توحید صدوق

کتاب التوحید ، روائی کتاب ہے کہ جو شیعہ عقاید کے بارے میں عربی زبان میں لکھی گئی، اس کے مولف چوتھی صدی ہجری قمری کے مشہور شیعہ محدّث شیخ صدوق ہیں۔ کتاب کا اصلی موضوع، شیعہ نقطہ نظر سے توحید کی شناخت ہے جس میں متعلقہ بحث و موضوعات جیسے صفات ثبوتیہ اور سلبیہ، ذاتی و فعلی اور ان کی ذات الھی سے نسبت اور حدوث و قدم اور جبر و تفویض بیان ہوئے ہیں۔
مولف کی نظر میں کتاب کی تالیف کا مقصد، شیعہ عقاید کے بارے میں مخالفین کی بے بنیاد تہمتوں کا جواب دینا تھا۔ کتاب التوحید، احادیث کی معتبر کتب میں شمار ہوتی ہے اورعلمائے شیعہ کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور [ان کے بعد علماء کے ] آثار میں اسی کتاب کی روایات سے استناد کیا جاتا ہے۔

کتاب کے مولف

تفصیلی مضمون: شیخ صدوق


اس کتاب کے مولف محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی شیخ صدوق کے نام سے مشھور ہیں وہ چوتھی صدی ھجری کے بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں۔[1] ان کی تاریخ ولادت کے بارے میں دقیق طور پر معلومات دستیاب نھیں ہیں لیکن اندازہ کے مطابق (سنہ ۳۰۵ ھ) کے بعد ہوِئی ہے ۔ شیخ صدوق کی قبر، شھر رے میں ہے۔ ان کو شھر قم کے مکتب حدیثی کے بزرگ محدّثاورفقیه مکتب حدیثی قم کے محدثین اور فقہاء میں شمار کیا گیا یے اور تقریبا تین سوعلمی آثار اور تالیفات ان کی طرف منسوب ہیں جن میں کے بہت سے آثار آج موجود نہیں ہیں اس کتاب کے علاوہ، کتاب من لا یحضرہ الفقیہ جوکتب اربعہ شیعہمیں شمار ہوتی ہے،اورمعانی الاخبار، عیون الاخبار، الخصال، علل الشرائع اور صفات الشیعة ان کے آ ثار میں سے ہیں۔
ان کے بعض مشھور شاگردوں میں حسب ذیل افراد ہیں: سید مرتضی، شیخ مفید و تلعکبری.

تالیف کا سبب

ابن بابویہ [2] نےاپنی اس تالیف کاسبب،تشبیہ اور جبر سے متعلق،مخالفین کی طرف سے اہل تشیع پر کئے گئے بے بنیاد اعتراضات کا جواب دیناذکرکیا ہے۔
غالیوں، نے جبر و تشبیہ سے متعلق حدیثیں جعل کرکے ان کو شیعوں کی طرف منسوب کردیا. [3] یہ تہمت اور نسبت، زیادہ تر اس زمانے کے معتزلی فرقہ کے لوگ لگایا کرتے تھے جیسا کہ خیاط نامی مولف نے اپنی کتاب «انتصار»،[4] میں بارہا اس بات کو ذ کر کیا ہے.[5] کبھی کبھی بعض علم کلام کی شیعہ ماہر شخصیتیں قم کے مکتب حدیث کے گروپ کی رد وتنقید میں یہ اعتراضات بیان کرتی تھیں۔[6] چوتھی صدی ہجری کے اوایل میں، ابوالحسن اشعری نے تجسیم (خدا کے جسم ہونے کا عقیدہ) اور تشبیہ (مخلوقات سے خدا کی تشبیہ دینا) کی نسبت شیعوں کی طرف دی ہے [7] اور یہاں تک کہ اہل سنت کے روایت پسند اور حدیث پسند گروہ بھی با وجود اس کے کہ خود بھی اسی تہمت اور نسبت کے دائرہ میں آتے تھے اہل تشیع کو صفات خدا کے اثبات میں زیادتی کرنے والوں اور تشبیہ دینے والوں کے عنوان سے پہچانتے تھے۔[8]

حوالہ جات

  1. صدوق، ۱۳۶۱ش ، ص ۸؛ صدوق، ۱۳۶۲ش، ج ۲، ص ۵۹۴؛ صدوق، ۱۴۱۴، ص ۲۲؛ نجاشی ، ص ۳۸۹
  2. ۱۳۵۷ ش، ص ۱۷ـ ۱۸
  3. صدوق، ۱۳۵۷ش، ص ۳۶۴، در حدیثی از امام رضا (ع)
  4. خیاط، الانتصار،‌ ص ۱۳، ۱۰۴ـ ۱۰۵
  5. اس کے علاوہ مزید معلومات کے لیے رجوع کریںابن ندیم، ص ۲۰۸
  6. نمونہ کے طور پر رجوع کریں: علم الهدی، ج ۳، ص ۳۱۰
  7. اس سلسلے میں رجوع کریں صفحہ نمبر ۳۱ سے ۳۵ تک
  8. ابن خزیمه، ج ۱، ص ۲۱

تبصرے
Loading...