور متشابہ، خطا و اشتباہ سے خالی اور اس سے بھرپور۔
رسول خدا(ص) کے دور میں اس قدر تک لوگوں نے آپ(ص) کو جھوٹی باتوں کی نسبت دی کہ آپ(ص) اٹھے اور لوگوں کو خطبہ دیا اور اس کے ضمن میں فرمایا: “جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے گویا وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں منتقل کرچکا ہے”۔
حدیث کو چار افراد نقل کرتے ہیں جن میں کوئی پانچواں نہیں ہے؛ یا منافق شخص ہے جو ایمان ظاہر کرتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن کسی بھی جرم و گناہ کے ارتکاب کی پروا نہیں کرتا۔ اگر لوگ جانتے کہ وہ منافق اور جھوٹا ہے تو اس کی بات کو قبول نہ کرتے لیکن وہ کہتے ہیں “وہ رسول اللہ(ص) کا صحابی ہے، آپ(ص) کو دیکھ چکا ہے اور آپ(ص) کا کلام سن چکا ہے اور اس کو ضبط کرچکا ہے؛ پس لوگ اس کے کلام کو قبول کرتے ہیں اور خداوند متعال نے قرآن میں منافقین کی خبر دی ہے اور ان کو ان صفات کے ذریعے متعارف کرایا ہے جن سے وہ متصف ہیں۔ یہ لوگ رسول اللہ(ص) کے بعد باقی رہے اور انہیں ضلالت کے پیشواؤں اور باطل و بہتان کے ذریعے لوگوں کے دوزخ کی طرف بلانے والوں کے آستانے قرب و منزلت حاصل کی؛ حتی انھوں نے انہیں حکومت بھی دی اور اس نام سے انہیں لوگوں کی گردنوں پر سوار کردیا اور ان کے نام کی پناہ میں جہان خواری اور تسلط پسندی میں مصروف ہوئے کیونکہ لوگ غالبا بادشاہوں اور دنیا داروں کے ساتھ ہیں سوا اس فرد کے جس کو خداوند متعال نے اس خطرے سے محفوظ رکھا ہو اور یہ چار میں سے ایک ہے۔
دوسرا وہ مرد ہے جس نے رسول خدا(ص) سے ایک خبر سنی ہے لیکن صحیح کلام کو اپنے حافظے میں محفوظ نہیں کرسکتا ہے، وہ جھوٹ بولنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ اپنا آموختہ اب لوگوں کو سناتا ہے اور خود بھی اس پر عمل کرتا ہے اور ہر جگہ جاکر کہتا ہے کہ ” میں نے یہ کلام رسول اللہ(ص) سے سنا ہے”؛ اگر مسلمانوں کو معلوم ہوتا کہ اس سے حدیث وصول کرنے اور سننے میں غلطی ہوئی ہے تو اس کا کلام قبول نہ کرتے اور اگر خود بھی جانتا کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے درست نہیں ہے، تو اس کو ترک کردیتا۔
تیسرا وہ شخص ہے جس نے رسول اللہ(ص) سے کچھ سنا ہے کہ آپ(ص) نے کسی عمل کا حکم دیا ہے اور بعدازاں آپ(ص) نے اس عمل سے لوگوں کو منع کیا ہے لیکن یہ شخص اس دوسرے (ناسخ) حکم سے بےخبر ہے۔ یا اس نے سنا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے کسی عمل سے نہی فرمائی ہے لیکن بعدازاں اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے بغیر اس کے کہ اس شخص کو معلوم ہوا ہو۔
چنانچہ اس نے منسوخ کو سنا ہے لیکن ناسخ کو نہیں سنا، یہ شخص اگر جانتا کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے منسوخ ہوچکا ہے، ہرگز اس کو نقل نہ کرتا اور اگر مسلمان جانتے کہ جو کچھ اس سے سن رہے ہیں منسوخ ہوچکا ہے تو اس کے کلام کو ترک کردیتے۔
چوتھا وہ مرد ہے جو کسی صورت میں بھی خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کو جھوٹی نسبت نہیں دیتا؛ وہ اللہ کے خوف نیز پیغمبر خدا(ص) کی تکریم و تعظیم کی خاطر جھوٹ کو ناپسند کرتا ہے؛ وہ اشتباہ اور خطا سے بھی دوچار نہیں ہوا ہے بلکہ اس نے جو کچھ رسول خدا(ص) سے سنا ہے اس کو صحیح طریقے سے مکمل طور پر حافظے کے سپرد کیا ہے اور اب اس کو نقل کرتا ہے، نہ اس میں اضافہ کرتا ہے اور نہ ہی اس سے کچھ کم کرتا ہے؛ ناسخ کو حفظ کررکھا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اور منسوخ کو حفظ کررکھا ہے اور اس سے دوری کرتا ہے۔
خاص کو عام سے تمیز دیتا ہے اور متشابہ کو محکم کی جگہ نہیں بٹھاتا اور ہر چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھتا ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا تھا رسول خدا(ص) کے کلام کے دو پہلو ہوتے تھے؛ ایک پہلو خاص ہوتا تھا اور ایک پہلو عام ہوتا تھا۔ ایسے کلام کو وہ لوگ سنتے تھے جو خدا اور اس کے رسول(ص) کے مقصد و مطلب سے آگہی نہیں رکھتے تھے، اور پھر اس کے معنی کی معرفت حاصل کئے بغیر اور بولنے والے کے مقصود سے آگہی اور شناخت تک پہنچے بغیر، اس کی کسی طرح سے توجیہ کرتا تھا؛ اور ایسا نہیں تھا کہ سارے صحابہ نے آپ سے کچھ پوچھا ہو اور اس کلام کی فہم کی درخواست کی؛ یہاں تک کہ بعض اصحاب کی آرزو ہوتی تھی کہ کوئی صحرا نشین اجنبی عرب آئے اور آپ(ص) سے کچھ پوچھے، تا کہ وہ بھی سن لیں؛ حالانکہ مجھے کبھی بھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی مگر میں آپ سے اس کا حل پوچھ لیتا تھا اور آپ(ص) کا کلام صحیح اور مکمل طور پر حافظے میں محفوظ کرلیتا تھا؛ ہاں! یہ ہیں لوگوں کی مرویات میں اختلاف کے اسباب۔

کتابت حدیث کی تاریخ

عصر نبوی میں علی علیہ السلام اور بعض اصحاب رسول حدیث لکھتے تھے۔ وصال رسول(ص) کے بعد شیعہ اور اہل سنت کے ہاں کتابت حدیث کی روش میں گہرا فرق پیدا ہوا۔ خلیفۂ اول اور خلیفۂ ثانی اور ان کے بعد خلیفۂ ثالث کے ادوار میں ـ اور بعدازاں عمر بن عبدالعزیز کے دور تک حکومت کی سرکاری روش یہ تھی کہ احادیث رسول(ص) کو نقل، تدوین اور مکتوب نہ کیا جائے؛ یہاں تک کہ انھوں نے بڑی مقدار میں مکتوبات حدیث کو نذر آتش کیا۔

عمر بن عبدالعزیز نے سرکاری روش کو بدل ڈالا اور کتب حدیث کی تدوین کا آغاز ہوا اور تیسری صدی ہجری کے آخر تک صحاح ستہ لکھ لی گئیں۔ لیکن تقریبا ایک صدی تک تدوین و کتابت حدیث پر لاگو کی جانے والی ممانعت نے بعد کے زمانے میں معرض وجود میں آنے والے مآخذ کی اصلیت پر تباہ کن اثرات مرتب کئے۔

تاہم شیعیان آل رسول(ص) رسول خدا(ص) کے زمانے میں بھی اور آپ (ص) کے وصال کے بعد ائمہ(ع) کے دور میں غیبت صغری تک احادیث کو لکھتے رہے تھے جیسے امیرالمؤمنین(ع) سے منقول کتاب علی (ع)، جامعہ وغیرہ اور اصحاب ائمہ کی اصول اربع مائہ اسی دوران کی تالیف ہوئی ہیں۔ بعد کی صدیوں میں احادیث کی تدوین و تجمیع کا کام انجام پایا۔ کتب اربعہ پانچویں صدی ہجری کے آخر تک مکمل ہو چکی تھیں۔

حدیث کی درجہ بندی

احادیث و روایت تک آسان رسائی کے لئے حدیث کی درجہ بندی، طبقہ بندی اور تبویب قدیم الایام سے علمائے دین کے مد نظر تھی۔ یہ درجہ بندی ابتدائی صدیوں سے آج تک جاری رہی ہے اور روز بروز کامل اور کامل تر ہوئی ہے۔

حدیث کا تاریخی سفر

وضع حدیث یا جعل حدیث

اگر ایک طرف سے پہلی اور دوسری صدیوں میں حدیث کو فہم دین کے سلسلے میں منبع و ماخذ کے عنوان سے منزلت ملی تو دوسری طرف سے اس منزلت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے رجحانات نے بھی جنم لیا اور کچھ لوگوں نے جعل حدیث (اور حدیث سازی) کا کام شروع کیا!۔ “و‏ضع کرنے والے (وضاع) محدثین کے ہاتھوں جعل حدیث اور پیغمبر(ص) اور ائمۂ(ع) پر جھوٹ باندھنے اور ان سے جھوٹی باتیں منسوب کرنے کی تاریخ “تاریخ حدیث” جتنی پرانی ہے۔

علمائے حدیث ان دو مشکلات کے حل کے لئے علم رجال اور علم درایہ کو بروئے کار لاتے ہیں اور اس وسیلے سے خالص کو ناخالص سے تمیز و تشخیص دیتے ہیں۔

سند اور مضمون کےلحاظ سے جائزہ لینے کی راہيں

ظاہر ہے کہ محدثین کی حدود سے باہر کی دنیا سے حدیث پر ہونی والی نقادیاں تشویش اور فکرمندی کا سبب ہوئیں اور اصحاب حدیث مجبور ہوئے کہ احادیث کا تحفظ کرنے کے لئے اقدامات کریں اور خود ماہرانہ انداز سے حدیثوں پر تنقید کریں۔ یہ ضرورت محض باہر سے ہی محدثین پر مسلط نہیں ہوئی بلکہ اخبار و احادیث میں تضاد و تعارض نے انہیں یہ سبیل نکالنے پر آمادہ کیا تھا۔ اس قسم کی تنقید میں ـ گوکہ حدیث کو بحثیت مجموعی مثبت نگاہ سے دیکھا جاتا تھا تاہم کوشش ہوتی تھی کہ ـ حدیث پر عارض ہونے والی بیماریوں کو پہچانا جائے اور حدیث کے پڑھنے اور سننے ان بیماریوں کے آثار سے محفوظ رہیں۔ حدیث پر وسیع سطح پر تنقید کی ضرورت محسوس ہونے کی وجہ سے ایک عظیم تنقیدی نظام ـ صدیوں کے دوران ـ معرض وجود میں آیا جس کا جزء بہ جزء مطالعہ تو ہوا ہے لیکن اس کی ایک مجموعی اور کلی تصویر پیش کرنے سے غفلت ہوئی ہے؛ وہ تصویر جس کو اگلی سطور میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

فہم حدیث

حدیث و روایت کی صحیح فہم و ادراک کے لئے لازم ہے کہ نقل بہ معنی[18] [یا نقل بہ مضمون]، روایات کی زبان، مخاطَب شناسی (Audience Studies)، ناسخ و منسوخ، معنی کے لحاظ سے حدیث کی مختلف سطوح، حدیث کی تاویل وغیرہ ـ جو علم درایہ میں زیر بحث ہیں ـ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اسلامی تہذیب و ثقافت میں حدیث

مسلم اقوام کے ادب میں مضامینِ حدیث کا استعمال ایک ایسا رجحان ہے جس کی تاریخ اسلامی ادب جتنی پرانی ہے۔ عربی نظم و نثر میں احادیث کے مندرجات سے تضمین ـ جو بوفور دیکھی جا سکتی ہے ـ کے علاوہ فارسی کے اسلامی ادب کی تشکیل کے آغاز سے لے کر آج تک، فارسی میں بھی اس قسم کی تضمینات کے نمونے تلاش کئے جاسکتے ہیں۔

چھٹی صدی ہجری میں احادیث نبوی ـ تضمینِ صریح (آشکار تضمین) کی صورت میں بھی اور بصورت تلویح (ضمنی طور پر) بھی فارسی کے شعراء کے آثار میں مکرر در مکرر ـ دیکھی جا سکتی ہیں:
فارسی شاعری میں احادیث سے تضمین[19] نگاری کے سلسلے میں نمونے کے طور پر رسول اللہ(ص) کی ایک حدیث کی تضمین کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ “خسرو (مرد خوشنام) مشرق سے ظہور کرے گا اور عدل کو مغرب تک فروغ دے گا”، مشہور شاعر امیر محمد معزی [20] نے اس حدیث کو ایک عینا ایک قصیدے کے ضمن میں نبی اکرم(ص) سے نقل کیا ہے۔[21]۔[22]

سنائی غزنوی [23] زیادہ تر تلمیح[24] کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور اپنے اشعار کے ضمن میں حدیث ثقلین [25] اور ابوذر غفاری کی صداقت کے سلسلے میں منقولہ حدیث[26] سعدی شیرازی [27] کی شاعری میں حدیث معراج اور پر جلنے کے خطرے سے جبرائیل کی فکرمندی سے متعلق حدیث سے تلمیح جیسے نمونے پائے جاتے ہیں۔[28]

فارسی کے شعراء میں جلال الدین مولوی بلخی [29] بہت وسیع سطح پر ـ صراحت کے ساتھ بھی اور تلمیح کے ذریعے بھی ـ احادیث سے استفادہ کرچکے ہیں جن میں بعض احادیث مآخذ حدیث میں دستیاب نہیں ہیں۔ بدیع الزمان فروزانفر نے ایک مستقل کتاب احادیث مثنوی کے عنوان سے تالیف کی ہے اور اس میں جلال الدین بلخی کی مثنوی میں متذکرہ احادیث کو جمع کیا ہے۔[30].

رسول اکرم(ص) کے بعض مختصر کلمات اس قدر مسلمانوں کے درمیان مشہور ہوئے کہ ضرب المثل کے عنوان سے رائج ہوئے۔ ابو الشیخ اصفہانی نے ایک ” یَک موضُوعی رسالہ” (Monograph) الامثال فی الحدیث النبوی کے عنوان سے تحریر کیا ہے جس میں انھوں نے ان احادیث کو اکٹھا کیا ہے جو عام محاورے کی زبان میں استعمال ہوتی ہیں اور اس میں انھوں نے عربی بولنے والے معاشروں کی زبان کو بھی شام کیا ہے جس میں حدیث کے عربی زبان توقع کے عین مطابق ہیں۔[31] حدیث کا ایسا ہی استعمال دوسرے مسلم معاشروں ـ بالخصوص فارسی بولنے والے معاشروں ـ میں بھی رائج ہے۔

پیغمبر خدا(ص) کی بعض حدیثیں ـ خواہ عربی عبارت کے ساتھ خواہ فارسی میں (یا اسلامی ممالک میں رائج دوسروں زبانوں) میں مترجَم صورت میں ضرب الامثال کی صورت میں رائج ہوئی ہیں۔[32] بعض مختصر جملے ـ جن کی نبوی تعلیمات سے مطابقت محسوس کی گئی ہے ـ بھی بڑی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ ‌مثال کے طور پر جملہ “‌النظافۃ من الایمان” (صفائی ایمان کا جزو ہے) ایرانیوں کے ہاں ایک کثیر الاستعمال ضرب المثل ہے؛[33] [اور یہ جملہ اردو بولنے والے مسلمانوں میں بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے]۔ گو کہ اس جملے کے الفاظ کتب حدیث میں دستیاب نہیں ہیں اور صرف بعض علمائے حدیث ـ منجملہ ابن حبان بستی نے اس کو بعض احادث سے ماخوذہ کلام قرار دیا ہے۔[34] بعض احادیث نے فارسی میں شعر کے سانچے میں نہایت کار آمد ضرب الامثال کی صورت اختیار کی ہے؛ مثال کے طور پر (رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہے کہ “علم حاصل کرو گہوارے سے قبر کے لحد تک” اور اس کو شعر میں ڈھال دیا گیا جو کچھ یوں ہے):

چنین گفت پیغمبر راستگوی
ز گہوارہ تا گور دانش بجوی

یہ ایسی حدیث ہے جس کو صرف متاخرین کے مآخذ حدیث میں دیکھا جاسکتا ہے۔[35]

عصر حاضر میں حدیث کے سلسلے میں مختلف نقطہ ہائے نظر

اخباریت کی رسم کو صفویہ کے دور میں امامیہ حلقوں میں رواج ملا اور میرزا محمد اخباری (متوفی 1232ہجری قمری/1817عیسوی) نے اس کو جاری رکھا۔ اس کے باوجود کہ وحید بہبہانی (متوفی 1205ہجری قمری/1791عیسوی) اور شیخ جعفر کاشف الغطاء (متوفی 1228ہجری قمری/1813عیسوی) کی کوششوں سے عراق اور ایران کے علمی حلقوں میں اخباریوں پر اصولیوں کا غلبہ مستحکم ہوا، لیکن اخباری رجحان ان کے دو صدیاں بعد تک ـ اور حالیہ عشروں تک ـ بدستور موجود تھا اور اس کے کچھ سرگرم عناصر بھی تھے۔ بدعت کہلانے والے افعال کے مقابلے میں جو تہذیبیت (Refinement) کے رجحان کے علاوہ اخباریوں کے ہاں ایک دوسری تہذیبیت بھی بشدت پائی جاتی ہے جو ان کے بقول اسلامی علوم ـ بالخصوص فقہ اور اصول فقہ ـ میں پھلاوٹ اور فربہی کی شدید مخالفت ہے جو ان کے بقول ائمۂ معصومین (ع) کی تعلیمات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اہل سنت کی تعلیمات سے اثر پذیری کا ثمرہ ہے۔[36] چودھویں صدی ہجری میں ایک نیا تفکر معرض وجود میں آیا ہے ـ جس کا غائرانہ مطالعہ ابھی تک انجام نہیں پا سکا ہے ـ مکتب تفکیک کے نام سے مشہور ہے اور اس کے حامی اپنے مکتب کا تعارف “مکتب معارف” کے عنوان سے کراتے ہیں۔ اس مکتب کی بنیاد خراسان میں میرزا مہدی اصفہانی (ولادت 1303 وفات 1365) نے رکھی ہے۔ اس مذہب کا بنیادی اور مرکزی نقطہ یہ ہے کہ “علوم اہل بیت کو عام اور رائج عرفی علوم سے الگ کرنا چاہئے؛ حقیقی علم وہ ہے جو احادیث اہل بیت (ع) سے حاصل ہو اور دوسرے سرچشموں سے معرض وجود میں آنے والے علوم ـ بالخصوص فلسفہ کے ساتھ ـ ان (دینی) علوم کی آمیزش گمراہی کا سبب ہے۔ اس مکتب میں تہذیبیت (تہذیب و تخلیص علوم دینیہ) دو صورتوں میں شدت و حدت کے ساتھ دیکھی جاتی ہے:

  1. نصوص سے باہر کے سرچشموں سے حاصلہ علوم کو ان علوم سے بالکل الگ کیا جائے جن کا منبع اور سرچشمہ دینی نصوص (قرآن و سنت) ہے؛
  2. ان کے مطابق معارف اہل بیت(ع) کی توسیع و ترویج میں مداخلت کی اہلیت سے عاری! اصولوں کے سہارے، علوم کی ترویج اور فروغ کی نفی ہونی چاہئے۔[37]

اصفہانی بعض اعجاز قرآن، ظواہر قرآن کی حجیت اور قرآن اور فرقان کے درمیان فرق کے قائل ہونے سے متعلق بنیادی موضوعات پر بحث کرتے ہیںـ فرقان سے مراد وہ تعلیمات ہیں جو احادیث اہل بیت سے حاصل ہوتی ہیں۔[38]۔[39]

نے والے فرقان درمیان فرق ـ سے متعلق اصولی موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں، اور یوں فہم قرآن کی سطوح کا تعین کرتے ہیں اور قرآن و حدیث کے درمیان نسبت متعین کرنے کے لئے پس منظر فراہم کرتے ہيں[40] معاشرے کے حسب ضرورت مختلف شعبوں میں مخاطَبین کو قرآن اور حدیث اہل بیت کے محکمات سے روشناس کرانا اور نصوص کے ذریعے مقصود تک پہنچانے کے لئے مناسب رسائی ممکن بنانا اس مکتب کے پیروکاروں کا نصب العین قرار دیا گیا ہے؛ اس تناظر میں محمد رضا حکیمی کےسلسلۂ کتب “الحیاۃ کو نمونے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔[41]

بنیادی اور خالص اسلامی تعلیمات تک رسائی کی غرض سے شیعہ میراث حدیث پر بےاعتمادی اور قرآن کی طرف رجوع کی ضرورت نے معاصر مفکرین کی ایک جماعت کو قرآن کی بنیاد پر تہذیبیت اور مجعولات و تحریفات کی نفی کی طرف مائل کیا۔ یہ جماعت قرآن کی تفسیر بوسیلۂ قرآن اور معاشرتی مسائل حل کرنے کے لئے قرآنی تاملات سے فائدہ اٹھانے کے حوالے سے سید قطب کی تفسیری روش کے قریب پہنچ گئی تھی؛ اگرچہ اس جماعت کے ہاں حدیث پر تنقید عام طور پر احتیاط آمیز اور تقابلی ہے۔

اس سلسلے میں ڈاکٹر علی شریعتی جیسے لوگ بھی ہیں جو نہ صرف حدیث کو لائق اعتنا و توجہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ مطالعۂ قرآن کا اہتمام بھی نہیں کرتے تھے۔ وہ حدیث کی نسبت سخت بدگمان تھے اور علامہ مجلسی جیسے محدثین اور ان کی کتاب بحار الانوار پر شدید ترین تنقید کرتے تھے۔[42] دریں اثناء بعض احادیث کو علوی تشیع سے دور اور قومی نظریئے کا نتیجہ سمجھتے تھے اور اس بہانے ان پر تنقید کرتے تھے۔[43] اس کے باوجود کہ وہ کبھی صراحت کے ساتھ دین کے بنیادی مآخذ اور صراحت کے ساتھ قرآن و سنت کے خالص ادراک کے حصول کی ضرورت پر زور دیتے تھے[44] لیکن قرآن کے خالص ادراک اور صحیح اور غیر صحیح احادیث کی تشخیص کے لئے کوئی مناسب راہ حل پیش نہیں کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ “دین میں تعبد عبادات کے محدود دائرے نیز بعض غیبی مسائل تک محدود ہے” اور وہ ان دو دائروں سے باہر اجتہاد اور مصلحت اندیشی کو نصوص پر مقدم رکھتے تھے اور مصلحتوں اور تقاضوں کے مطابق، زندگی کے مختلف امور میں بعض مذہبی مسائل کے تبدیل کرنے اور معتدل بنانے کو جائز سمجھتے تھے۔[45]

امامیہ کے دینی حلقوں میں تہذیبیت کا ایک بالکل مختلف زاویہ، حدیث پر تنقید کے حوالے سے محمد تقی شوشتری کی تنقیدی تالیفات اور ان کے بقول “احادیثِ دخیل” یعنی ناخالص احادیث کی بازشناسی[46] اور ان نقادیوں میں دیکھا جاسکتا ہے جو وہ نہج البلاغہ کے بعض کلمات اور جملوں اور ان کے ضبط و ثبت کے حوالے سے، کیا کرتے تھے[47]؛ مذہب شیعہ نہج البلاغہ کے اعتبار اور اسی زمانے میں اہل سنت کی طرف سے وارد ہونی والی تنقیدوں کے ہوتے ہوئے، شوشتری کا یہ تنقیدی رویہ بہت زیادہ گستاخانہ معلوم ہوتا تھا۔ اس تنقیدی روش کے لئے بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی تھی اور پھر یہ شوشتری کی کاوشوں میں بہت منظم انداز سے پیش کی جارہی تھی چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب تہذیبیت کی طرف ان کے رجحان کا ثمرہ تھا چنانچہ اس کو صرف ایک عالمانہ تجسس کا نام نہیں دیا جاسکتا۔

مستشرقین (Orientalists) کے حلقوں میں بھی حدیث کی نسبت بدظنی پر مبنی رجحان پائے جاتے تھے۔ مستشرقین انیسویں صدی عیسوی کے آخر تک متن حدیث کی اصلیت اور اسناد پر بداعتماد تھے؛ تاہم ہنگری کے مستشرق “اگناس گولڈزیہر”[48] نے بلاواسطہ طور پر حدیث وسیع مطالعہ کیا اور اس کے بارے میں ایک مناسب اور مربوطہ نظریہ پیش کیا۔ [49] اس کتاب کو بعد میں جوزف شاخت [50] نے مکمل کیا اور بیسویں صدی کے آخر تک یہ کتاب مستشرقین کی اکثریت کا مرجع رہی۔[51] کہا جاسکتا ہے کہ ایک طرف سے حدیث ـ یعنی اسلامی سنت کے ایک اہم حصے ـ پر مستشرقین کی تنقید اور دوسری طرف سے اسلامی اداروں کی تشکیل نو اور تجدید کے حوالے سے محسوس کی جانے والی ضرورت نے مل کر مسلمانوں کی توجہ دینی سنت کے اس حصے پر مرکوز کردی اور یوں مستشرقین کا منفی نقطۂ نگاہ مثبت نقطۂ نظر میں بدل گیا۔

آیت اللہ بروجردی [52] نے حوزہ علمیہ قم کے شیعہ ماحول میں علماء اور فضلاء کو حدیث کی طرف توجہ دینے اور اس شعبے میں تحقیق کرنے کی دعوت دی تو وہ خود دائرۃ المعارف کی نوعیت کی ایک مجموعۂ کتاب جامع احادیث الشیعۃ کی تدوین کی تیار کررہے تھے[53]، جبکہ یہ لہر ابھی مکمل طور نہیں اٹھ سکی تھی۔ اسی زمانے میں مصر میں احیاء حدیث کی تحریک کے علمبرداروں میں سے احمد محمد شاکر(متوفی 1377ہجری قمری/1957عیسوی) تھے جنہوں نے علم حدیث کو اہل حدیث کی ریت و روایت کے مطابق حاصل کیا تھا اور مصر کے اہل حدیث کے سربراہ تھے لیکن انھوں نے اہل حدیث کی اہم تالیفات و تصنیفات پر نظر ثانی اور ان کی تصحیح و تشریح کی راہ میں وسیع کوششیں کیں جس کے نتیجے میں دسوں کتب تالیف ہوئیں۔ ان کے تالیفی آثار میں الکتاب والسنۃ، در حقیقت ایک بیان ہے جس کا نقطۂ نظر اگرچہ سلفی ہے لیکن وہ اس وسیلے سے کوشش کرتے ہیں کہ قوانین اور معاشرے کے انتظام کے مقصد تک پہنچنے کے لئے سنت کے ساتھ ساتھ حدیث کی اہمیت کو اجاگر کریں اور ان لوگوں پر تنقید کرنا چاہتے ہیں جو حدیث کی طرف زيادہ توجہ نہیں دیتے۔[54]

حالیہ عشروں کے دوران قانون سازی، معاشرتی روابط، خاندانی نظام کی تشکیل اور متعلقہ مسائل سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں، مختلف سطحوں پر اور اسلامی تعلیمات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے اور انسانیات (Humanities) کے مختلف شعبوں میں دینی اصولوں کی طرف توجہ کی ضرورت، جیسے رجحانات، حدیث کی طرف مسلمانوں کے زیادہ سے زیادہ توجہ و مَیلان کا سبب بنے۔ ان محرکات میں خواتین کے مسائل اور سائنس اور دین کے تعلق جیسے سوالات، عالمگیریت وغیرہ کے لئے جوابات کی فراہمی سمیت عصر جدید کے مسائل کا اضافہ کرنا چاہئے۔

اس قسم کے مباحث و موضوعات نے سماجی سطحی پر سرگرم اداروں اور منور الفکر دانشور حلقوں نیز جدید سائنس کی طرف مائل حلقوں کو بھی حدیث کی طرف مائل کردیا ہے؛ تاہم اس حقیقت کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ یہ حلقے صرف اپنے مقصد کی حدیثوں سے استفادہ کرتے ہیں اور کبھی تو ان کی نظریں ایسے متون اور حدیثوں پر ٹہر جاتی ہے جو محدثین کی اندرونی نقادیوں کی روشنی میں ان کے اعتبار کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. دیکھیں: لغت نامہ دہخدا، اصول اربعہ.
  2. مذکورہ دو کتابوں کو مجموعی طور پر صحیحین بھی کہا جاتا ہے.
  3. عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری، ج1
  4. شیخ بہائی، الوجيزۃ في علم الدرايۃ۔
  5. سیوطی، تدریب الراوی، ج1 ص184۔
  6. انصاری، زکریا، الحدود الانیقۃ، ص85۔
  7. شہید ثانی، الرعایۃ، ص49۔
  8. قاسمی، محمد، قواعد التحدیث، ص61۔
  9. صالح، صبحی، علوم الحدیث و مصطلحہ، صص 10-11۔
  10. مسلم، صحیح، ج1 ص15۔
  11. ترمذی، سنن، ج5 ص740۔
  12. مالک بن انس، الموطأ، ج1 ص300۔
  13. شیبانی، محمد، الآثار، ج1 صص3-4۔
  14. شیبانی، ج1 ص10۔
  15. کلینی، الکافی ج8 ص343۔
  16. ابن ‏عساکر، علی، تاریخ مدینۃ دمشق، ج30 ص286۔
  17. نہج البلاغۃ، خطبہ 201۔
  18. راوی جب ایک حدیث معصوم سے سنتا ہے تو لازم ہے کہ اس کو عینا ان ہی الفاظ کے سانچے میں بیان کرے جو اس نے سنے ہیں لیکن بعض شرائط کے ساتھ وہ اس حدیث کے معنی اور مفہوم کو اپنے الفاظ میں بھی بیان کرسکتا ہے۔ صاحب معالم بزرگ شیعہ فقیہ شیخ زین‌الدین بن علی بن احمد العاملی الجبعی، معروف بہ شہید ثانی کے فرزند صاحب معالم الاصول، ابو منصور حسن بن زین الدین بن علی بن احمد بن جمال الدین بن تقی الدین العاملی (متوفی 1011ہجری قمری)؛ کہتے ہیں کہ اکثر سنی علماء بھی نقل بہ معنی یا نقل بہ مضمون کے قائل ہیں اور جو قائل نہیں ہیں وہ بھی کوئی قابل قبول دلیل پیش نہیں کرسکے ہیں۔
  19. تضمین وہ ہے کہ شاعر یا قلمکار اپنے کلام (خواہ وہ شعر ہو خواہ نثر ہو) میں کسی آیت، حدیث، یا کسی شاعر کے ایک مصرع یا شعر کو عینا نقل کرے۔
  20. امیر ابوعبداللہ محمد بن عبدالملک مُعِزّی نیشابوری متوفی 518 یا 521 ہجری قمری۔
  21. ‏معزی، محمد، دیوان، ص 579۔
  22. ابن ماجہ، سنن ج2 ص1367۔
  23. ابو المجد مجدود بن آدم سنائی غزنوی یا حکیم سنائی (ولادت 473، وفات 545ہجری قمری)
  24. تلمیح کے معنی لغت میں آنکھ کے گوشے سے اشارہ کرنے کے ہیں اور اصطلاح میں اس کے معنی یہ ہیں کہ خطیب یا شاعر اپنے کلام کے ضمن میں آیت، حدیث، داستان ، تاریخی واقعے، افسانے وغیرہ کی طرف اشارہ کرے۔
  25. سنائی، دیوان، ص 469۔
  26. وہی وہی ماخذ ص465۔
  27. ابو محمد مُصلِح الدین بن عَبدُاللہ معروف بہ سعدی شیرازی و مشرف الدین (پیدائش 585 یا 606، وفات 691 ہجری قمری)
  28. سعدی، بوستان، ص36۔
  29. جلال الدین محمد بلخی معروف بہ مولوی و مولانا و رومی و مولانا روم (‎ولادت ‌الاول 604، وفات 672 ہجری قمری)
  30. احادیث مثنوی، ط تہران، 1334ہجری شمسی۔
  31. ابوالشیخ اصفہانی، عبداللہ، الامثال، ص21۔
  32. دہخدا، امثال و حِکَم، ج1 صص252، 480۔
  33. دہخدا، وہی ماخذ، ص279۔
  34. ابن ‏حبان، کتاب المجروحین، ج12 ص294۔
  35. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، ج1 ص51۔
  36. ‏اخباری، محمد، البرہان فی التکلیف و البیان، پوری کتاب۔
  37. اصفہانی، ابواب الہدی، پوری کتاب۔
  38. کلینی، الکافی، ج2 ص630۔
  39. ابن بابویہ، معانی الاخبار، صص189-190۔
  40. اصفہانی، رسائل شناخت قرآن،، پوری کتاب۔
  41. ط تہران، 1367ہجری شمسی۔
  42. شریعتی، تشیع علوی و تشیع صفوی، ص200۔
  43. شریعتی، وہی ماخذ، صص115-139۔
  44. شریعتی، علی، با مخاطبہای آشنا، ص143۔
  45. شریعتی، وہی ماخذ، ص195۔
  46. ‏شوشتری، محمدتقی، الاخبار الدخیلۃ، صص1و2۔
  47. ‏‏شوشتری، بہج الصباغۃ، ج1 صص 19- 22۔
  48. Ignác (Yitzhaq Yehuda) Goldziher (22 June 1850 – 13 November 1921۔
  49. گولڈزیہر، مطالعات اسلامی، پوری کتاب۔
  50. Joseph Franz Schacht, Born: March 15, 1902, Racibórz, Poland, Died: August 1, 1969, Englewood, New Jersey, United States۔
  51. ‏بہاءالدین، محمد، المستشرقون والحدیث النبوی، پوری کتاب۔
  52. آیت اللہ سید حسین طباطبائی بروجردی متوفی سنہ 1380 ہجری، چودہویں صدی کے نامی گرامی مراجع تقلید میں سے تھے۔ 17 سال تک حوزہ علمیہ قم کے زعیم رہے اور پندرہ سال تک شیعیان عالم کے مرجع تقلید۔
  53. ‏بروجردی، حسین و دیگران، جامع احادیث الشیعۃ، دیباچہ ملاحظہ ہو۔
  54. شاکر، احمد محمد، الکتاب و السنۃ یجب ان یکونا مصدر القوانین، ص 22-23۔

مآخذ

لاطینی مآخذ

  • Arberry, A. , The Chester Beatty Library: A Handlist of the Arabic Manuscripts, Dublin, 1955-1964.
  • Brun, S. J. , Dictionarium syriaco- latinum, Beirut, 1895.
  • Chong, P. D. , Ural-Altaic Etymological Wordlist, 1998.
  • GAS؛ Gesenius, W. , A Hebrew and English Lexicon of the Old Testament, tr. E. Robinson, ed. F. Brown et al. , Oxford, 1955.
  • Goldziher, I. , Vorlesungen über den Islam, Heidelberg, 1910.
  • Grujic, B. , Rečnik engelsko- srpskohrvatski, Belgrad etc. , 1976.
  • Haghighi, M. ,»Fundamentalism as Post-Modernism: An Iranian Case-Study«, Jusur, 1996, vol. XII.
  • Harnack, A. , History of Dogma, tr. N. Buchanan, Boston, 1901.
  • Hjelmslev, L. , Principes de grammaire générale, Copenhagen, 1928.
  • Horovitz, J. , »Alter und Ursprung des Isnād«, Der Islam, 1918, vol. VIII.
  • Jastrow, M. , A Dictionary of the Targumim, the Talmud Badli and Yershalmi, and the Midrashic Literature, London/ New York, 1903.
  • Leslau, W. , Comparative Dictionary of Ge’ez (Classical Ethiopic), Wiesbaden, 1991.
  • Liddell, H. G. and R. Scott, A Greek-English Lexicon, Oxford, 1968.
  • Littré, E. , Dictionnaire de la langue française, Paris, 1874.
  • Myrzabekova, K. et al. , Kasachisch- Deutsches Wörterbuch, Almaty, 1992.
  • Neusner, J. , Early Rabbinic Judaism: Historical Studies in Religion, Literature and Art, Leiden, 1975.
  • New Catholic Encyclopedia, Detroit etc. , 2003.
  • Pakatchi, A. , Analiticheskiĭ obzor osnov mistitsizma sheĭkha Nadzhm ad-dina Kubra, Ashkhabad/ Mashad, 2001.
  • id, »The Contribution of Eastern Iranian and Central Asian Scholars to the Compilaton of Hadîths«, History of Civilizations of Central Asia, Paris, 2000, vol. IV(2).
  • Pfeifer, W. , Etymologisches Wörterbuch des Deutschen, München, 1995.
  • Skeat, W. W. , An Etymological Dictionary of the English Language, Oxford, 1963.
  • Strack, H. L. , Introduction to the Talmud and Midrash, Philadelphia, 1931.
تبصرے
Loading...