حدیث معراج

حدیث مِعراج من جملہ احادیث قدسی میں سے ہے جس میں خداوند متعال اور پیغمبر اکرمؐ کے درمیان معراج پر ہونے والی گفتگو کا ذکر ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کی معراج سے متعلق بہت ساری احادیث منقول ہیں۔ لیکن یہ حدیث جو حدیث مِعراج کے نام سے مشہور ہے، ایک طولانی حدیث ہے جسے پہلی بار کتاب ارشاد القلوب میں نقل کیا گیا ہے۔ اس حدیث میں بہت سے اخلاقی مسائل جیسے رضا، توکل، دنیا کی مذمت، روزہ، سکوت، ناداروں سے محبت‌، اہل دنیا اور اہل آخرت کی خصوصیات وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔ “راہیان کوی دوست” اور “سِِرُّ الإسراء فی شرح حدیث المعراج” جیسی کتابوں میں حدیث مِعراج کی تشریح کی گئی ہیں۔

تعارف

حدیث مِعراج من جملہ احادیث قدسی میں سے ہے جس میں خداوند متعال اور پیغمبر اکرمؐ کے درمیان معراج پر ہونے والی گفتگو کا ذکر ہے۔ اس گفتگو میں پیغمبر اکرمؐ اور خداوند متعال کے درمیان مختلف اخلاقی مسائل کے حوالے سے سوال و جواب کا تذکرہ ملتا ہے۔[1]
پیغمبر اکرمؐ کی معراج سے متعلق بہت ساری احادیث منقول ہیں۔ لیکن یہ حدیث جو حدیث مِعراج کے نام سے مشہور ہے، ایک طولانی حدیث ہے جسے پہلی بار کتاب ارشاد القلوب میں نقل کیا گیا ہے۔ اس حدیث میں بہت سے اخلاقی مسائل پر بحث کی گئی ہے۔[2]

معراج کا واقعہ

معراج، پیغمبر اسلامؐ کے مسجد الاقصی سے آسمانوں کی طرف سفر کو کہا جاتا ہے۔ اسلامی منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ راتوں رات مکہ سے مسجدالاَقصی پھر وہاں سے آسمان کی طرف لے جایا گیا۔[3] معراج کا واقعہ شیعہ سنی احادیث میں تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے۔[4] قرآن میں بھی سورہ اسراء اور سورہ نجم میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[5]

مضامین

حدیث معراج کا آغاز پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے بہترین عمل کے بارے میں خدا سے پوچھے گئے سوال سے ہوتا ہے۔ جواب میں خدا نے توکل اور رضا کو بہترین عمل قرار دیا اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ سے مخاطب ہو کر خدا نے مختلف چیزوں کو بیان فرمایا ہے۔ اس طولانی حدیث کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس کے ہر حصے میں پیغمبر اکرمؐ مورد خطاب قرار پاتا ہے۔ اس حدیث کے شروع میں خداوند متعال پیغمبر اکرمؐ کو محمدؐ کہہ کر مخاطب قرار دیتا ہے جبکہ بعد والے حصوں میں آپ کو احمدؐ کے نام سے پکارتا ہے۔[6]

“راہیان کوی دوست” نامی کتاب کی مطابق اس حدیث میں مورد بحث واقع ہونے والے موضوعات کچھ یوں ہیں:

  • رضا و توکل؛
  • محبت الہی اور اس تک پہنچنے کا راستہ؛
  • اولیای الہی کی خصوصیات؛
  • بہشتیوں کی خصوصیات اور بھوک اور خاموشی کی میراث؛
  • نماز کو اہمیت دینا اور خدا کو حاضر و ناظر سمجھنا؛
  • اولیای الہی؛
  • بے نواوں سے محبت کرنے کی ضرورت؛
  • خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کرنا؛
  • دنیا اور دنیا طلبی کی مذمت؛
  • اہل دنیا کی بیس خصلتیں؛
  • اہل آخرت کی خصوصیات؛
  • زاہدوں کا مقام اور ان کی معرفت؛
  • روزہ اور خاموشی کی قدر و قیمت؛
  • یقین کی منزل تک رسائی حاصل کرنے والے مؤمنین اور خدا کے رضوان کا حصول؛
  • گوارا اور پایدار زندگی کی خصوصیات؛
  • خدا کے امتحانات میں کامیابی اور خدا کی خاص عنایت؛
  • عابدوں اور انبیاء الہی کا مقام؛
  • محبت خدا کی حقیقت۔[7]

حدیث کا منبع

حدیث معراج کو پہلی بار حسن بن محمد دیلمی نے کتاب ارشاد القلوب میں “پیغمبر خداؐ کا شب معراج کو خدا سے پوچھے گئے سوالات” کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔[8]

اس کے بعد فیض کاشانی نے الوافی میں حُرّ عامِلی نے جواہر السَّنیہ میں اور علامہ مجلسی نے بِحار الأنوار میں کتاب ارشادالقلوب سے نقل کئے ہیں۔[9]

کتاب جواہر السنیہ اور ارشاد القلوب کا فارسی میں ترجمہ ہوا ہے یوں حدیث معراج کا فارسی ترجمہ بھی ان کتابوں میں آیا ہے۔[10] اسی طرح یہ حدیث فارسی ترجمے کے ساتھ کتاب “پیغمبر کے ساتھ معراج کی طرف” جسے علی شیروانی نے تحریر کیا ہے، میں بھی آیا ہے۔ کتاب ارشاد القلوب کا اردو ترجمہ علامہ صفدر حسین نجفی صاحب نے کیا ہے۔

شرحیں

حدیث معراج میں بہت سارے اخلاقی مسائل بیان ہونے کی وجہ سے بہت سے اخلاقی اور عرفانی کتابوں میں اس حدیث کو زیادہ اہمیت دی گیئ ہے من جملہ یہ کہ:

  • راہیان کوی دوست، محمّدتقی مصباح یزدی، یہ کتاب آیت الله محمدتقی مصباح یزدی کے حوزہ علمیہ میں دئے گئے درس اخلاق کا مجموعہ ہے؛[11]
  • سِرُّ الإسراء فی شرح حدیث المعراج، علی پہلوانی تہرانی(سعادت‌پرور) جسے سید محمدجواد وزیری فرد نے فارسی میں “سر الأسراء” کے نام سے کیا ہے؛
  • حدیث معراج؛ مناجاة الرحمن فی لیلة المعراج، سیدمحمدرضا غیاثی کرمانی یہ کتاب حدیث معراج کی مختصر شرح ہے۔

متن و ترجمہ حدیث

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

رُوِی عَنْ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ(ع) أَنَّ النَّبِی(ص) سَأَلَ رَبَّهُ سُبْحَانَهُ لَیلَةَ الْمِعْرَاجِ فَقَالَ یا رَبِّ‌ای الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَی لَیسَ شَیءٌ أَفْضَلَ عِنْدِی مِنَ التَّوَکلِ عَلَی وَ الرِّضَا بِمَا قَسَمْتُ یا مُحَمَّدُ وَجَبَتْ مَحَبَّتِی لِلْمُتَحَابِّینَ فِی وَ وَجَبَتْ مَحَبَّتِی لِلْمُتَعَاطِفِینَ فِی وَ وَجَبَتْ مَحَبَّتِی لِلْمُتَوَاصِلِینَ فِی وَ وَجَبَتْ مَحَبَّتِی لِلْمُتَوَکلِینَ عَلَی وَ لَیسَ لِمَحَبَّتِی عِلْمٌ وَ لَا غَایةٌ وَ لَا نِهَایةٌ وَ کلَّمَا رَفَعْتُ لَهُمْ عِلْماً وَضَعْتُ لَهُمْ عِلْماً أُولَئِک الَّذِینَ نَظَرُوا إِلَی الْمَخْلُوقِینَ بِنَظَرِی إِلَیهِمْ وَ لَمْ یرْفَعُوا الْحَوَائِجَ إِلَی الْخَلْقِ بُطُونُهُمْ خَفِیفَةٌ مِنْ أَکلِ الْحَرَامِ نَعِیمُهُمْ فِی الدُّنْیا ذِکرِی وَ مَحَبَّتِی وَ رِضَائِی عَنْهُمْ یا أَحْمَدُ إِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَکونَ أَوْرَعَ النَّاسِ فَازْهَدْ فِی الدُّنْیا وَ ارْغَبْ فِی الْآخِرَةِ فَقَالَ إِلَهِی کیفَ أَزْهَدُ فِی الدُّنْیا فَقَالَ خُذْ مِنَ الدُّنْیا حَفْناً مِنَ الطَّعَامِ وَ الشَّرَابِ وَ اللِّبَاسِ وَ لَا تَدَّخِرْ لِغَدٍ وَ دُمْ عَلَی ذِکرِی فَقَالَ یا رَبِّ کیفَ أَدُومُ عَلَی ذِکرِک فَقَالَ بِالْخَلْوَةِ عَنِ النَّاسِ وَ بُغْضِک الْحُلْوَ وَ الْحَامِضَ وَ فَرَاغِ بَطْنِک وَ بَیتِک مِنَ الدُّنْیا یا أَحْمَدُ احْذَرْ أَنْ تَکونَ مِثْلَ الصَّبِی إِذَا نَظَرَ إِلَی الْأَخْضَرِ وَ الْأَصْفَرِ وَ إِذَا أُعْطِی شَیئاً مِنَ الْحُلْوِ وَ الْحَامِضِ اغْتَرَّ بِهِ فَقَالَ یا رَبِّ دُلَّنِی عَلَی عَمَلٍ أَتَقَرَّبُ بِهِ إِلَیک قَالَ اجْعَلْ لَیلَک نَهَاراً وَ نَهَارَک لَیلًا قَالَ یا رَبِّ کیفَ ذَلِک قَالَ اجْعَلْ نَوْمَک صَلَاةً وَ طَعَامَک الْجُوعَ- یا أَحْمَدُ وَ عِزَّتِی وَ جَلَالِی مَا مِنْ عَبْدٍ ضَمِنَ لِی بِأَرْبَعِ خِصَالٍ إِلَّا أَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ یطْوِی لِسَانَهُ فَلَا یفْتَحُهُ إِلَّا بِمَا یعْنِیهِ وَ یحْفَظُ قَلْبَهُ مِنَ الْوَسْوَاسِ وَ یحْفَظُ عِلْمِی وَ نَظَرِی إِلَیهِ وَ یکونُ قُرَّةُ عَینَیهِ الْجُوعَ یا أَحْمَدُ لَوْ ذُقْتَ حَلَاوَةَ الْجُوعِ وَ الصَّمْتِ وَ الْخَلْوَةِ وَ مَا وَرِثُوا مِنْهَا قَالَ یا رَبِّ مَا مِیرَاثُ الْجُوعِ قَالَ الحِکمَةُ وَ حِفْظُ الْقَلْبِ وَ التَّقَرُّبُ إِلَی وَ الْحُزْنُ الدَّائِمُ وَ خِفَّةُ الْمَئُونَةِ بَینَ النَّاسِ وَ قَوْلُ الْحَقِّ وَ لَا یبَالِی عَاشَ بِیسْرٍ أَمْ بِعُسْرٍ یا أَحْمَدُ هَلْ تَدْرِی بِأَی وَقْتٍ یتَقَرَّبُ الْعَبْدُ إِلَی قَالَ [لَا یا رَبِّ قَالَ] إِذَا کانَ جَائِعاً أَوْ سَاجِداً یا أَحْمَدُ عَجِبْتُ مِنْ ثَلَاثَةِ عَبِیدٍ عَبْدٍ دَخَلَ فِی الصَّلَاةِ وَ هُوَ یعْلَمُ إِلَی مَنْ یرْفَعُ یدَیهِ وَ قُدَّامَ مَنْ هُوَ وَ هُوَ ینْعُسُ وَ عَجِبْتُ مِنْ عَبْدٍ لَهُ قُوتُ یوْمٍ مِنَ الْحَشِیشِ أَوْ غَیرِهِ وَ هُوَ یهْتَمُّ لِغَدٍ وَ عَجِبْتُ مِنْ عَبْدٍ لَا یدْرِی أَنِّی رَاضٍ عَنْهُ أَوْ سَاخِطٌ عَلَیهِ وَ هُوَ یضْحَک یا أَحْمَدُ إِنَّ فِی الْجَنَّةِ قَصْراً مِنْ لُؤْلُؤٍ فَوْقَ لُؤْلُؤٍ وَ دُرَّةٍ فَوْقَ دُرَّةٍ لَیسَ فِیهَا قَصْمٌ وَ لَا وَصْلٌ فِیهَا الْخَوَاصُّ أَنْظُرُ إِلَیهِمْ کلَّ یوْمٍ سَبْعِینَ مَرَّةً فَأُکلِّمُهُمْ کلَّمَا نَظَرْتُ إِلَیهِمْ وَ أَزِیدُ فِی مِلْکهِمْ سَبْعِینَ ضِعْفاً وَ إِذَا تَلَذَّذَ أَهْلُ الْجَنَّةِ بِالطَّعَامِ وَ الشَّرَابِ تَلَذَّذُوا أُولَئِک بِذِکرِی وَ کلَامِی وَ حَدِیثِی قَالَ یا رَبِّ مَا عَلَامَةُ أُولَئِک قَالَ مَسْجُونُونَ قَدْ سَجَنُوا أَلْسِنَتَهُمْ مِنْ فُضُولِ الْکلَامِ وَ بُطُونَهُمْ مِنْ فُضُولِ الطَّعَامِ یا أَحْمَدُ إِنَّ الْمَحَبَّةَ لِلَّهِ هِی الْمَحَبَّةُ لِلْفُقَرَاءِ وَ التَّقَرُّبُ إِلَیهِمْ قَالَ وَ مَنِ الْفُقَرَاءُ قَالَ الَّذِینَ رَضُوا بِالْقَلِیلِ وَ صَبَرُوا عَلَی الْجُوعِ وَ شَکرُوا عَلَی الرَّخَاءِ وَ لَمْ یشْکوا جُوعَهُمْ وَ لَا ظَمَأَهُمْ وَ لَمْ یکذِبُوا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَ لَمْ یغْضَبُوا عَلَی رَبِّهِمْ وَ لَمْ یغْتَمُّوا عَلَی مَا فَاتَهُمْ وَ لَمْ یفْرَحُوا بِمَا آتَاهُمْ یا أَحْمَدُ مَحَبَّتِی مَحَبَّةُ الْفُقَرَاءِ فَأَدْنِ الْفُقَرَاءَ وَ قَرِّبْ مَجْلِسَهُمْ مِنْک وَ أَبْعِدِ الْأَغْنِیاءَ وَ أَبْعِدْ مَجْلِسَهُمْ عَنْک فَإِنَّ الْفُقَرَاءَ أَحِبَّائِی یا أَحْمَدُ لَا تَزَینْ بِلَینِ اللِّبَاسِ وَ طَیبِ الطَّعَامِ وَ لَینِ الْوِطَاءِ فَإِنَّ النَّفْسَ مَأْوَی کلِّ شَرٍّ وَ رَفِیقُ کلِّ سُوءٍ تَجُرُّهَا إِلَی طَاعَةِ اللَّهِ وَ تَجُرُّک إِلَی مَعْصِیتِهِ وَ تُخَالِفُک فِی طَاعَتِهِ وَ تُطِیعُک فِیمَا تکره [یکرَهُ] وَ تَطْغَی إِذَا شَبِعَتْ وَ تَشْکو إِذَا جَاعَتْ وَ تَغْضَبُ إِذَا افْتَقَرَتْ وَ تَتَکبَّرُ إِذَا اسْتَغْنَتْ وَ تَنْسَی إِذَا کبِرَتْ وَ تَغْفُلُ إِذَا آمَنَتْ وَ هِی قَرِینَةُ الشَّیطَانِ وَ مَثَلُ النَّفْسِ کمَثَلِ النَّعَامَةِ تَأْکلُ الْکثِیرَ وَ إِذَا حُمِلَ عَلَیهَا لَا تَطِیرُ وَ کمَثَلِ الدِّفْلَی لَوْنُهُ حَسَنٌ وَ طَعْمُهُ مُرٌّ یا أَحْمَدُ أَبْغِضِ الدُّنْیا وَ أَهْلَهَا وَ أَحِبَّ الْآخِرَةَ وَ أَهْلَهَا قَالَ یا رَبِّ وَ مَنْ أَهْلُ الدُّنْیا وَ مَنْ أَهْلُ الْآخِرَةِ قَالَ أَهْلُ الدُّنْیا مَنْ کثُرَ أَکلُهُ وَ ضَحِکهُ وَ نَوْمُهُ وَ غَضَبُهُ قَلِیلُ الرِّضَا لَا یعْتَذِرُ إِلَی مَنْ أَسَاءَ إِلَیهِ وَ لَا یقْبَلُ عُذْرَ مَنِ اعْتَذَرَ إِلَیهِ کسْلَانُ عِنْدَ الطَّاعَةِ شُجَاعٌ عِنْدَ الْمَعْصِیةِ أَمَلُهُ بَعِیدٌ وَ أَجَلُهُ قَرِیبٌ لَا یحَاسِبُ نَفْسَهُ قَلِیلُ الْمَنْفَعَةِ کثِیرُ الْکلَامِ قَلِیلُ الْخَوْفِ کثِیرُ الْفَرَحِ عِنْدَ الطَّعَامِ وَ إِنَّ أَهْلَ الدُّنْیا لَا یشْکرُونَ عِنْدَ الرَّخَاءِ وَ لَا یصْبِرُونَ عِنْدَ الْبَلَاءِ کثِیرُ النَّاسِ عِنْدَهُمْ قَلِیلٌ یحْمَدُونَ أَنْفُسَهُمْ بِمَا لَا یفْعَلُونَ وَ یدَّعُونَ بِمَا لَیسَ لَهُمْ وَ یتَکلَّمُونَ بِمَا یتَمَنَّوْنَ وَ یذْکرُونَ مَسَاوِئَ النَّاسِ وَ یخْفُونَ حَسَنَاتِهِمْ فَقَالَ یا رَبِّ کلُّ هَذَا الْعَیبِ فِی أَهْلِ الدُّنْیا قَالَ یا أَحْمَدُ إِنَّ عَیبَ أَهْلِ الدُّنْیا کثِیرٌ فِیهِمُ الْجَهْلُ وَ الْحُمْقُ لَا یتَوَاضَعُونَ لِمَنْ یتَعَلَّمُونَ مِنْهُ وَ هُمْ عِنْدَ أَنْفُسِهِمْ عُقَلَاءُ وَ عِنْدَ الْعَارِفِینَ حُمَقَاءُ یا أَحْمَدُ إِنَّ أَهْلَ الْخَیرِ وَ أَهْلَ الْآخِرَةِ رَقِیقَةٌ وُجُوهُهُمْ کثِیرٌ حَیاؤُهُمْ قَلِیلٌ حُمْقُهُمْ کثِیرٌ نَفْعُهُمْ قَلِیلٌ مَکرُهُمْ النَّاسُ مِنْهُمْ فِی رَاحَةٍ أَنْفُسُهُمْ مِنْهُمْ فِی تَعَبٍ کلَامُهُمْ مَوْزُونٌ مُحَاسِبِینَ لِأَنْفُسِهِمْ مُتَعَیبِینَ لَهَا تَنَامُ أَعْینُهُمْ وَ لَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ أَعْینُهُمْ بَاکیةٌ وَ قُلُوبُهُمْ ذَاکرَةٌ إِذَا کتِبَ النَّاسُ مِنَ الْغَافِلِینَ کتِبُوا مِنَ الذَّاکرِینَ فِی أَوَّلِ النِّعْمَةِ یحْمَدُونَ وَ فِی آخِرِهَا یشْکرُونَ دُعَاؤُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَرْفُوعٌ وَ کلَامُهُمْ مَسْمُوعٌ تَفْرَحُ بِهِمُ الْمَلَائِکةُ وَ یدُورُ دُعَاؤُهُمْ تَحْتَ الْحُجُبِ یحِبُّ الرَّبُّ أَنْ یسْمَعَ کلَامَهُمْ کمَا تُحِبُّ الْوَالِدَةُ الْوَلَدَ وَ لَا یشْغَلُونَ عَنْهُ طَرْفَةَ عَینٍ وَ لَا یرِیدُونَ کثْرَةَ الطَّعَامِ وَ لَا کثْرَةَ الْکلَامِ وَ لَا کثْرَةَ اللِّبَاسِ النَّاسُ عِنْدَهُمْ مَوْتَی وَ اللَّهُ عِنْدَهُمْ حَی کرِیمٌ یدَعُونَ الْمُدْبِرِینَ کرَماً وَ یزِیدُونَ الْمُقْبِلِینَ تَلَطُّفاً قَدْ صَارَتِ الدُّنْیا وَ الْآخِرَةُ عِنْدَهُمْ وَاحِدَةً یا أَحْمَدُ هَلْ تَعْرِفُ مَا لِلزَّاهِدِینَ عِنْدِی قَالَ لَا یا رَبِّ قَالَ یبْعَثُ الْخَلْقُ وَ ینَاقَشُونَ الْحِسَابَ وَ هُمْ مِنْ ذَلِک آمِنُونَ إِنَّ أَدْنَی مَا أُعْطِی الزَّاهِدِینَ فِی الْآخِرَةِ أَنْ أُعْطِیهُمْ مَفَاتِیحَ الْجِنَانِ کلِّهَا حَتَّی یفْتَحُوا‌ای بَابٍ شَاءُوا وَ لَا أَحْجُبَ عَنْهُمْ وَجْهِی وَ لَأُنْعِمَنَّهُمْ بِأَلْوَانِ التَّلَذُّذِ مِنْ کلَامِی وَ لَأُجْلِسَنَّهُمْ فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ وَ أُذَکرُهُمْ مَا صَنَعُوا وَ تَعِبُوا فِی‌دار الدُّنْیا وَ أَفْتَحُ لَهُمْ أَرْبَعَةَ أَبْوَابٍ بَابٍ یدْخُلُ عَلَیهِمُ الْهَدَایا بُکرَةً وَ عَشِیا مِنْ عِنْدِی وَ بَابٍ ینْظُرُونَ مِنْهُ إِلَی کیفَ شَاءُوا بِلَا صُعُوبَةٍ وَ بَابٍ یطَّلِعُونَ مِنْهُ إِلَی النَّارِ فَینْظُرُونَ إِلَی الظَّالِمِینَ کیفَ یعَذَّبُونَ وَ بَابٍ یدْخُلُ عَلَیهِمْ مِنْهُ الْوَصَائِفُ وَ الْحُورُ الْعِینُ قَالَ یا رَبِّ مَنْ هَؤُلَاءِ الزَّاهِدُونَ الَّذِینَ وَصَفْتَهُمْ قَالَ الزَّاهِدُ هُوَ الَّذِی لَیسَ لَهُ بَیتٌ یخْرَبُ فَیغْتَمَّ لِخَرَابِهِ وَ لَا لَهُ وَلَدٌ یمُوتُ فَیحْزَنَ لِمَوْتِهِ وَ لَا لَهُ شَیءٌ یذْهَبُ فَیحْزَنَ لِذَهَابِهِ وَ لَا یعْرِفُهُ إِنْسَانٌ لِیشْغَلَهُ عَنِ اللَّهِ طَرْفَةَ عَینٍ وَ لَا لَهُ فَضْلُ طَعَامٍ یسْأَلُ عَنْهُ وَ لَا لَهُ ثَوْبٌ لَینٌ یا أَحْمَدُ وُجُوهُ الزَّاهِدِینَ مُصْفَرَّةٌ مِنْ تَعَبِ اللَّیلِ وَ صَوْمِ النَّهَارِ وَ أَلْسِنَتُهُمْ کلَالٌ إِلَّا مِنْ ذِکرِ اللَّهِ تَعَالَی قُلُوبُهُمْ فِی صُدُورِهِمْ مَطْعُونَةٌ مِنْ کثْرَةِ صَمْتِهِمْ قَدْ أَعْطَوُا الْمَجْهُودَ فِی أَنْفُسِهِمْ لَا مِنْ خَوْفِ نَارٍ وَ لَا مِنْ شَوْقِ جَنَّةٍ وَ لَکنْ ینْظُرُونَ فِی مَلَکوتِ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ فَیعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ أَهْلٌ لِلْعِبَادَةِ یا أَحْمَدُ هَذِهِ دَرَجَةُ الْأَنْبِیاءِ وَ الصِّدِّیقِینَ مِنْ أُمَّتِک وَ أُمَّةِ غَیرِک وَ أَقْوَامٍ مِنَ الشُّهَدَاءِ قَالَ یا رَبِّ‌ای الزُّهَّادِ أَکثَرُ زُهَّادُ أُمَّتِی أَمْ زُهَّادُ بَنِی إِسْرَائِیلَ قَالَ إِنَّ زُهَّادَ بَنِی إِسْرَائِیلَ فِی زُهَّادِ أُمَّتِک کشَعْرَةٍ سَوْدَاءَ فِی بَقَرَةٍ بَیضَاءَ فَقَالَ یا رَبِّ وَ کیفَ ذَلِک وَ عَدَدُ بَنِی إِسْرَائِیلَ أَکثَرُ قَالَ لِأَنَّهُمْ شَکوا بَعْدَ الْیقِینِ وَ جَحَدُوا بَعْدَ الْإِقْرَارِ قَالَ النَّبِی صفَحَمِدْتُ اللَّهَ تَعَالَی وَ شَکرْتُهُ وَ دَعَوْتُ لَهُمْ بِالْحِفْظِ وَ الرَّحْمَةِ وَ سَائِرِ الْخَیرَاتِ- یا أَحْمَدُ عَلَیک بِالْوَرَعِ فَإِنَّ الْوَرَعَ رَأْسُ الدِّینِ وَ وَسَطُ الدِّینِ وَ آخِرُ الدِّینِ إِنَّ الْوَرَعَ بِهِ یتَقَرَّبُ إِلَی اللَّهِ تَعَالَی یا أَحْمَدُ إِنَّ الْوَرَعَ زَینُ الْمُؤْمِنِ وَ عِمَادُ الدِّینِ إِنَّ الْوَرَعَ مَثَلُهُ کمَثَلِ السَّفِینَةِ کمَا أَنَّ الْبَحْرَ لَا ینْجُو إِلَّا مَنْ کانَ فِیهَا کذَلِک لَا ینْجُو الزَّاهِدُونَ إِلَّا بِالْوَرَعِ یا أَحْمَدُ مَا عَرَفَنِی عَبْدٌ وَ خَشَعَ لِی إِلَّا خَشَعَ لَهُ کلُّ شَیءٍ یا أَحْمَدُ الْوَرَعُ یفْتَحُ عَلَی الْعَبْدِ أَبْوَابَ الْعِبَادَةِ فَیکرَمُ بِهِ الْعَبْدُ عِنْدَ الْخَلْقِ وَ یصِلُ بِهِ إِلَی اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ یا أَحْمَدُ عَلَیک بِالصَّمْتِ فَإِنَّ أَعْمَرَ مَجْلِسٍ قُلُوبُ الصَّالِحِینَ وَ الصَّامِتِینَ وَ إِنَّ أَخْرَبَ مَجْلِسٍ قُلُوبُ الْمُتَکلِّمِینَ بِمَا لَا یعْنِیهِمْ یا أَحْمَدُ إِنَّ الْعِبَادَةَ عَشَرَةُ أَجْزَاءٍ تِسْعَةٌ مِنْهَا طَلَبُ الْحَلَالِ فَإِنْ أُطِیبَ مَطْعَمُک وَ مَشْرَبُک فَأَنْتَ فِی حِفْظِی وَ کنَفِی قَالَ یا رَبِّ مَا أَوَّلُ الْعِبَادَةِ قَالَ أَوَّلُ الْعِبَادَةِ الصَّمْتُ وَ الصَّوْمُ قَالَ یا رَبِّ وَ مَا مِیرَاثُ الصَّوْمِ قَالَ الصَّوْمُ یورِثُ الحِکمَةَ وَ الحِکمَةُ تُورِثُ الْمَعْرِفَةَ وَ الْمَعْرِفَةُ تُورِثُ الْیقِینَ فَإِذَا اسْتَیقَنَ الْعَبْدُ لَا یبَالِی کیفَ أَصْبَحَ بِعُسْرٍ أَمْ بِیسْرٍ وَ إِذَا کانَ الْعَبْدُ فِی حَالَةِ الْمَوْتِ یقُومُ عَلَی رَأْسِهِ مَلَائِکةٌ بِیدِ کلِّ مَلَک کأْسٌ مِنْ مَاءِ الْکوْثَرِ وَ کأْسٌ مِنَ الْخَمْرِ یسْقُونَ رُوحَهُ حَتَّی تَذْهَبَ سَکرَتُهُ وَ مَرَارَتُهُ وَ یبَشِّرُونَهُ بِالْبِشَارَةِ الْعُظْمَی وَ یقُولُونَ لَهُ طِبْتَ وَ طَابَ مَثْوَاک إِنَّک تَقْدَمُ عَلَی الْعَزِیزِ الْکرِیمِ الْحَبِیبِ الْقَرِیبِ فَتَطِیرُ الرُّوحُ مِنْ أَیدِی الْمَلَائِکةِ فَتَصْعَدُ إِلَی اللَّهِ تَعَالَی فِی أَسْرَعَ مِنْ طَرْفَةِ عَینٍ وَ لَا یبْقَی حِجَابٌ وَ لَا سِتْرٌ بَینَهَا وَ بَینَ اللَّهِ تَعَالَی وَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَیهَا مُشْتَاقٌ وَ یجْلِسُ عَلَی عَینٍ عِنْدَ الْعَرْشِ ثُمَّ یقَالُ لَهَا کیفَ تَرَکتِ الدُّنْیا فَیقُولُ إِلَهِی وَ عِزَّتِک وَ جَلَالِک لَا عِلْمَ لِی بِالدُّنْیا أَنَا مُنْذُ خَلَقْتَنِی خَائِفٌ مِنْک فَیقُولُ اللَّهُ صَدَقْتَ عَبْدِی کنْتَ بِجَسَدِک فِی الدُّنْیا وَ رُوحُک مَعِی فَأَنْتَ بِعَینِی سِرُّک وَ عَلَانِیتُک سَلْ أُعْطِک وَ تَمَنَّ عَلَی فَأُکرِمَک هَذِهِ جَنَّتِی مُبَاحٌ فتبیح فَتَبَحْبَحْ فِیهَا وَ هَذَا جِوَارِی فَاسْکنْهُ فَیقُولُ الرُّوحُ إِلَهِی عَرَّفْتَنِی نَفْسَک فَاسْتَغْنَیتُ بِهَا عَنْ جَمِیعِ خَلْقِک وَ عِزَّتِک وَ جَلَالِک لَوْ کانَ رِضَاک فِی أَنْ أُقَطَّعَ إِرْباً إِرْباً وَ أُقْتَلَ سَبْعِینَ قَتْلَةً بِأَشَدِّ مَا یقْتَلُ بِهِ النَّاسُ لَکانَ رِضَاک أَحَبَّ إِلَهِی کیفَ أُعْجَبُ بِنَفْسِی وَ أَنَا ذَلِیلٌ إِنْ لَمْ تُکرِمْنِی وَ أَنَا مَغْلُوبٌ إِنْ لَمْ تَنْصُرْنِی وَ أَنَا ضَعِیفٌ إِنْ لَمْ تُقَوِّنِی وَ أَنَا مَیتٌ إِنْ لَمْ تُحْینِی بِذِکرِک وَ لَوْ لَا سَتْرُک لَافْتَضَحْتُ أَوَّلَ مَرَّةٍ عَصَیتُک إِلَهِی کیفَ لَا أَطْلُبُ رِضَاک وَ قَدْ أَکمَلْتَ عَقْلِی حَتَّی عَرَفْتُک وَ عَرَفْتُ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ وَ الْأَمْرَ مِنَ النَّهْی وَ الْعِلْمَ مِنَ الْجَهْلِ وَ النُّورَ مِنَ الظُّلْمَةِ فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ عِزَّتِی وَ جَلَالِی لَا أَحْجُبُ بَینِی وَ بَینَک فِی وَقْتٍ مِنَ الْأَوْقَاتِ کذَلِک أَفْعَلُ بِأَحِبَّائِی یا أَحْمَدُ هَلْ تَدْرِی‌ای عَیشٍ أَهْنَی وَ‌ای حَیاةٍ أَبْقَی قَالَ اللَّهُمَّ لَا قَالَ أَمَّا الْعَیشُ الْهَنِیءُ فَهُوَ الَّذِی لَا یفْتُرُ صَاحِبُهُ عَنْ ذِکرِی وَ لَا ینْسَی نِعْمَتِی وَ لَا یجْهَلُ حَقِّی یطْلُبُ رِضَای لَیلَهُ وَ نَهَارَهُ وَ أَمَّا الْحَیاةُ الْبَاقِیةُ فَهِی الَّتِی یعْمَلُ لِنَفْسِهِ حَتَّی تَهُونَ عَلَیهِ الدُّنْیا وَ تَصْغُرَ فِی عَینَیهِ وَ تَعْظُمَ الْآخِرَةُ عِنْدَهُ وَ یؤْثِرَ هَوَای عَلَی هَوَاهُ وَ یبْتَغِی مَرْضَاتِی وَ یعَظِّمَ حَقَّ عَظَمَتِی وَ یذْکرَ عِلْمِی بِهِ وَ یرَاقِبَنِی بِاللَّیلِ وَ النَّهَارِ عِنْدَ کلِّ سَیئَةٍ وَ مَعْصِیةٍ وَ ینْفِی قَلْبَهُ عَنْ کلِّ مَا أَکرَهُ وَ یبْغِضَ الشَّیطَانَ وَ وَسَاوِسَهُ لَا یجْعَلُ لِإِبْلِیسَ عَلَی قَلْبِهِ سُلْطَاناً وَ سَبِیلًا فَإِذَا فَعَلَ ذَلِک أَسْکنْتُ فِی قَلْبِهِ حُبّاً حَتَّی أَجْعَلَ قَلْبَهُ لِی وَ فَرَاغَهُ وَ اشْتِغَالَهُ وَ هَمَّهُ وَ حَدِیثَهُ مِنَ النِّعْمَةِ الَّتِی أَنْعَمْتُ بِهَا عَلَی أَهْلِ مَحَبَّتِی مِنْ خَلْقِی وَ أَفْتَحَ عَینَ قَلْبِهِ وَ سَمْعَهُ حَتَّی یسْمَعَ بِقَلْبِهِ وَ ینْظُرَ بِقَلْبِهِ إِلَی جَلَالِی وَ عَظَمَتِی وَ أُضَیقَ عَلَیهِ الدُّنْیا وَ أُبَغِّضَ إِلَیهِ مَا فِیهَا مِنَ اللَّذَّاتِ وَ أُحَذِّرَهُ مِنَ الدُّنْیا وَ مَا فِیهَا کمَا یحَذِّرُ الرَّاعِی غَنَمَهُ مِنْ مَرَاتِعِ الْهَلْکةِ فَإِذَا کانَ هَکذَا یفِرُّ مِنَ النَّاسِ فِرَاراً وَ ینْقَلُ مِنْ‌دار الْفَنَاءِ إِلَی‌دار الْبَقَاءِ وَ مِنْ‌دار الشَّیطَانِ إِلَی‌دار الرَّحْمَنِ یا أَحْمَدُ لَأُزَینَنَّهُ بِالْهَیبَةِ وَ الْعَظَمَةِ فَهَذَا هُوَ الْعَیشُ الْهَنِیءُ وَ الْحَیاةُ الْبَاقِیةُ وَ هَذَا مَقَامُ الرَّاضِینَ فَمَنْ عَمِلَ بِرِضَائِی أُلْزِمُهُ ثَلَاثَ خِصَالٍ أُعَرِّفُهُ شُکراً لَا یخَالِطُهُ الْجَهْلُ وَ ذِکراً لَا یخَالِطُهُ النِّسْیانُ وَ مَحَبَّةً لَا یؤْثِرُ عَلَی مَحَبَّتِی مَحَبَّةَ الْمَخْلُوقِینَ فَإِذَا أَحَبَّنِی أَحْبَبْتُهُ وَ أَفْتَحُ عَینَ قَلْبِهِ إِلَی جَلَالِی فَلَا أُخْفِی عَلَیهِ خَاصَّةَ خَلْقِی فَأُنَاجِیهِ فِی ظُلَمِ اللَّیلِ وَ نُورِ النَّهَارِ حَتَّی ینْقَطِعَ حَدِیثُهُ مِنَ الْمَخْلُوقِینَ وَ مُجَالَسَتُهُ مَعَهُمْ وَ أُسْمِعُهُ کلَامِی وَ کلَامَ مَلَائِکتِی وَ أُعَرِّفُهُ السِّرَّ الَّذِی سَتَرْتُهُ عَنْ خَلْقِی وَ أُلْبِسُهُ الْحَیاءَ حَتَّی یسْتَحِی مِنْهُ الْخَلْقُ کلُّهُمْ وَ یمْشِی عَلَی الْأَرْضِ مَغْفُوراً لَهُ وَ أَجْعَلَ قَلْبَهُ وَاعِیاً وَ بَصِیراً وَ لَا أُخْفِی عَلَیهِ شیء [شَیئَاً] مِنْ جَنَّةٍ وَ لَا نَارٍ وَ أُعَرِّفَهُ بِمَا یمُرُّ عَلَی النَّاسِ فِی یوْمِ الْقِیامَةِ مِنَ الْهَوْلِ وَ الشِدَّةِ وَ مَا أُحَاسِبُ بِهِ الْأَغْنِیاءَ وَ الْفُقَرَاءَ وَ الْجُهَّالَ وَ الْعُلَمَاءَ وَ أُنَوِّرُ لَهُ فِی قَبْرِهِ وَ أُنْزِلُ عَلَیهِ مُنْکراً یسْأَلُهُ وَ لَا یرَی غَمَّ الْمَوْتِ وَ ظُلْمَةَ الْقَبْرِ وَ اللَّحْدِ وَ هَوْلَ الْمُطَّلَعِ حَتَّی أَنْصِبَ لَهُ مِیزَانَهُ وَ أَنْشُرَ لَهُ دِیوَانَهُ ثُمَّ أَضَعُ کتَابَهُ فِی یمِینِهِ فَیقْرَأُ مَنْشُوراً ثُمَّ لَا أَجْعَلُ بَینِی وَ بَینَهُ تَرْجُمَاناً فَهَذِهِ صِفَاتُ الْمُحِبِّینَ یا أَحْمَدُ اجْعَلْ هَمَّک هَمّاً وَاحِداً فَاجْعَلْ لِسَانَک وَاحِداً وَ اجْعَلْ بَدَنَک حَیاً لَا تَغْفُلْ أَبَداً مَنْ غَفَلَ عَنِّی لَا أُبَالِی بِأَی وَادٍ هَلَک یا أَحْمَدُ اسْتَعْمِلْ عَقْلَک قَبْلَ أَنْ یذْهَبَ فَمَنِ اسْتَعْمَلَ عَقْلَهُ لَا یخْطِئُ وَ لَا یطْغَی یا أَحْمَدُ أَنْتَ لَا تَغْفُلُ أَبَداً مَنْ غَفَلَ عَنِّی لَا أُبَالِی بِأَی وَادٍ هَلَک یا أَحْمَدُ هَلْ تَدْرِی لِأَی شَیءٍ فَضَّلْتُک عَلَی سَائِرِ الْأَنْبِیاءِ قَالَ اللَّهُمَّ لَا قَالَ بِالْیقِینِ وَ حُسْنِ الْخُلُقِ وَ سَخَاوَةِ النَّفْسِ وَ رَحْمَةٍ بِالْخَلْقِ وَ کذَلِک أَوْتَادُ الْأَرْضِ لَمْ یکونُوا أَوْتَاداً إِلَّا بِهَذَا یا أَحْمَدُ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا جَاعَ بَطْنُهُ وَ حَفِظَ لِسَانَهُ عَلَّمْتُهُ الحِکمَةَ وَ إِنْ کانَ کافِراً تَکونُ حِکمَتُهُ حُجَّةً عَلَیهِ وَ وَبَالًا وَ إِنْ کانَ مُؤْمِناً تَکونُ حِکمَتُهُ لَهُ نُوراً وَ بُرْهَاناً وَ شِفَاءً وَ رَحْمَةً فَیعْلَمُ مَا لَمْ یکنْ یعْلَمُ وَ یبْصِرُ مَا لَمْ یکنْ یبْصِرُ فَأَوَّلُ مَا أُبَصِّرُهُ عُیوبُ نَفْسِهِ حَتَّی یشْغَلَ بِهَا عَنْ عُیوبِ غَیرِهِ وَ أُبَصِّرُهُ دَقَائِقَ الْعِلْمِ حَتَّی لَا یدْخُلَ عَلَیهِ الشَّیطَانُ یا أَحْمَدُ لَیسَ شَیءٌ مِنَ الْعِبَادَةِ أَحَبَّ إِلَی مِنَ الصَّمْتِ وَ الصَّوْمِ فَمَنْ صَامَ وَ لَمْ یحْفَظْ لِسَانَهُ کانَ کمَنْ قَامَ وَ لَمْ یقْرَأْ فِی صَلَاتِهِ فَأُعْطِیهِ أَجْرَ الْقِیامِ وَ لَمْ أُعْطِهِ أَجْرَ الْعَابِدِینَ یا أَحْمَدُ هَلْ تَدْرِی مَتَی یکونُ لِی الْعَبْدُ عَابِداً قَالَ لَا یا رَبِّ قَالَ إِذَا اجْتَمَعَ فِیهِ سَبْعُ خِصَالٍ وَرَعٌ یحْجُزُهُ عَنِ الْمَحَارِمِ وَ صَمْتٌ یکفُّهُ عَمَّا لَا یعْنِیهِ وَ خَوْفٌ یزْدَادُ کلَّ یوْمٍ مِنْ بُکائِهِ وَ حَیاءٌ یسْتَحِی مِنِّی فِی الْخَلَاءِ وَ أَکلُ مَا لَا بُدَّ مِنْهُ وَ یبْغِضُ الدُّنْیا لِبُغْضِی لَهَا وَ یحِبُّ الْأَخْیارَ لِحُبِّی إِیاهُمْ یا أَحْمَدُ لَیسَ کلُّ مَنْ قَالَ أُحِبُّ اللَّهَ أَحَبَّنِی حَتَّی یأْخُذَ قُوتاً وَ یلْبَسَ دُوناً وَ ینَامَ سُجُوداً وَ یطِیلَ قِیاماً وَ یلْزَمَ صَمْتاً وَ یتَوَکلَ عَلَی وَ یبْکی کثِیراً وَ یقِلَّ ضَحِکاً وَ یخَالِفَ هَوَاهُ وَ یتَّخِذَ الْمَسْجِدَ بَیتاً وَ الْعِلْمَ صَاحِباً وَ الزُّهْدَ جَلِیساً وَ الْعُلَمَاءَ أَحِبَّاءَ وَ الْفُقَرَاءَ رُفَقَاءَ وَ یطْلُبَ رِضَای وَ یفِرَّ مِنَ الْعَاصِینَ فِرَاراً وَ یشْغَلَ بِذِکرِی اشْتِغَالًا وَ یکثِرَ التَّسْبِیحَ دَائِماً وَ یکونَ بِالْعَهْدِ صَادِقاً وَ بِالْوَعْدِ وَافِیاً وَ یکونَ قَلْبُهُ طَاهِراً وَ فِی الصَّلَاةِ ذَاکیاً وَ فِی الْفَرَائِضِ مُجْتَهِداً وَ قَیماً عِنْدِی مِنَ الثَّوَابِ رَاغِباً وَ مِنْ عَذَابِی رَاهِباً وَ لِأَحِبَّائِی قَرِیباً وَ جَلِیساً یا أَحْمَدُ لَوْ صَلَّی الْعَبْدُ صَلَاةَ أَهْلِ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ وَ صَامَ صِیامَ أَهْلِ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ وَ طَوَی مِنَ الطَّعَامِ مِثْلَ الْمَلَائِکةِ وَ لَبِسَ لِبَاسَ الْعَارِی ثُمَّ أَرَی فِی قَلْبِهِ مِنْ حُبِّ الدُّنْیا ذَرَّةً أَوْ سُمْعَتِهَا أَوْ رِئَاسَتِهَا أَوْ حُلْیتِهَا أَوْ زِینَتِهَا لَا یجَاوِرُنِی فِی دَارِی وَ لَأَنْزِعَنَّ مِنْ قَلْبِهِ مَحَبَّتِی وَ عَلَیک سَلَامِی وَ مَحَبَّتِی.
۔

اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے

حضرت امیر علیہ‌السلام روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے شب معراج کو خداوند متعال سے سوال کیا: اے پروردگا کونسا عمل سب سے زیادہ فضیلت کا حامل ہے؟ خداوند متعال نے جواب دیا: میرے نزدیک میرے اوپر توکل کرنا اور میری تقسیم پر راضی ہونے سے زیادہ کوئی چیز با فضیلت نہیں ہے۔ اے محمّد! مجھ سے محبت کرنے والوں سے محبت کرنے کو اپنے اوپر لازم سمجھتا ہوں، اور میری راہ میں مہربانی کرنے والوں سے محبت کرنے کو اپنے اوپر واجب سمجھتا ہوں، نیز میرے ساتھ رابطہ برقرار کرنے والوں اور مجھ پر توکل کرنے والوں سے محبت کرنے کو بھی اپنے اوپر لازم سجھتا ہوں۔ یاد رکھو کہ میری دوستی کی کوئی انتہا نہیں ہے اور جب بھی ان پر اپنی محبت اور دوستی کو اضافہ کرتا ہوں کوئی نہ کوئی نشانی قرار دیتا ہوں۔ یہ لوگ میری طرح میری مخلوقات کی طرف دیکھتے ہیں اور اپنی احتیاجات کو لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرتے اور اپنے پیٹ کو حرام سے بچا کر رکھتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا میں میری ذکر اور محبت کی وجہ سے نعمتوں میں غرق رکھتے ہیں اور میں ان سے مکمل طور پر راضی ہوں۔ اے احمد! اگر سب سے زیادہ پر ہیز گار بننا چاہتے ہو تو دنیا میں زہد اختیار کرو اور آخرت کی طرف لو لگائے رہو۔ پوچھا گیا: خدایا کس طرح سب سے زیادہ زہد اختیار کرنے والا ہو جاؤں؟ فرمایا: دنیا میں مختصر خوردنوش اور مختصر لباس پر اکتفا کرو اور آخرت کیلئے ذخیرہ کرو اور ہمیشہ میری یاد سے غافل نہ رہو۔ پوچھا: کس طرح آپ کے ذکر پر مداومت کروں؟ فرمایا: لوگوں سے دوری، خلوت نشینی اختیار کرنے اور دنیا کی تلخ و شیرین چیزوں کی طرف توجہ نہ کرنے نیز اپنے پیٹ اور گھر کو دنیا کی نعمتوں سے خالی رکھ کر۔اے احمد! خبردار بچوں جیسا مت بنو، جو ہر نظر آنے والے رنگ اور تلخ و شیرین میں سے جس چیز کو بھی پا لیتا ہے مغرور ہو جاتا ہے۔ عرض کیا: خدایا مجھے ایک ایسے کام کی ترغیب دیں جس کی انجام دھی سے مجھے تیرا قرب میسر ہو۔؟ فرمایا: اپنی راتوں کو دن اور دنوں کو رات قرار دو۔ پوچھا: کیسے؟ فرمایا: رات کو اپنی نیندھ کو نماز میں اور دن کے وقت اپنی خوراک کو بھوک میں تبدیل کروں(یعنی روزہ رکھو)۔ اے احمد! میری عزت و جلالت کی قسم، اگر بندہای چہار خصلت را برایم ضمانت نماید، او را در بہشت داخل میکنم: زبانش را جز در موارد لازم باز نکند و دلش را از وسواس حفظ کند و بداند کہ من نسبت بہ تمام حالاتش علم دارم و او را میبینم و نور چشمش را گرسنگی بداند(روزہ بگیرد).‌ای احمد! اگر شیرینی گرسنگی (و روزہ) و خاموشی و خلوت و دوری از مردم و نتایجی کہ در پی دارند، میچشیدی (ہمیشہ بر آنہا ملازمت میکردی)؟ پرسید: خداوندا نتیجہ گرسنگی چیست؟ فرمود: کسب حکمت و دانش و حفظ قلب و تقرّب بہ من و حزن دائم و سبکی مخارج زندگی در میان مردم و گفتن سخن حقّ است و باک نداشتن از اینکہ زندگی با آسانی میگذرد یا با سختی.‌ای احمد! آیا میدانی بندہ در چہ وقت بہ من تقرّب مییابد؟ عرضہ داشت: نہ‌ای پروردگار من. فرمود: ہنگامی کہ گرسنہ (و روزہ) باشد و یا در حال سجدہ.‌ای احمد! در شگفتم از سہ کس: بندہای کہ در حال نماز است و میداند بہ سوی چہ کسی دست را بالا بردہ و مقابل چہ کسی ایستادہ و چرت میزند و در شگفتم از کسی کہ خوراک یک روز را دارد، با این وصف در فکر مخارج فردا است و برایش تلاش میکند، و در شگفتم از بندہام کہ نمیداند من از او راضیم یا خشمگین، با این حال میخندد.‌ای احمد! در بہشت قصری از لؤلؤ و دُرّ ساختہ شدہ کہ بندگان خاص را بہ آنجا برم و ہر روز ہفتاد بار بہ ایشان مینگرم و با آنان سخن میگویم و در ہر بار نگاہ، قصرشان را ہفتاد برابر وسیع مینمایم، و ہنگامی کہ اہل بہشت با خوراک و نوشیدنی لذّت برند، ایشان با یاد و سخن گفتن با من لذّت میبرند. پرسید: خدایا نشانہ اینان چیست؟ فرمود: آنان کسانی ہستند کہ زبان خود را از گفتار بیہودہ و شکمشان را از زیادی طعام حفظ مینمایند.‌ای احمد! محبّت و دوستی من، دوستی با فقرا و معاشرت و آمیزش با ایشان است، پرسید: فقرا چہ کسانی ہستند؟ فرمود: کسانی ہستند کہ بہ‌اندک از مال دنیا خرسندند، و بر گرسنگی صبر میکنند و در نعمت و آسایش سپاس‌گزارند، و از گرسنگی و تشنگی خود بہ کسی شکوہ نمیبرند و دروغ نمیگویند و بر من خشم نمیگیرند، و بہ آنچہ از دنیای ایشان فوت شدہ، غمگین و محزون نمیگردند و بہ آنچہ بہ ایشان رسیدہ، خوشحال نمیشوند.‌ای احمد! دوستی با من، دوستی با فقرا است. پس بہ ایشان نزدیک شو و آنان را بہ خود نزدیک کن و در مجالس‌شان حاضر شو تا من بہ تو نزدیک شوم و از توانگران و مجالس‌شان دوری کن. زیرا فقرا دوستان من ہستند.‌ای احمد! لباس‌ہای فاخر و نرم را بر خود مپوش و خوراک‌ہای رنگارنگ را مخور و خوابگاہ خود را نرم مکن. زیرا نفس جایگاہ ہر شرّ و دوست ہر بدی است. تو او را بہ اطاعت خدا وامیداری و نفس تو را بہ گناہ او فرا میخواند و در اطاعت خدا با تو مخالفت مینماید و در آنچہ خوش نداری، اطاعتت میکند و ہنگامی کہ سیرش کنی، سر بہ طغیان برمیدارد، و چون گرسنہ بماند، شکایت میکند و چون محتاج شود، خشم میگیرد و چون توانگر گردد، تکبّر مینماید و چون بہ مقامی برسد، مرا فراموش میکند، و چون ایمن گردد، از (من) غافل میگردد. او بہ شیطان نزدیک است و مَثَل آن، مَثَل شتر مرغ است؛ بسیار میخورد و بار نمیبرد و بسان خرزہرہ است کہ رنگی زیبا و طعمی تلخ دارد.‌ای احمد! دنیا و اہل آن را دوست مدار و آخرت و اہل آن را دوست خود گیر. پرسید خدایا اہل دنیا و آخرت چہ کسانی ہستند؟ فرمود: اہل دنیا کسی است کہ بسیار بخورد و بسیار بخندد و بسیار خشم گیرد و ہر اندازہ مال داشتہ باشد، راضی نگردد. بہ کسی کہ بدی کردہ، عذر نمیخواہد، و کسی کہ از او عذر بخواہد، نمیپذیرد. ہنگام طاعت و عبادت، کسل و ہنگام معصیت، شجاع است. آرزویش دراز و مرگش نزدیک است و خود را محاسبہ نمیکند، سودش بہ دیگران کم و گفتارش بسیار است. ترسش (از خدا) اندک و ہنگام خوردن غذا بسیار شاد است، و ہنگام رسیدن نعمت از خدا سپاسگزاری نمیکند و موقع بلا صبر ندارد. مردم را با دیدہ تحقیر مینگرد و خود را میستاید کہ چنین و چنان کردم؛ در حالی کہ کاری صورت نمیدہد و بہ چیزی کہ از او نیست و دیگران را دعوت میکنند و بر دیگران (اگر کاری کوچک کردہ باشند) منّت میگذارند و ہموارہ از بدی‌ہای مردم سخن میگویند.‌ای احمد! دنیا پرستان زشتی‌ہای بسیاری دارند، از جملہ نادان ہستند و احمق و بہ استاد خود احترام نمیگذارند و خود را عاقل و خردمند میدانند، و حال اینکہ نزد عارفان، گروہی احمق ہستند.‌ای احمد! اهل خیر و آخرت، صورت‌های نحیف و لاغری دارند و حیای ایشان بسیار و حماقتشان اندک و سودشان به دیگران بی‌شمار و نیرنگشان کم است و مردم از دستشان در آسایشاند و نفسشان در رنج، گفتارشان وزین است و خود را محاسبه میکنند و نفس را به زحمت میاندازند. چشمانشان میخوابد، اما دل‌هایشان بیدار است. چشمانشان گریان و دل‌هایشان به یاد من است. هنگامی که مردم از غافلان نوشته شوند، ایشان از ذاکران محسوب میگردند. در آغاز نعمت حمد خدا را و در آخرش شکر او را به جا میآورند. دعایشان به نزد خدا بالا میرود و کلامشان شنیده میشود و فرشتگان را شاد میکند و دعایشان به زیر عرش میرسد و خداوند دوست میدارد آن را بشنود، چنان که مادر و فرزند را، و لحظهای از خدا غافل نمیگردند. زیادی طعام و غذا را نمیخواهند، و لباس‌های بسیار برای خود تهیه نمیکنند. مردمان (دنیاپرست) نزد ایشان چون مرده تلقی میگردد و خدا را حی و بزرگوار میدانند. پشتکنندگان را به (خدا) دعوت میکنند و به واردین، مهربانی بسیار کنند و دنیا و آخرت در نظرشان یکسان است.‌ای احمد! آیا میدانی زاهدان نزد من چه مقامی دارند؟ عرض کرد: نه خدای من. فرمود: در روز رستاخیز که مردم به پای حساب میروند و به اعمالشان سختگیری میشود، ایشان از حساب در امانند و کوچکترین چیزی که در آخرت به زاهدان میبخشم، همه کلیدهای بهشت است تا هر دری را که میخواهند بگشایند و رویم را از آنان نمیپوشانم و آنان را به اقسام نعمت‌ها مثل تکلّم با آنان، خشنود میسازم، و ایشان را در جایگاه «صدق» مینشانم و اعمال نیک و رنجی که در دنیا دیدهاند را به یادشان میآورم و چهار در را به رویشان میگشایم: دری که صبح و شام هدیهها از سوی من به سویشان گسیل میگردد و دری که از آن به سوی من بدون سختی و هر گونه که خواستند، مینگرند و دری که از آن به اهل آتش نگاه میکنند و ستم‌کاران را میبینند که به چه عذاب‌هایی گرفتارند و دری که از آن، کنیزکان و حور العین نزدشان میروند. پرسید: خدایا این زاهدان چه کسانی هستند؟ فرمود: زاهد کسی است که خانهای ندارد تا خراب شود و برایش مغموم گردد و فرزندی ندارد که از مرگش محزون شود و مالی ندارد که از دستش برود و برایش اندوهگین شود و کسی او را نمیشناسد، تا لحظهای از ذکر خدا بازش بدارد، و پس‌مانده غذا ندارد که دربارهاش از او بازخواست شود و جامه نرمی هم ندارد.‌ای احمد! صورت‌های زاهدان از خستگی شب و روزه روز به زردی میگراید و زبانشان به ذکر خدا مشغول است. دل‌هایشان از کثرت سکوت، ملول‌ است و سخت در تلاش عبادت‌اند؛ نه از ترس آتش و یا شوق بهشت، بلکه به ملکوت آسمان‌ها و زمین مینگرند (و قدرت او را میبینند) و میفهمند که او شایسته عبادت است.‌ای احمد! این درجه پیغمبران و صدیقان است که به امّت تو و امّت‌های پیغمبران پیشین و به برخی از شهیدان دادهام. عرض کرد: خدایا زاهدان امّت من بیشترند، یا زاهدان بنی اسرائیل؟ فرمود: زاهدان بنی اسرائیل نسبت به زاهدان امّت تو، مانند یک موی سیاه در بدن گاوی سفید است. پرسید: چگونه چنین است و حال اینکه عدد آنان بیشتر بوده است؟ فرمود: عدد آنان بیشتر بود، اما پس از یقین، گرفتار شک شدند و پس از اقرار، به انکار گرویدند. پیغمبر صلّی اللَّه علیه و آله و سلم روایت کرد که در این موقع، خدا را سپاس گفتم و برای زاهدان امت خود، دعا کردم و رحمت و سایر خیرات را بر ایشان خواستار گردیدم تا همیشه ثابت قدم بمانند.‌ای احمد! ورع و پرهیزکاری را شیوه و شعار خود ساز، زیرا ورع اول و وسط و آخر دین است و به وسیله آن میتوان به خداوند تقرّب جست.‌ای احمد! ورع زینت مؤمن و ستون دین است و مانند کشتی در دریا است که هر کس بر آن سوار شود نجات یابد و زاهدان نجات نمییابند مگر به داشتن ورع.‌ای احمد! هیچ بندهای مرا نشناخت و برایم تواضع ننمود، مگر اینکه همه چیز را برایش فروتن میسازم.‌ای احمد! به وسیله ورع است که درهای عبادت به روی بنده باز میگردد و به وسیله آن بنده من نزد مردم بزرگ میگردد و به خدای خود تقرّب میجوید و مقامی ارجمند کسب مینماید.‌ای احمد! خاموشی را شیوه خود ساز، زیرا آبادترین مکان‌ها قلوب کسانی است که با خاموشی و خودداری از سخنان بیهوده، قلب خود را آباد می‌کنند و خرابترین مکان‌ها دل‌های کسانی است که با سخنان لغو و بیهوده دل‌های خود را ویران میسازند.‌ای احمد! عبادت ده جزء دارد، و نه جزء آن در طلب روزی و کسب حلال است و اگر تلاش نمودی که خوراکت پاک و حلال باشد، در پناه من خواهی بود. پرسید: خدایا آغاز عبادت چیست؟ فرمود: خاموشی و روزه گرفتن. پرسید: خداوندا نتیجه روزهداری چیست؟ فرمود: نتیجه روزه کسب حکمت و حکمت سبب معرفت و معرفت سبب یقین میگردد و هر گاه مرتبه یقین برای بندهای حاصل شود، به زندگی خود اهمیت نمیدهد، که آیا به سختی میگذرد یا به راحتی؟ چون هنگام مرگ بنده فرا میرسد، در حالت مرگ، فرشتگان بر بالین سرش حاضر و هر کدام کاسهای پر از آب کوثر و کاسهای از شراب (بهشتی) بر دو دست دارند و به او مینوشانند تا تلخی و سختی مرگ از او دفع شود و او را به بشارتی بزرگ مژده دهند و به او میگویند: خوش آمدی و چه جایگاه نیکویی برایت آماده گشته و تو بر خدای عزیز و کریم و دوست نزدیک خود واردشدهای. سپس روحش از دست فرشتگان به پرواز درآید و به سوی خدا بالا رود و در کم‌ترین وقتی حجاب بین او و خداوند برداشته شود و خداوند مشتاق دیدار او است و روح این بنده در کنار چشمهای نزد عرش مینشیند. سپس از او سؤال شود: چگونه دنیا را ترک گفتی؟ گوید: خدایا به عزّت و جلالت سوگند خبری از دنیا ندارم، زیرا از آغاز زندگی، از تو ترسان بودهام (و توجهی به امور دنیا نداشتهام) خداوند فرماید: آری راست گفتی، پیکرت در دنیا و روحت با من بود. اکنون هر چه خواهی طلب کن تا به تو عطا کنم و این است بهشت من که بر تو مباح شده، تا در همسایگی من ساکن شوی، پس روح مؤمن گوید: خدایا خود را به من شناساندی و من از شناخت تو از دیگران بینیاز گشتم و سوگند به عزّت و جلالت، اگر خشنودی تو در این بود که بدنم قطعه قطعه گردد و هر روز هفتاد بار به سختترین شیوهها کشته شوم، من رضایت تو را از صمیم قلب میطلبیدم. پروردگارا چگونه خودخواه و متکبّر میشدم و حال اینکه من ذلیل دست تو بودم و اگر تو دستم را نمیگرفتی و توفیق عنایت نمیکردی، من مغلوب (نفس) بودم و اگر یاریم نمیکردی، ضعیف و ناتوان بودم. پس تو مرا توانمند کردی و اگر تو با (عقل و دین) مرا زنده نمیکردی، من مرده (جهل) بودم و اگر عیب‌هایم را نمیپوشاندی، در همان معصیت اول، رسوا میگشتم. خداوند چگونه خشنودی تو را نمیخواستم و حال آنکه تو به من عقل دادی و کاملش نمودی تا تو را بشناسم و حق و باطل را از هم تمیز دهم و امر و نهی تو و علم و جهل و نور و ظلمت را از یک دیگر تشخیص دهم. سپس خدای متعال فرماید: به عزت و جلال خودم سوگند در هیچ جا و در هیچ زمان حجابی میان خود و تو قرار نخواهم داد؛ چنان که با همه دوستانم همین کار را خواهم نمود.‌ای احمد! آیا میدانی چه عیشی گواراتر و چه زندگیای باقیتر است؟ عرض کرد: خداوندا نمیدانم. فرمود: آن زندگیای گواراتر است که صاحبش از ذکر من غافل نگردد و نعمت‌هایم را به باد فراموشی نسپارد و نسبت به حقم جاهل نماند و شب و روز به دنبال کسب خشنودی من باشد. و اما زندگی و حیات باقیتر این است که صاحبش آنقدر برای خویش عمل کند، که دنیا در نظرش کوچک و آخرت بزرگ گردد و خواست مرا بر خواست خود مقدّم بدارد و رضایت مرا بطلبد و مرا با عظمت و بزرگ بداند و بداند که در همه حال بر او اشراف دارم و از یاد نبرد که همواره بر کردار و گفتارش آگاهم. پس اگر اراده گناه کرد، مراقب من باشد و دل خود را از آنچه ناخوش دارم، فارغ بدارد، شیطان و وسوسههایش را دشمن بدارد و نگذارد بر دلش راه یابد، پس اگر چنین بود، دلش را از محبّت خود مالامال میسازم تا در نتیجه قلب او را به طور کامل متوجّه خود نمایم و دلش را از دنیا فارغ و به فکر آخرت مشغولش دارم و او را چون دوستان دیگرم، از نعمت‌ها بهرهمند سازم، و چشم و گوش و قلبش را باز کنم، تا (حقیقت را) ببیند و جلالت و بزرگی مرا دریابد و طوری شود که لذّت‌های دنیا را خوش ندارد و از دنیا بترسد و چنان که چوپان گوسفندان خود را از چراگاه‌های خطرناک دور مینماید، او را از گناه‌ها دور سازم و چون بندهای به این مقام برسد، از مردم میگریزد، و گوشهگیری را اختیار مینماید و از دنیای فانی (فکرش) به آخرت باقی منتقل گردد و از وسوسههای شیطانی به خداوند پناه برد.‌ای احمد! چنین بندهای را با شکوه و وقار زینت دهم، پس این است عیش گوارا و زندگی دائمی و این است مقام کسانی که از من راضیاند. پس کسی که ملتزم به کسب رضایت من گشت، سه خصلت را به او میدهم: شکرگزاریای را به او میآموزم که خالی از جهل باشد و ذکری به او بدهم که با فراموشی همراه نگردد و حالتی به او دهم که محبت مرا بر محبت مخلوقین مقدم بدارد و چون مرا دوست بدارد او را دوست دارم و چشم دلش را به عظمت خویش متوجه سازم و اینجا است که چیزی را از او مخفی نمیدارم و بندگان خاص را به او نشان دهم و در تاریکی شب و روشنایی روز با او سخن گویم تا سخن گفتنش با مردم قطع شود و با ایشان مجالست ننماید و کلام خود و فرشتگان را به گوشش برسانم و رازی را که بر خلق نهفتهام به او بیاموزم، و لباسی از حیا بر او بپوشانم، تا همه مخلوقین از او شرم نمایند و آمرزیده بر روی زمین راه رود و گوشش را شنوا و بصیر گردانم، تا چیزی از بهشت و دوزخ بر او پنهان نماند، و او را به آنچه در قیامت بر مردم میگذرد و هول و وحشتی که گریبانشان را میگیرد و چگونگی بازخواست توانگران و فقرا و جاهلان و عالمان آگاه سازم، (و چون بمیرد) قبرش را روشن نمایم و نکیر و منکر را برای سؤال نزد او بفرستم، اما اندوه مرگ و تاریکی قبر و لحد و دیدنی‌های وحشتآور را بر او وارد نسازم تا در قیامت، به پای میزان اعمال آید و نامه عملش را به دست راستش دهم و بدون واسطه با او سخن گویم و اینها است صفات دوستان من.‌ای احمد! همّت را و زبانت را یکی گردان و پیکرت را زنده بدار و لحظهای از من غافل مباش. چون کسی که از من غافل گردد، باکی نخواهم داشت که در چه وادی هلاک میگردد.‌ای احمد! خردت را به کار بند، پیش از اینکه از بین رود، و هر کس عقل خود را به کار گیرد، هیچ گاه در امری گرفتار لغزش و طغیان نمیگردد.‌ای احمد! آیا میدانی چرا و به چه چیز تو را بر سایر پیغمبران برتری دادم؟ عرض کرد: نه خدایا. فرمود: به واسطه یقین و حسن خلق و سخاوت و مهربانیات با مردم؛ و اوتاد زمین این گونهاند و اوتاد نگشتند مگر با این صفات.‌ای احمد! هنگامی که شکم بنده گرسنه بود و زبانش را حفظ کرد، حکمت را به وی میآموزم؛ اگر چه کافر باشد. اما اگر کافر باشد، حکمتش در قیامت بر او حجّت و وبال خواهد بود و اگر مؤمن باشد، حکمتش برای او نور و برهان و شفاء و رحمت میگردد و چیزهایی را درمییابد، که پیش از این نمیدانست و چیزهایی را میبیند که قبلا نمیدید و نخستین چیزی که میبیند، عیب‌های خود او است؛ به طوری که به آن مشغول میگردد و عیوب دیگران را نمیبیند، و او را بر دقایق علم آگاه میسازم، به طوری که شیطان به سراغش نرود.‌ای احمد! عبادتی نزد من بهتر از سکوت و روزه نیست. پس کسی که روزه گیرد، اما زبانش را حفظ نکند، مانند کسی است که برای نماز بایستد، ولی چیزی نخواند. پس اجر ایستادن به او میدهم، ولی اجر عابدان را به او نمیدهم.‌ای احمد! آیا میدانی بنده چه وقت عابد به حساب میآید؟ عرض کرد: نه، فرمود: وقتی که هفت خصلت در او جمع شود، که عبارت است از: ورعی که او را از حرام‌ها باز دارد؛ خاموشیای که او را از سخنان بیهوده نگاه دارد؛ ترسی که هر روز بر گریهاش بیفزاید؛ حیا و شرمی که او را در نهان از من شرمنده سازد؛ به‌اندازه رفع گرسنگی غذا بخورد؛ چون من دنیا را دشمن میدارم، او نیز دنیا را دشمن بدارد؛ چون من خوبان را دوست میدارم، او نیز آنها را دوست بدارد.‌ای احمد! این گونه نیست که هر کس بگوید: خدا را دوست دارم، مرا دوست داشته باشد؛ مگر اینکه این اوصاف را در خود گرد آورد: از دنیا به‌اندازه قوت روزانه برگیرد و لباس ساده بپوشد و در حال سجده به خواب رود و نماز و عبادت را طول دهد و سکوت را شعار خود سازد، و بر من توکل کند و بسیار بگرید و اندک بخندد و با هوای نفس مخالفت کند و مسجد را خانه خود گیرد و دانش را صاحب گردد، و با زهد همنشین شود، و علی را دوست گیرد و با فقرا مأنوس گردد و رضایت مرا طلب کند و سخت از گناه‌کاران بگریزد و به یاد من مشغول باشد و همواره تسبیح را بر لب داشته باشد و در عهد و پیمان صادق باشد و به عهد وفا نماید و دلش را پاک نگاه دارد و در نماز این پاکی را بیشتر مراعات نماید و در انجام فرایض کوشا باشد و به پاداشی که نزد من است دل دهد و از عذابم ترسان باشد و با دوستانم نزدیک گردد و همنشین آنان باشد.‌ای احمد! اگر بندهای به‌اندازه اهل آسمان و زمین نماز بخواند و به‌اندازه آنان روزه بگیرد و چون فرشتگان از غذا دوری کند و بسان برهنگان، لباس پوشد و به‌اندازه خردلی دوستی دنیا را در دل داشته باشد و یا مشتاق شهرت و یا ریاست و یا زینت آن باشد، به بهشت نخواهد رفت و همسایه من در خانهام نخواهد بود و محبّت خود را از دل او دور خواهم کرد (و در پایان) درود و رحمت من بر تو باد.

حوالہ جات

  1. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۹۹تا۲۰۶.
  2. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۹۹تا۲۰۶.
  3. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷، ج۱۳، ص۸تا۳۴؛ قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۳تا۱۲.
  4. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۰۹.
  5. قرآن، اسراء، آیہ۱، نجم، آیات۸تا۱۸.
  6. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۹۹تا۲۰۶.
  7. مصباح یزدی، راہیان کوہ دوست، ۱۳۷۹ش.
  8. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۹۹.
  9. فیض کاشانی، الوافی، ۱۴۰۶ق، ج۲۶، ص۱۴۲؛ حر عاملی، الجواہر السنیہ، ۱۳۸۰ش، ص۳۸۲؛ علامہ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۴، ص۲۲.
  10. حر عاملی، الجواہر السنیہ، ۱۳۸۰ش، ص۳۹۰؛ دیلمی، ارشاد القلوب، ترجمہ علی سلگی، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۵۱۰تا۵۲۳.
  11. مصباح یزدی، راہیان کوی دوست، ۱۳۷۹ش، ص۱۰.

منابع

  • حر عاملی، محمد بن حسن، الجواهر السنیة فی الأحادیث القدسیة(کلیات حدیث قدسی)، ترجمه زین العابدین کاظمی خلخالی، تهران، انتشارات دهقان، چاپ سوم، ۱۳۸۰ش.
  • دیلمی، حسن بن محمد،ارشاد القلوب، قم، الشریف الرضی، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
  • دیلمی، حسن بن محمد،ارشاد القلوب، ترجمه علی سلگی، قم، ناصر، چاپ اول، ۱۳۷۶ش.
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیرالقرآن، قم، انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تهران، انتشارات ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش.
  • فیض کاشانی، محمدحسن، الوافی، اصفهان، کتابخانه امام أمیر المؤمنین علی، چاپ اول، ۱۴۰۶ق.
  • قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر القمی، تحقیق سید طیب موسوی جزایری، قم، دارالکتاب، چاپ چهارم، ۱۳۶۷ش.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
  • مصباح یزدی، محمدتقی، راهیان کوی دوست؛ شرح حدیث معراج، قم، انتشارات مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی، ۱۳۷۹ش.
تبصرے
Loading...