حج نا تمام امام حسین

حج نا تمام امام حسین

سب غلط چکر لگا رہے ہیں، سوائے ایک کے: وہی سرخ تیر کا نشان ـ حسین ـ اور صرف آپ ہیں جو شہادت کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے طواف کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ (ڈاکٹر شریعتی)

حج ناتمام امام حسین، امام حسینؑ کے آخری حج کو کہا جاتا ہے جسے آپ نے واقعہ کربلا سے پہلے ناقص چھوڑ کر کوفہ کی طرف تشریف لے گے تھے۔ بعض تاریخی مآخذ میں آیا ہے کہ امام حسینؑ نے یزید کے کارندوں کے ہاتھوں گرفتار ہو کر کعبہ کی حرمت پایمال ہونے سے بچنے کے لئے حج کو مکمل کئے بغیر عمرہ تمتع کو عمرہ مفردہ میں تبدیل کر کے روز ترویہ (8 ذی‌الحجہ) کو مکہ سے کوفہ کی طرف حرکت کی؛ لیکن بعض تاریخی شواہد اور احادیث کے مطابق امام حسینؑ نے ابتدا ہی سے عمرہ مفردہ کی نیت کی تھی اور حج کی نیت ہی نہیں کی تھی جسے آپ نے ناقص چھوڑا ہو؛ کیونکہ آپ نے قربانی انجام نہیں دیا اور میقات سے احرام نہیں باندھا اور شروع سے ہی کوفہ جانے کے لئے تیار تھے۔

تاریخی شواہد اور احادیث کی چھان بین

امام حسینؑ کا مدینہ سے مکہ کی طرف خروج کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں، بعض اسے حج ناتمام کا نام دیتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ امام حسینؑ حج کو عمرہ مفردہ میں تبدیل کر کے مکہ سے خارج ہو گئے، لیکن دوسرے نظریے کے مطابق امام حسینؑ نے شروع سے عمرہ مفردہ کی نیت کی تھی اور حج بجالانے کا ارادہ ہی نہیں تھا۔

پہلا نظریہ: عمرہ تمتع

شیعہ علماء کے ایک نظریے کے مطابق امام حسینؑ نے شروع میں حج تمتع کا ارادہ کیا تھا؛ لیکن اسے ناقص چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ شیخ مفید(متوفی ۴۱۳ھ) اپنی کتاب الارشاد میں لکھتے ہیں:

” جب امام حسینؑ نے عراق جانے کا ارادہ کیا تو پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا صفا اور مروہ کے درمیان سعی انجام دئے پھر اِحرام سے خارج ہو گئے اور اسے عُمرہ کی نیت سے اختتام کو پہنچایا؛ کیونکہ مناسک حج کے دوران گرفتار ہونے کی صورت میں حج کو مکمل نہیں کر سکتا تھا؛ کیونکہ آپ کو حج کے دوران گرفتار کر کے یزید کے پاس لے جانا چاہ رہے تھے؛ اس بنا پر امام حسینؑ اپنے اہل و عیال اور شیعوں کے ساتھ مکہ سے خارج ہو گئے”۔[1]

فتال نیشابوری(متوفی ۵۰۸ھ) اپنی کتاب روضۃ الواعظین،[2] شیخ طبرسی اپنی کتاب اعلام الوری،[3] سیدمرتضی عسکری[4] اور بعض دوسرے مُحَدّثین اور مورخین[5] بھی اس نظریے کے موافقین میں سے ہیں۔

دوسرا نظریہ: عمرہ مفردہ

بعض علماء نظریہ اول کے برخلاف اس بات کے معتقد ہیں کہ امام حسینؑ سرے سے عمرہ تمتع کے لئے مُحرِم نہیں ہوئے تھے اس بنا پر عمرہ تمتع کو عمرہ مفردہ میں تبدیل نہیں کیا، بلکہ امامؑ شروع سے عمرہ مفردہ کی نیت سے مکہ میں داخل ہوئے طوافِ وداع یا ماہ ذی الحجہ کا عمرہ مفردہ ادا کرنے کے بعد مکہ سے خارج ہوگئے۔ اس نظریے کے لئے تاریخی اور حدیثی شواہد پیش کئے گئے ہیں:

دوسرے نظریے کے تاریخی شواہد

حوالہ جات

  1. مفید، الارشاد، ۱۳۹۹ق، ج۲، ص۶۶۔
  2. فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، منشورات رضی، ص۱۷۷۔
  3. طبرسی، إعلام الوری، مؤسسہ آل البیت، ج۱، ص۴۴۵۔
  4. ملاحظہ کریں: عسکری، معالم المدرستین، ۱۴۰۱ق، ج۳َ ص۵۷۔
  5. رجوع کریں: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۹۹۔ بحرانی، العوالم، مطبعۃ امیر، ص۲۱۳۔ قندوزی، ینابیع المودہ،‌ دار الاسوۃ، ج۳، ص۵۹۔

مآخذ

  • ابومخنف، لوط بن یحیی، مقتل الحسین(ع)، قم، مطبعۃ العلمیۃ، ۱۳۹۸ق.
  • بحرانی، عبداللہ، کتاب العوالم الامام الحسین(ع)، قم، مدرسہ امام مہدی مطبعۃ امیر، [بی‌تا].
  • تبریزی، جواد، التہذیب فی مناسک العمرۃ و الحج، قم،‌ دار التفسیر، ۱۴۲۳ق،
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، ۱۴۱۶ق،
  • حکیم، سیدمحسن، مستمسک العروۃ، قم، نشر مکتبۃ السید مرعشی، ۱۴۰۴ق.
  • خلخالی، سید محمدرضا، موسوعۃ الامام الخوئی، مؤسسۃ الخوئی الإسلامیۃ، ۱۴۰۵ق.
  • خمینی، روح‌اللہ، تحریر الوسیلہ، قم، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلی، ۱۳۶۹ق.
  • خمینی، روح‌اللہ، مناسک حج با حواشی مراجع معظم تقلید، حوزہ نمایندگی ولی فقیہ در امور حج، ۱۳۸۲ش.
  • خویی، سیدابوالقاسم، المعتمد، کتاب الحج، اصدار الثالث للگلبایگانی.
  • دینوری، احمد بن داوود، الاخبار الطوال، قم، منشورات شریف رضی، ۱۳۶۸ق.
  • سبزواری، محمد باقر، ذخیرۃ المعاد فی شرح الارشاد، قم، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، بی‌تا.
  • شریف قرشی، باقر، حیاۃ الامام الحسین(ع)، نجف اشرف، مطبعۃ الآداب، ۱۳۳۴ق.
  • صدوق، أبی جعفر محمد بن علی، الامالی، تہران، الاسلامیہ، ۱۴۰۴ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، قم، مؤسسہ آل البیت، [بی‌تا].
  • طوسی، شیخ محمد بن حسن، الاستبصار فیما اختلف من الاخبار، بیروت، دارالصعب دارالتعارف، ۱۴۰۱ق.
  • عسکری، سیدمرتضی، معالم المدرستین، بیروت، مؤسسہ نعمان، ۱۴۰۱ق.
  • فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین، قم، منشورات رضی، [بی‌تا].
  • قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودۃ لذوی القربی،‌ دار الاسوۃ للطباعۃ و النشر.
  • کلینی، ابی جعفر محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ.
  • گلپایگانی، سیدمحمدرضا، تقریرات البیع، اصدار الثالث للگلبایگانی.
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسہ وفاء، ۱۴۰۳ق.
  • مفید، محمد بن نعمان، الارشاد، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۹ق.
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۵ق.
  • یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مدرسہ امام علی بن ابیطالب(ع)، ۱۴۲۸ق.

http://ur.wikishia.net/view/%D8%AD%D8%AC_%D9%86%D8%A7_%D8%AA%D9%85%D8%A7%D9%85_%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85_%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86

تبصرے
Loading...